1951ء کے بائیس دستوری نکات
1951ء میں تمام اسلامی مکاتب فکر کے جید علمائے کرام نے ایک تاریخی پیش رفت کرتے ہوئے 22 دستوری نکات مرتب کیے۔ یہ نکات اسلامی آئین کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہیں، جو پاکستان کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے رہنما اصول فراہم کرتے ہیں۔ ان نکات پر تمام مسالک کے علماء کا اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد ممکن ہے، اور جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلامی آئین بنایا جا سکتا ہے۔
پس منظر
- مقصد: ان نکات کا مقصد ایک ایسا آئینی ڈھانچہ فراہم کرنا تھا جو کتاب و سنت کی روشنی میں ہو اور مسلمانوں کے درمیان کسی اختلاف کا باعث نہ بنے۔
- غلط فہمی کا ازالہ: ان نکات نے یہ ثابت کر دیا کہ جدید دور کے مسائل کو اسلامی اصولوں کے مطابق حل کرنا ممکن ہے۔
بائیس دستوری نکات کا خلاصہ
- اللہ کی حاکمیت: اصل حاکم صرف اللہ تعالیٰ ہے، اور مملکت میں تمام قوانین اللہ کی حاکمیت کے تحت ہوں گے۔
- کتاب و سنت کی بالادستی: کوئی قانون کتاب و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ موجودہ قوانین جو خلافِ شریعت ہوں، انہیں مقررہ وقت میں اسلامی اصولوں کے مطابق بنایا جائے گا۔
- مملکت کی بنیاد: ملک کسی نسلی، لسانی یا جغرافیائی اصول پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔
- امر بالمعروف و نہی عن المنکر: حکومت اسلامی معروفات کو نافذ کرے گی، منکرات کا خاتمہ کرے گی، اور شعائرِ اسلام کو فروغ دے گی۔
- اتحادِ امت: عالم اسلام کے مسلمانوں کے اتحاد کو مضبوط بنایا جائے گا اور ریاست کے اندر نسلی یا لسانی امتیازات ختم کیے جائیں گے۔
- بنیادی انسانی ضروریات: وہ افراد جو اپنی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہوں، ریاست ان کے لیے غذا، لباس، مکان، علاج اور تعلیم کا انتظام کرے گی۔
- شہری حقوق: تمام شہریوں کو شریعت کے دیے گئے حقوق حاصل ہوں گے، جیسے جان و مال کا تحفظ، مذہبی آزادی، آزادیٔ رائے، اور نقل و حرکت کی آزادی۔
- شہری حقوق کا تحفظ: کسی شہری کے حقوق اسلامی قانون کے بغیر سلب نہیں کیے جا سکتے۔ سزا کے لیے عدالتی کارروائی اور صفائی کا موقع دینا ضروری ہوگا۔
- مذہبی آزادی: تمام مسلمہ اسلامی فرقوں کو اپنے عقائد اور تعلیمات کی آزادی حاصل ہوگی۔
- غیر مسلم شہریوں کے حقوق: غیر مسلم شہریوں کو بھی مذہبی، تعلیمی اور تہذیبی آزادی حاصل ہوگی، اور ان کے شخصی معاملات ان کے اپنے قوانین کے مطابق طے کیے جائیں گے۔
- معاہدات کی پاسداری: غیر مسلم شہریوں کے ساتھ کیے گئے معاہدات شرعی حدود میں پابند ہوں گے۔ تمام شہری حقوق میں مسلمان اور غیر مسلم برابر ہوں گے۔
- سربراہِ ریاست کے لیے شرائط: سربراہِ مملکت مسلمان مرد ہوگا، جس کی دیانت اور قابلیت پر عوام کا اعتماد ہو۔
- نظم و نسق کی ذمہ داری: سربراہِ مملکت ذمہ دار ہوگا لیکن اپنے اختیارات دوسروں کو تفویض کر سکتا ہے۔
- شورائی حکومت: حکومت شورائی ہوگی، اور سربراہِ مملکت مشورے سے فیصلے کرے گا۔
- دستور کی معطلی کا اختیار: سربراہِ مملکت کو دستور کو معطل کرنے کا اختیار نہیں ہوگا۔
- معزولی کا اختیار: سربراہِ مملکت کو منتخب کرنے والی جماعت اسے معزول کرنے کی بھی مجاز ہوگی۔
- قانون کی برابری: سربراہِ مملکت بھی عام شہریوں کی طرح قانون کے تابع ہوگا۔
- مساوی قانون: تمام شہریوں اور حکومتی عہدیداروں پر یکساں قانون لاگو ہوگا۔
- عدلیہ کی آزادی: عدلیہ آزاد ہوگی تاکہ وہ انتظامیہ کے دباؤ سے آزاد رہ کر فیصلے کر سکے۔
- نظریاتی تحفظ: ایسے نظریات کی اشاعت ممنوع ہوگی جو اسلامی ریاست کے بنیادی اصولوں کو نقصان پہنچائیں۔
- وحدتِ ریاست: مملکت کے تمام علاقے انتظامی وحدت کے طور پر شامل ہوں گے اور مرکز کے تابع ہوں گے۔ کسی کو علیحدگی کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
- تعبیرِ دستور: دستور کی ہر تشریح کتاب و سنت کے مطابق ہوگی۔
ان نکات کی اہمیت
- یہ نکات اسلامی فلاحی ریاست کا بنیادی خاکہ پیش کرتے ہیں۔
- ہر مسلک کے علماء کی شمولیت نے ان نکات کو قومی اتفاقِ رائے کا مظہر بنایا۔
- یہ نکات جدید آئینی تقاضوں کو بھی پورا کرتے ہیں۔
اس فہرست میں شامل جید علماء
اس فہرست میں 31 ممتاز علماء شامل تھے، جن میں علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی، مفتی محمد شفیع، اور پیر صاحب مانکی شریف جیسی بڑی شخصیات شامل تھیں۔