صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ
قرآن و حدیث میں صحابہ کرام کا مقام
قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اعلیٰ مقام و مرتبہ واضح کیا گیا ہے۔ اللہ نے ان سے اپنی رضا کا وعدہ کیا اور ان کے بارے میں فرمایا:
"رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ”۔ اس بلند مرتبے کے باوجود، اگر کوئی شخص ان کے بارے میں ایسی باتیں منسوب کرے جو ان کی شخصیت اور کردار کے شایان شان نہ ہوں، تو یہ ناقابل قبول ہے۔ یہ چیز ہمارے عقیدے اور عقیدت کو مجروح کرتی ہے، اور ہمیں یہ اعلان کرنا پڑتا ہے کہ یہ سراسر جھوٹ اور بہتان ہے۔
تاریخ کے نام پر تعصب اور الزامات
جب تعصب پر مبنی الزامات اور باتیں تاریخ کے نام پر ان پاکیزہ ہستیوں سے منسوب کی جاتی ہیں، تو ان روایات کا گہرا جائزہ لینا ضروری ہے۔ صحابہ کرام کا معاملہ نہ صرف عقیدت کا ہے بلکہ ہمارے عقیدے سے بھی جڑا ہوا ہے۔ قرآن و حدیث میں ان کی عظمت کا ذکر ہے، لہٰذا تاریخی کتب کو پڑھتے وقت انہی اصولوں کو مدنظر رکھا جائے جو احادیث کے مطالعے میں اپنائے جاتے ہیں۔
تاریخی روایات کی جانچ کا معیار
- سند کی تحقیق: کسی بھی روایت کو قبول کرنے سے پہلے اس کی سند کو پرکھا جائے کہ وہ معتبر ہے یا نہیں۔
- راویوں کی جانچ: سند میں موجود راوی قابل اعتماد ہیں یا نہیں، اور ان کا کردار کیسا تھا۔
- واقعات کی تصدیق: بیان کردہ واقعات کو قرآن و حدیث کی تعلیمات اور دیگر مستند ذرائع کی روشنی میں جانچنا۔
تاریخی روایات کے مسائل
تاریخی کتب میں کئی ایسی روایات ملتی ہیں جن کی سند ذکر نہیں کی گئی، یا جن میں راوی مجہول ہیں۔ مثال کے طور پر، ابو مخنف، واقدی، اور ہشام کلبی جیسے راوی مشہور دروغ گو ہیں، اور ان پر علماء جرح و تعدیل نے اتفاق کیا ہے۔ امام طبری نے اپنی کتاب "تاریخ الامم والملوک” میں صحابہ کے دور کے واقعات سند کے ساتھ نقل کیے ہیں، لیکن انہوں نے بھی اکثر انہی کمزور راویوں سے روایات لی ہیں۔ اس لیے طبری کی روایات کو اصول روایت کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔
تاریخی روایات کو پرکھنے کے اصول
- مصنف کی ذاتی رائے کو بنیاد نہ بنایا جائے۔
- روایات کو اصول حدیث کے مطابق پرکھا جائے۔
- ہر روایت کے متن اور سند کو الگ الگ جانچا جائے۔
صحابہ کرام کے بارے میں عقیدہ
اہل سنت کے نزدیک انبیاء کے بعد صحابہ کرام افضل البشر ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ سب سے بہترین زمانہ آپ ﷺ اور صحابہ کا زمانہ ہے۔ اگرچہ صحابہ کرام انفرادی طور پر معصوم نہیں ہیں، لیکن ان کے اجماع کو معصوم تسلیم کیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"میری امت کبھی غلط بات پر اجماع نہیں کرے گی”
(ترمذی، حدیث: 2167)۔
تاریخی روایات اور صحابہ کرام
- اگر کسی روایت میں کسی صحابی کے کردار پر کوئی حرف آئے، اور وہ روایت سند کے لحاظ سے کمزور ہو یا مجہول راویوں پر مبنی ہو، تو وہ روایت قابل قبول نہیں ہوگی۔
- اور اگر روایت صحیح ہو تو بھی یہ ممکن ہے کہ وہ کسی انسانی لغزش کا نتیجہ ہو، جسے اللہ معاف کر دے۔
- قرآن میں اللہ نے صحابہ کے لیے جنت اور اپنی رضا کا وعدہ کیا ہے:
"وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ”
"اور ہر ایک سے اللہ نے اچھے انجام کا وعدہ کیا ہے۔”
(سورۃ الحدید: 10)۔
تعصب اور تاریخی روایات کا غلط استعمال
آج کے دور میں کچھ لوگ تعصب کے تحت صحابہ کرام پر تنقید کرتے ہیں اور کمزور تاریخی روایات کو بنیاد بنا کر ان پر فیصلے صادر کرتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف علمی دیانت کے خلاف ہے بلکہ ہماری آخرت کے لیے بھی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ ایسے لوگ، جو صحیح احادیث کو خلط ملط ہونے کے خدشے کی وجہ سے مسترد کرتے ہیں، وہی لوگ تعصب کی بنیاد پر کمزور تاریخی روایات کو معتبر مان لیتے ہیں۔
نتیجہ
اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام انبیاء کے بعد افضل ترین انسان ہیں، لیکن معصوم نہیں۔ تاریخی روایات کو جانچتے وقت اصول حدیث کی روشنی میں ان کی سند اور متن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ صحابہ کے بارے میں کوئی فیصلہ دینے کی بجائے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دینا ہی درست رویہ ہے، کیونکہ اللہ نے ان کے لیے اپنی مغفرت اور رضا کا وعدہ کیا ہے۔