پس منظر
طارق بن زیاد کے کشتیاں جلانے کا مشہور واقعہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور قصہ ہے، جس میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی افواج کو واپسی کا راستہ بند کرنے اور فتح یا شہادت کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے کشتیاں جلا دیں۔ تاہم، بعض محققین اس واقعے کو من گھڑت قرار دیتے ہیں اور اس کے تاریخی شواہد پر سوال اٹھاتے ہیں۔
اعتراضات اور رد
مفتی تقی عثمانی کا مؤقف
مفتی تقی عثمانی نے اپنے سفرنامہ "اندلس میں چند روز” میں ذکر کیا کہ انہیں قدیم تاریخی مصادر میں کشتیاں جلانے کا کوئی ذکر نہیں ملا، خاص طور پر المقری کی نفح الطیب میں۔ تاہم، بعد میں انہیں بعض دیگر تاریخی شواہد سے آگاہ کیا گیا، جس کے بعد انہوں نے اپنی رائے میں تصحیح پیش کی۔
المقری کی روایت
المقری (المتوفی 1041ھ) نے اپنی کتاب نفح الطیب میں ذکر کیا کہ طارق کے لشکر نے اپنی کشتیاں جلا دی تھیں تاکہ واپسی کا کوئی راستہ نہ رہے۔
"نفح الطیب للمقری، جلد 1، صفحہ 258”
وحیدالدین خان کا اعتراض
وحیدالدین خان کے مطابق یہ واقعہ چھٹی صدی ہجری کے بعد کے مورخین نے بیان کیا، جبکہ ابن خلدون جیسے قدیم مورخین نے اسے ذکر نہیں کیا۔
تاریخی شواہد
الادریسی (متوفی 560ھ)
الادریسی، جو ابن خلدون سے بھی پہلے کے مورخ ہیں، نے اس واقعے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ طارق بن زیاد نے اپنی کشتیاں جلا کر اپنے ساتھیوں کو واپسی کا کوئی راستہ نہ دیا اور انہیں فتح یا شہادت کے جذبے سے سرشار کیا۔
"نزہۃ المشتاق فی اختراق الاٰفاق، طبع عالم الکتاب بیروت، جلد 2، صفحہ 540”
ابن الکردبوس (چھٹی صدی ہجری)
ابن الکردبوس نے بھی مختصراً ذکر کیا کہ طارق نے اپنے ساتھیوں کو حوصلہ دینے کے لیے کشتیاں جلا ڈالیں۔
"الاکتفاء فی اخبار الخلفاء، طبع الجامعۃ الاسلامیہ المدینہ المنورہ، جلد 2، صفحہ 1007”
الحمیری (متوفی 900ھ)
الحمیری نے الادریسی کی روایت کو بعینہ نقل کیا، جس سے اس روایت کی قبولیت مزید مستحکم ہوتی ہے۔
"الردض المعطار فی خبر الاقطار، طبع موٰسسۃ ناصر للثقافۃ، بیروت، جلد 1، صفحہ 224”
مفتی تقی عثمانی کی تصحیح
مفتی تقی عثمانی نے ماہنامہ البلاغ میں شائع ہونے والی تصحیح میں لکھا کہ ان کے مطالعے میں پہلے یہ واقعہ نہیں آیا تھا، لیکن بعد ازاں انہیں نفح الطیب اور دیگر مصادر میں اس کا ذکر ملا، جس کے بعد انہوں نے اپنے سفرنامے کی عبارت میں تبدیلی کر لی۔
نتیجہ
تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ طارق بن زیاد کے کشتیاں جلانے کا واقعہ بعض قدیم مورخین نے ذکر کیا ہے، اگرچہ ابن خلدون جیسے مورخین نے اسے درج نہیں کیا۔ اس کے باوجود، الادریسی، ابن الکردبوس اور الحمیری جیسے معتبر مصادر کی موجودگی اس روایت کی حقیقت کو تقویت دیتی ہے۔