مستشرقین کا معاندانہ رویہ اور اسلام کی حقانیت

مستشرقین کا قدیم رویہ

بارہویں صدی عیسوی سے مستشرقین کا رویہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام ﷺ کے بارے میں معاندانہ رہا۔ قرونِ وسطیٰ کے عیسائی علما کھلے الفاظ میں نبی کریم ﷺ کی شان میں بیہودہ الزامات لگاتے تھے اور اسلام کو سیاسی خطرہ قرار دیتے تھے۔

حالات کی تبدیلی

آج کے دور میں حالات کافی بدل چکے ہیں:

  • اسلام اب یورپ کے لیے سیاسی خطرہ نہیں رہا۔
  • عرب مسلمان بین الاقوامی تجارت پر قابض نہیں۔
  • یورپ میں صنعتی، سائنسی، اور فکری انقلابات کے بعد وہاں کے افراد اب عیسائیت کو بھی شک کی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔
  • عیسائیوں کا مذہبی جوش و خروش کمزور پڑ چکا ہے۔

اثرات

ان حالات نے مستشرقین کے طرزِ تحریر کو کسی حد تک تبدیل کیا ہے۔ اب وہ بیہودہ اور واضح الزامات لگانے کے بجائے زیادہ محتاط اور علمی انداز اپناتے ہیں۔ تاہم، کیا ان کے مقاصد بھی بدلے ہیں؟

مستشرقین کے جدید طرزِ عمل

الفاظ اور انداز کی تبدیلی

عصرِ حاضر کے مستشرقین جیسے میور، مارگولیث، اور واٹ نے اپنے پیشروؤں کے الفاظ بدلے ہیں، لیکن ان کے بنیادی مقاصد وہی ہیں۔ مثلاً:

  • وہ نبی کریم ﷺ کی خوبیوں کا اعتراف کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ایسی توجیہات پیش کرتے ہیں جو ان کی عظمت کو دھندلا دیں۔
  • وہ اسلام کے اصولوں کو غلط زاویے سے پیش کرتے ہیں تاکہ اسلام کی حقانیت کو کمزور ثابت کیا جا سکے۔

آر اے نکلسن اور دیگر مستشرقین نے نبی کریم ﷺ کی خلوص نیت کو تسلیم کیا لیکن اسے "نفسیاتی ضرورت” قرار دیا۔
(بحوالہ: اسلام، پیغمبرِ اسلام اور مستشرقینِ مغرب کا اندازِ فکر، ص 164)

پروفیسر ڈینس سورا نے قرآن کی عظمت کا اعتراف کیا، لیکن اس کے ساتھ یہ کہنے کی کوشش کی کہ حجرِ اسود کو باقی رکھنا ایک سیاسی مصلحت تھی۔
(المشرقون والاسلام، طبع قاہرہ 1965ء)

منصوبہ بندی کے ساتھ الزامات

مستشرقین پرانے الزامات کو نئے الفاظ اور زاویوں میں ڈھال کر پیش کرتے ہیں۔ جدید دور میں فلموں، ڈراموں، اور کارٹونوں کے ذریعے اسلام اور نبی کریم ﷺ کے بارے میں منفی پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔

مستشرقین کی معاندانہ روش کے اسباب

دیانت داری کی کمی

مستشرقین اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ:

  • اگر وہ اسلام کے بارے میں حقیقت بیان کریں تو خود ان کے مخاطبین (یہودی و عیسائی) اسلام قبول کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
  • ان کے لیے اسلام کا موازنہ اپنے مذاہب سے کرنا ممکن نہیں کیونکہ عیسائیت اور یہودیت کی موجودہ حالت میں اپیل کی کوئی گنجائش نہیں۔

اسلام سے خوف

مستشرقین اس بات سے خائف ہیں کہ اسلام ان کے معاشروں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر ان کے معاشروں میں اسلام کی اصل حقیقت پیش کی گئی تو اسلام کے حقائق کو جھٹلانا ممکن نہیں رہے گا۔

نفسیاتی محرکات

مستشرقین کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ ان کے ہم مذہب افراد اگر اسلام کے قریب آ گئے تو موجودہ مذہبی اور معاشرتی نظام ختم ہو سکتا ہے۔

مستشرقین کے اعتراضات اور ان کے نتائج

اسلام پر اعتراضات کا طریقہ

مستشرقین نے اسلام پر مختلف سمتوں سے اعتراضات کیے اور حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی۔ ان کے اعتراضات میں ایسی شاطرانہ مہارت شامل ہوتی ہے جس سے عام افراد کو گمراہ کیا جا سکے۔

مسلمانوں کی حکمتِ عملی

مستشرقین کے اعتراضات نے مسلمانوں کو دفاعی حکمتِ عملی پر مجبور کیا۔ بعض مسلمانوں نے ان الزامات کی تردید کے دوران مصالحت کی راہ اختیار کر لی، جو مستشرقین کا مقصد تھا۔

اسلام کے بارے میں یورپ کا رویہ

علامہ محمد اسد کے مطابق:

"یورپ اسلام کے بارے میں مجنونانہ نفرت کا شکار ہے اور اس پر معقول اور متوازن رویہ اختیار کرنے سے قاصر ہے۔”
(بحوالہ: محمد اسد، اسلام دوراہے پر، 1968ء، ص 46-47)

نتیجہ

مستشرقین کی اسلام دشمنی کا محرک:

مستشرقین نہ صرف اسلام کی حقانیت کو سمجھتے ہیں بلکہ اس کی مقبولیت کے خطرے سے بھی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقت کو قبول کرنے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسلام کے دفاع کی ضرورت:

مسلمانوں کو مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دینے کے ساتھ ساتھ اسلام کی حقیقی تصویر کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے