حج کا مسنون طریقہ مختصر اور تصاویر کی مدد سے سمجھیں
تحریر: مقبول احمد سلفی

میقات کا تعارف

میقات کا تعارف

(1) یلملم:

یہ انڈیا، پاکستان، چین، یمن اور ان لوگوں کے لئے ہے جو اس راستے سے گزرے، یہ جدہ سے کچھ فاصلے پر واقع ہے۔

(2) ذوالحلیفہ (ابیار علی):

یہ مدینہ سے تقریبا نو کلو میٹر کے قریب ہے اور یہ اہل مدینہ اور اس راستے سے گزرنے والوں کی میقات ہے۔ مدینہ سے مکہ کے لئے ٹرین بھی آتی ہے ، احرام باندھ کر ٹرین سے بھی مکہ آسکتے ہیں کیونکہ میقات قریب ہے۔

(3) ذات عرق:

یہ عراق اور اس جانب سے آنے والوں کی میقات ہے ۔

(4) جحفہ (رابغ):

یہ شام ، مصر اور دیار مغرب والوں کی میقات ہے ۔

(5) قرن المنازل (السیل الکبیر ) :

یہ طائف میں واقع ہے اور یہ اہل نجد اور اس جانب سے گزرنے والوں کی میقات ہے۔ طائف والے، قصیم کے علاقہ والے، ریاض والے، دمام والے، خبر والے، جبیل والے، احساء اور قطیف والے سب یہیں سے احرام باندھیں گے۔

احرام کسے کہتے ہیں ؟

احرام کسے کہتے ہیں ؟

حج اور عمرہ کی نیت کا نام احرام ہے۔

گو یا مرد اور عورت دونوں کا ایک ہی احرام ہے ، فقط احرام کے لباس میں فرق ہے۔ اس بات کو حدیث رسول سے سمجھیں۔

عن عبد الله بن عمر رضي الله عنه، قال: قام رجل، فقال: يا رسول الله،” ماذا تامرنا ان نلبس من الثياب في الإحرام؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا تلبسوا القميص، ولا السراويلات، ولا العمائم، ولا البرانس، إلا ان يكون احد ليست له نعلان فليلبس الخفين، وليقطع اسفل من الكعبين، ولا تلبسوا شيئا مسه زعفران، ولا الورس، ولا تنتقب المراة المحرمة، ولا تلبس القفازين

(صحیح البخاری : 1838)

ترجمہ:

عبد اللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ! حالت احرام میں نہیں کون سے کپڑے پہننے کی اجازت دیتے ہیں ؟ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ قمیض پہنو نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ برنس۔ اگر کسی کے چپل نہ ہوں تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر پہن لے۔ اسی طرح کوئی ایسا لباس نہ پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو ۔ احرام کی حالت میں عورتیں منہ پر نقاب نہ ڈالیں اور دستانے بھی نہ پہنیں۔

مرد کے احرام کالباس :

دو بغیر سلی چادر اور چپل (سلا ہوا ممنوع)

عورت کے احرام کا لباس:

ہر قسم کا شرعی لباس سوائے نقاب و دستانہ کے

غلط فہمی کا ازالہ

عن عائشة قالت: كان الركبان يمرون بنا ونحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم محرمات، فإذا حاذوا بنا سدلت إحداناجلبابها من رأسها إلى وجهها، فإذا جاوزونا كشفناه. (ابوداؤد:1833)

نوٹ: اس حدیث کی سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہیں اس وجہ سے یہ حدیث سند ضعیف ہے مگر اس باب میں شواہد موجود ہونے کی وجہ سے حسن درجے کو پہنچ جاتی ہے۔ ارواء الغلیل کے حوالے سے میں نے بتایا تھا کہ اسماء بنت ابی بکر بیان کرتی ہیں کہ ہم عورتیں احرام کی حالت میں مردوں سے اپنا چہرے چھپاتی تھیں اور فاطمہ بنت مندر بھی بیان کرتی ہیں کہ ہم عورتیں احرام کی حالت میں اپنے چہرے کا پردہ کرتی تھیں۔

ممنوعات احرام

ممنوعات احرام

① بال کاٹنا
② ناخن کاٹنا
③ مرد کا سلا ہوا کپڑا پہننا
④ خوشبو لگانا
⑤ مرد کا سر ڈھانپنا
⑥ عورت کے لئے دستانہ اور برقع و نقاب لگانا
⑦ بیوی کو شهوت سے چمٹنا
⑧ عقد نکاح کرنا
⑨ جماع کرنا
⑩ شکار کرنا

نوٹ : گھڑی، انگوٹھی، پرس،ینگ، چھاتا وغیرہ اور عورتیں زینت کی چیز میں مثلاً ہالی اور زیورات وغیرہ استعمال کر سکتی ہیں مگر اجنبی مردوں سے چھپانا ہے۔

حج کے ارکان اور واجبات

حج کے ارکان اور واجبات

حج کے ارکان

(1) احرام (حج کی نیت کرنا)
(2) میدان عرفات میں ٹھہرنا
(3) طواف افاضہ کرنا
(4) صفا و مروہ کی سعی کرنا

حج کے واجبات

(1) میقات سے احرام باندھنا
(2) سورج غروب ہونے تک عرفہ میں ٹھہرنا
(3) عید کی رات مزدلفہ میں گذارنا
(4) ایام تشریق (12،11، 13 ذوالحجہ) کی راتیں منی میں بسر کرنا
(5) جمرات کو کنکری مارنا
(6) بال منڈوانا یا کٹوانا
(7) طواف وداع کرنا (حیض و نفاس والی عورت کے لئے نہیں ہے)۔

ارکان، واجبات اور ممنوعات کے احکام

ارکان، واجبات اور ممنوعات کے احکام

اگر کسی نے حج کے چار ارکان میں سے کوئی ایک رکن بھی چھوڑ دیا تو حج صحیح نہیں ہو گا۔

مذکورہ بالا سات واجبات میں سے کوئی ایک واجب چھوٹ جاتا ہے تو حج صحیح ہو گا مگر ترک واجب پر دم دینا ہو گا۔ دم کی طاقت نہ ہو تو دس روزہ رکھ لے، تین ایام حج میں اور سات وطن واپس ہونے پہ ۔

جو شخص لاعلمی میں ممنوعات احرام میں سے کسی کا ارتکاب کر لے تو اس پر کچھ ارکان، واجبات اور بھی نہیں ہے، لیکن اگر جان بوجھ کر ار تکاب کیا تو فدیہ دینا ہو گا۔

ایک سے لے کر سات ممنوعات کا حکم یہ ہے کہ اگر عمد ا (جان بوجھ کر) کسی کا ار تکاب کیا توفدیہ دینا ہو گا۔ فدیہ میں یا تو تین روزہ رکھنا ہے یا مکہ میں ایک ذبیحہ دینا ہے یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا۔

شکار کرنے کی صورت میں اس کے مثل جانور ذبح کر نا ہو گا۔ عقد نکاح سے حج باطل ہو جاتا ہے۔ اگر عمل اول سے پہلے جماع کر لے تو عورت و مرد دونوں کا حج باطل ہو جائے گا اور اگر علل اول کے بعد طواف افاضہ سے پہلے جماع کرے تو حج صحیح ہو گا مگر اس کا احرام ختم ہو جائے گا وہ حدود حرم سے باہر جا کہ پھر سے احرام باند ھے تا کہ طواف افا نہ کر سکے اور فدیہ میں ایک بکری ذبح کرے۔

مشاعر مقدسہ اور ان کی مسافت کو جانیں

حج :

فریضہ اور اسلام کا رکن ہے۔

فضیلت :

گناہوں سے پاک (ماں کے پیٹ سے جنم جیسا) اور جنت۔

حج کی تین قسم :

افراد، قران اور تمتع

میقات (جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے)

(1) میقات (جہاں سے احرام باندھا جاتا ہے)

احرام حج یا عمرہ میں داخل ہونے کی نیت کا نام ہے نہ کہ کپڑے کا۔

میقات پہنچ کر غسل کریں اور صرف اعضائے بدن پہ خوشبو استعمال کریں، اگر نہانا مضر صحت ہو تو غسل چھوڑ دیں۔

حیض والی عورت بھی غسل کر کے احرام باندھے۔

غیر ضروری بال اور ناخن کاٹنے کا تعلق احرام سے نہیں ہے ، انہیں کاٹنے کی حاجت ہو تو کاٹے ورنہ چھوڑ دے۔

احرام کا کپڑا لگائیں، میقات پر از دہام کی وجہ سے میقات سے پہلے بھی کسی جگہ سے احرام کا لباس لگا سکتے ہیں مگر میقات پہ نیت کرنی ضروری ہے۔

حج کی تینوں قسم (افراد، قران، تمتع) میں سے کسی ایک کو اختیار کر کے اس کی نیت کریں۔ حج تمتع افضل ہے۔

افراد کی نیت: لبیک حجا، قرآن کی نیت: لبيك عمرة و حجا اور تمتع کی نیت: لبيك عمرة

میقات سے لیکر حرم تک تلبیہ پکارتے چلیں۔ تلبیہ یہ ہے :

لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك

عورتیں آہستہ تلبیہ پکاریں گی

مسجد حرام (مکه مکرمه)

(2) مسجد حرام (مکه مکرمه)

متمتع :

عمرہ کے لئے طواف اور سعی کرے ، پھر بال چھوٹا کر کے حلال ہو جائے۔

قارن:

طواف قدوم کرے (یہ مستحب ہے) اور حج و عمرہ کی سعی کرے۔

مفرد:

طواف قدوم کرے (یہ مستحب ہے) اور حج کی سعی کرے۔

قارن اور مفرد احرام میں باقی رہیں گے اور دس تاریخ کو رمی جمار اور حلق یا تقصیر کے بعد حلال ہوں گے مگر بیوی طواف افاضہ (اور اگر سعی ہو تو سعی کر کے) ہی حلال ہو گی۔

طواف کی کوئی خاص دعا نہیں ہے ، جو چاہے سات چکروں میں دعا کرے ، البتہ رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھے :

ربنا آتنا في الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ

صفا و مروہ پہ ہر چکر میں تین تین بار یہ دعا پڑھے :

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ –

 منى (يوم الترويه)

(3) منى (يوم الترويه)

8 / ذی الحجہ کو تمتع کرنے والا اپنی رہائش ہی سے حج کا احرام باندھے ۔

قارن و مفر د اگر حج کی نیت کر کے پہلے سے ہی احرام میں باقی ہوں تو اسی حالت میں منی چلا جائے یا 8 / ذی الحجہ کو حج کی نیت کر رہے ہوں تو اس کی دو صورتیں ہیں یا تو طواف قدوم اور سعی کر کے منی جائے یا بغیر طواف وسعی دائریکٹ منی چلا جائے۔

احرام باندھ کر منی کی طرف متوجہ ہو، یہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پانچ وقتوں کی نماز اپنے اپنے وقتوں پر قصر کے ساتھ پڑھے۔

 عرفات (يوم عرفه)

(4) عرفات (يوم عرفه)

9 / ذی الحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد میدان عرفات پہنچ کر وہاں کسی بھی جگہ ٹھہرے۔ پہاڑ پہ چڑھنا اور کسی خاص جگہ وقوف کرنے کی محنت کرنا غلط ہے۔

ظہر و عصر کی نماز جمع تقدیم (ظہر کے وقت ظہر اور عصر دونوں) کے ساتھ قصر (دو دو رکعت) کرے۔

نماز پڑھ کر غروب شمس تک دعا، ذکر، استغفار اور تضرع میں مصروف یہ عرفہ کی سب سے بہترین دعا یہ ہے :

لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

یوم عرفہ کی فضیلت

حاجیوں کے لئے یہ دن بہت عظیم ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے:

الحج عرفہ یعنی حج عرفہ ہے۔

اس دن دین اسلام کی تکمیل اور نعمتوں کا اتمام ہوا، اس دن کاروزہ دو سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔

عرفہ میں وقوف کرنے والوں کے لیے عید کا دن ہے، اس دن میدان عرفات میں وقوف کرنے والوں کو گناہوں کی بخشش اور آگ سے آزادی ملتی ہے: صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حدیث مروی ہے کہ :

مَا مِنْ يَوْمِ أَكْثرَ مِنْ أَنْ يُعْتِق اللهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ ، وَإِنَّهُ لَيَدْنو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَوْلَاءِ.

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(اللہ تعالیٰ یوم عرفہ سے زیادہ کسی اور دن میں اپنے بندوں کو آگ سے آزادی نہیں دیتا، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ان کے قریب ہو تا اور پھر فرشتوں کے سامنے ان سے فخر کر کے فرماتا ہے یہ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟)

مزدلفه ( شب عيد )

(5) مزدلفه ( شب عيد )

غروب شمس کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر عرفات سے مزدلفہ جائے۔

وہاں پر مغرب اور عشاء کی نماز ایک ساتھ قصر سے پڑھے۔

پھر رات بھر آرام کرے، فجر کی نماز کے بعد ذکر واذکار اور دعا و استغفار کرے۔

سورج طلوع ہونے سے پہلے منی کی طرف کوچ کرے۔

کمزور ، عمر رسیدہ، معذور اور ضرورت مند مرد وعورت کے لئے آدھی رات کے بعد بھی مزدلفہ سے منیٰ جانا جائز ہے۔

فَإِذا أَفضتُم مَنْ عَرَفَاتِ فَاذْكَرُوا اللهَ عِندَ المشعر الحرام (البقرة: 198)

ترجمہ :

جب تم عرفات سے لوٹو تو مسجد حرام کے پاس ذکر الہی کرو۔

مز دانه کوہی مشعر حرام کہا گیا ہے کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے۔

منی اور مزدلفہ حدود حرم میں شامل ہے اور عرفات حرم میں شامل نہیں ہے، یہ حل ہے۔

يوم النحر (قربانی کا دن)

(6) يوم النحر (قربانی کا دن)

10 / ذی الحجہ کو فجر کے بعد منی جاکر پہلے ایک ہی جمرہ (جو مکہ سے متصل ہے) کو تکبیر کے ساتھ سات کنکری مارے۔

کنکری راستے یا منی و مزدلفہ کہیں سے بھی چنی جاسکتی ہے، اس کی جسامت چنے کے برابر ہو اور اسے دھونے کی بھی ضرورت نہیں۔

حج تمتع اور قرآن کرنے والا قربانی کرے۔

رمی جمرہ اور حلق (یا یہ دونوں یا ان کے علاوہ دو عمل) سے تحلل اول حاصل ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیوی کے علاوہ بال منڈوانا طواف افاضہ سیاری پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں اور جب ایک اور چیز کرلے طواف یا سعی تو تحلل ثانی (یوم النحر کو کسی تین عمل سے) یعنی مکمل حلال ہو جاتا ہے اس سے بیوی بھی حلال ہو جاتی ہے۔

اگر اس نے قربانی کی رقم جمع کر دی ہے تو بلا انتظار استرے سے بال منڈوائے یا قینچی سے پورے سرسے بال چھوٹا
کروائے۔

متمتع، قارن اور مفرد سبھی حج کا طواف (افاضہ) کریں۔

متمتع حج کی سعی کرے، قارن و مفرد بھی سعی کرے اگر انہوں نے طواف قدوم کے ساتھ سعی نہ کی ہو۔

تمتع کرنے والے کے لئے آج کے کام بالترتیب رمی، قربانی، حلق / تقصیر ، طواف اور سعی ہیں۔ ان کاموں میں سے کوئی آگے یا پیچھے ہو جائے تو کوئی حرج نہیں یعنی یہ ترتیب واجب نہیں ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

إن أعظم الأيام عند الله تبارك وتعالى يوم النحر ثم يوم القرح (صحیح ابی داود : 1765)

ترجمہ:

اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے عظیم دن یوم النحر ہے پھر یوم القر ہے ۔

ایام تشریق ( رمی جمرات کے ایام )

(7) ایام تشریق ( رمی جمرات کے ایام )

اگر کسی عذر کی بنا پر یوم النحر کو طواف افاضہ نہ کر سکے تو ایام تشریق میں بھی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ لوٹتے وقت ایک ہی نیت میں طواف افاضہ اور طواف وداع بھی کر سکتے ہیں۔

دس ذی الحجہ کا کام کر کے منیٰ لوٹ آئے اور 11 12 13 ذی الحجہ کی رات وہیں بسر کرے۔

تینوں دن تینوں جمرات کو (پہلے جمرہ اولی، پھر جمرہ وسطی پھر جمرہ عقبہ) زوال کے بعد سات سات کنکری مارے۔

پہلے جمرے کی رمی کر کے قبلہ رخ ہو کر لمبی دعا کرے پھر دوسرے جمرے کی رمی کر کے قبلہ رخ ہو کر لمبی دعا کرے اور کیا تیسرے جمرے کی رمی کے بعد بغیر دعار خصت ہو جائے۔

رمی جمرات اللہ کی عبادت اور اس کے حکم کی تعمیل ہے نہ کہ شیطان کو کنکری مارنا، اس لئے شیطان نام دینا بھی غلط ہے۔ اگر تعجیل کرنی ہو تو 12/ ذی الحجہ کی کنکری مار کر غروب آفتاب سے پہلے منی چھوڑ دے۔

حج کے مذکورہ بالا سارے اعمال انجام دینے کے بعد جب اپنا وطن لوٹنے لگے تو طواف وداع کرے اور پھر مکہ میں نہ ٹھہرے۔

اب آپ کا حج مکمل ہو گیا، زیارت مدینہ کا تعلق حج سے نہیں ہے، سعودی کے باہر سے آنے والے عمومازندگی میں ایک بار یہاں آتے ہیں تو زیارت مدینہ سے بھی مستفید ہو جائے تو بہتر ہے۔

حج کا آخری کام طواف الوداع

یہ وطن واپس ہونے سے کچھ گھنٹہ پہلے طواف الوداع کرے اور مکہ چھوڑ دے، ایک دو دن پہلے طواف وداع کرنا صیح نہیں ہے اور خارجی ملک والا طواف وداع کر کے مکہ سے باہر سعودی کے دوسرے شہر مثلا مدینہ یا جدہ یا طائف وغیرہ جاکر وہاں ٹھہرتے ہیں تو کوئی حرج نہیں ہے۔

حیض و نفاس والی سے طواف الوداع ساقط ہے لیکن طواف افاضہ نہ کیا ہو اور جانے کا دن ہو گیا ہو تو لنگوٹ باندھ کر طواف افائنہ کرلے۔

حجاج بیت اللہ اور مسلمانوں کو حج کاتین پیغام

حجاج بیت اللہ اور مسلمانوں کو حج کاتین پیغام

یہ تو معلوم ہے کہ زیارت کی نیت سے صرف تین مساجد کی طرف سفر کرنے کا حکم ہے، ان کے علاوہ دوسری کی اور جگہ کی زیارت کا سفر نہیں کرسکتے اور جسے اللہ تعالیٰ اپنےگھر کی زیاریت اور حج کی ادائیگی کے لئے بلاتا ہے وہ بڑا نصیب والا ہے۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے آپ کو نصیب والوں میں سے بنایا ہے۔ بیت اللہ ، روئے زمین پر اللہ کا پہلا گھراور مسلمانوں کا قبلہ ہے۔ اس میں ایک نماز کا اجر ایک لاکھ نماز کے برابر ہے گو یا تقریبا55 سال کی عبادت کے برابر ہے۔ یہاں زمزم اور کئی مشاعر مقدسہ ہیں۔ پھر آپ اللہ کی توفیق سے مدینہ طیبہ کی بھی زیارت سے مستفید ہوں گے۔ مسجد نبوی میں ایک نماز کا اجر ایک ہزار نماز کے برابر ہے جو تقریبا6 ماہ کے برابر ہے۔ اس پس منظر میں آپ کے لئے تین پیغامات ہیں۔

① دوران حج آپ دیکھتے ہیں حجاج بیت اللہ ساری جگہوں پر اپنے خاق کی بندگی کرتے ہیں اور بس اس سے مانگتے ہیں حتی کہ کائنات کی سب سے عظیم نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرمبارک پر بھی کوئی آپ سے دعا نہیں مانگتا بلکہ اللہ تعالی سے ہی مانگتا ہے اور کوئی وہاں غلط حرکتیں کرتا ہے تو فورا روک دیا جاتا ہے۔ یہاں سے حاجی سمیت سارے مسلمانوں کو سبق ملتا ہے کہ صرف ایک اللہ کی بندگی کرو، اس کو پکارو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔

② سارا حج اللہ کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں اس کو اخلاص کہا جاتا ہے اس سے ہمیں سبق ملتا ہے کہ ہم جو بھی عمل کریں اخلاص کے ساتھ کریں۔

③ حج سے ایک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ سنت کے مطابق زندگی گزارہیں اور سنت کے مطابق عمل کریں جیسے ہم نے حج میں کیا ہے، آپ نے دیکھا عرفات میں مغرب کی نماز نہیں پڑھتے جبکہ سورج ڈوب چکا ہو تا ہے، ایسا اس لئے کہ ہمارے نبی نے ایسا کیا ہے، یہی طریقہ دین کے تمام معاملات میں اپنا ئیں یعنی جو حکم رسول ہے وہی اپنا ئیں۔

یہ تین پیغامات دراصل حج سمیت تمام اعمال کی قبولیت کا معیار ہیں ۔ آپ کو کیسے معلوم کہ حج قبول ہوا کہ نہیں۔

انہی تین باتوں سے جان سکتے ہیں۔

پہلی بات:

کیا آپ نے عقیدہ توحید کے ساتھ حج کیا؟

دوسری بات:

کیا آپ نے اخلاص کے ساتھ حج کیا؟

تیسری بات:

کیا آپ نے سنت کے مطابق حج کیا ؟

اگر جواب اثبات میں ہے توامید رکھیں کہ اللہ نے آپ کاحج  قبول کیا ہے اور جواب نفی میں ہے تو سمجھیں آپ کا حج قبول نہیں ہوا۔

عبد اللہ عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

سب سے بہتر دعا عرفہ والے دن کی دعا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ (بطور ذکر) کہا ہے اور مجھ سے پہلے جو دوسرے نبیوں نے کہا ہے ان میں سب سے بہتر دعا یہ ہے:

’’(لا الہ الا الله وحده لا شریک له له الملك وله الحمد و هو علی کل شیء قدیر)‘‘

اللہ واحد کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے (ساری کائنات کی) بادشاہت ہے، اسی کے لیے ساری تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے