نماز عصر پر محافظت کی تاکید
تحریر: عمران ایوب لاہوری

نماز عصر پر محافظت کی تاکید

شریعت میں اس نماز کی حفاظت کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلرَةِ الوسطى [البقرة :238]
”نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص در میانی نماز کی۔“
صلاۃ وسطی ( درمیانی نماز) کی تعیین وتحدید میں علماء کے کم وبیش سترہ مختلف اقوال ہیں لیکن ان سب میں سے زیادہ صحیح یہ ہے کہ اس سے مراد نماز عصر ہے۔
[نيل الأوطار 449/1 ، شرح مسلم للنووى 140/3]
اس کے دلائل حسب ذیل ہیں :
➊ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ احزاب کے دن فرمایا ”اللہ تعالی ( ان مشرکوں کی ) قبروں اور گھروں کو آگ سے بھر دے جنہوں نے مجھے ”صلاۃ وسطٰی کی ادائیگی سے مشغول کر دیا“ حتى غابت الشمس حتی کہ سورج غروب ہو گیا۔ “
[بخاري: 2931 ، كتاب الجهاد والسير: باب الدعاء على المشركين بالهزيمة والزلزلة ، مسلم 627 ، أبو داود 409 ، دارمي 280/1 ، أبو يعلى 385 ، أحمد 122/1-144]
➋ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ شغلونا عن الصلاة الوسطى صلاة العصر ”انہوں نے ہمیں صلاۃ وسطی یعنی نماز عصر سے مشغول کر دیا ۔“
[مسلم: 628 ، كتاب المساجد و مواضع الصلاة : باب الدليل لمن قال الصلاة الوسطى هي صلاة العصر، ترمذي 181 ، ابن ماجة 686 ، أحمد 392/1 ، بيهقي 460/9]
➌ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مردی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
صلاة الوسطى صلاة العصر
”صلاۃ وسطی نماز عصر ہے۔“
[مسلم 628 ، أيضا ، أحمد 392/1 ،أحمد 7/5 ، ترمذي 182]
➍ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی روایت مروی ہے۔
یہ احادیث اس بات کا ثبوت ہیں کہ صلاۃ وسطی سے مراد نماز عصر ہے اور اس کی حفاظت کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے جیسا کہ آیت سے واضح ہے۔ علاوہ ازیں متعدد دیگر احادیث بھی اس کی حفاظت کی تاکید پر دلالت کرتی ہیں مثلاً حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من فاتته صلاة العصر حبط عمله ”جس شخص کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا کہ اس کا عمل برباد ہو گیا ۔ “
[صحيح : صحيح ابن ماجة 568 ، كتاب الصلاة : باب ميقات الصلاة فى الغيم ، إرواء الغليل 255 ، تخريج حقيقة الصيام 41 ، ابن أبى شيبة 342/1 ، بيهقي 444/1]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے