قرآن مجید کی متعدد قراءتوں کا وجود اور منکرین حدیث کا انکار
قرآن مجید کی متعدد قراءتوں کا وجود ایک مسلمہ حقیقت ہے، جو صحیح احادیث اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ تاہم، منکرین حدیث اس حقیقت کا انکار کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن صرف ایک قراءت میں نازل ہوا تھا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ خود نبی ﷺ نے قرآن کو کتابی شکل میں مرتب، مدوّن کیا اور اس پر اعراب و نقطے لگوائے۔ ان نظریات کی بنیاد قرآن و سنت سے ہٹ کر مستشرقین اور ذاتی قیاس پر رکھی گئی ہے، جن کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
منکرین حدیث کے دعوے
جناب پرویز صاحب کا نظریہ
پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ "اختلاف قراءت کا فتنہ سمجھنے کی ضرورت نہیں رہی” اور مزید یہ کہ "قرآن مجید جس شکل میں آج موجود ہے، اسے نبی ﷺ نے خود مرتب کیا تھا۔” (بحوالہ: طلوع اسلام، شمارہ جنوری 1982، لاہور)
طارق صاحب کا مؤقف
طارق صاحب کا کہنا ہے کہ اختلافِ قراءت کا نظریہ قرآن کی صداقت کے خلاف ہے۔ وہ سورہ نساء کی آیت:
"لَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا” (النساء: 82)
’’اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔‘‘
کو بنیاد بنا کر کہتے ہیں کہ قرآن میں کوئی اختلاف، بشمول قراءت، ممکن نہیں۔ (بحوالہ: اعجاز قرآن و اختلاف قراءت، مرتبہ تمنا عمادی، ص742)
ضعیف حدیث کا سہارا
طارق صاحب ضعیف حدیث: "أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ” کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے قرآن پر اعراب لگانے کا حکم دیا تھا۔ (بحوالہ: اعجاز قرآن و اختلاف قراءت، ص751)
علمی حقائق اور منکرین حدیث کی غلطیاں
1. مصحف اور قرآن کا فرق
- قرآن وہ ہے جو حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے، جب کہ مصحف قرآن کی تحریری شکل ہے۔
- منکرین حدیث لکھے ہوئے مصحف کو اصل مانتے ہیں اور حفاظ کے حافظے میں موجود قرآن کو نظرانداز کرتے ہیں، حالانکہ مصحف کی تصدیق بھی حفاظ ہی کرتے ہیں۔
2. جمع و تدوین قرآن
- نبی ﷺ نے قرآن کو زبانی سکھایا اور یاد کروایا۔
- مصحف کی کتابی شکل، اعراب، نقطے اور رموز اوقاف کا کام بعد کے ادوار میں صحابہ کرامؓ، تابعین اور تبع تابعین نے کیا۔
3. اعراب اور نقطوں کا آغاز
- عہدِ نبوی میں عربی تحریر پر اعراب یا نقطے لگانے کا رواج نہیں تھا۔
- مصحف عثمانیؓ اور نبی ﷺ کے شاہ مصر مقوقس کو لکھے گئے خط پر بھی اعراب اور نقطے موجود نہیں۔
- نقطے اور اعراب بعد کے زمانوں میں وضع کیے گئے تاکہ غیر عرب مسلمانوں کے لیے قرآن پڑھنا آسان ہو۔
4. اختلاف قراءت کی نوعیت
- اختلافِ قراءت تضاد (Contradiction) نہیں بلکہ تنوع (Variety) ہے۔
- مثال کے طور پر سورۃ البقرہ کی آیت: "وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ” میں "يَبْسُطُ” کو "يَبْصُطُ” بھی پڑھا جاتا ہے۔
- تنوع سے قرآن کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، بلکہ یہ اعجازِ قرآنی کا مظہر ہے۔
5. منکرین حدیث کا مغالطہ
سورہ النساء کی آیت: "لَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ…”میں اختلاف کا مطلب "تضاد” ہے، نہ کہ "تنوع”۔
’’اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا۔‘‘
قرآن کی تعلیمات میں تضاد نہیں، جبکہ قراءت کا اختلاف تنوع کے زمرے میں آتا ہے۔
اختلاف قراءت کی مثالیں
- مختصر اور طویل سورتیں: بعض سورتیں مختصر ہیں، جیسے سورہ کوثر، اور بعض طویل، جیسے سورہ بقرہ۔
- آیات کی تعداد میں فرق: مختلف سورتوں میں آیات کی تعداد متنوع ہے۔
- سورتوں کے آغاز: بعض سورتیں حروفِ مقطعات سے شروع ہوتی ہیں، جیسے "الم”، جب کہ بعض دعا یا حمد سے۔
- ایک ہی لفظ کے مختلف تلفظ: "رحمت” کو کہیں "رحمۃ” اور کہیں "رحمت” لکھا گیا ہے۔
ضعیف حدیث کا رد
طارق صاحب نے حدیث: "أَعْرِبُوا الْقُرْآنَ” پیش کی، لیکن یہ ضعیف ہے۔
"قرآن کو عربی قواعد کے مطابق پڑھو ۔”
- اس حدیث کے ایک راوی عبداللہ بن مقبری ضعیف ہیں (بحوالہ: مرعات شرح مشکوٰۃ، جلد 4، ص352)۔
- لفظ "أَعْرِبُوا” کا مطلب "اعراب لگانا” نہیں بلکہ "معانی واضح کرنا” ہے۔
- نحوی اصطلاحات عہدِ نبوی میں موجود نہ تھیں اور بعد میں وضع کی گئیں۔
اختلاف قراءت کا مقصد
قرآن کے مختلف قراءتیں امت کے لیے آسانی اور سہولت کا باعث ہیں۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
"اِنَّ القُرآنَ نَزَلَ علیٰ سَبْعَةِ أَحْرُفٍ، فَاقْرَؤوا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ” (صحیح بخاری، حدیث: 2419)
’’یعنی قرآن سات لہجوں میں نازل ہوا، لہٰذا جس میں آسانی ہو، پڑھ لیا جائے۔‘‘
منکرین حدیث کی روش
- منکرین حدیث صحیح احادیث کا انکار کرتے ہیں، مگر ضعیف یا موضوع روایات کو دلیل بناتے ہیں۔
- قرآن کو مستشرقین کی تشریحات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
- علمائے اسلام کو نظرانداز کرکے ذاتی قیاس آرائیوں پر اصرار کرتے ہیں۔
خلاصہ
اختلافِ قراءت تضاد نہیں بلکہ تنوع کا مظہر ہے، اور یہ مختلف لہجوں اور قراءت کے ذریعے قرآن کی جامعیت کو ظاہر کرتا ہے۔ منکرین حدیث کا اختلافِ قراءت کو فتنہ کہنا تاریخی حقائق، اجماع امت، اور صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ قرآن کا اصل مقام امت کے حفاظ کے سینوں میں ہے، اور یہ قیامت تک محفوظ رہے گا۔