مستشرقین اور ملحدین کا دعویٰ:
مستشرقین اور ملحدین نے تاریخی روایات کو بنیاد بنا کر حضور ﷺ اور حضرت زینبؓ کے نکاح کو ایک "محبت کی کہانی” کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نعوذ باللہ حضور ﷺ حضرت زینبؓ کو پسند کرنے لگے تھے جبکہ وہ حضرت زیدؓ کے نکاح میں تھیں، اور اس کی وجہ سے حضرت زیدؓ نے انہیں طلاق دے دی۔
تاریخی روایات پر اعتراض:
- یہ دعویٰ زیادہ تر ضعیف اور ناقابل اعتبار روایات پر مبنی ہے، جن کے راوی مشکوک ہیں۔
- ان مستشرقین کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ روایت کس درجے کی ہے یا اس کے راوی کون ہیں۔
- ان کا مقصد محض اعتراض اٹھانا اور بدگمانیاں پیدا کرنا ہے۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں اصل واقعہ
حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کی شادی کا پس منظر
نکاح کی ابتدا:
- حضرت زیدؓ، جو حضور ﷺ کے آزاد کردہ غلام تھے، کو آپ ﷺ نے منہ بولا بیٹا بنایا تھا۔
- حضور ﷺ نے اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینبؓ کا نکاح حضرت زیدؓ سے کروانا چاہا۔
- حضرت زینبؓ کو پہلے یہ رشتہ پسند نہیں آیا کیونکہ حضرت زیدؓ غلام رہ چکے تھے، لیکن آپ ﷺ کے ارشاد پر انہوں نے یہ رشتہ قبول کرلیا۔
(بحوالہ: فتح الباری، تفسیر سورۃ الاحزاب، ابن ابی حاتم)
نکاح کے بعد مسائل:
- نکاح کے بعد حضرت زیدؓ اور حضرت زینبؓ کے درمیان رنجشیں رہنے لگیں۔
- حضرت زیدؓ نے حضور ﷺ کے پاس آکر حضرت زینبؓ کے رویے کی شکایت کی اور طلاق دینے کی خواہش ظاہر کی۔
- آپ ﷺ نے انہیں بار بار منع کیا اور کہا کہ وہ اپنی بیوی کو نکاح میں رکھیں، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ۔
(سورۃ الاحزاب: آیت 37)
ترجمہ:’’اور جبکہ تم اس شخص سے جس پر اللہ نے اور تم احسان کیا تھا یہ کہتے تھے کہ اپنی بیوی کو نکاح میں لئے رہو اور اللہ سے خوف کرو۔‘‘
طلاق اور حضرت زینبؓ کا نکاح:
- نباہ نہ ہونے کی وجہ سے حضرت زیدؓ نے حضرت زینبؓ کو طلاق دے دی۔
- چونکہ حضرت زینبؓ حضور ﷺ کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور آپ کی تربیت میں پلی تھیں، اس لیے ان کی دلجوئی کے لیے آپ ﷺ نے ان سے نکاح کا ارادہ فرمایا۔
- لیکن عرب معاشرے میں اس وقت منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے جیسا سمجھا جاتا تھا، اس لیے آپ ﷺ اس نکاح پر تردد محسوس کرتے تھے۔
قرآن کی وضاحت:
اس موقع پر قرآن مجید میں یہ آیت نازل ہوئی:
وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ۔
(سورۃ الاحزاب: آیت 37)
ترجمہ: "اور تم اپنے دل میں وہ بات چھپاتے ہو جس کو اللہ ظاہر کردینے والا ہے اور تم لوگوں سے ڈرتے ہو حالانکہ ڈرنا اللہ سے چاہیے۔”
ان آیات کے نزول کے بعد حضور ﷺ نے حضرت زینبؓ سے نکاح کرلیا، اور جاہلیت کی اس رسم کا خاتمہ کردیا کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹے کے برابر ہو۔
مخالفین کے اعتراضات اور ان کا رد
منافقین کی باتیں:
اس نکاح کے بعد منافقین نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ حضور ﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے، حالانکہ یہ نکاح اللہ کے حکم کے مطابق تھا اور منہ بولے بیٹے کو حقیقی بیٹے کی حیثیت دینا اللہ کے نزدیک ناجائز تھا۔
قرآن کی وضاحت:
اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کا جواب سورۃ الاحزاب کی آیات میں دیا:
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ۔
(سورۃ الاحزاب: آیت 40)
ترجمہ: "محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں؛ بلکہ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔”
اس کے بعد حضرت زیدؓ کو ان کے والد کے نام سے زید بن حارثہؓ پکارا جانے لگا، جیسا کہ سورۃ الاحزاب میں آیا:
ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ۔
(سورۃ الاحزاب: آیت 5)
ترجمہ: "انہیں ان کے حقیقی باپوں کے نام سے پکارو، یہی اللہ کے نزدیک انصاف کی بات ہے۔”
نتیجہ:
یہ واقعہ ان مستشرقین اور ملحدین کے دعووں کی نفی کرتا ہے جو ضعیف روایات کا سہارا لے کر حضور ﷺ کی ذات پر اعتراض کرتے ہیں۔ قرآن اور صحیح احادیث نے اس واقعے کی مکمل وضاحت کی ہے اور ان اعتراضات کو بے بنیاد ثابت کیا ہے۔