حضرت عثمانؓ کا قرآن کے سات حروف کو محفوظ رکھنا

اعتراض:

حضرت عثمانؓ نے قرآنِ کریم کے نسخے تیار کرتے وقت کاتبین کو یہ ہدایت دی تھی:

"جب تمہارا زید بن ثابتؓ سے قرآن کے کسی لفظ کے بارے میں اختلاف ہو تو اسے قریش کی زبان میں لکھنا، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے”۔

اس فرمان کے پیش نظر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر ساتوں حروف کو برقرار رکھا گیا تھا تو حضرت عثمانؓ کی اس ہدایت کا مطلب کیا تھا؟

جواب:

مصاحف عثمانیہ اور سات حروف کی جزئیات

مصاحف عثمانیہ میں سات حروف کی تمام جزئیات شامل کی گئیں، جو کہ رسم عثمانی کے اندر آسکتی تھیں۔ ان نسخوں کو اس طرح لکھا گیا کہ ان میں مختلف قراءتوں کو سمویا جا سکے۔ رسم الخط کو نقطوں اور اعراب سے خالی رکھا گیا تاکہ تمام متواتر قراءتوں کو جگہ دی جا سکے۔

تاہم، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر مصحف میں سات حروف کی تمام جزئیات موجود تھیں، بلکہ ایسا انتظام کیا گیا کہ ہر مصحف میں سات حروف کی وہ جزئیات شامل ہوں جو اس رسم میں سما سکیں۔ بعض قراءتیں، جو ایک ہی رسم میں نہیں آ سکتی تھیں، انہیں مختلف مصاحف میں تقسیم کر دیا گیا۔

مثال کے طور پر:

  • آیت {وَوَصّٰی} کی قراءت مدنی اور شامی مصاحف میں موجود نہیں، لیکن دیگر مصاحف میں ہے۔
  • سورہ توبہ کی آخری آیت {تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا} صرف مکی مصحف میں ہے، جبکہ باقی مصاحف میں {تَجْرِي تَحْتَهَا} موجود ہے۔

قریش کی زبان کا انتخاب

حضرت عثمانؓ کے اس فرمان کا مطلب یہ تھا کہ اگر رسم الخط میں کوئی اختلاف پیدا ہو تو قریش کی زبان کے مطابق لکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا۔

اختلاف کی ایک مثال:

کتابتِ قرآن کے دوران کاتبین کے درمیان صرف ایک اختلاف پیش آیا، جو سورہ بقرہ کی آیت {أَن يَأْتِيَكُمُ ٱلتَّابُوتُ} کے لفظ التابوت کے رسم الخط سے متعلق تھا۔

  • ایک رائے تھی کہ اسے لمبی "تا” کے ساتھ التَّابُوت لکھا جائے۔
  • دوسری رائے تھی کہ اسے گول "تا” کے ساتھ التَّابُوة لکھا جائے۔

یہ مسئلہ جب حضرت عثمانؓ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے فرمایا: "التَّابُوت لکھو، کیونکہ قرآن قریش کی زبان میں نازل ہوا ہے”۔

یہ بات واضح کرتی ہے کہ حضرت عثمانؓ کے فرمان کا تعلق رسم الخط کے اختلاف سے تھا، نہ کہ سات حروف کے خاتمے سے۔

دلائل

1. مصاحف عثمانیہ کی بنیاد

مصاحف عثمانیہ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے دور میں تیار کیے گئے صحیفوں کی بنیاد پر مدوّن کیے گئے تھے۔

  • علماء کا اتفاق ہے کہ صدیقی صحیفے سات حروف کی تمام جزئیات پر مشتمل تھے جو تواتر سے ثابت تھیں۔
  • ان میں وہی قراءتیں شامل کی گئی تھیں جو عرضۂ اخیرہ کے وقت باقی رکھی گئی تھیں۔

2. حروف کے خاتمے کا کوئی ثبوت نہیں

کسی بھی صحیح یا ضعیف روایت میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ حضرت عثمانؓ نے کاتبینِ قرآن کو سات میں سے چھ حروف کو ترک کرنے کا حکم دیا ہو۔

3. صحابہؓ کی تائید

حضرت عثمانؓ کے دور میں موجود 12 ہزار سے زیادہ صحابہ کرامؓ، قرآن کے ساتھ اپنی محبت اور گہری وابستگی کے باعث کبھی اس بات پر راضی نہیں ہو سکتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ سے تواتر کے ساتھ ثابت شدہ حروف کو ختم کر دیا جائے۔

  • حضرت عثمانؓ نے امت کو متحد کرنے کے لیے وہی راستہ اختیار کیا جو درست تھا، اور تمام صحابہ کرامؓ نے اس کی تائید کی۔

4. قریش کی زبان اور دیگر لغات

اگر حضرت عثمانؓ نے صرف قریش کی لغت کو باقی رکھا ہوتا تو قرآن قریش کے علاوہ دیگر لغات سے خالی ہوتا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ قرآنِ کریم میں لغت قریش کے علاوہ دیگر لغات کے الفاظ بھی موجود ہیں۔

  • "فَتَبَيَّنُوا” (لغت قریش) اور "فَتَثَبَّتُوا” (دیگر لغت) دونوں قراءتیں موجود ہیں۔
  • اسی طرح "هَيْتَ لَكَ” اور "أُفٍّ” جیسے الفاظ کا رسم تمام متواتر قراءتوں کا احاطہ کرتا ہے۔

علمائے امت کی آراء

1. جمہور علماء کی رائے

اکثر علماء کا کہنا ہے کہ حضرت عثمانؓ نے سات حروف کو ختم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔

  • علامہ ابن حزم (الفصل فی الملل)
  • مولانا عبدالحق حقانی (مقدمہ تفسیر حقانی)
  • علامہ زرقانی (مناہل العرفان)

ان سب کے مطابق حضرت عثمانؓ نے ایسا رسم الخط اختیار کیا جو تمام قراءتوں کا احاطہ کرتا ہے۔

2. علامہ ابن الجزری

علامہ ابن الجزری لکھتے ہیں:

"فقہاء، قراء اور متکلمین کا اتفاق ہے کہ مصاحف عثمانیہ سات حروف پر مشتمل ہیں”۔
(النشر فی القراءات العشر، جلد 1، صفحہ 31)

3. علامہ بدرالدین عینی

علامہ عینی امام ابو الحسن اشعری کا قول نقل کرتے ہیں:

"سات حروف ہماری موجودہ قراءتوں میں موجود ہیں”۔
(عمدۃ القاری، جلد 12، صفحہ 258)

4. دیگر علماء

  • قاضی ابوبکر (البرہان فی علوم القرآن، جلد 1، صفحہ 151)
  • علامہ انور شاہ کشمیری (فیض الباری، جلد 3، صفحہ 321)
  • علامہ زاہد الکوثری (مقالات کوثری، صفحہ 21)

"لحن” سے متعلق اعتراض اور اس کا جواب

اعتراض:

حضرت عثمانؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

"قرآن میں لحن ہے، عرب اپنی زبان سے اسے درست کر لیں گے”۔
(کتاب المصاحف، صفحہ 32)

سند کی تحقیق:

علامہ محمود آلوسی اس روایت کی وضاحت میں لکھتے ہیں:

  • یہ روایت حضرت عثمانؓ سے ثابت نہیں۔
  • اس کی سند مقطع اور مضطرب ہے، اور اس کے راوی ضعیف ہیں۔

(روح المعانی، جلد 1، صفحہ 28)

"لحن” کا مطلب:

"لحن” کا مطلب یہاں غلطی نہیں بلکہ "طرزِ کلام” ہے۔

  • امام راغب اصفہانی (مفردات القرآن) نے "لحن محمود” کا ذکر کیا ہے، جو ایک خوبصورت طرزِ کلام کو ظاہر کرتا ہے۔
  • بخاری شریف میں بھی "لحن القول” کا مطلب ایک خاص طرزِ کلام لیا گیا ہے، نہ کہ غلطی۔

لہٰذا، حضرت عثمانؓ کے فرمان کا مطلب یہ تھا کہ قرآن کے بعض الفاظ عربوں کی روزمرہ زبان پر چڑھے ہوئے نہ تھے، لیکن وقت کے ساتھ وہ ان کو درست انداز میں ادا کرنے کے عادی ہو جائیں گے۔

خلاصہ:

  • حضرت عثمانؓ نے سات حروف کو ختم نہیں کیا بلکہ انہیں محفوظ رکھا۔
  • قریش کی زبان کو صرف رسم الخط کے اختلاف کی صورت میں ترجیح دی گئی۔
  • مصاحف عثمانیہ نے عرضۂ اخیرہ کی تمام قراءتوں کو سمویا۔
  • "لحن” سے مراد غلطی نہیں بلکہ ایک خاص طرزِ کلام ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1