فجر کی نماز مقررہ وقت کے بعد ادا کرنے کا حکم اور شرعی رہنمائی
فتویٰ : شیخ ابن جبرین حفظ اللہ

سوال :

جو شخص فجر کی نماز ظہر سے دو گھنٹے پہلے پڑھتا ہو اس کا کیا حکم ہے ؟ معلوم رہے کہ وہ اس سے قبل کا سارا عرصہ نیند میں رہا۔

جواب :

بلا عذر کسی شخص کے لئے نماز کو اس کے مقررہ وقت سے مؤخر کرنا جائز نہیں ہے۔ نیند ہر شخص کے لئے عذر نہیں بن سکتی ؟ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ انسان جلد سو جائے تاکہ وہ بروقت نماز کے لئے بیدار ہو سکے۔ اسی طرح آدمی اپنے والدین، بہن، بھائیوں اور ہمسائیوں وغیرہ میں سے کسی ایک کی ڈیوٹی لگا سکتا ہے کہ وہ اسے نماز کے لئے بروقت جگا دے۔ علاوہ ازیں اسے خود بھی نماز کو اہمیت دینی چاہیے۔ وہ نماز کے ساتھ یوں دل لگائے کہ اگر وہ سو بھی رہا ہو تو وقت ہونے پر اسے نماز کا احساس ہو جائے۔ جو شخص ہمیشہ ہی فجر کی نماز چاشت کے وقت میں پڑھنے کا عادی ہے اس کے دل میں نماز کی معمولی سی بھی اہمیت نہیں ہے۔ بہرحال انسان ممکن حد تک جلد از جلد نماز ادا کرنے کا پابند ہے۔ نیند سے بیداری پر فوراً نماز پڑھنی چاہئیے۔ اگر کسی شخص نے غفلت کی ہو یا نماز بھول گیا ہو تو یاد آنے پر فوراً ادا کرے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے