کیا جن و انس میں سے قیامت کے انکاری بھی ہیں
جواب :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاءَ يَوْمِكُمْ هَٰذَا ۚ قَالُوا شَهِدْنَا عَلَىٰ أَنفُسِنَا ۖ وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ أَنَّهُمْ كَانُوا كَافِرِينَ» [الأنعام 130]
”اے جنوں اور انسانوں کی جماعت! کیا تمھارے پاس تم میں سے کوئی رسول نہیں آئے، جوتم پر میری آیات بیان کرتے ہوں اور تمھیں اس دن کی ملاقات سے ڈراتے ہوں؟ وہ کہیں گے ہم اپنے آپ پر گواہی دیتے ہیں اور انھیں دنیا کی زندگی نے دھوکا دیا اور وہ اپنے آپ پر گواہی دیں گے کہ یقینا وہ کافر تھے۔“
یہ ان باتوں سے ہے جن کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کا فر جنوں اور انسانوں کو کھٹکھٹائیں گے۔
«يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنكُمْ ميں مِّنكُمْ» سے مراد صرف انسانوں میں سے ہے اور یہ استفہام تقر میں ہے۔ وہ کہیں گے: ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ بلاشبہ رسولوں نے ہمیں تیرا پیغام پہنچایا اور میں تیری ملاقات سے ڈرایا اور یہ بتایا کہ یہ دن بہرصورت آنے والا ہے۔ پھر بھی انھوں نے دنیاوی زندگی میں ظلم و زیادتی سے کام لیا اور رسولوں کو جھٹلا کر اور معجزات کی مخالفت کر کے وہ ہلاک ہوئے، دنیاوی زندگی کی زیب و زینت اور خواہشات نے انھیں دھوکے میں رکھا۔
« وَشَهِدُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ » یعنی دنیا میں رسول جو ان کے پاس پیغام لائے تھے (اس کی تکذیب کرنے کی وہ خود گواہی دیں گے)۔