مقروض اگر وقت سے پہلے قرضہ ادا کر دے تو اس کے قرضے میں کچھ تخفیف کر دینا
یہ علما کے ہاں مسئلہ «ضع و تعجل» موجودہ بنکاری نظام میں اسے ”منفی سود“ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اگر ادائیگی مقررہ وقت سے پہلے کر دی جائے تو اصل سرمائے میں کمی کر دی جاتی ہے جسے ڈسکاؤنٹ کہا جاتا ہے، تاہم مذکورہ بالا مسئلہ اس سے مختلف ہے۔ (جلدی ادا کریں اور خفیف کروا لیں) کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے جواز کے متعلق علما میں اختلاف ہے اور صحیح قول جائز ہونے کا ہے۔ یہ امام احمد سے ایک روایت، امام ابن تیمیہ اور حافظ ابن قیم کا اختیار کردہ موقف اور حضرت ابن عباس کی طرف منسو ب ہے۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ جواز کے قول کی توجیہ بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں:
یہ سود کے برعکس ہے، کیونکہ سود مدت کے مقابلے میں دونوں عوضوں میں سے کسی ایک کے اضافے کو شامل ہوتا ہے، جبکہ یہ مدت ساقط ہونے کے بدلے عوض کے کچھ حصے سے بری الذمہ ہونے پر مشتمل ہے، کچھ مدت ساقط ہونے کے بدلے کچھ عوض بھی ساقط ہو گیا اور دونوں نے اس کے ساتھ فائدہ اٹھا لیا، لہٰذا یہاں حقیقتا سود ہے نہ لغت کے اعتبار سے اور نہ عرف ہی کے لحاظ سے۔
کیونکہ سود کا معنی ہے: اضافہ، جو یہاں ناپید ہے۔ جنھوں نے اسے حرام قرار دیا ہے انہوں نے اسے سود پر قیاس کیا ہے، اور ان دونوں اقوال میں جو واضح فرق ہے وہ مخفی نہیں کہ ”یا تو سود دو یا پھر ادا کرو“ اور ”تم مجھے قبل از وقت ادا کر دو میں تمہیں ایک سو ہبہ کر دوں گا۔“ اس کی حرمت میں کوئی نص ہے نہ اجماع اور نہ قیاس ہی۔
[اللجنة الدائمة: 17441]