مجرم کا اپنا بیان بدلنا اور اس کے متعلق قاضی کا موقف
سوال: بعض مجرم پولیس کی تفتیش کے دوران میں اعتراف کر لیتے ہیں، پھر جب ان کو جج کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تو وہ انکار کر دیتے ہیں، یہاں جج کا کیا موقف ہونا چاہیے، کیا وہ اس انکار کا اعتبار کرے یا کیا کرے؟
جواب: اس مسئلے میں کچھ تفصیل ہے: اگر تو یہ اعتراف مخلوق کے حق کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، پھر ان کے لیے اس سے پھرنا جائز نہیں، خواہ وہ یہ دعوی کریں کہ انہوں نے یہ اعتراف فلاں اسباب کی بنا پر کیا تھا۔ جس تفتیشی کے سامنے اس نے اعتراف کیا ہو، اس سے پوچھے کہ اس نے ان کو اس اعتراف پر مار کر مجور تو نہیں کیا، یا کوئی ایسا کام کیا ہو جس کی بنا پر یہ مجبور ہو گئے ہوں؟ وگرنہ وہ ان کا دعوی ہی ہوگا اور چوری، جرم اور ایسی اشیاء سے رجوع کرنا ان کے لیے جائز نہیں جن کا تعلق مخلوق کے حقوق کے ساتھ ہو، البتہ وہ اعتراف جس کا تعلق حدود اور اللہ تعالیٰ کے حق کے ساتھ ہو تو اس کا معاملہ کسی پر مخفی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حق کے متعلق اعتراف سے رجوع کے متعلق جمہور علما کا یہ موقف ہے کہ اسے حدود میں شک کا فائدہ دے کر قبول کر لیا جائے۔ یعنی حدود کو شبہات کی بنا پر نافذ کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔
مقصود کلام یہ ہے کہ وہ مخلوق کے حق کے متعلق نہ ہو کیونکہ اس سے رجوع قبول نہیں کیا جائے گا، خواہ اس نے پولیس کے پاس اعتراف کیا ہو یا کسی دوسری جگہ، اور جن کے پاس اس کا اعتراف ثابت ہو جائے، یا وہ خود اقرار کرے کہ اس نے اس کا اعتراف کیا تھا، لہٰذا اس کا اعتراف کی بنا پر مؤاخذہ کیا جائے گا، جب تک قاضی کے ہاں کوئی ایسی چیز ثابت نہ ہوتی ہو جو اکراہ (اور مجبور کرنے کی وجہ) سے اسے کالعدم قرار نہ دے سکے۔
[ابن باز: مجموع الفتاوي و المقالات: 205/23]