قاضی کے لیے تحائف قبول کرنے کی شرائط
مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

قاضی کا تحائف قبول کرنا

قاضی کے تحفہ قبول کرنے کے متعلق علماء کرام کہتے ہیں کہ دو شرطوں کے بغیر اس کے لیے تحفہ قبول کرنا جائز نہیں، اور وہ دو شرطیں یہ ہیں: یہ تحفہ اس کی طرف سے ہو جو اس کے اس منصب تک پہنچنے سے پہلے بھی اس کو تحائف دیا کرتا تھا اور دوسری شرط یہ ہے کہ یہ جو تحفہ دے رہا ہے اس کا اس کے ہاں کوئی فیصلہ (یا مقدمہ) نہ ہو۔
اگر وہ اس کو اس کے اس منصب سے پہلے تحائف دینے والوں میں نہیں تو پھر اس کے لیے اس کا تحفہ قبول کرنا جائز نہیں کیونکہ اس نے اس کو یہ تحفہ اس کے اس منصب پر فائز ہونے کی وجہ سے دیا ہے، لہٰذا وہ اس عامل اور ملازم کی طرح ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال زکات اکٹھا کرنے کے لیے بھیجا تھا، جس کا نام عبد اللہ بن لتبیہ ہے، جب وہ واپس لوٹا تو اس نے کہا: ”یہ تمھارا ہے اور یہ مجھے بطور تحفہ دیا گیا ہے۔“ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”یہ اپنے باپ یا ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا، پھر دیکھا جاتا اس کو کوئی تحفہ دیتا ہے کہ نہیں؟“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 2597]
اور اگر تحفہ دینے والے کا اس جج کے پاس کوئی فیصلہ یا مقدمہ ہے جس کو وہ تحفہ دے رہا ہے تو پھر اس بات کا خدشہ موجود ہے کہ یہ شخض اپنی مرضی کا فیصلہ کروانے کے لیے رشوت پیش کر رہا ہو اور یہ ایک عام بات ہے کہ جس کو تحفہ دیا جاتا ہے، وہ تحفہ دینے والے کی طرف میلان رکھتا ہے اور اس کے دعوے اور معاملے میں غور و فکر اور تحقیق کرنے میں رغبت نہیں رکھتا، لہٰذا ان دو شرطوں کے بغیر قاضی کا تحفہ قبول کرنا جائز نہیں:
پہلی شرط: وہ اس شخص کی طرف سے ہو جو اس کو اس عہدے پر متمکن ہونے سے پہلے بھی تحائف دیتا ہو۔
دوسری شرط: اس تحفہ دینے والے کا کوئی مقدمہ زیر سماعت نہ ہو۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 2]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے