حیا کی اہمیت اور بے حیائی کے نتائج
ماخوذ: شرح کتاب الجامع من بلوغ المرام از ابن حجر العسقلانی، ترجمہ: حافظ عبد السلام بن محمد بھٹوی

وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إن مما ادرك الناس من كلام النبوة الاولى: إذا لم تستح فاصنع ما شئت ‏‏‏‏ اخرجه البخاري.
” عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لوگوں نے پہلی نبوت کے کلام میں سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے ایک یہ ہے کہ جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر۔ “ اسے بخاری نے روایت کیا۔
تخریج :
[بخاري3483] ، [3484] وغیرہ۔ الاولىٰ کا لفظ بخاری میں نہیں بلکہ ابوداؤد میں ہے۔

فوائد :
پہلی نبوتوں کے کلام سے کیا مراد ہے :
مطلب یہ ہے کہ یہ ان باتوں میں سے ہے جن پر تمام انبیاء کرام علیہم السلام متفق تھے۔ کسی شریعت میں یہ منسوخ نہیں ہوئی عقل سلیم کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے سب لوگ حتیٰ کہ اہل جاہلیت بھی اسے جانتے اور مانتے آئے ہیں۔
”جب تو حیا نہ کرے تو جو چاہے کر“ کا مطلب کیا ہے ؟
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آدمی میں حیا نہ رہے تو اس کے دل میں جو آتا ہے کر گزرتا ہے، اسے برائی سے کوئی چیز نہیں روک سکتی، ”بے حیا باش و ہرچہ خواہی کن“ گویا یہاں امر بمعنی خبر ہے یعنی ”جو چاہے کر“ سے مراد یہ ہے کہ جب آدمی حیا نہ کرے تو جو چاہے کرتا ہے کسی گندے سے گندے کام سے بھی اسے حجاب نہیں ہوتا۔ جیسا کہ :
من كذب على متعمدا فليتبوء مقعده من النار [صحيح بخاري، العلم 38 ]
” جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لے۔ “ (یعنی وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنا لیتا ہے۔ )
دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہاں امر دھمکی اور ڈانٹ کے لیے ہے جیسا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی آیات میں کجروی اختیار کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ [41-فصلت:40]
” جو چاہو کرو تم جو کچھ کر رہے ہو یقیناًً وہ اسے دیکھنے والا ہے۔ “
(یعنی جب حیاء نہ کرو تو جو چاہو کرو آخر کار اس کا بدلہ تمہیں اللّٰہ کی طرف سے مل جائے گا۔ )

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے