حضرت سمیہ کی شہادت اور اونٹوں سے باندھنے کی حقیقت
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

سمیہ کو ابو جہل کا گالیاں دینا سخت ایذائیں دینا پھر نیز مار کر شہید کرنا کسی حد تک صحیح ہے، مگر خطباء و واعظین میں جو روایت مشہور ہے وہ یہ ہے ایک مصنف لکہتا ہے۔
ابو جہل کو ذرا ترس نہ آیا وہ چلا کر بولا اس کی دونوں ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ دو۔ نو جوان آگے بڑھے اور انہوں نے سمیہ کو دونوں ٹانگوں کو باندھ دیا۔ پھر ابوجہل کے حکم پر دونوں رسیوں کے آخری سرے اونٹوں کے ساتھ باندھ دیئے گئے، ابوجہل نے غصے سے اونٹ کو چھری ماری اور دونوں اونٹوں کو مختلف سمتوں پر چلا دیا گیا۔ مقررین کہتے ہیں ایک کو مشرق کی طرف چلایا دوسرے کو مغرب کی طرف چلایا، تو سیدہ سمیہ کا بوڑھا جسم دو حصوں میں بٹ گیا۔
بابا جی صمصام رحمہ اللہ نے بھی اپنے اشعار میں یہ واقعہ بیان کیا ہے کہتے ہیں:
کسے مائی جدوں آکے مونہوں کلمہ بولیا
آئیاں سینکٹرے مصیبتاں دل نہیں ڈولیا
بدن اوٹھاں نال بنھ کے دو پھاڑ ہو گیا
جیہدا پاک نبی دے سنگ پیار ہو گیا
بھانویں لکھ گنہگار، بیڑا پار ہو گیا
اونٹوں سے باندھ کر جسم دو ٹکڑے کرنے والی روایت کوشش کے باوجود کسی معتبر کتاب سے نہیں ملی، اس لیے یہ واقعہ صحیح نہیں۔ اس کے برعکس ایک روایت کے مطابق ابوجہل نے سمیہ کی شرم گاہ میں نیزہ یا پر چھا مارا اس سے وہ شہید ہو گئیں۔ [مسند احمد 404/1] یہ مجاہد تابعی سے مرسل مروی ہے جبکہ تابعی کی مرسل ضعیف ہوتی ہے، اگرچہ یہ بھی ضعیف ہے مگر اس کا کم از کم وجود تو ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے