ننگے سر نماز کا جواز اور شرعی دلائل
تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال :

کیا آدمی کی ننگے سر نماز ہو جاتی ہے ؟ دلیل سے وضاحت فرما دیں۔

جواب :

نماز میں ستر ڈھانپنا واجب ہے اور کندھوں پر بھی کسی چیز کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کپڑے شریعت میں ضروری طور پر ثابت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی ہے جیسا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔
محمد بن منکدر راوی کا بیان ہے کہ ایک دن میں جب جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہ ایک کپڑے کو جسم پر لپیٹے نماز پڑھ رہے تھے جب کہ دوسرا کپڑا قریب رکھا ہوا تھا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو کسی نے کہا: ”آپ ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کر رہے ہیں جب کہ دوسرا کپڑا بھی آپ کی پاس موجود ہے۔ “ انہوں نے کہا: ” ہاں ! میں چاہتا ہوں کہ تمہارے جیسے جاہل مجھے دیکھ لیں۔ “ پھر فرما تے ہیں :
رايت النبى صلى الله عليه وسلم يصلي هكذا [بخاري،كتاب الصلاة، باب الصلاة بغير رداء 370 ]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔“
صحیح بخاری کی دوسری روایت میں ہے :
رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي فى ثوب واحد مشتملا به فى بيت ام سلمة، واضعا طرفيه على عاتقيه [ بخاري،كتاب الصلاة،باب الصلاة فى الثوب الواحد ملتحفا به ]
”میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں نماز پڑھتے دیکھا، اس کپڑے کے دو کنارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر بندھے ہوئے تھے۔“
ہاں عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے
لا يقبل الله صلاة حائض إلا بخمار [ابوداؤد، كتاب الصلاة باب المرأة تصلي بغير خمار 641]
علامہ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
”اللہ تعالیٰ بالغہ عورت کی نماز دوپٹا (اوڑھنی) کے بغیر قبول نہیں کرتا۔“
یہ حدیث بھی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مرد کی نماز ننگے سر ہو جاتی ہے۔ اس کے لیے ایسا کپڑا ضروری نہیں ورنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہہ دیتے کہ مرد اور عورت کی نماز ننگے سر نہیں ہوتی۔ حالانکہ کسی حدیث میں ایسے مذکور نہیں۔
اب دلائل سے کوئی یہ مت سمجھے کہ ایک کپڑے میں اس وقت نماز درست تھی جب مسلمانوں کے پاس کپڑے کم تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے وسعت دے دی تو سر ڈھانپنا واجب ہو گیا۔ اس بات کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہیں، کیونکہ وہ یقیناًََ ہم سے بڑھ کر شریعت کو سمجھنے والے تھے۔ ایسے ہی حالات میں کسی شخص نے ان سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا: تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک سے زیادہ کپڑوں کو شمار کر لیا مگر اس میں سر ڈھانپنے والے کپڑوں کا نام ہی نہیں۔ [بخاري، كتاب الصلاة : باب الصلاة فى القميص والسراويل 365 ]
امیر المؤمنین رضی اللہ عنہ کو تو فراخی و وسعت کے وقت بھی یہی بات سمجھ میں آئی کہ سر ڈھانپنا واجب نہیں۔ اب ان صحیح و مرفوع احادیث اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے فہم کو ترک کر کے اپنی عقل کو سامنے رکھنا ہرگز انصاف نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔