سید امجد حسین کے مضمون "قرآن اور اسرائیلیات” کا جواب
تحریر: سید وقاص حیدر

یہ مضمون سید امجد حسین کے مضمون "قرآن اور اسرائیلیات” کا جواب ہے
جس میں امجد حسین نے سورہ الشعراء کی آیات کو بنیاد بنا کر قرآن کریم کے پچھلی آسمانی کتابوں کے ساتھ تعلق پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن میں بیان کردہ کئی واقعات یہود و نصاریٰ کی کتابوں میں مذکور نہیں ہیں، اور اگر کہیں موجود بھی ہیں تو مختلف انداز میں درج ہیں، جس سے قرآن کی صحت پر سوالات جنم لیتے ہیں۔

قرآن کا دعویٰ اور امجد حسین کا اعتراض

امجد حسین نے سورہ الشعراء کی آیات 192 سے 196 تک کے قرآنی دعوے کو اعتراض کی بنیاد بنایا، جہاں اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن رب العالمین کی طرف سے نازل شدہ ہے اور یہ پچھلی کتب میں بھی مذکور ہے۔ اس آیت کے ذریعے وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قرآن کا بیان کردہ ہر واقعہ پچھلی آسمانی کتابوں میں موجود نہیں ہے، اور اس بات کو موجودہ بائبل کے ساتھ موازنہ کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

امجد حسین کے دعوے کا رد

امجد حسین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے اعتراضات حقائق کی بجائے مفروضات پر مبنی ہیں۔ اگرچہ انہوں نے مستشرق ٹسڈل کی تنقید کا حوالہ دیا ہے، لیکن ان کا مؤقف محض دعووں اور ذاتی رائے پر مبنی ہے، جو کہ تاریخ اور مذہبی فہم کی بنیاد پر نہیں۔

الہامی کتب اور قرآن کا زاویہ

یہود اور مسیحیت کے مختلف مکاتب فکر کے مطابق الہام کی تعریف مختلف ہے۔ یہودی اپنے "تالمود” کو بھی الہامی حیثیت دیتے ہیں، جو کہ توریت کی تفسیری کتاب ہے اور اس کی حیثیت توریت کے بعد دوسرے درجے پر ہے۔ اس کے برعکس مسیحیت اپنے نئے عہد نامے کو الہامی تسلیم کرتی ہے، اور ان کے مختلف فرقے بائبل کے کتابوں کی تعداد پر متفق نہیں ہیں، جیسے پروٹسٹنٹ کے نزدیک بائبل میں 66 کتب ہیں، جبکہ کیتھولک بائبل 73 کتب پر مشتمل ہے۔

یہودی تعلیمات اور قرآن کا نقطہ نظر

یہودی دین کی بنیاد "تصور قانون” پر ہے، اور اس کا محور توریت ہے جو ان کے نزدیک سب الہامی سچائیوں کا منبع ہے۔ یہودی توریت کے علاوہ ایک زبانی قانون یعنی "تالمود” کو بھی الہامی تصور کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانے سے یہ قانون زبانی طور پر منتقل ہوتا رہا اور بعد میں اسے لکھا گیا۔ یہاں سوال اٹھتا ہے کہ کیا قرآن نے ان تفسیری کتابوں اور تالمود کو نظر انداز کیا ہے؟

رسول اللہ ﷺ کا علم اور قرآن کا الہامی ہونا

یہ بات تاریخی طور پر واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کسی رسمی تعلیم یا یہود و نصاریٰ کی کتب کے مطالعے کے بغیر اپنی نبوت کا اعلان کیا۔ اگر قرآن انسانی کاوش ہوتا تو اس میں بے شمار جھول ہوتے، لیکن قرآن نے اسرائیلیات کو اپنے انداز میں بیان کیا اور تمام واقعات کو باہم مربوط شکل میں پیش کیا، جو کہ وحی کی اصل حقیقت ہے۔

قرآنی بیانات کی تصحیح اور تاریخی سچائی

قرآن نے نہ صرف بائبل کے بعض غلط بیانات کی تصحیح کی بلکہ بہت سے اہم تاریخی حقائق کو درست انداز میں بیان کیا۔ مثلاً، بائبل میں حضرت ابراہیمؑ کے دور کے مصری بادشاہ کو "فرعون” کہا گیا ہے، جبکہ "فرعون” کا لقب مصر کے نئے دور کی بادشاہت میں استعمال ہوا۔ قرآن میں حضرت ابراہیمؑ کے واقعے میں بادشاہ کو "فرعون” کہہ کر نہیں پکارا گیا، جبکہ حضرت موسیٰؑ کے واقعے میں اسے "فرعون” کا لقب دیا گیا، جو کہ تاریخی اعتبار سے درست ہے۔

فرعون کی لاش کا محفوظ ہونا اور قرآنی پیشین گوئی

قرآن نے فرعون کی لاش کو محفوظ کیے جانے کی بات کی، جو اس کے لیے نشانِ عبرت ہے۔ یہ بیان بائبل میں موجود نہیں، اور جب کہ یہ لاش کئی صدیاں بعد مصر سے دریافت ہوئی، اس نے قرآن کی اس پیشین گوئی کو مزید تقویت دی۔

یہودی اور مسیحی علمی معیارات کا محدود ہونا

مسیحی اور یہودی عالم تالمود اور دیگر اسرائیلی کتب کی تعلیمات سے عملاً ناواقف رہے ہیں۔ قرآن نے بنی اسرائیل کی تاریخ اور تالمود کے بیانات کو بطور وحی الہٰی بیان کیا جو ان تاریخی حقائق کی طرف ایک اعجاز بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ان معلومات تک پہنچنا انسانی ذرائع سے ممکن نہ تھا۔

نتیجہ

قرآن بائبل اور دیگر آسمانی کتابوں کے مندرجات کی اصلاح کرتا ہے اور وحی کی اصل حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ اس میں بیان کردہ اسرائیلی واقعات کو نہ تو موضوع روایت سمجھا جائے اور نہ ہی یہ تصور کیا جائے کہ ان کا منبع یہودی کتب ہیں، کیونکہ قرآنی بیان براہ راست وحی الٰہی سے منسلک ہے۔

ملحد احباب کو چاہیے کہ خلوص دل سے قرآن کی معروضی تحقیق کریں اور حقیقت کو سمجھیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے