وسیلے کی ممنوع اقسام کے 41 دلائل کا تحقیقی جائزہ
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری، ماہنامہ السنہ جہلم

یہ تو بیان ہو چکا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں تین قسم کا وسیلہ جائز ہے، اس کے علاوہ ہر قسم کا وسیلہ، مثلاً کسی مخلوق کی ذات یا فوت شدگان کا وسیلہ ناجائز و حرام ہے۔ بعض حضرات ناجائز وسیلے پر مبنی اپنے خود ساختہ عقائد کو ثابت کرنے کے لیے من گھڑت، جعلی، بناوٹی اور ضعیف روایات پیش کرتے ہیں۔ آئیے ان روایات کا اصول محدثین کی روشنی میں تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں :

دلیل نمبر ۱:

عن مالك الدار، قال : وكان خازن عمر على الطعام، قال : أصاب الناس قحط في زمن عمر، فجاء رجل إلى قبر النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله، استسق لأمتك فإنهم قد هلكوا، فأتى الرجل في المنام فقيل له : ائت عمر فأقرئه السلام، وأخبره أنكم مستقيمون وقل له : عليك الكيس، عليك الكيس، فأتى عمر فأخبره فبكى عمر ثم قال : يا رب ! لا آلو إلا ما عجزت عنه.

”مالک الدار جو کہ غلے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے خزانچی مقرر تھے، ان سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے۔ ایک صحابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول ! آپ (اللہ تعالیٰ سے) اپنی امت کے لیے بارش طلب فرمائیں، کیونکہ وہ (قحط سالی کے باعث ) تباہ ہو گئی ہے۔ پھر خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابی کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : عمر کے پاس جا کر ميرا اسلام کہو اور انہیں بتاؤ کہ تم سیراب کیے جاؤ گے اور عمر سے (یہ بھی ) کہہ دو کہ عقلمندی سے کام لیں۔ وہ صحابی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہیں خبر دی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے اور فرمایا: اے اللہ ! میں کوتاہی نہیں کرتا، مگر یہ کہ عاجز آ جاؤں۔“

(مصنف ابن أبي شيبه:356/6، تاريخ ابن أبي خيثمه:70/2، الرقم:1818، دلائل النبوة للبيھقي:47/7، الاستيعاب لابن عبدالبر:1149/3، تاريخ دمشق لابن عساكر:345/44، 489/56)

تبصره :

اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ :

اس میں (سلیمان بن مہران) الاعمش ”مدلس“ ہیں اور عن سے روایت کر رہے ہیں، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا نقبل من مدلس حديثا حتي يقول فيه: حدثني أو سمعت …….

”ہم کسی مدلس سے کوئی بھی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کرتے جب تک وہ اس میں سماع کی تصریح نہ کر دے۔“(الرسالة للإمام الشافعي،ص:380)

امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا يكون حجة فيما دلس.

”مدلس راوی کی تدلیس والی روایت قابل حجت نہیں ہوتی۔“ (الكامل لابن عدي:34/1، وسنده حسن)

حافظ سخاوی رحمہ اللہ (۸۳۱۔۹۰۲ھ) کہتے ہیں :
وممن ذھب إلی ھذا التفصیل الشافعی وابن معین و ابن المدینی.

”جو ائمہ کرام اس موقف کے حامل ہیں، ان میں امام شافعی، امام ابن معین اور امام ابن مدینی کے نام شامل ہیں۔“ (فتح المغيث:182/1)

حافظ علائی رحمہ اللہ (۶۹۴۔۷۶۱ھ) اسی کو ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الصحيح الذي عليه جمھور إئمة الحديث والفقه والأصول.

”یہی وہ صحیح مذہب ہے جس پر جمہور ائمہ حدیث و فقہ و اصول قائم ہیں۔“ (جامع التحصيل،ص:111)

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (۳۶۸۔۴۶۳ ھ) فرماتے ہیں :
وقالوا: لا يقبل تدليس لأعمش.

”اہل علم کہتے ہیں کہ اعمش كی تدلیس قبول نہیں ہوتی۔“ (التمھيد:30/1)

علامہ عینی حنفی (۷۶۲۔۸۵۵ھ) لکھتے ہیں :
إن الأعمش مدلس، وعنعنة المدلس لا تعتبر إلا إذا علم سماعه.

”بلاشبہ (سلیمان بن مہران) اعمش مدلس ہیں اور مدلس راوی کی عن والی روایت اسی وقت قابل اعتبار ہوتی ہے جب اس کے سماع کی تصریح مل جائے۔“ (عمدة القاري شرح صحيح البخاري، تحت الحديث:219)
اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح لازم ہے۔

مالک الدار ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن حبان رحمہ اللہ (384/5) کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔

اس کے بارے میں حافظ منذری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لا أعرفه. ”میں اسے نہیں جانتا۔“ (الترغيب والترھيب:29/2)

حافظ ہیشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لم أعرفه. ”میں اسے نہیں پہچان سکا۔“ (مجمع الزوائد:123/3)

اس کے صحابی ہونے پر کوئی دلیل نہیں، لہٰذا بعض بعد والوں کا اسے صحابہ کرام میں ذکر کرنا صحیح نہیں۔

نیز حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (البداية والنھاية: 167/5) اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (الاصابة:484/3) کا اس روایت کی سند کو ’’صحیح‘‘ قرار دینا ان کا علمی تسامح ہے۔ ان کی یہ بات اصولِ حدیث کے مطابق درست نہیں۔ صرف حافظ ابن کثیر اور حافظ ابن حجر رحمہا اللہ کا اسے صحیح کہنا بعض لوگوں کی دلیل نہیں بن سکتا، کیونکہ بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی صحیح تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے صحیح کہا ہوا ہے اور بہت سی ایسی روایات کو یہ لوگ بھی ضعیف تسلیم نہیں کرتے جنہیں ان دونوں حفاظ نے ضعیف کہا ہوا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود سلیمان بن مہران اعمش کی تدلیس کی مضرت کے بارے میں لکھتے ہیں :
وعندي أن إسناد الحديث الذي صححه ابن القطان معلول، لأنه لا يلزم من كون رجاله ثقات أن يكون صحيحا، لأن الأعمش مدلس، ولم يذكر سماعه من عطاء، وعطاء يحتمل أن يكون ھو عطاء الخراساني، فيكون فيه تدليس التسوية بإسقاط نافع بين عطاء وابن عمر.

”میرے خیال کے مطابق جس حدیث کو ابن القطان نے صحیح کہا ہے، وہ معلول (ضعیف) ہے، کیونکہ راویوں کے ثقہ ہونے سے حدیث کا صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔ اس میں اعمش مدلس ہیں اور انہوں نے عطاء سے اپنے سماع کا ذکر نہیں کیا۔ اور یہ بھی احتمال ہے کہ اس سند میں مذکور عطاء، خراسانی ہوں، یوں اعمش کی تدلیس تسویہ بن جائے گی، کیونکہ اس صورت میں انہوں نے عطاء اور سیدنا ابن عمر کے درمیان نافع کا واسطہ بھی گرا دیا ہے۔“ (التلخيص الحبير:19/3)

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
قال علي بن المديني: قال يحيی بن سعيد: قال سفيان وشعبة: لم يسمع الأعمش ھذا الحديث من ابراھيم التيمي، قال أبو عمر : ھذه شھادة عدلين إمامين علي الأعمش بالتدليس، وأنه كان يحدث عن من لقيه بما لم يسمع منه، وربما كان بينھما رجل أو رجلان، فلمثل ھذا وشبھه قال ابن معين وغيره في الأعمش : إنه مدلس.

”امام علی بن مدینی نے امام یحییٰ بن سعید قطان سے نقل کیا ہے کہ امام شعبہ اور سفیان نے فرمایا کہ اعمش نے یہ حدیث ابراہیم تيمی سے نہیں سنی۔ میں (ابن عبدالبر) کہتا ہوں کہ اعمش کے مدلس ہونے پر یہ دو عادل اماموں کی گواہی ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اعمش ان لوگوں سے اَن سنی روایات بیان کرتے تھے، جن سے ان کی ملاقات ہوئی ہوتی تھی۔ بسا اوقات ایسے لوگوں سے اعمش دو واسطے گرا کر بھی روایت کر لیتے تھے۔ اسی طرح کے حقائق کی بنا پر امام ابن معین وغیرہ نے اعمش کو مدلس قرار دیا ہے۔“ (التمھيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد:32/1)

تنبیہ:

(تاریخ طبری:98/4) اور حافظ ابن کثیر کی (البدایہ والنہایہ:71/7) میں ہے:
حتي أقبل بلال بن الحارث المزني، فاستأذن عليه، فقال : أنا رسول رسول الله إليك، يقول لك رسول الله.

”بلال بن حارث مزنی آئے، انہوں نے اجازت طلب کی اور کہا: میں آپ کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایلچی ہوں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے فرماتے ہیں۔۔۔“

یہ روایت بھی جھوٹ کا پلندا ہے، کیونکہ :
شعیببن ابراہیم رفاعی کوفی ”مجہول“ راوی ہے۔

اس کے بارے میں امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وشعيب بن إبراھيم ھذا، له أحاديث وأخبار، وھو ليس بذلك المعروف، ومقدار ما يروي من الحديث والأخبار ليست بالكثيره، وفيه بعض النكرة، لأن في أخباره وأحاديثه ما فيه تحامل علي السلف.

”اس شعیب بن ابراہیم نے کئی احادیث اور روایات بیان کی ہیں۔ یہ فن حدیث میں معروف نہیں۔ اس کی بیان کردہ احادیث و روایات زیادہ نہیں، پھر بھی ان میں کچھ نکارت موجود ہے، کیونکہ ان میں سلف صالحین کی اہانت ہے۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:7/5)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فيه جھالة اس میں جہالت ہے۔ (ميزان الاعتدال:275/2)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وفي ثقات ابن حبان (309/8) : شعيب بن ابراھيم من أھل الكوفة، يروي عن محد بن أبان البلخي (الجعفي) ، روي عنه يعقوب بن سفيان، (قلت) فيحتل أن يكون ھو، والظاھر، أنه غيره

”ثقات ابن حبان میں ہے کہ : شعیب بن ابراہیم کوفی، محمد بن ابان بلخی سے روایت کرتا ہے اور اس سے یعقوب بن سفیان سے روایت کیا ہے۔ (میں کہتا ہوں) ممکن ہے کہ یہ راوی وہی ہو، لیکن ظاہراً یہ کوئی اور راوی لگتا ہے۔“ (لسان الميزان:145/3)

سیف بن عمر راوی باتفاق محدثین ’’ضعیف، متروک، وضاع‘‘ ہے۔ اس کی روایت کا قطعاً کوئی اعتبار نہیں۔

اس کا استاذ سہل بن یوسف بن سہل بن مالک انصاری بھی ”مجہول“ ہے۔

اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
مجھول الحال. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (لسان الميزان:122/3)

حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس کی ایک روایت کو ”موضوع و منکر“ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
لا يعفرف. ”یہ مجہول الحال راوی ہے۔“ (الاستيعاب في معرفة الأصحاب:667/2)

ثابت ہوا کہ بعض الناس کا یہ کہنا کہ مذکورہ روایت میں خواب دیکھنے والا شخص، صحابی رسول سیدنا بلال بن حارث مزنی ہے، بالکل بےبنیاد ہے۔

دلیل نمبر ۲:

عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتے ہیں :
سمعت ابن عمر يتمثل بشعر أبي طالب: وأبيض يستسقي الغمام بوجھه ثمال اليتامي عصمة للأ رامل

”سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو میں نے ابوطالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا: وہ گورے رنگ والے، جن کے چہرے کے وسیلے سے بارش طلب کی جاتی ہے، یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔“ (صحیح البخاری:137/1،ح1008)

وقال عمر بن حمزة، حدثنا سالم، عن أبيه، ربما ذكرت قول الشاعر، وأنا أنظر إلي وجه النبي صلی الله عليه وسلم يستسقي، فما ينزل حتي يجيش كل ميزاب۔ وأبيض يستسقي الغمام بوجھه ثمال اليتامي عصمة للأ رامل

”عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے والد سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ ٔاقدس کو تکتا کہ آپ کے سفید رنگ کے رُخِ زیبا کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے، آپ یتیموں کے والی، بیواؤں کے سہارا ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔“ (صحیح البخاری:137/1،ح1008، تعليقا، سنن ابن ماجه:1272، مسند الإاما أحمد:93/2،ح:5673، السنن الكبريٰ للبيھقي:352/3، تعليق التعليق لابن حجر:389/2، وسنده حسن)

تبصرہ:

یہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا وسیلہ مراد ہے، جو کہ مشروع اور جائز ہے۔

شارحِ بخاری، علامہ ابن بطال رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قول عمر : اللھم ! إنا كنا نتوسل إليك بنبينا، وھو معني قول أبي طالب: وأبيض يستسقي الغمام بوجھه….

”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: اے اللہ !ہم تیری طرف تیرے نبی (کی دعا) کا وسیلہ لاتے تھے۔ ابوطالب کے اس قول کا بھی یہی مطلب ہے کہ وہ سفید رنگ والے جن کے چہرے کے ذریعے بارش طلب کی جاتی ہے۔۔۔“ (شرح صحیح البخاری:9/3)

یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث اور اس حدیث کا معنی و مفہوم ایک ہی ہے۔ ہم ثابت کر چکے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں وسیلے سے مراد دعا والا وسیلہ ہی ہے، لہٰذا اس حدیث سے بھی بالکل یہی مسئلہ ثابت ہوتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس روایت میں واضح الفاظ موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہتے اور جب تک بارش شروع نہ ہو جاتی، دعا ختم نہ فرماتے۔ بھلا اس سے ذات کا وسیلہ کیسے ثابت ہوا؟

شارحِ بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وأن ابن عمر أشار إلی قصة وقعت في الإسلام حضرھا ھو، لا مجرد ما دل عليه شعر أبي طالب، وقد علم من بقية لأحاديث أنه صلی الله عليه وسلم إنما استسقی إجابة لسؤال من سأله في ذلك

”اس حدیث میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے جس کا دورِ اسلام میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ فرمایا۔ انہوں نے صرف ابوطالب کے شعر کے مفہوم پر اعتماد کرتے ہوئے یہ بات نہیں کہہ دی۔ باقی احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کے لیے یہ دعا کچھ لوگوں کے مطالبے پر فرمائی تھی۔“(فتح الباري:495/2)

علامہ محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولم يرد في حديث ضعيف، فضلا عن الحسن أو الصحيح، أن الناس طلبوا السقيا من الله في حياته متوسلين به صلی الله عليه وسلم، من غير أن يفعل صلی الله عليه وسلم ما يفعل في الاستسقاء المشروع، من طلب السقيا والدعاء والصلاة وغيرھما، مما ثبت بالأحاديث الصحيحة، ومن يدعي وردوده فعليه الإثبات.

”کسی حسن یا صحیح حدیث میں تو کجا، کسی ضعیف حدیث میں بھی یہ بات مذکور نہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ مبارکہ میں لوگوں نے آپ کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کی ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح احادیث سے ثابت بارش طلب کرنے کے مشروع طریقے، یعنی دعا اور نماز وغیرہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیار کیا ہو۔ جو شخص ایسا دعویٰ کرتا ہے، اس کی دلیل اسی کے ذمے ہے۔“ (صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص:213)

تنبیہ :

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے مذکورہ شعر پڑھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس وقت ایک فیصلہ فرما رہے تھے۔ آپ نے یہ شعر سن کر فرمایا: اللہ کی قسم ! اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارکہ ہے۔ (مسند الإمام أحمد:7/1، مصنف ابن أبي شيبه:20/12، طبقات ابن سعد:198/3، مسند أبي بكر للمروزي:91/1 )

لیکن اس کی سند ’’ضعیف ‘‘ ہے کیونکہ اس کا راوی علی بن زید بن جدعان جمہور محدثین کرام کے نزدیک ’’ضعیف‘‘ ہے۔ نیز یہ ’’مختلط‘‘ بھی ہے۔

حافظ ہیشمی رحمہ اللہ کہتے ہیں : وضعفه الجمھور ”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔“ (مجمع الزوائد:209،206/8)

حافظ ابن عراقی رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں : ضعفه الجمھور (طرح التثريب:82/1)

علامہ بوصیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں : والجمھور علی تضعيفہ ”جمہور محدثین کرام اسے ضعیف کہتے ہیں۔“ (مصباح الزجاجة:84)

حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کہتے ہیں : وادعي عبدالحق أن الأكثر علی تضعيف علي بن زيد ”اور عبدالحق نے دعویٰ کیا ہے کہ اکثر محدثین علی بن زید کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔“ (البدر المنير:434/4)

ابوالحسن ابراہیم بن عمر بقاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ضعفه الجمھور ”اسے جمہور محدثین نے ضعیف کہا ہے۔“ (نظم الدررفي تناسب الآيات والسور:181/12)

علی بن زید بن جدعان کو امام احمد بن حنبل، امام یحییٰ بن معین، امام ابن عدی (الكامل:413/4)، امام ابو حاتم رازی اور ابوزرعہ رازی (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:187/6) وغیرہم نے ضعیف، لیس بالقوی کہا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف‘‘ ہی قرار دیا ہے۔ (تقريب التھذيب:4734)

دلیل نمبر ۳:

امیہ بن عبداللہ بن خالد بن اسید بیان کرتے ہیں :
كان رسول الله صلي الله عليه وسلم يستفتح بصعاليك المھاجرين المعج.

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تنگدست مہاجرین کے وسیلے سے فتح کی دعا کیا کرتے تھے۔ (المعجم الكبير للطبراني:292/1)

تبصرہ:

اس کی سند ’’ضعیف‘‘ ہے، کیونکہ :
اس کی سند متصل نہیں۔ امیہ بن عبداللہ تابعی ہے اور ڈائریکٹ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہا ہے۔

جیسا کہ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں :
لا تصح عندي صحبته، والحديث مرسل.

”میرے نزدیک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں، لہٰذا یہ روایت مرسل (منقطع) ہے۔“ (الاستيعاب في معرفة الأصحاب:38/1)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ليست له صحبة ولا رواية.

”اس نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات اور روایت نہیں کی۔“ (الإصابة:133/1)

امام ترمذی رحمہ اللہ (۲۰۰۔۲۷۹ھ) فرماتے ہیں :
والحديث إذا كان مرسلا، فإنه لا يصح عند أكثر أھل الحديث، قد ضعفه غير واحد منھم.

”مرسل حدیث اکثر محدثین کرام کے نزدیک صحیح نہیں ہوتی۔ بہت سے محدثین نے مرسل کو ضعیف قرار دیا ہے۔“ (العلل الصغير في آخر الجامع،ص:896،897،طبع دارالسلام)

اس میں ابو اسحاق سبیعی کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہ مل سکنے کی بنا پر یہ روایت ”مدلس“ بھی ہے، لہٰذا یہ دو وجہوں سے ”ضعیف“ ہے۔

دلیل نمبر ۴:

سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
أبغوني في ضعفاءكم، فإنكم إنما ترزقون وتنصرون بضعفائكم

’’مجھے اپنے کمزور لوگوں میں تلاش کرو۔ بلاشبہ تمہیں اپنے کمزوروں کی وجہ سے رزق دیا جاتا ہے اور ان ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے۔‘‘ (مسند احمد 198/5، سنن ابي داود 2594، سنن النسائي:3181، سنن الترمذي:1702، وسند صحيح)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو ’’حسن صحیح‘‘، امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ اور امام حاکم رحمه الله نے (105،104/2) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ کہا ہے۔

تبصرہ:

معاشرہ کے کمزور اور نادار لوگ جو صالحین ہوں، ان کی نیکی اور دعا کی وجہ سے معاشرہ میں آسودگی آتی ہے،

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
إنما ينصر الله ھذه الأمة بضعيفھا، بدعوتھم وصلاتھم وإخلاصھم.

’’اللہ تعالیٰ اس امت کی مدد ان کمزور لوگوں کی دعا، نماز اور ان کے اخلاص کی وجہ سے کرتا ہے۔‘‘ (سنن النسائي:3180، حلية الأولياء لأبي نعيم لأصبھاني:26/5، وسنده صحيح)

اس روایت گزشتہ ’’ضعیف‘‘ روایت کا معنی بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ اتنی وضاحت کے بعد بھی اگر کوئی شخص اس حدیث سے فوت شدگان کا توسل ثابت کرے تو اس کا یہ عمل دیانت علمی کے خلاف ہے۔ اس سے فوت شدگان کے توسل کا جواز ثابت کرنا شرعی نصوص کی تحریف ہے۔ اس سے تو زندہ لوگوں کی دعا کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے اور اسے اہل سنت و الجماعت اہل الحدیث جائز اور مشروع ہی سمجھتے ہیں۔

دلیل نمبر ۵:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے واپسی پر جعرانہ تشریف لائے۔ اس وقت قبیلہ ہوازن کے بچوں اور عورتوں میں سے چھ ہزار قیدی آپ کے ہمراہ تھے۔ اونٹوں اور بکریوں کا تو کوئی شمار ہی نہ تھا۔ ہوازن کا ایک وفد مشرف بہ اسلام ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے درخواست کی کہ ہم پر احسان فرمائیں۔ آپ نے فرمایا: قیدیوں اور اموال میں سے ایک چیز پسند کر لو۔ انہوں نے عرض کیا: ہمیں قیدی محبوب ہیں آپ نے فرمایا: جو قیدی میرے ہیں یا بنو عبدالمطلب کے ہیں، وہ تمہارے ہیں۔ باقی جو تقسیم ہو چکے ہیں، ان کے لیے یہ طریقہ اختیار کرو:
وإذا ما أنا صليت الظھر بالناس فقوموا، فقولوا: إنا نستشفع برسول الله إلي المسلمين، وبالمسلمين إلي رسول الله في أبنائنا ونسائنا، فسأعطيكم عند ذلك وأسأل لكم.

’’جب میں لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھا دوں تو تم کھڑے ہو کر کہنا: ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ مسلمانوں سے ہماری شفاعت (سفارش) فرمائیں اور مسلمان ہماری شفاعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کریں، ہمارے بیٹوں اور عورتوں کے حق میں، تو میں تمہیں اس وقت عطا کر دوں گا اور تمہاری سفارش کروں گا۔‘‘
انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اکثر صحابہ نے عرض کی : جو کچھ ہمارے پاس ہے، وہ آپ کا ہے۔ باقی صحابہ سے آپ نے وعدہ فرمایا کہ ہر قیدی کے بدلے مالِ غنیمت سے چھ اونٹنیاں دی جائیں گی۔ اس طرح ہوازن کو تمام قیدی واپس مل گئے۔ (سيرة ابن ھشام مع الروض الأنف:306/2، وسنده حسن)

تبصرہ:

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زندہ انسان سے سفارش کروائی جا سکتی ہے، سو اس سے اہل سنت و الجماعت انکاری نہیں۔ اس سے فوت شدگان کی شخصیات کا توسل کیسے ثابت ہوا؟ یہ تو ہماری دلیل ہے جو نادان دوست خود ہی پیش کیے جاتے ہیں۔

دلیل نمبر ۶:

سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک نابینا صحابی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض گزار ہوئے : آقا ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے شفا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر آپ چاہیں تو دعا کر دیتا ہوں اور اگر چاہیں تو صبر کر لیں، وہ آپ کے لیے بہتر ہو گا۔ انہوں نے عرض کیا : آپ میرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا ہی کر دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اچھی طرح سنوار کر وضو کرنے اور پھر دو رکعتیں پڑھ کر یہ دعا کرنے کا حکم دیا :
اللھم ! إني أسئلك وأتوجه إليك بنبي محمد نبي الرحمة، يا محمد ! إني أتوجه إلي ربي بك أن يكشف لي عن بصري، اللھم ! شفعه في وشفعني في نفسي۔

’’اے اللہ ! بےشک میں تجھ سے سوال کرتا ہوں۔ میں اپنے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری نظر لوٹا دے۔ اے اللہ ! تو میرے بارے میں اپنے نبی کی اور میری اپنی سفارش قبول فرما۔ جب وہ واپس لوٹے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی بینائی لوٹا دی تھی۔“ (مسند احمد : 138/4، سنن الترمذي : 3578، عمل اليوم والليلة للنسائي : 659، واللفظ له، سنن ابن ماجه : 1385، مسند عبد بن حميد : 379، وسنده حسن)

تبصره :

اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ’’حسن صحیح غریب“ اور امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (1219) نے ’’صحیح“ کہا ہے۔

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ابواسحاق نے کہا ہے کہ یہ حدیث ’’صحیح“ ہے۔

امام حاکم رحمہ اللہ (313/1) نے اس حدیث کو صحیح علی شرط الشیخین قرار دیا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے (دلائل النبوة : 167/6) نے اس کی سند کو ’’صحیح“ کہا ہے۔

بعض لوگوں نے اس حدیث سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے وسیلہ کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ استدلال باطل، بلکہ ابطل الاباطتل ہے کیونکہ حدیث میں مذکور ہے کہ اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کی تھی۔ جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو میں دعا کر دیتا ہوں، اگر دعا نہ کرائیں اور بیماری پر صبر کریں تو بہتر ہے، لیکن صحابی مذکور نے آپ کی دعا کو ترجیح دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں دعا و سفارش فرما دی۔ اس کو اچھی طرح وضو کرنے کا حکم دیا، پھر دو رکعت نماز ادا کرنے کو کہا اور انہیں دعا کے الفاظ بھی سکھا دئیے، انہوں نے ان الفاظ کے ساتھ اپنے حق میں دعا بھی کر دی اور کہا : ”اے اللہ ! تو میرے بارے میں اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خود میری دعا و سفارش قبول فرما۔“

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے وسیلہ کا ذکر تک نہیں بلکہ آپ کی حیات طیبہ میں آپ کی دعا و سفارش کا وسیلہ پیش کرنے کا ذکر ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (۶۶۱۔ ۷۲۸ ھ ) فرماتے ہیں :
وحديث الأعمی لا حجة لھم فيه، فإنه صريح في أنه إنما توسل بدعاء النبي صلی الله عليه وسلم وشفاعته.

’’نابینا صحابی والی حدیث میں ان لوگوں کی کوئی دلیل نہیں، کیونکہ اس میں یہ بات بڑی واضح ہے کہ صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور سفارش کا وسیلہ اختیار کیا تھا۔ (قاعدة جليلة في التوسل و الوسيلة، ص : 64)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں یا وفات کے بعد کسی صحابی یا تابعی سے آپ کی ذات کا وسیلہ پیش کرنا قطعاً ثابت نہیں۔ اس طرح کے کام کرنے والوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اس عمل پر کتاب و سنت سے دلیل پیش کریں۔

فائدہ : ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نابینا صحابی کو یہ دعا سکھائی :
اللھم ! فشفعني في نفسي، وشفع نبي في رد بصري

”اے اللہ ! میری بصارت واپس کرنے کے حوالے سے میری اور میرے نبی کی سفارش قبول فرما لے۔“
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
وإن كانت حاجة، فافعل مثل ذلك
’’اگر کوئی اور حاجت ہو تو اسی طرح کریں۔“ (تاريخ ابن أبي خيثمه، قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة لابن تيمية، ص : 102، مسند احمد : 138/4، مختصرا، وسنده حسن )

یہ روایت بالکل صریح ہے کہ نابینا صحابی کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا و سفارش کا وسیلہ اختیار کرنے کی ہدایت کی تھی، نہ کہ اپنی ذات کا۔ مراد یہ تھی کہ اگر کوئی اور پریشانی ہو تو میرے پاس آئیں اور دعا کرانے کے بعد اللہ تعالیٰ کو میری دعا کا وسیلہ دیں۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرما لے گا۔ یہ سلسلہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک محدود تھا، کیونکہ آپ زندگی میں ہی حاجت مندوں کے لیے دعا فرماتے کی تھے۔ آپ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد اللہ تعالیٰ کو آپ کا وسیلہ پیش نہیں کیا۔

دلیل نمبر ۷:

ایک شخص سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس اپنی ضرورت میں آیا کرتا تھا اور عثمان رضی اللہ عنہ (مشغولیت کی وجہ سے ) اس کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور اس کی ضرورت میں غور نہ فرماتے۔ وہ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے شکایت کی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : لوٹا لاؤ، وضو کرو، پھر مسجد جا کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر کہو :
اللھم ! إني أسئلك، وأتوجه إليك بنبينا محمد صلي الله عليه وسلم نبي الرحمة، يامحمد ! إني أتوجه إلي ربي، فيقضي حاجتي .

(اے اللہ ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور اپنے نبی رحمت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تیری طرف متوجہ کرتا ہوں۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میں آپ کو اپنے رب کی طرف (دعا کے لیے) متوجہ کرتا ہوں کہ وہ میری ضرورت کو پورا کر دے۔ ) پھر اپنی ضرورت کو اللہ کے سامنے رکھ دو، پھر میرے پاس آ جاؤ تاکہ میں تمہارے ساتھ چلوں۔ اس شخص کی ضرورت پوری ہوئی۔ سیدنا عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہی دعا ایک نابینا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی تو اس کی بینائی لوٹ آئی۔ (التاريخ الكبير للبخاري : 210/6، العلل لابن أبي حاتم الرازي : 190/2، المعجم الكبير للطبراني : 31، 30/9، ح : 8311، المعجم الصغير للطبراني : 184، 183/1، الدعاء للطبراني : 1287/2، 1288، ح : 1050، معرفة الصحابة لأبي نعيم لأصبھاني : 1959/4، 1960، ح : 4928)

تبصره :

اس کی سند ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ عبداللہ بن وہب مصری یہ روایت اپنے استاذ شبیب بن سعید حبطي (ثقہ ) سے کر رہے ہیں اور خود شبیب بن سعید اپنے استاذ روح بن القاسم سے روایت کر رہے ہیں۔

امام الجرح والتعدیل ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ولشبيب بن سعيد، نسخة الزھري عنده، عن يونس عن الزھري، وھي أحاديث مستقيمة، وحدث عنه ابن وھب بأحاديث مناكير .

”شبیب کے پاس امام زہری رحمہ اللہ کی روایات پر مشتمل ایک نسخہ ہے جو وہ یونس کے واسطے سے زہری سے بیان کرتے ہیں اور وہ مستقیم احادیث ہیں۔ تاہم ابن وہب نے اس سے منکر احادیث بیان کی ہیں۔“ (الكامل لابن عدي : 31/4)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لا باس بحديثه من رواية ابنه أحمد عنه، لا من رواية ابن وھب .

’’اس کی جو روایات اس کے بیٹے سے مروی ہیں، ان میں کوئی خرابی نہیں، البتہ ابن وہب سے اس کی جو روایات مروی ہیں، ان میں خرابی ہے۔“ (تقريب التھذيب : 2739)

نیز فرماتے ہیں :
وروي عنه ابن وھب أحاديث مناكير، فكأنه لما قدم مصر، حدث من حفظه، فغلط .

’’اس سے ابن وہب نے منکر احادیث بیان کی ہیں، گویا کہ جب یہ مصر آیا تو اس نے اپنے حافظے سے روایات بیان کیں اور غلطیاں کیں۔“ (ھدي الساري، ص : 409)

یہ روایت بھی شبیب بن سعید سے عبداللہ بن وہب مصری بیان کر رہے ہیں۔ یہ جرح مفسر ہے، لہٰذا یہ روایت ’’ضعیف“ اور ’’منکر“ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شبیب بن سعید جب مصر میں گیا تو وہاں اس نے اپنے حافظہ سے احادیث بیان کیں، جن میں سے وہ غلطی اور وہم کا شکار ہو گیا۔

اعتراض :

شبیب بن سعید ابوسعید البصری کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔

جواب : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۷۷۳۔ ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں :
أخرج البخاري من رواية ابنه (أحمد) عن يونس (بن يزيد الأيلي) أحاديث، لم يخرج من روايته عن غير يونس، ولا من رواية ابن وھب عنه شيئا …

”امام بخاری رحمہ اللہ نے ان کے بیٹے سے وہ روایات لی ہیں جو وہ اپنے والد سے یونس بن یزید ایلی کے واسطے سے بیان کرتا ہے۔ امام صاحب نے شبیب کی وہ روایات بیان نہیں کیں جو وہ یونس کے علاوہ کسی اور سے بیان کرتا ہے، نہ ہی ابن وہب سے ان کی کوئی روایت بخاری میں ہے۔“ (ھدي الساري، ص : 409)

حاصل کلام یہ ہے کہ شبیب بن سعید سے ان کے شاگرد عبداللہ بن وہب مصری بیان کریں تو روایت ’’منکر“ اور ’’ضعیف“ ہوتی ہے۔ زیر بحث روایت بھی عبداللہ بن وہب المصری بیان کر رہے ہیں، اس لیے یہ ”منکر“ اور ’’ضعیف“ ہے، لہٰذا امام طبرانی رحمہ اللہ کا اس کو ”صحیح“ کہنا صحیح نہ ہوا۔

تنبیہ ۱ :

عون بن عمارہ بصری نے شبیب بن سعید کی متابعت کر رکھی ہے۔ (المستدرك للحاك : 526/1، معرفة الصحابة لأبي نعيم الأصبھاني : 4928)

لیکن عون بن عمارہ بصری خود ’’ضعیف“ راوی ہے۔ (تقريب التھذيب لا بن حجر : 5224)
لہٰذا یہ متابعت مفید نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ عون بن عمارہ والی روایت میں زیر بحث الفاظ بھی موجود نہیں۔

تنبیہ ۲ :

دلائل النبوة للبيھقي (167/6) میں عبداللہ بن وہب مصری کی متابعت احمد بن شبیب نے کر رکھی ہے۔

لیکن اس کی سند میں ابومحمد بن عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن ریالی نامی راوی موجود ہے جس کے حالات نہیں مل سکے۔ لہٰذا یہ متابعت مفید نہیں۔ اسی طرح دلائل النبوة بیہقی (167/6) کی ایک اور روایت میں اسماعیل بن شبیب کی متابعت موجود ہے لیکن وہ خود ’’مجہول“ ہے۔ یوں یہ متابعت بھی کسی کام کی نہیں۔

دلیل نمبر ۸:

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی اطلاع ملی تو روتے ہوئے آئے اور چہرۂ انور سے کپڑا اٹھا کر عرض کیا :
ولو لا أن موتك كان اختيارا منك، لجدنا لحزنك بالنفوس، اذكرنا يا محمد ! عند ربك، ولنكن من بالك .

’’ (اے اللہ کے رسول ! ) اگر آپ کی موت آپ کی اپنی صوابدید پر واقع نہ ہوئی ہوتی تو ہم آپ کی جدائی کے غم میں اپنی جانیں کھو دیتے۔ اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ہمیں اپنے ربّ کے ہاں یاد کیجیے گا اور ہمارا خیال رکھیے گا۔ “ (تخريج أحاديث الإحياء للعراقي : 1855/1)

تبصره :

ہم اس کی سند پر مطلع نہیں ہو سکے،
البتہ حافظ عراقی نے اس کو امام ابن ابی الدنیا کی کتاب ’’العزاء“ کی طرف منسوب کر کے اس کی سند کو ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔
امام یحییٰ بن سعید قطان رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
انظروا إلي الإسناد، فإن صح الإسناد، وإلا فلا تغتر بالحديث إذا لم يصح الإسناد .

’’تم سند کو دیکھو۔ اگر سند صحیح ہو بہتر، بصورت ديگر حدیث کو دیکھ کر خوش نہیں ہونا چاہیے۔ “ (الجامع لأخلاق الراوي و آداب السامع للخطيب البغدادي : 102/2، رقم : 1301، وسنده صحيح)

دلیل نمبر ۹:

سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا انفلتت دابة أحدكم بأرض فلاة فليناد : يا عباد الله ! احبسوا علي، يا عباد الله ! احبسوا علي، فإن لله في الأرض حاضرا، سيحبسه عليكم.

’’جب تم میں سے کسی کی سواری جنگل بیابان میں چھوٹ جائے تو اس شخص کو یوں پکارنا چاہیے : اے اللہ کے بندو ! میری سواری کو پکڑا دو، اے اللہ کے بندو ! میری سواری کو پکڑا دو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے بندے (فرشتے) اس زمین میں ہوتے ہیں، وہ تمہیں (تمہاری سواری) پکڑا دیں گے۔ “ (المعجم الكبير للطبراني : 217/10، ح10518، واللفظ له، مسند أبي يعلي : 177/9، ح5269، عمل اليوم والليلة لابن السني : 509)

تبصره :

اس کی سند کئی وجوہ سے سخت ترین ’’ضعیف“ ہے :
معروف بن حسان ’’غیر معروف“ اور ’’مجہول“ ہے،

امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے ’’مجہول“ قرار دیا ہے۔ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم : 323/8)

امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اس راوی کو ’’منکر الحدیث“ کہا ہے۔ (الكامل في ضعفاء الرجال : 325/6)

حافظ ہیشمی رحمہ اللہ نے بھی اسے ’’ضعیف“ قرار دیا ہے۔ (مجمع الزوائد : 132/10)
اس کی توثیق میں ادنیٰ کلمہ بھی ثابت نہیں۔

اس میں قتادہ بن دعامہ تابعی ’’مدلس“ ہیں جو کہ عن سے بیان کر رہے ہیں، سماع کی تصریح ثابت نہیں۔

ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ (۶۷۳۔ ۷۴۷ھ) فرماتے ہیں :
وھو حجة بالإجماع إذا بين السماع، فإنه مدلس معروف بذلك .

’’قتادہ جب سماع کی صراحت کریں تو بالاجماع حجت ہیں۔ وہ معروف مدلس ہیں۔ “ (سير أعلام النبلاء : 270/5)

سعید بن ابی عروبہ بھی ’’مدلس“ اور ’’مختلط“ ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حديث غريب أخرجه ابن السني والطبراني، وفي السند انقطاع بين ابن بريدة وابن مسعود .
’’یہ غریب حدیث ہے جسے ابن السنی اور طبرانی نے بیان کیا ہے، اس کی سند میں ابن بریدہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے۔ “ (شرح الاذكار لابن علان : 150/5)

ابن السنی کی سند میں ابن بریدہ اور سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان عن أبیہ کا واسطہ ہے، یہ ناسخ کی غلطی ہے، کیونکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سند کو ’’منقطع“ قرار دیا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ یہی سند ابویعلیٰ کی بھی ہے، لیکن مسند ابی یعلیٰ میں بھی یہ واسطہ مذکور نہیں، لہٰذا اس کا ’’منقطع“ ہونا واضح ہے۔

علامہ بوصیری رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں :
وسنده ضعيف لضعف معروف ابن حسان.
’’اس کی سند معروف بن حسان کے ضعیف ہونے کی بنا پر ضعیف ہے۔ “ (اتحاف الخيره المھرة : 500/7)

حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وسنده ضعيف، لكن قال النووي : إنه جربه ھو وبعض أكابر شيوخه.

’’اس کی سند تو ضعیف ہے، لیکن حافظ نووی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اور ان کے بعض اکابر شیوخ نے اس کا تجربہ کیا ہے۔ “ (الابتھاج بأذكار المسافر والحاج للسخاوي، ص:39)

اس کے تعاقب میں ناصر السنۃ، محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
العبادات لا تؤخذ من التجارب، سيما ما كان منھا في أر غيي كھذا الحديث، فلا يجوز الميل الي تصحيحه، كيف وقد تمسك به بعضھم في جواز الاستغاثه بالموتي عند الشدائد، وھو شرك خالص، والله المستعان !

’’عبادات تجربوں سے اخذ نہیں کی جا سکتیں، خصوصاً ایسی عبادات جو کسی غیبی امر کے بارے میں ہوں، جیسا کہ یہ حدیث ہے، لہٰذا تجربے کو بنیاد بنا کر اس کو صحیح قرار دینے کی طرف میلان ظاہر کرنا جائز نہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اس سے مصیبتوں کے وقت مردوں سے مدد مانگنے پر بھی استدلال کیا ہے۔ یہ خالص شرک ہے، اللہ محفوظ فرمائے ! “ (سلسلة الأحاديث الضعيفة : 108/2، 109، ح655)

مذکورہ روایت کا ایک شاہد بھی ہے۔

اس میں ابان بن صالح بیان کرتے ہیں کہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا نفرت دابة أحدكم أو بعيره بفلاة من الأرض، لا يري بھا أحد، فليقل : أعينوني عبادالله ! فإنه يستعان.

’’جب تم میں سے کسی کا جانور یا اونٹ صحرا میں بھاگ جائے اور وہ دکھائی نہ دے پا رہا ہو تو اس شخص کو کہنا چاہیے : اے اللہ بندو ! میری مدد کرو۔ یوں اس کی مدد کی جائے گی۔ “ (مصنف ابن أبي شيبه : 132/7)

لیکن اس کی سند بھی ’’ضعیف“ ہے، کیونکہ :
یہ منقطع بلکہ ’’معضل“ (سخت منقطع ) روایت ہے۔ ایسی روایت قابل اعتبار نہیں ہوتی۔
محمد بن اسحاق راوی ’’مدلس“ ہے، سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔

تنبیہ :

مصنف ابن أبي شيبه (103/6) کی سند میں محمد بن اسحاق ’’مدلس“ ہیں، سماع کی تصریح کہیں نہیں مل سکی۔ نیز ابان بن صالح صغار تابعین میں سے ہیں اور ڈائریکٹ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں، لہٰذا یہ سند ’’مرسل“ ہونے کی بنا پر بھی ’’ضعیف“ ہے۔

دلیل نمبر ۱۰:

عتبہ بن غزوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا أضل أحدكم شيئا أو أراد أحدكم عونا، وھو بأرض ليس بھا أنيس، فليقل : يا عباد الله أغيثوني، يا عبادالله أغيثوني، فإن لله عبادا لا نراھم، وقد جرب ذلك .

’’جب تم میں سے کسی کی کوئی چیز گم ہو جائے یا تم میں سے کسی کو مدد چاہیے ہو اور وہ ایسی جگہ میں ہو جہاں اس کا کوئی مددگار نہ ہو، تو اسے یہ کہنا چاہیے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو، اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔ يقيناً اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں سکتے اور یہ تجربہ شدہ بات ہے۔“ (المعجم الكبير للطبراني 118/17، 117)

تبصره :

یہ روایت ’’ضعیف“ ہے۔ کیونکہ :
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
إن زيد بن علي لم يدرك عتبة .

’’يقيناً زید بن علی نے عتبہ کا زمانہ نہیں پایا۔“ (مجمع الزوائد:132/10)

حافظ مناوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
سنده منقطع.

’’اس کی سند منقطع ہے۔“ (فيض القدير:307/1)

اس کی سند میں شریک بن عبداللہ قاضی کی ’’تدلیس“ اور اس کا ’’اختلاط“ بھی ہے۔ ان کے بیٹے عبدالرحمٰن بن شریک کا ان سے ’’اختلاط“ سے پہلے احادیث روایت کرنا ثابت نہیں۔

تنبیہ :

مذکورہ دونوں احادیث بلحاظِ سند ’’ضعیف“ ہیں۔
البتہ اگر ان میں مذکور ’’عباداللہ“ سے مراد فرشتے لیے جائیں تو صحیح حدیث سے ان کی تائید ہو جائے گی، جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن لله ملائكة في الأرض سوی الحفظة، يكتبون ا سقط من ورق الشجر، فإذا أصاب أحدكم عرجة بأرض فلاة، فليناد : أعينوا عبادالله.

’’زمین میں حفاظت والے فرشتوں کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہوتے ہیں جو درختوں کے گرنے والے پتوں کو لکھتے ہیں۔ جب تم میں سے کسی کو ویرانے میں چلتے ہوئے پاؤں میں موچ آ جائے تو وہ کہے : اللہ کے بندو ! میری مدد کرو۔“ (كشف الأستار عن زوائد البزار:3128/1، وسنده حسن)

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
رجاله ثقات. ’’اس کے سارے راوی ثقہ ہیں۔“ (مجمع الزوائد:32/10)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ھذا حديث حسن الإسناد، غريب جدا .

’’اس کی سند حسن ہے لیکن یہ انوکھی روایت ہے۔“ (مختصر زوائد البزار:120/2، شرح ابن علان علي الأذكار:15/5)

علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنما هم الملائكة، فلا يجوز أن يلحق بهم المسلمون من الجن أو الإنس ممن يسمونهم برجال الغيب من الأولياء والصالحين، سواء كانوا أحياء أو أمواتا، فإن الاستغاثة بهم وطلب العون منهم شرك بين لأنهم لا يسمعون الدعاء، ولوسمعوا لما استطاعوا الاستجابة وتحقيق الرغبة، وهذا صريح في آيات كثيرة، منها قوله تبارك وتعالى : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ.﴾ (فاطر 13 – 14)
’’اس حدیث میں اللہ کے بندوں سے مراد صرف فرشتے ہیں۔ ان کے ساتھ مسلمان جنوں اور ان اولیاء اور صالحین کو ملانا جنہیں غیبی لوگ کہا جاتا ہے، جائز نہیں، خواہ وہ زندہ ہوں یا فوت ہو گئے ہوں۔ ان جنوں اور انسانوں سے مدد طلب کرنا واضح شرک ہے کیونکہ وہ پکارنے والے کی پکار کو سن نہیں سکتے۔ اگر وہ سن بھی لیں تو اس کا جواب دینے یا حاجت روائی کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس پر شاہد ہیں۔ ایک مقام پر فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ مَا يَمْلِكُونَ مِن قِطْمِيرٍ ٭ إِن تَدْعُوهُمْ لَا يَسْمَعُوا دُعَاءَكُمْ وَلَوْ سَمِعُوا مَا اسْتَجَابُوا لَكُمْ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يَكْفُرُونَ بِشِرْكِكُمْ وَلَا يُنَبِّئُكَ مِثْلُ خَبِيرٍ﴾ (فاطر 13 – 14) ”اور جن لوگوں کو یہ مشرکین اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ کھجور کی گٹھلی کے باریک غلاف کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمہاری پکار کو سن نہیں سکتے اور اگر وہ سن بھی لیں تو تمہاری مراد پوری نہیں کر سکتے اور قیامت کے روز یہ لوگ تمہارے شرک سے لاعلمی کا اظہار کریں گے اور آپ کو (اللہ) خبیر کی طرح کوئی خبر نہیں دے سکتا۔“ (سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرھا السيء في الأمة:111/2، ح:655)

یعنی اس حدیث میں ماتحت الاسباب مدد مانگنے کا بیان ہے، کیونکہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے وہاں ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے نیک بندوں کی اعانت پر مامور کر رکھا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اہل سنت و الجماعت اس پکار کو شرک کہتے ہیں جس میں کسی غائب یا فوت شدہ کو پکارا جائے یا کسی زندہ سے وہ چیز مانگی جائے جس پر وہ سرے سے قدرت ہی نہیں رکھتا۔ اسے مافوق الاسباب استعانت کہا جاتا ہے جو کہ ممنوع و حرام اور شرک ہے۔

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فضللت الطريق في حجة وكنت ما شيا، فجعلت أقول : ياعباد الله ! دلونا علي الطريق، فلم أزل أقول ذلك، حتي وقعت الطريق .

’’ایک حج کے سفر میں مجھے راستہ بھول گیا۔ میں پیدل تھا، میں نے یہ کہنا شروع کیا : اللہ کے بندو ! مجھے راستہ بتاؤ۔ میں مسلسل کہتا رہا حتی کہ صحیح راستے پر آ گیا۔“ (مسائل الإمام أحمد لابنه عبدالله، ص:245)

علامہ نووی رحمہ اللہ نے اپنے بعض اکابر شیوخ کا ’’عباداللہ“ کے بارے میں جو تجربہ بیان کیا ہے، ظن غالب ہے کہ وہ فرشتوں ہی کے بارے میں ہو گا۔

دلیل نمبر ۱۱:

سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو خانے میں تین مرتبہ لبیک کہا اور تین مرتبہ نصرت (تیری اور تین مدد کی گئی ) کہا۔ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول ! میں نے آپ کو تین مرتبہ لبیک اور تین مرتبہ نصرت فرماتے ہوئے سنا ہے، گویا آپ کسی انسان سے گفتگو کر رہے ہوں۔ کیا وضو خانے میں کوئی آپ کے ساتھ تھا؟ آپ نے فرمایا : یہ بنو کعب کا رجز خواں مجھے پکار رہا تھا اور اس کا کہنا ہے کہ قریش نے ان کے خلاف بنو بکر کی مدد کی ہے۔ تین دن کے بعد آپ نے صحابہ کرام کو صبح کی نماز پڑھائی تو میں نے سنا کہ رجز خواں یہ اشعار پیش کر رہا تھا“ (المعجم الكبير للطبراني: 433/23، 434، ح:1052،، المعجم الصغير للطبراني: 167/2، ح:968، المخلصيات:1331، دلائل النبوة لابي القاسم الؤصبھاني:59)

تبصرہ :

اس کی سند ’’ ضعیف“ ہے، کیونکہ :
اس کے ایک راوی محمد بن نضلہ کے حالات نہیں مل سکے۔

امام شافعی رحمہ اللہ (۱۵۰۔۲۰۴ھ) فرماتے ہیں :
لا نقبل خبر من جھلناه، وكذلك لا نقبل خبر من لم نعرفه بالصدق وعمل الخير.

”ہم مجہول (العین) راوی کی روایت قبول نہیں کرتے۔ اسی طرح اس (مجہول الحال ) راوی کی روایت بھی ہمارے ہاں ناقابل قبول ہے، جس کی سچائی اور نیکی ہمیں معلوم نہیں۔“ (اختلاف الحديث،ص:45)

تنبیہ :

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس روایت میں یحییٰ بن سلیمان بن نضلہ راوی ’’ضعیف“ ہے۔ (مجمع الزوائد:164/6)
لیکن راجح یہی ہے کہ یحییٰ بن سلیمان بن نضلہ راوی ’’حسن الحدیث“ ہے، البتہ اس کے حفظ میں کلام ضرور ہے۔ واللہ اعلم

دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت میں وسیلہ بالذوات والاموات کا کوئی ذکر نہیں۔

دلیل نمبر ۱۲:

سیدنا عمر بن خطاب کے دورِ خلافت ۱۸ ہجری میں قحط سالی واقع ہوئی۔ اس سال کو عام الرمادہ کہتے ہیں۔ بنو مزینہ نے اپنے ایک آدمی (بلال ) سے کہا کہ ہم مرے جا رہے ہیں، کوئی بکری ذبح کیجیے۔ اس نے کہا : بکریوں میں کچھ نہیں رہا۔ اصرار بڑھا تو انہوں نے بکری ذبح کر دی۔ جب اس کی کھال اتاری تو نیچے سے سرخ ہڈی نکلی۔ یہ دیکھ کر اس آدمی نے یا محمدا کہا۔ رات ہوئی تو اس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرما رہے ہیں : تمہیں زندگی مبارک ہو۔ عمر کے پاس جاؤ، اسے میری طرف سے سلام کہو اور یہ بھی کہو کہ اے عمر ! تم تو وعدوں کو خوب نبھانے والے ہو، میرا وعدہ یاد کرو۔ عمر ! دانائی سے کام لو۔ قبیلہ بنو مزینہ کا یہ شخص بیدار ہونے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دروازے پر آیا اور دربان سے کہا : اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کے لیے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اجازت طلب کرو۔ دربان نے آ کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی تو وہ گھبرا گئے اور فرمایا : اسے میرے پاس لاؤ۔ جب اس شخص کو اندر بلایا گیا تو اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں میں اعلان کرایا، منبر پر جلوہ افروز ہوئے اور فرمایا : تمہیں اس ذات کی قسم جس عمر نے تمہیں اسلام کی توفیق بخشی ! کیا تم نے مجھ میں کوئی کوتاہی دیکھی ہے؟ لوگ کہنے لگے : نہیں، لیکن ہوا کیا؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو بلال کے خواب والا واقعہ سنایا۔ لوگ سمجھ گئے لیکن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نہ سمجھ سکے۔ لوگوں نے انہیں بتایا کہ آپ نے نماز استسقاء کی ادائیگی میں تاخیر کی ہے۔ ہمارے ساتھ نماز استسقاء ادا کریں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اعلان سے لوگوں کو جمع کیا، کھڑے ہو کر مختصر خطبہ دیا، پھر مختصر دو رکعتیں ادا کیں، پھر بارش کے لیے دعا فرمائی“ (تاریخ طبری : 99/4، البدایہ والنھایہ لا بن كثير : 91/7)

تبصرہ :

یہ روایت موضوع (من گھڑت ) ہے، کیونکہ :

سیف بن عمرالکوفی راوی بالاتفاق ’’ضعیف ومتروک“ ہے۔

اس کا استاذ مبشر بن فضیل ’’مجہول“ ہے۔

امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
مجھول بالنقل، إسناده لا يصح .

”یہ شخص روایت حدیث میں مجہول ہے، اس حدیث کی سند صحیح نہیں۔ “ (الضعفاء الكبير : 236/4 )

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لايدري من ھو؟

”نہ معلوم یہ کون ہے؟“ (ميزان الاعتدال : 434/3)

اس کے راوی جبیر بن صخر کی توثیق مطلوب ہے۔

شعیب بن ابراہیم کوفی ’’مجہول“ ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کو اکثر حنفی حضرات ہی اپنی دلیل میں پیش کرتے ہیں، حالانکہ ان کی پیش کردہ اس من گھڑت روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نماز استسقاء پڑھنے کا حکم دیا گیا بلکہ اسے دانائی و حکمت بتایا گیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس حکم نبوی کے مطابق باجماعت نماز استسقاء کی ادائیگی بھی کی۔ جبکہ حنفی حضرات کے مقلد امام ابوحنیفہ نماز استسقاء کو مسنون نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب ’’ہدایہ“ میں امام ابوحنیفہ کا قول یوں نقل کیا گیا ہے : ليس في الاستسقاء صلاة مسنونة في جماعة ….. ورسول الله استسقي، ولم تروعنه الصلاة . ”استسقاء میں باجماعت نماز پڑھناسنت نبوی نہیں۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش طلب کی تھی لیکن آپ سے اس موقع پر نماز پڑھنا مروی نہیں۔ “ (الھداية في شرح بداية المبتدي، كتاب الصلاة، باب الاستسقاء : 176/1)

حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باجماعت نماز استسقاء ادا کرنے کے بارے میں احادیث معروف ہیں۔ کتب حدیث میں کثرت کے ساتھ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز استسقاء اور اس کے طریقے کے بارے میں احادیث موجود ہیں۔ صرف صحاحِ ستہ سے چند حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں : (صحیح البخاری : 1012، سنن ابي داود 1161، سنن النسائي : 1505، سنن الترمذي : 556، سنن ابن ماجه : 1266)

فوت شدگان سے توسل والے من گھڑت عقیدے پر ایک من گھڑت روایت نے حنفی بھائیوں کو بھلا کیا فائدہ دیا؟ صرف یہ کہ باجماعت نماز استسقاء ان کے گلے پڑ گئی ! ! !

دلیل نمبر ۱۳:

جنگ یمامہ میں مسیلمہ کذاب کے ساتھ فوج کی تعداد ساٹھ ہزار تھی، جبکہ مسلمانوں کی تعداد کم تھی۔ مقابلہ بہت شدید تھا۔ ایک وقت نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ مسلمان مجاہدین کے پاؤں اکھڑنے لگے۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار تھے۔ انہوں نے یہ حالت دیکھی تو : ونادي بشعارھم يومئذ، وكان شعارھم يومئذ: يا محمداه! ”انہوں نے مسلمانوں کا نعرہ بلند کیا۔ اس دن مسلمانوں کا نعرہ یا محمداہ تھا۔“ (تاریخ طبری:181/2، البدایہ والنھایہ لا بن كثير:324/6)

تبصرہ:

یہ روایت موضوع (من گھڑت ) ہے، کیونکہ :
(1) اس میں سیف بن عمر کوفی راوی بالاتفاق ’’ضعیف و متروک“ موجود ہے۔
(2) شعیب بن ابراہیم کوفی ’’مجہول“ ہے۔ كما تمر
(3) ضحاک بن یربوع کی توثیق نہیں ملی۔
(4) اس کا باپ یربوع کیسا ہے؟ معلوم نہیں ہو سکا۔
(5) رجل من سحیم کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔

دلیل نمبر ۱۴:

سیدنا ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب بن ضمرہ رضی اللہ عنہ کو ایک ہزار افراد کے ہمراہ حلب کا جائزہ لینے کے لیے روانہ کیا۔ جب وہ حلب کے قریب پہنچے تو یوقنا پانچ ہزار افراد کے ساتھ حملہ آور ہوا۔ مسلمان جم کر لڑنے لگے۔ اتنے میں پیچھے چھپے ہوئے پانچ ہزار افراد کے لشکر نے حملہ کر دیا۔ اس خطرناک صورت حال نے مسلمانوں کو بےحد پریشان کر دیا۔ سیدنا کعب بن ضمرہ رضی اللہ عنہ نے جھنڈا تھامے ہوئے بلند آواز سے پکارا : يا محمد، يا محمد، يا نصر الله، انزل! ’’اےمحمد ! اےمحمد ! اے اللہ کی مدد، اتر آ۔“ ( فتوح الشام لمحمد بن عمر الواقدي:196/1،طبع مصر:1394)

تبصره:

یہ روایت سخت ترین ’’ضعیف“ ہے،
اس کا راوی محمد بن عمرالواقدی جمہور کے نزدیک ’’ضعیف، متروک اور کذاب“ ہے۔ اس کے بارے میں :

حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ضعفه الجمھور.
’’اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (مجمع الزوائد:255/3)

علامہ ابن ملقن رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقد ضعفه الجمھور.

’’اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“ (البدر المنير في تخريج الأحاديث والأثار الواقعة في الشرح الكبير:324/5)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک“ کہا ہے۔ (تقريب التھذيب:6175)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كتب الواقدي كذب.

’’واقدی کی کتابیں جھوٹ کا پلندا ہیں۔“ (الجرح و التعديل لابن أبي حاتم:21/8)

امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إنه عندي ممن يضع الحديث.

’’میرے نزدیک یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا ہے۔“ (الضعفاء الكبير للعقيلي:108/4، وسنده صحيح)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اسے ’’کذاب“ قرار دیا ہے۔ (الضعفاء الكبير للعقيلي:108/4، وسنده صحيح)

امام بخاری، امام ابو زرعہ، امام نسائی اور امام عقیلی رحمہم اللہ نے اسے ’’ متروک الحدیث“ کہا ہے، امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ اور جمہور نے ’’ضعیف“ کہا ہے۔

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
يروي أحاديث غير محفوظة والبلاء منه، ومتون أخبار الواقدي غير محفوظة، وھو بين الضعف.

”یہ غیر محفوظ احادیث بیان کرتا ہے اور یہ مصیبت اسی کی طرف سے ہے۔ واقدی کی احادیث کے متون غیر محفوظ ہیں۔ اس کے ضعیف ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:243/6 )

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
والواقدي عنه أئمة أھل النقل ذاھب الحديث.

’’واقدی ائمہ محدثین کے ہاں ضعیف راوی ہے۔“ (تاريخ بغداد :37/1 )

دلیل نمبر ۱۵:

سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بہن نے کہا : اے بہت ہی تعریف کیے ہوئے ! امداد، امداد. اللہ تعالیٰ آپ پر رحمتیں نازل فرمائے اور آسمانی فرشتے دور بھیجیں۔ حسین میدان میں ہیں، خون میں نہائے ہوئے، اعضاء کٹے ہوئے۔ یامحمد ! امداد. آپ کی بیٹیاں حراست میں ہیں۔ آپ کی اولاد شہید کر دی گئی ہے۔ باد صبا ان پر مٹی اڑا رہی ہے۔ ( البدایہ والنھایہ لا بن كثير:193/8)

تبصرہ:

اس کی سند باطل اور جھوٹی ہے، کیونکہ :
(1) اس میں سفیان ثوری کی تدلیس ہے۔ سماع کی تصریح نہیں ملی۔
(2) مخبر (سند میں خبر دینے والا) نامعلوم ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کسی مجہول اور کذاب رافضی کی کارستانی ہے، جو بعض لوگوں کے ہاتھ لگ گئی ہے اور وہ اسے دین بنائے بیٹھے ہیں۔

دلیل نمبر 16:
ہیثم بن عدی کہتے ہیں کہ بنو عامر نے بصرہ میں اپنے جانور کھیتی میں چرائے۔ انہیں طلب کرنے کے لیے ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ بھیجے گئے ۔ بنو عامر نے بلند آواز سے اپنی قوم آلِ عامر کو بلایا تو نابغہ جعدی اپنے رشتہ داروں کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے ۔ انہیں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس لایا گیا۔ انہوں نے پوچھا: تم کیوں نکلے ہو؟ انہوں نے کہا: میں نے اپنی قوم کی پکار سنی تھی۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انہیں تازیانے لگائے۔ اس پر نابغہ جعدی نے کہا:
فان تك لابن عفان امينا فلم يبعث بك البر الامينا وياقبر النبى وصاحبيه الا يا غوثنا لو تسمعونا
”اگر تو عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا امین ہے تو انہوں نے تجھے احسان کرنے والا امین بنا کر نہیں بھیجا۔
اے نبی اور آپ کے دو صاحبوں کی قبر ! اے ہمارے فریاد رس! کاش آپ ہماری فریاد سن لیں ۔“
[الاستبعاب: 586/3]
تبصره:
یہ روایت موضوع (جھوٹ کا پلندا) ہے۔ اس کا راوی ہیثم بن عدی بالاتفاق ”کذاب“ اور ”متروک الحدیث“ ہے۔
دلیل نمبر 17:
عبد الرحمٰن بن سعد بیان کرتے ہیں:
كنت عند ابن عمر رضي الله عنهما ، فخدرت رجله ، فقلت: يا ابا عبد الرحمن ! مالرجلك؟ قال: اجتمع عصبها من هاهنا ، فقلت: ادع احب الناس اليك ، فقال: يا محمد ! فانبسطت
”میں سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ آپ کا پاؤں سُن ہو گیا۔ میں نے عرض کی: اے ابو عبد الرحمن ! آپ کے پاؤں کو کیا ہو گیا ہے؟ فرمایا: یہاں سے میرے پٹھے کھینچ گئے ہیں۔ میں نے عرض کی: تمام لوگوں میں سے جو ہستی آپ کو زیادہ محبوب ہے ، اسے یاد کریں۔ آپ نے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کہا ۔ اسی وقت ان کے پٹھے کھل گئے ۔“
[الأدب المفرد للبخاري: 924 ، مسند على بن الجعد: 2539 ، عمل اليوم والليلة لابن السني: 173 ، طبقات ابن سعد: 154/4 ، تاريخ ابن معين: 2953]
تبصره:
اس کی سند ”ضعیف“ ہے۔ اس کی سند کا دارو مدار ابو اسحاق سبیعی پر ہے جو کہ ”مدلس“ اور ”مختلط“ ہیں۔ مسلم اصول ہے کہ ثقہ مدلس جب بخاری و مسلم کے علاوہ ”عن“ یا ”قال“ سے بیان کرے تو راویت ”ضعیف“ ہوتی ہے ، تا آنکہ وہ سماع کی تصریح نہ کرے۔ اس روایت کی صحت کے مدعی پر سماع کی تصریح پیش کرنا لازم ہے۔
الادب المفرد کی سند میں سفیان ثوری رحمہ اللہ ”مدلس“ ہیں، جو کہ ”عن“ سے بیان کر رہے ہیں۔
[عمل اليوم والليلته: 169] میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کی ابوبکر بن عیاش 171 ، اسرائیل بن یونس اور 173 زہیر بن معاویہ نے متابت کر رکھی ہے۔ لیکن کسی روایت میں ابو اسحاق نے سماع کی تصریح نہیں کی۔ لٰہذا یہ روایت ابو اسحاق سبیعی کی تدلیس کی وجہ سے ”ضعیف“ ہے۔ نہ معلوم عقیدہ میں خبرِ واحد کو حجت نہ مانے والے اسے سینے سے کیوں لگائے بیٹھے ہیں؟
فائده:
امامِ بریلویت احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
”حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کو نام پاک لے کر ندا کرنی ہمارے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔“
[روحوں كي دنيا ، از احمد رضا خان ص: 245]
نیز دیکھیں: [ ”جاء الحق“ از احمد يار خان نعيمي بريلوي: 1 /173 ، شانِ حبيب الرحمن از نعيمي: 136]
یوں یہ روایت بریلوی بھائیوں کے لیے چنداں مفید نہیں، کیونکہ اس سے صحیح ماننے سے لازم آئے گا کہ معاذ الله سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ایک غلط کام کر رہے تھے!!!
دلیل نمبر 18:
مجاہد رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں:
خدرت رجل رجل عند ابن عباس فقال ابن عباس اذكر احب الناس اليك فقال محمد صلى الله عليه وسلم ، فذهب خدره
”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے کسی شخص کی ٹانگ سن ہو گئی تو انہوں نے اس سے فرمایا: لوگوں میں سے جو تمہیں زیادہ محبوب ہے، اسے یاد کرو ۔ اس شخص نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ یہ کہنا تھا کہ اس کے پاؤں کا سُن ہو جانا جاتا رہا۔“
[عمل اليوم والليلة لا بن السني: 170]
تبصرہ:
یہ موضوع (من گھڑت) روایت ہے۔ اس کی سند میں غیاث بن ابراہیم نخعی بالا اتفاق کذاب (پرلے درجے کا جھوٹا ) ، خبیث اور وضاع (جھوٹی حدیثیں گھڑنے والا) ہے۔
دلیل نمبر 19:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: جو اپنے گھر سے نماز کے لیے نکلے اور یہ دعا پڑھے تو اللہ تعالیٰ اپنے چہرے کے ساتھ اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اس کے لیے ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے ہیں:
اللهم إني أسألك بحق السائلين عليك وأسألك بحق ممشاي هذا
”اے اللہ ! میں دعا کرنے والوں کا جو آپ پر حق ہے، اس کے طفیل اور اپنے اس چلنے کے طفیل سوال کرتا ہوں ۔“
[مسند أحمد: 21/3 ، سنن ابن ماجه: 778]
تبصره:
اس کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے۔
حافظ منذری رحمہ اللہ: (581-656 ھ) فرماتے ہیں:
اسناد فيه مقال
”اس کی سند میں کلام ہے ۔ “
[الترغيب والترهيب: 2487]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728 ھ ) فرماتے ہیں:
وهذا الحديث هو من رواية عطية العوفي عن أبى سعيد، وهو ضعيف بإجماع أهل العلم ، وقد روي من طريق آخر وهو ضعيف أيضاً،
”یہ حدیث عطیہ عوفی نے سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے اور عطیہ با تفاق اہل علم ”ضعیف“ ہے ۔ اس کی ایک اور سند بھی موجود ہے لیکن وہ بھی ”ضعیف“ ہے۔“
[قاعدة جليلة فى التوسل والوسيلة ، ص: 215]
علامہ مغلطا ئی حنفی (689 – 782 ھ ) کہتے ہیں:
هذا حديث اسناده ضعيف .
”اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔“
[شرح ابن ماجه: 1294/1]
بوصیری (762-840 ھ ) کہتے ہیں:
هذا اسناده ضعيف .
”اس کی سند ضعیف ہے۔“
[اتحاف الخيرة المهرة: 32/2 ، ح: 979]
لٰہذا حافظ عراقی [تخريج أحاديث الإحياء: 1 /384] کا اس کی سند کو ”حسن“ کہنا اور بعض کا اس حدیث کو ”حسن“ قرار دینا صحیح نہیں۔
اس کا راوی عطیہ بن سعد عوفی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے ، نیز ”مدلس“ بھی ہے،
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعيف عبد الجمهور
”جمہور کے نزدیک یہ رادی ضعیف ہے۔“
[تهذيب الأسماء والمغات: 48/1]
حافظ عراقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعفه الجمهور
”اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے ۔“
[طرح التثريب لابن العراقي: 42/3]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والاكثر على تضعفيه
”اکثر محد ثین کرام اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔“
[مجمع الزوائد: 412/10]
حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ اسے ”ضعیف“ قرار دے کر لکھتے ہیں:
والجمهور على تضعيفه
”جمہور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔“
[البدر المنير فى تخريج الاحاديث والاچار الواقعة فى الشرح الكبير: 463/7]
علامہ عینی حنفی (762-855 ھ ) لکھتے ہیں:
ضعفه الجمهور
”اسے جمہور محدثین کرام نے ضعیف قرار دیا ہے۔“
[عمدة القاري: 250/6]
علامہ شرف الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ (م بعد: 1910 ء ) لکھتے ہیں:
عطية ضعفه الجمهور
”عطیہ کو جمہور نے ضعیف کہا ہے۔ “
[عون المعبود على سنن أبى داود: 336/3]
امام ہشیم بن بشیر واسطی کے بارے میں ہے:
وكان هشيم يتكلم فيه
”آپ عطیہ پر جرح کرتے تھے ۔“
[التاريخ الصغير للبخاري: 303/1 ، وسنده صحيح]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف الحديث
”اس کی بیان کردہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔“
[كتاب العلل ومعرفة الرحمال: 1306]
امام ابو زرعہ الرازی نے اسے لين کہا ہے اور امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف الحديث ، يكتب حديثه
”ضعیف الحدیث ہے۔ اس کی حدیث (متابعات و شواہد میں ) لکھی جائے گی ۔ “
[الجرح والتعديل لا بن ابي حاتم: 383/6]
امام دار قطنی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
[سنن الدار قطني: 39/4]
نیز فرماتے ہیں کہ یہ ”مضطرب الحدیث“ ہے۔
[العلل للدار قطني: 291/4]
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان يحييٰ يتكلم فى عطية
”امام یحیٰی عطیہ پر جرح کرتے تھے ۔“
[التاريخ الكبير للامام البخاري: 83/4]
نیز فرماتے ہیں:
كان يحيٰي لايروي عن عطية
”امام یحیٰی عطیہ بن سعد عوفی سے روایت نہیں کرتے تھے۔“
[التاريخ الكبير للامام البخاري: 122/5]
امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف الا انه يكتب حديثة
”یہ راوی ضعیف ہے، البتہ اس کی روایت (متابعات وشواہد ) میں لکھی جائے گی۔“
[الكامل لابن عدي: 368/5، وسنده حسن]
اس قول کے خلاف امام صاحب سے یہ بھی مروی ہے:
ليس به باس
”اس میں کوئی حرج نہیں ۔“
[التاريخ لا بن طهمان: 256]
جمہور کے موافق قول تضعیف والا ہے ، لٰہذا اسے ہی قبول کیا جائے گا۔
امام نسائی رحمہ اللہ نے بھی عطیہ کو ”ضعیف“ کہا ہے۔
[كتاب الضعفاء والمتروكين: 481]
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ نے ان الفاظ کے ساتھ جرح کی ہے:
لا يحل الاحتجاج به ولا كتابة حديثه ، الا على جهة التعجب
”اس کی حدیث سے حجت لینا جائز نہیں، اسے صرف تعجب کے طور پر لکھنا درست ہے۔“
[كتاب المجروحين: 176/2]
حافظ جوز جانی نے اسے ”مائل“ قرار دیا ہے۔
[احوال الرجال: 42]
یعنی ان کے نزدیک عطیہ غالی رافضی تھا۔
امام ابنِ عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو مع ضعيفه يكتب حديثه ، وكان يعد من شيعة الكوفة
”ضعیف ہونے کے باوجود اس کی حدیث (متابعات وشواہد ) میں لکھی جائے گی۔ اس کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ہوتا ہے ۔“
[الكامل فى ضعفاء الرجال: 370/5]
حافظ بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔
[السنن الكبري: 369/7]
حافظ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ضعيف جدا
”سخت ضعیف ہے۔“
[المحلى لا بن حزم: 86/11]
حافظ نووی رحمہ اللہ نے بھی ”ضعیف“ کہا ہے۔
[خلاصة الأحكام: 572/1]
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں لکھتے ہیں:
ضعيف الحديث ، مشهور بالتدليس القبيح
”یہ راوی ضعیف الحدیث اور بہت بُری تدلیس کے ساتھ مشہور ہے۔“
[طبقات المدلسين: 50]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ لکھا ہے۔
[ميزان الاعتدال فى نقد الرجال: 80/3]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ بھی ”ضعیف“ قرار دیتے ہیں۔
[تفسير القرآن العظيم: 89/6 ، بتحقيق عبد الرزاق المهدي]
لٰہذا امام ابنِ سعد [الطبقات: 304/6] کا اسے ”ثقہ“ کہنا جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے نا قابل التفات ہے۔
پہلے اکثر محدثین ”ضعیف“ کہتے تھے ، بعد میں عطیہ بن سعد عوفی کے ”ضعیف“ ہونے پر اجماع ہو گیا تھا، جیسا کہ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متفق على ضعيه
”اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق و اجماع ہے۔“
[المحلي: 309/10]
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اما عطية ، فاجتمعو على تضعيفه
”عطیہ کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اجماع ہو گیا ہے۔“
[الموضوعات: 386/1]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو ضعيف يا جماع اهل لعلم
”اس کے ضعیف ہونے پر اہل علم کا اجماع ہے ۔“
[قاعدة جليلة فى التوسل ، ص: 233]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجمع على ضعفه
”اس کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے ۔“
[المغني فى الضعفاء: 62/2]
حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو ضعيف باجماعهم
”عطیہ با جماع علم ضعیف ہے۔“
[البدر المنير: 313/5]
نوٹ:
عطیہ عوفی ”مدلس“ بھی تھا ، ”تدلیس“ کی بُری قسم ہیں ملوث تھا۔ یہ اپنے استاد محمد بن سائب کلبی (متہم بالکذب) کا نام ذکر نہیں کرتا تھا اور اس کی کنیت ابو سعید ذکر کر کے باور کرانے کی کوشش کرتا تھا کہ اس سے مراد صحابی رسول ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہیں ۔
اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف الحفظ ، مشهور بالتدليس القبيح
”اس کا حافظہ کمزور تھا اور یہ بری تدلیس کرنے میں معروف تھا۔“
[طبقات المدلسين ص: 50]
تنبيه ①:
محمد زاہد کوثری حنفی جہمی (م1371 ھ ) نے لکھا ہے:
ولم يتقرد عطية عن الخدريي ، بل تابعه ابو الصديق عنه فى رواية عبد الحكم بن ذكوان وهو ثقة عند انب حبان وان اعله ابن الفرج فى علله
”عطیہ عوفی ، سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے بیان کرنے میں اکیلا نہیں بلکہ اس کی متابعت ابو الصدیق نے عبد الحکم بن ذکوان کی روایت میں کی ہے اور وہ ثقہ راوی ہے۔ اسے امام ابن حبان رحمہ اللہ نے ثقہ کہا ہے، اگرچہ ابن الفرج نے اسے اپنی علل میں ذکر کیا ہے۔“
[مقالات الكوثري: 394]
لیکن:
➊ کوثری کی نقل کا کوئی اعتبار نہیں۔
➋ کوثری نے کوئی سند ذکر نہیں کی ۔ ہمیں کہیں باسند یہ متابعت نہیں ملی۔
➌ راوی عبد الحکم بن ذکوان نہیں بلکہ عبد الحکم بن عبد اللہ قسملی ہے کیونکہ ابو الصدیق ناجی کے شاگردوں میں قسملی ہی ہے، ابن ذکوان نہیں۔ اگر ابن ذکوان بھی ہو تو وہ ”مجہول“ ہے۔
امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا اعرفه
”میں اسے نہیں جانتا۔“
[الجرح والتعديل لابن أبى حاتم: 36/6]
اگرچہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے اپنی کتاب الثقات 131/5 میں ذکر کیا ہے، لیکن یہ ان کے تساہل پر مبنی ہے۔ ان کی منفرد توثیق قابل قبول نہیں ہوتی ۔
یہی وجہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ کے قول پر اعتماد کرتے ہوئے اسے مقبول (مجہول الحال ) ہی لکھا ہے۔
[تقريب التهذيب: 3748]
جہاں تک عبد الحکم بن عبداللہ قسملی کا تعلق ہے، تو وہ بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا يحتج به
”یہ قابل حجت نہیں۔ “
[سنن الدارقطني: 1/ 104]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ”منکر الحدیث“ قرار دیا ہے ۔
[التاريخ الكبير: 168/2]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعامة احاديثه مما لا يتابع عليه وبعض متون ما يرويه مشاهير الا انه بالاسناد الذى يذكره عبد الحكم لعله لو هروي ذاك
”اس کی عام احادیث پر متابعت نہیں کی جاتی۔ اس کی روایت کردہ احادیث کے بعض متون مشہور ہیں، لیکن وہ ان سندوں کے ساتھ ہیں، جنہیں عبد الحکم ذکر کرتا ہے۔ شاید اس نے وہ روایت نہیں کیے ۔
[الكامل: 334/5]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان ممن يروي عن انس ما ليس من حديثه ولا اعلم له معه مشامهة لا يحل كتابة حديثه الا على جهة التعجب
”یہ ان لوگوں میں سے تھا جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے جھوٹی روایات بیان کرتے تھے۔ اس کی سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بالمشافہ ملاقات مجھے معلوم نہیں۔ اس کی حدیث کو لکھنا جائز نہیں ، ہاں بطور تعجب (ونقد ) لکھا جا سکتا ہے۔“ [المجروحين: 143/2]
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو منكر الحديث ، ضعيف الحديث ، قلت القائل هو ابن ابي حاتم: يكتب حديثه؟ قال: زحفا
”وہ منکر الحدیث اور ضعیف الحدیث ہے۔ ابن ابی حاتم کہتے ہیں: میں نے ان سے پوچھا: کیا اس کی حدیث کو لکھا جائے؟ انہوں نے فرمایا: بطور مجبوری اس کی روایت پر تعجب کرتے ہوئے اسے لکھا جا سکتا ہے ۔“
[الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 35/6 ، 36]
نیز امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو عبد الحکم بن ذکوان بہتر لگتا ہے یا عبد الحکم قسملی؟ تو انہوں نے فرمایا:
هذا استر منه
ابن ذکوان کے مقابلے میں اس کا ضعف وعیب اتنا واضح نہیں۔“
[الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 36/6]
امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روي عن انس نسخة منكرة لا شي
”اس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ایک منکر نسخہ روایت کیا ہے، یہ بالکل نا قابل اعتبار راوی ہے۔“
[الضعفاء: 34]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
[تقريب التهذيب: 3749]
لٰہذا عطیہ بن سعد عوفی کی کوئی معتبر متابعت ثابت نہیں۔ وہ اس کو بیان کرنے میں منفرد ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ زاہد الکوثری نے عطیہ کے استاذ ابو سعید کو صحابی رسول سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ قرار دیا ہے، حالانکہ یہ صریح جہالت یا تدلیس ہے۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ عطیہ اپنے استاذ محمد بن سائب کلبی کذاب کو ابو سعید کے الفاظ سے ذکر کرتا تھا۔
تنبيه ②:
[عمل اليوم والليلة لابن السني 85] میں جو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، اس کی سند سخت ترین ”ضعیف“ ہے۔ اس میں وازع بن نافع عقیلی راوی ”متروک ، کذاب و وضاع“ ہے۔ حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676 ھ ) اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
وهو متفق على ضعفه ، وانه منكر الحديث
”اس کے ضعیف ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے اور یہ منکر الحدیث راوی ہے۔“
[الأذكار النافعة: 85]
علامہ محمد بن عبد الہادی سندھی حنفی (م: 1138 ھ ) کہتے ہیں:
قوله: بحق السائلين عليك ، اي متوسلا اليك فى قضاء الحاجة وامضاء المسالة ، بما للسائلين عندك من الفضل الذى يستحقونه عليك بمقتضي فضلك ووعدك و جودك واحسانك ، ولا يلزم منه الوجوب المتنازع فيه عليه تعالي ، لكن لا يهامه الو جوب بالنظر الي الافهام القاصرة ، يحترز عنه علماونا الحنفية ، ويرون اطلاقه لا يخلوعن كراهة
”اس روایت میں جو سوالیوں کے حق کا وسیلہ دینے کا ذکر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ ! میں اپنی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے تجھے تیرے اس فضل کا واسطہ دیتا ہوں جس کا تو نے انہیں اپنے رحم و کرم اور احسان و وعدہ کے پیش نظر مستحق بنایا ہے۔ ان الفاظ سے اقسام علی اللہ کی متنازع صورت لازم نہیں آتی ۔ البتہ کند ذہن لوگوں کو ان الفاظ میں اقسام علی اللہ بخلقہ کا وہم ہوتا ہے۔ اسی لیے علمائے احناف اس سے احتراز کرتے ہیں ۔ ان کے خیال میں ان الفاظ کا مطلق استعمال کراہت (تحریمی) سے خالی نہیں۔“
[حاشية السندي على سنن ابن ماجه: 261/1 ، 262 ، تحت الحديث: 778]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ ) اس بارے میں فرماتے ہیں:
فان كان من كلام النبى صلى الله عليه وسلم ، فهو من هذا الباب لوجهين: احدهما: لان فيه السوال لله تعالي بحق السائلين ، وبحق الماشين فى طاعته ، و حق السائلين ان يحيبهم ، وحق الماشين ان يثيبهم ، وهذا حق اوجبه الله تعالي ، وليس للمخلوق ان يوجب على الخالق تعالي شيئا .
”اگر یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمودہ ہو تو اس سے مشروع وسیلہ ہی مراد ہے۔ ایک تو اس طرح کہ اس میں اللہ تعالیٰ سے اس کے سوالیوں اور اس کی اطاعت میں چلنے والوں کے حق کے وسیلے سے سوال کرنے کا ذکر ہے۔ سوالیوں کا حق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مطالبات پورے کرے اور چلنے والوں کا حق یہ ہے کہ اللہ انہیں اجر و ثواب سے نوازے۔ یہ حق اللہ تعالی نے خود اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ مخلوق اپنے خالق پر کوئی چیز لازم نہیں کر سکتی ۔ “
[قاعدة جليلة فى التوسل والوسيلة ، ص: 215]
یعنی اس ”ضعیف“ روایت میں مذکور وسیلہ اپنے نیک اعمال اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا وسیلہ ہے، جو کہ اہل سنت و الجماعت کے نزدیک بھی مشروع اور جائز ہے۔ اس میں وسیلہ بالذوات والا موات کا کوئی ذکر نہیں۔
دلیل نمبر 20:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ بنتِ اسد کی قبر پر یوں دعا کی:
بحق نبيك والا نبياء من قبلي
”تیرے نبی (مجھ ) اور مجھ سے پہلے انبیاء کے طفیل ۔“
[المعجم الكبير للطبراني: 351/24 ، المعجم الأوسط: 191 ، حلية الأولياء لأبي نعيم: 121/3]
تبصره:
یہ ”ضعیف“ اور ”منکر“ روایت ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی روح بن صلاح جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔
[الكامل فى ضعفاء الرجال: 146/3]
امام دار قطنی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
كان ضعيفا فى الحديث
”حدیث میں کمزور تھا ۔“
[المؤتلف والمختلف: 1377/3]
ابن ماکولا کہتے ہیں:
فعفوه
” (جمہور ) محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ “
[الاكمال: 15/5]
ابن یونس کہتے ہیں:
رويت عنه منا كير
”اس سے منکر روایات بیان کی گئی ہیں ۔“
[لسان الميزان لابن حجر: 467/2]
حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف و متروک“ راویوں میں ذکر کیا ہے۔
[كتاب الضعفاء والمتروكين: 282/1]
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:
وفيه ضعف
”اس میں ضعف ہے۔ “
[مجمع الزوائد: 257/9]
لٰہذا امام ابن حبان [الثقات: 244/8] اور امام حاکم [سوالات السجزي: 98] کی توثیق تساہل پر محمول ہے۔
علامہ محمد بشیر سہسوانی ہندی رحمہ اللہ (م: 1252 ھ ) اس راوی کے بارے میں فرماتے ہیں:
فقد علم بذلك ان فى سنده روح بن صلاح المصري ، وهو ضعيف ضعفه ابن عدي ، وهو داخل فى القسم المعتدل من اقسام من تكلم فى الرجال ، كما فى فتح المغيث اللسخاوي ، ولا اعتداد بذكر ابن حبان له فى الثقات . فان قاعدته معروفة من الا حتجاج بمن لا يعرف كما فى الميزان ، وقد تقدم وكذالك لا اعتداد بتوثيق الحاكم وتصحيحه ، فانه داخل فى القسم الفتسمح
”معلوم ہوا کہ اس کی سند میں روح بن صلاح مصری راوی ہے جو کہ ضعیف ہے۔ اس کو امام ابن عدی رحمہ اللہ نے ضعیف قرار دیا ہے۔ علامہ سخاوی کی فتح المغیث کے مطابق یہ درمیانے درجے کا مجروح راوی ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ کے اسے ثقات میں ذکر کرنے کا کوئی اعتبار نہیں کیونکہ ان کا غیر معروف راویوں کی توثیق کرنے کا قاعدہ معروف ہے جیسا کہ میزان الاعتدال کے حوالے سے ذکر کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح امام حاکم رحمہ اللہ کی (منفرد) توثیق و تصیح بھی قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ ان کا شمار متساہلین میں ہوتا ہے۔ “
[صيانة الانسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص: 132]
➋ اس میں سفیان ثوری ”مدلس“ ہیں جو ”عن“ سے روایت کر رہے ہیں۔
بھلا منکر اور مدلس روایات سے عقیدے کے مسائل ثابت کرنا اہل سنت والجماعت کا طریقہ و مسلک ہے؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولم يذكر احد من العلماء انه يشرع التوسل بالنبي صلى الله عليه وسلم ولا بالرجل الصالح موته ولا فى مغيبه ولا استحبوا ذلك فى الاستسقاء ولا فى الاستنصار والا غير ذلك من الادعية ، والادعاء مخ العبادة ، والعبادة مبناها على السنة والاتباع ، لا على الهوي والا بتداع
”کسی ایک عالم نے بھی وفات کے بعد یا غیر موجودگی میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی نیک شخص کے وسیلے کو مشروع قرار نہیں دیا ، نہ اہل علم نے بارش و نصرت طلبی وغیرہ کی دعاؤں میں ایسا کرنا مستحب سمجھا۔ دُعا عبادات کا مغز ہے اور عبادت کی اساس سنت رسول اور اتباع شریعت پر ہوئی ہے، خواہشات نفس اور بدعت پر نہیں ۔ “
[مختصر الفتاوى المصرية، ص: 196 ، 197]
دلیل نمبر 21:
سیدنا ابو امامہ باہلی رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام جو دعائیں پڑھتے تھے، ان میں یہ الفاظ بھی شامل تھے:
اسالك بنور وجهك الذى اشرقت له السماوات والارض ، بكل حق هو لك ، و بحق السائلين عليك ، ان تقبلني فى هذه الغداة ، اوفي هذه العشية ، وان تجيرني من النار بقدرتك
” (اے اللہ !) میں تجھ سے تیرے چہرے کے اس نور کے واسطے سے سوال کرتا ہوں جس سے زمین و آسمان روشن ہو گئے ہیں۔ تیرے ہر حق کے واسطے سے سوال کرتا ہوں اور سوال کرنے والوں کا تجھ پر جو حق ہے، اس کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ: اس صبح یا اس شام میری دعا قبول فرمالے اور اپنی قدرت سے مجھے آگ سے بچا لے۔“
[المعجم الكبير للطبراني: 264/8 ، كتاب الدعاء للطيراني: 940/2 ، 941]
تبصره:
اس کی سند باطل (جھوٹی) ہے۔ اس کے راوی ابو المهند فضال بن جبیر کے بارے میں حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وهو ضعيف ، مجمع على ضعفيه
”یہ راوی با تفاقِ محدثین کرام ضعیف ہے۔“
[مجمع الزوائد: 117/10]
امام ابن عدی رحمہ اللہ اس کی بیان کردہ روایات کے بارے میں فرماتے ہیں:
ولفضال عن ابي امامة قدر عشرة احاديث ، كلها غير محفوظة
”فضال، سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے تقریباً دس احادیث روایت کرتا ہے، یہ ساری کی ساری منکر ہیں۔“
[الكامل فى ضعفاء الرجال: 21/6]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يروي عن ابي امامة ما ليس من حديثه ، لا يحل الا حتجاج به بحال
”یہ راوی سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے منسوب کر کے ایسی روایات بیان کرتا ہے جو انہوں نے بیان نہیں کیں۔ کسی بھی صورت میں اس کی روایت سے دلیل لینا جائز نہیں۔“
[المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين: 304/2]
نیز فرماتے ہیں کہ فضال کی سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ روایت جھوٹی ہوتی ہے۔
[كتاب المجروحين: 304/2]
فضال کی بیان کردہ مذکورہ روایت بھی چونکہ سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ہے، لٰہذا اس کے جھوٹی اور باطل ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہا۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس روایت کے راوی ہشام بن ہشام کوفی کی توثیق بھی نہیں ملی۔
دلیل نمبر 22:
محمد بن سائب کلبی کہتا ہے:
اجتمع الطر ماح وهشام المرادي و محمد بن عبدالله الحميري عند معاوية بن ابي سفيان ، فاخرج بدرة فوضعها بين يديه ، ثم قال: يا معشر شعراء العراب ! قولو اقولكم فى على بن ابي طالب ، ولا تقولوا الا الحق ، وانا نفي من صخر بن حرب ان اعطيت هذه البدرة الا من قال الحق فى فقام الطر ماح ، فتكلم وقال فى على ووقع فيه ، فقال معاوية: اجلس ، فقد عرف الله نيتك وراي مكانك ، ثم قام هشام المرادي ، فقال ايضا ووقع فيه ، فقال معاوية: اجلس مع صاحبك ، فقد عرف الله مكانكما ، فقال عفروبن العاص لمحمد بن عبدالله الحميري ، وكان خاصابه: تكلم ولاتقل الا تقل الا الحق ، ثم قال: يا معاوية ! قد اليت ، الا تعطي هذه البدرة الا قائل الحق فى على؟ قال: نعم ، انا نفي من صخر بن حرب ان اعطيتها منهم الا من قال الحق فى على ، فقام محمد بن عبدلله ، فتكلم ، ثم قال: بحق محمد . قولوا بحق ، فان الافك من شيم اللئام ، ابعد محمد بابي وامي
”طرماح ، ہشام مرادی اور محمد بن عبد اللہ حمیری ، معاویہ بن ابو سفیان کے پاس جمع ہوئے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ہیرے جواہرات کی ایک تھیلی نکال کر ان کے سامنے رکھ دی، پھر کہا: اے شعراء عرب! تم علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق پر مبنی اشعار کہو ۔ میں اپنے باپ صخر بن حرب کا بیٹا نہیں اگر یہ تھیلی اسے نہ دوں جو تم میں سے علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق بات کہے گا۔ طرماح کھڑا ہوا اور اشعار میں علی رضی اللہ عنہ کی توہین کی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ ، اللہ تمہاری نیت اور حیثیت کو جانتا ہے۔ پھر ہشام مرادی کھڑا ہوا ، اس نے بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گستاخی میں اشعار کہے۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تم بھی اپنے ساتھی کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ اللہ تم دونوں کی حیثیت کو جانتا ہے۔ پھر عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے محمد بن عبداللہ حمیری سے ، جو ان کے خاص آدمی تھے ، کہا: بولو اور علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں صرف حق کہو۔ پھر فرمایا: معاویہ ! کیا آپ نے قسم اٹھائی ہے کہ آپ یہ تھیلی صرف اسی شخص کو دیں گے جو سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق گوئی کرے گا؟ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں ، میں اپنے باپ صخر بن حرب کا بیٹا نہیں ، اگر میں یہ تھیلی اس شخص کو نہ دوں جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں حق بات کہے ۔ محمد بن عبد اللہ کھڑا ہوا اور اشعار پڑھے، پھر کہا: محمد کے واسطے ، تم حق کہو ، جھوٹ بولنا تو کمینوں کی عادت ہے۔ ۔ ۔ ۔“
[بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار لمحمد باقر بن محمد تقي بن المقصود على المجلسي الرافضي م: 1111هـ ، : 259/33]
تبصره:
یہ کائنات کا بد ترین جھوٹ اور خالص ابلیسی کارروائی ہے۔ کیونکہ:
➊ محمد بن سائب کلبی کے بارے میں امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الناس مجتمعون على ترك حديثه لا يشتغل به . هو ذاهب الحديث
”اہل علم کا اس کی حدیث کو ترک کرنے پر اجماع ہے۔ اس کی حدیث کی طرف التفات نہیں کیا جائے گا۔ اس کی بیان کردہ حدیث کا کوئی اعتبار نہیں۔“
[الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 271/7]
قرہ بن خالد سدوسی کہتے ہیں:
كانو يرون الكلبي يزرف ، يعني يكذب
”محدثین کرام کہتے تھے کہ کلبی جھوٹ بولتا ہے۔“
[الجرح والتعديل: 271/7 ، وسنده حسن]
سلیمان بن طرخان تیمی نے اسے ”کذاب“ قرار دیا ہے۔
[أيضا: 270/7، وسنده حسن]
➋ اس کے بیٹے اور شاگرد ہشام بن محمد کلبی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
تركوه ، وهو اخباري
”محدثین نے اسے چھوڑ دیا تھا۔ یہ اخباری تھا۔“
[المغني فى الضعفاء: 2 /711]
➌ محمد بن زکریا بن دینار غلابی کے بارے میں امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
يضع الحديث
”یہ اپنی طرف سے حدیثیں گھڑ لیتا تھا۔“
[سوالات الحاكم للدارقطني: 206]
حافظ ابن مندہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تكلم فيه
”اس پر جرح کی گئی ہے۔“
[ميزان الاعتدال للذهبي: 550/3]
حافظ ذہبی رحمہ االلہ نے اسے ”کذاب“ کہا ہے۔
[ميزان الاعتدال: 166/3 ، ت: عمار بن عمر]
نیز فرماتے ہیں کہ یہ ”متہم بالکذب“ راوی ہے۔
[أيضا: 325/1 ، ت: بشرين مهران]
حافظ ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں کہتے ہیں:
كان صاحب حكايات واخبار ، يعتبر حديثه اذا روي عن الثقات ، لانه فى روايته عن المجاهيل بعض المناكير
”یہ حکایات اور قصے کہانیاں بیان کرتا تھا۔ اس کی حدیث اس وقت معتبر ہوتی ہے جب وہ ثقہ راویوں سے بیان کرے، کیونکہ اس کی مجہول راویوں سے بیان کردہ روایات میں بعض منا کیر ہیں ۔ “
[الثفات: 154/9]
➍ اس کا استاذ عبد اللہ بن ضحاک مرادی نامعلوم و مجہول ہے، لٰہذا اس روایت پر جرح مفسر ہو گئی ہے۔
اس میں مزید خرابیاں موجود ہیں۔ لٰہذا یہ جھوٹی روایت ہے۔
دلیل نمبر 23:
ایک روایت یوں ہے:
توسلوا بجاهي ، فان جاهي عند الله عظيم
”تم میرے مقام و مرتبے کے وسیلے سے دعا کیا کرو ، کیونکہ میرا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ “
ایک راویت کے الفاظ یوں ہیں:
اذا سالتم الله فاسئلوه بجاهي ، فان جاهي عندالله عظيم
”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو تو میرے مقام و مرتبے کے وسیلے سے مانگا کرو، کیونکہ میرا مقام و مرتبہ اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بلند ہے۔“
تبصره:
یہ روایت بے اصل و بے ثبوت ہے۔ اس کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م: 728ھ) فرماتے ہیں:
وروي بعض الجهال عن النبى صلى الله عليه وسلم انه قال: اذا سالتم الله اسئلوه بجاهي ، فان جاهي عندالله عظيم ، وهذا الحديث كذب ليس فى شئيء من كتب المسلمين التى يعتمد عليها اهل الحديث ، ولا ذكره احد من اهل العلم بالحديث ، مع ان جاهه عندالله تعالي اعظم من جاه جميع الانبياء المرسلين
”بعض جاہل لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب یہ روایت بیان کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہ روایت جھوٹی ہے۔ مسلمانوں کی کسی ایسی کتاب میں اس کا وجود نہیں جس پر محدثین کرام اعتماد کرتے تھے۔ محدثین میں سے کسی نے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ یہ بات تو برحق ہے کہ آپ علم کا مقام و مرتبہ اللہ تعالی کے ہاں تمام انبیاء ورسل سے بڑھ کر تھا (لیکن اس مقام و مرتبے کو وسیلہ بنانا شریعت اسلامیہ میں مشروع نہیں ) ۔“
[قاعدة جليلة فى التوسل والوسيلة، ص: 252]
علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ (م 1326 ھ ) فرماتے ہیں:
لم يروه احد من اهل لعلم ، ولا هو فى شئي من كتب الحديث
”اسے کسی اہل علم نے روایت نہیں کیا ، نہ ہی کتب حدیث میں سے کسی کتاب میں اس کا وجود ملتا ہے ۔“
[صيانة الانسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص: 188 ، 189]
دلیل نمبر 24:
سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ وہ قرآن کریم سیکھتے تھے، لیکن جلدی بھول جاتا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا سکھائی:
اللهم اني اسئلك بمحمد نبيك ، وابراهيم خليك ، و موسي نجيك ، و عيسي روحك و كلمتك ، وبتوراة موسٰي ، وانجيل عيسي ، و زبور داود ، و فرقاب محمد ، وبكل وحي اوحيته ، وقضاء قضيته
”اے اللہ ! میں تجھ سے ان سب کے واسطے سے سوال کرتا ہوں۔ تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، تیرے خلیل ابراہیم علیہ السلام ، تیری ہم کلامی کا شرف حاصل کرنے والے موسٰی علیہ السلام ، تیری روح و کلمہ عیسی علیہ السلام ، موسٰی علیہ السلام کی تورات ، عیسٰی علیہ السلام کی انجیل ، داؤد علیہ السلام کی زبور ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن ، تیری ہر وحی اور تیری تمام قضاء و قدر۔ “
[جامع الأصول لابن الأثير: 302/4 ، ح: 2302 ، قاعدة جليلة لابن تيمية، ص: 165,164 ، اللآلى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة للسيوطي: 299,298/2]
تبصره:
یہ جھوٹ کا پلندہ ہے جو کہ عبدالملک بن ہارون نے ترتیب دیا ہے۔
اس کے بارے میں امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ”کذاب“ ہے۔
[تاريخ يحيى بن معين: 376/2]
علامہ جوزجانی کہتے ہیں:
دجال كذاب
”یہ بہت بڑا دھوکے باز اور سخت جھوٹا شخص ہے۔“
[أحوال الرجال، ص: 68]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ”منکر الحدیث“ قرار دیا ہے۔
[الضعفاء الصغير: 218]
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اسے ”ضعیف الحدیث“ فرماتے ہیں۔
[العلل ومعرفة الرجال: 2648]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
له احاديث غرائب عن ابيه عن جده عن الصحابة ، مما لا يتابعه عليه احد
”یہ اپنے باپ اور دادے کے واسطے سے صحابہ کرام سے منسوب منکر روایات بیان کرتا ہے۔ ان روایات پر کوئی ثقہ راوی اس کی موافقت نہیں کرتا ۔ “
[الكامل فى ضعفاء الرجال: 529/6]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان ممن يضع الحديث ، لا يحل كتابة حديثه الا على جهة الاعتبار
”یہ ان لوگوں میں سے تھا جو جعلی احادیث گھڑتے تھے۔ اس کی حدیث کو صرف جانچ پرکھ کے طور پر لکھنا جائز ہے ۔“
[كتاب المجروحين: 133/2]
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روي عن ابيه احاديث موضوعة
”اس نے اپنے باپ سے جھوٹی روایات بیان کی ہیں ۔ “
[المدخل إلى كتاب الاكليل: 129]
علامہ ابن عراق کنانی رحمہ اللہ مذکورہ روایت کے بارے میں فرماتے ہیں:
رواه ابو الشيخ فى الثواب من حديث ابي بكر الصديق ، من طريق عبد الملك بن هارون الدجال
”اس روایت کو ابوالشیخ نے کتاب الثواب میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت سے نقل کیا ہے۔ اس کی سند دجال (سخت جھوٹے ) راوی عبد الملک بن ہارون نے بیان کی ہے۔“
[تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة: 322/2]
اس روایت کے بارے میں حافظ سیوطی کہتے ہیں:
عبد الملك دجال ، مع ما فى السند من الاعضال
”عبد الملک سخت جھوٹا راوی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سند سخت منقطع بھی ہے۔ “
[اللالى المصنوعة فى الأحاديث الموضوعة: 299/2]
حافظ عراقی رحمہ اللہ: (725-806 ھ ) فرماتے ہیں:
وهو منقطع بين هارون وابي بكر
”اس روایت کی سند میں ہارون اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطان ہے۔ “
[المغني عن حمل الأسفار فى تخريج ما فى الإحياء من الأخبار: 374/1]
دلیل نمبر 25:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
من سره ان يوعيه الله عزوجل حفظ القرآن و حفظ اصناف العلم ، مليكتب هذا الدعاء فى اناء نظيف او فى صحفة قوار ير بعسل وزعفران وماء مطر ، ويشربه على الريق ، اليصم ثلاثة ايام ، وليكن افطاره عليه ، فانه يحفظها ان شاء الله عزوجل ويدعو به فى ادطار صلواته المكتوبة: اللهم ! اني اسالك بانك مسئول لم يسال مثلك ولا يسال ، اسالك بحق محمد رسولك ونبيك ، و ابراهيم خليلك وصفيك ، و موسيٰ كليمك ونجيك ، وعيسي كلمتك وروحك ، واسالك بصحف ابراهيم ، وتوراة موسٰي ، وزبور داود ، وانجيل عيسي ، وفرقان محمد صلى الله عليه وسلم ، اسالك بكل وحي اوحيته وبكل حق قضيته ، وبكل سائل اعطيته
”جو شخص قرآن کریم اور علوم دینیہ کو یاد کرنا چاہے، وہ درج ذیل دعا کو ایک صاف برتن یا چاندی کی پلیٹ میں شہد، زعفران اور بارش کے پانی سے لکھے۔ پھر تین دن اسے نہار منہ پیے ۔ وہ فرض نمازوں کے بعد بھی اس دعا کو پڑھے۔ ان شاء اللہ ! اسے سب کچھ یاد رہے گا۔ دعا یہ ہے:
اے اللہ ! میں تجھ سے اس لیے سوال کرتا ہوں کہ تیری جیسی کوئی ذات نہیں جس سے مانگا گیا ہو ، یا مانگا جائے گا۔ میں تجھ سے تیرے نبی اور رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے ، تیرے خلیل اور دوست ابراہیم علیہ السلام کے واسطے ، تیرے کلیم موسیٰ علیہ السلام کے طفیل، تیرے کلمے اور روح عیسی علیہ السلام کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں، نیز میں ابراہیم علیہ السلام کے صحیفوں ، موسیٰ علیہ السلام کی تورات ، داؤد علیہ السلام کی زبور ، عیسی علیہ السلام کی انجیل ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قرآن ، تیری ہر وحی ، تیری تمام قضاء وقدر اور ہر اس سائل کے وسیلے سے مانگتا ہوں جسے تو نے عطا کیا ہے۔ “ [الدعاءللطبراني: 1422/3 ، ح: 1334]
تبصره:
یہ انتہائی جھوٹی روایت ہے۔ اس کو گھڑنے والا موسیٰ بن عبد الرحمن صنعانی راوی ہے۔ اس کے بارے میں:
➊ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
دجال يضع الحديث ، وضع على ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس كتابا فى التفسير
”یہ سخت جھوٹا اور مکار انسان ہے۔ احادیث اپنی طرف سے گھڑنا اس کا مشغلہ تھا۔ اس نے عطاء عن ابن عباس کی سند سے تفسیر کی ایک کتاب خود گھڑ کر امام ابن جریج سے منسوب کی ہوئی تھی۔
[كتاب المجروحين: 242/2]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ”منکر الحدیث“ راوی ہے۔
[الكامل: 349/6]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هالك
”یہ سخت ضعیف راوی ہے۔“
[المغني فى الضعفاء: 6507]
تنبيه ①:
یہ روایت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
[الموضوعات لا بن الجوزي: 131/3 ، اللاكي المصنوعة للسيوطي: 298/2]
لیکن یہ روایت بھی من گھڑت ہے۔ اس کو گھڑنے کا ارتکاب عمر بن صبح نامی راوی نے کیا ہے۔ اس کو امام دار قطنی رحمہ اللہ نے ”متروک الحدیث“ اور امام ابو حاتم رازی [الجرح والتعدين لا بن أبى حاتم: 117/6] و امام ابن عدى [الكامل: 24/5] رحمہ اللہ نے ”منکر الحدیث“ قرار دیا ہے۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان ممن يضع الحديث على الثقات ، لا يحل كتابة حديثه الا على جهة التعجب لاهل الصناعة فقط
”یہ شخص ثقہ راویوں سے منسوب کر کے اپنی طرف سے احادیث گھڑتا تھا۔ اس کی حدیث کو صرف ماہرین فن حدیث لکھ سکتے ہیں اور وہ بھی صرف اور صرف بطور تعجب۔ “
[المجروحين: 88/2]
امام ابو نعیم اصبہانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
روي عن قتاده و مقاتل الموضوعات
”اس نے قتادہ اور مقاتل کی طرف جھوٹی روایات منسوب کی ہیں ۔ “
[الضعفاء: 151]
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
روي عن قتاده و مقاتل بن حيان احاديث موضوعة
”اس نے قتادہ اور مقاتل بن حیان کی طرف منسوب کر کے جھوٹی احادیث گھڑی ہوئی ہیں ۔ “
[المدخل إلى الصحيح: 113]
حافظ ابن الجوزی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
هذا حديث موضوع على رسول الله صلى الله عليه وسلم , والمتهم به عمر بن الصبح
”یہ حدیث رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی منسوب کی گئی ہے اور یہ کارروائی عمر بن صبح نامی راوی کی ہے۔ “ [الموضوعات: 831/3]
حافظ سیوطی لکھتے ہیں:
موضوع ، واتهم به عمر بن صبح
”یہ من گھڑت روایت عمر بن صبح کی گھڑنت ہے۔“
[اللآلي المصنوعة: 298/2]
دوسری علت یہ ہے کہ یزید بن عمر بن عبد العزیز کی توثیق بھی نہیں مل سکی۔
تنبيه ②:
یہ روایت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک اور سند کے ساتھ بھی مروی ہے ۔
[الجامع لأخلاق الراوى و آداب السامع للخطيب البغدادي: 261/2 ، ت: 1793 ، أخبار لحفظ القرآن لابن عساكر: 3]
لیکن اس کی سند بھی سخت ترین ”ضعیف“ ہے۔ اس کے راوی موسیٰ بن ابراہیم مروزی کے بارے میں امامہ دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ”متروک“ ہے۔
[تاريخ بغداد للخطيب البغدادي: 40/13 ، وسنده حسن]
امام عقیلی رحمہ اللہ نے اسے ”منکر الحدیث“ قرار دیا ہے۔
[الضعفاء الكبير: 166/4]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اس روایت کے بارے میں فرمایا ہے:
فمن بلا ياه
”یہ موسی بن ابراہیم کی ایک گھڑنت ہے۔“
[ميزان الاعتدال: 199/4]
حافظ سیوطی نے اسے ”کذاب“ قرار دیا ہے۔
[اللآلي المصنوعة: 2 / 298]
اس راوی کے بارے میں ادنٰی کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ۔
دلیل نمبر 26:
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قال داود صلى الله عليه وسلم: اسالك بحق ابائي ابراهيم واسحاق و يعقوب ، فقال: اما ابراهيم ، فالقي فى النار فصبر من اجلي ، وتلك بلية لم تنلك ، واما اسحاق ، فبذل نفسه للذبح فصبر من اجلي ، وتلك بلية لم تنلك ، واما يعقوب ، فغاب يوسف عنه ، وتلك بلية لم تنلك
”داؤد علیہ السلام نے کہا: اے اللہ ! میں تجھ سے اپنے آباو اجداد، یعنی ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیہم السلام کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے صبر کیا اور یہ شرف تجھے نہیں ملا۔ اسحاق علیہ السلام نے اپنے آپ کو ذبح کے لیے پیش کر دیا اور میری خاطر صبر کیا اور یہ مصیبت تجھے نہیں پہنچی ۔ یعقوب علیہ السلام سے ان کے فرزند یوسف علیہ السلام گم ہو گے اور یہ تکلیف تجھے نہیں پہنچی۔“
[مسند البزار: 1307]
تبصره:
یہ یہودیانہ کارروائی ہے، جس میں سیدنا اسماعیل کے بجائے سیدنا اسحاق علیہ السلام کو ذبیح قرار دیا گیا ہے، کیونکہ یہود کا ہی اس بات پر اصرار ہے کہ ذبیح اللہ سیدنا اسحاق علیہ السلام تھے، جبکہ قرآن و سنت کی روشنی میں مسلمان سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو ذبیح قرار دیتے ہیں۔ یہ تو تھی متن کی بات ، رہی اس روایت کی سند تو وہ بھی کئی وجوہ سے سخت ترین ”ضعیف“ ہے۔
➊ اس کا راوی ابو سعید حسن بن دینار ”ضعیف و متروک“ ہے۔
اس کے بارے میں امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس بشيء
”یہ بالکل قابل اعتبار نہیں ۔“
[تاريخ ابن معين برواية العباس الدوري: 4157]
امام ابو خیثمہ اسے ”ضعیف الحدیث“ قرار دیتے ہیں۔
[الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 12/3، وسنده صحيح]
امام فلاس فرماتے ہیں:
واجتمع اهل العلم من اهل الحديث انه لا يروي عن الحسن بن دينار
”محدثین کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حسن بن دینار سے کوئی روایت قبول نہیں کی جائے گی ۔“
[الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 12/3 ، وسنده صحيح]
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هو متروك الحديث كذاب ، وترك ابو زرعة حديث الحسن بن دينار
”یہ متروک الحدیث اور سخت جھوٹا شخص ہے۔ امام ابو زرعہ رحمہ اللہ نے حسن بن دینار کی حدیث کو ترک کر دیا تھا ۔ “
[الجرح والتعديل: 12/3]
امام دار قطنی رحمہ اللہ بھی اسے ”متروک الحدیث“ قرار دیتے ہیں۔
[سنن الدار قطني: 162/1]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
تركه ابن البارك ووكيع ، واما احمد ابن حنبل و يحيي بن معين فكانا يكذبانه
”امام عبد اللہ بن مبارک اور امام وکیع رحمہ اللہ نے اسے چھوڑ دیا تھا، جبکہ امام احمد بن حنبل اور امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ نے اسے جھوٹا قرار دیا ہے ۔ “
[كتاب المجروحين: 226/1]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو الي الضعف اقرب منه الي الصدق
”شخص سچائی کی نسبت کمزوری سے زیادہ قریب تھا۔“
[الكامل فى ضعفاء الرجال: 303/2]
امام بزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهو ليس بالقوي فى الحديث
”یہ حدیث میں قوی نہیں ۔“
[مسند البزار: 1307]
اس کے علاوہ بھی حسن بن دینار پر بہت سی جروح ثابت ہیں۔
➋ علی بن زید بن جدعان راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ [مجمع الزوائد: 209/8] ، علامہ بوصیری [مصباح الزجاجة: 84] ، حافظ ابن العراقی [طرح التشريب: 7712] ، حافظ ابن ملقن [البدر المنير: 434/4] ، علامہ بقاعی [نظم الدرر فى تناسب الآيات والسور: 525/4] نے اسے جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
➌ اس کی سند میں امام حسن بصری کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہیں ملی۔
اس روایت کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يصع سنده ، ففي اسناده ضعيفان ، وهما الحسن بن دينار البصري مترك ، وعلي بن زيد بن جد عان منكر الحديث
”اس روایت کی سند صحیح نہیں، کیونکہ اس میں دو راوی ضعیف ہیں۔ ایک حسن بن دینار بصری ہے جو متروک الحدیث ہے اور دوسرا علی بن زید بن جدعان ہے جو منکر الحدیث ہے۔“
[تفسير ابن كثير: 355/5]
تنبيه ①:
احنف بن قیس ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ داؤد علیہ السلام نے فرمایا:
اي رب! ان بني اسرائيل يسالونك يا ابراهيم واسحاق و يعقوب ، فاجعلني يا رب لهم رابعا ، فاوحي الله اليه ان يا داود ! ان ابراهيم القيي فى النار فى سئي فصبر ، وتلك بلية لم تنلك ، وان اسحاق بذل نفسه ليذبح فصبر من اجلي ، فتلك بلية لم تنلك ، وان يعقوب اخذت حبيبه حتي ابيضت عيناه فصبر ، وتلك بلية لم تنلك
”داؤد علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی: اے میرے رب ! بنی اسرائیل تجھ سے ابراہیم ، اسحق اور یعقوب علیہم السلام کے وسیلے سے مانگتے ہیں۔ تو مجھے بھی ان تینوں کے ساتھ شامل کر دے۔ اللہ تعالی نے ان کی طرف وحی فرمائی: اے داؤد! ابراہیم تو آگ میں ڈالے گئے تھے اور انہوں نے صبر کیا تھا، یہ آزمائش تجھے تو نہیں پہنچی ۔ اسحق نے اپنے آپ کو ذبح ہونے کے لیے پیش کر دیا تھا اور اس پر ڈٹ گئے ، یہ آزمائش آپ سے تو نہیں ہوئی۔ یعقوب کا محبوب (بیٹا یوسف ) میں نے چھین لیا تھا، حتٰی کہ غم میں ان کی آنکھیں رو رو کر سفید ہو گئی تھیں، انہوں نے صبر کیا، یہ آزمائش تیرے پاس تو نہیں آئی۔
[مصنف ابن أبى شيبة: 554/11]
اس کی سند درج ذیل تین وجہ سے ”ضعیف“ ہے:
➊ یہ ”مرسل“ روایت ہے۔ احنف بن قیس تابعی ہیں اور ڈائریکٹ اس روایت کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کر رہے ہیں ۔
➋ اس میں وہی علی بن زید بن جدعان راوی موجود ہے جس کے بارے میں مفصل بات ابھی گزری ہے۔
➌ اس میں امام حسن بصری کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔
اس رادیت کے بارے میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا مرسل ، وفيه بكارة ، بان الصحيح ان اسماعيل هو الذيبح ، ولكن على بن زيد بن جدعان له منا كير و غرائب كثيرة
”یہ روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ منکر بھی ہے کیونکہ ذبیح سیدنا اسماعیل علیہ السلام ہی تھے۔ علی بن زید بن جدعان راوی اس طرح کی منکر اور عجیب و غریب روایات بیان کرتا رہتا ہے۔“
[تفسير ابن كثير: 600,599/3]
تنبيه ②:
سیدنا عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قال نبي الله داود: رب ! اسمع الناس يقولون: رب اسحاق ، قال: ان اسحاق جادلي بنفسه
”اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام نے عرض کی: میرے رب! کیا وجہ ہے کہ میں لوگوں کو یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں کہ اے اسحق کے رب! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اسحٰق علیہ السلام نے میری خاطر اپنی جان پیش کر دی تھی ۔ “
[المستدرك للحاكم: 2 /556]
اس کی سند میں وہی دو خرابیاں موجود ہیں ، یعنی علی بن زید بن جدعان ”ضعیف“ ہے اور امام حسن بصری ”مدلس“ ہیں ۔ لٰہذا امام حاکم رحمہ اللہ کا اسے ”صحیح“ کہنا صحیح نہیں ۔
تنبيه ③:
مبارک بن فضالہ بھی اسی روایت کو حسن بصری سے مرفوعاً اور موقوفاً بیان کرتے ہیں۔
[مسند البزار: 1308]
لیکن اس کی سند بھی ”ضعیف“ ہے۔ مبارک بن فضالہ اگرچہ جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ثقہ“ ہیں ، جیسا کہ حافظ بوصیری لکھتے ہیں۔
وثقه الجمهور
”انہیں جمہور نے ثقہ کہا ہے۔ “
[زوائد ابن ماجه: 520]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
والاكثر على توثيقه
”اکثر محدثین امیں ثقہ کہتے ہیں۔“
[مجمع الزوائد: 54/1]
مگر یہ غضب کے ”مدلس“ بھی تھے ، جیسا کہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
صدوق يدلس ويسوي
”یہ ہیں تو سچے لیکن تدلیس کرتا ہیں اور وہ بھی تدلیس تسویہ (نہ لیس کی سب سے سخت قسم)۔ “
[تقريب التهذيب: 6464]
انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی ، لٰہذا سند ”ضعیف“ ۔
دوسری بات یہ کہ اس میں امام حسن بصری کی ”تدلیس“ موجود ہے۔
دلیل نمبر 27:
عبد اللہ حذاء کا بیان ہے:
قال يوسف عليه السلام: اللهم اني اتوجه انك أقدم إلى بلاطكم وسائل أجدادي إبراهيم خليل وإسماعيل ذبيح ويعقوب إسرائيل.
”یوسف علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ ! میں تیرے دربار میں اپنے آبا و اجداد ابراھیم خلیل، اسماعیل ذبیح اور یعقوب اسرائیل کا وسیلہ پیش کرتا ہوں۔“
[حلية الأولياء لأبي نعيم لاصبهان 9/10]
تبصرہ:
اس کی سند سخت ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
➊ اس کے راوی حسین بن عبد اللہ بن شاکر سمرقندی کو امام دارقطنی رحمہ اللہ ! نے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
[سؤالات الحاكم للدارقطني: 89]
البتہ ابو سعد ادریسی نے اسے ثقہ قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارا رجحان امام دار قطنی رحمہ اللہ کے قول کی طرف ہے، کیونکہ ادریسی متاخر ہیں ۔
➋ قصہ گو عبد اللہ حذاء کون ہے؟ اس روایت سے استدلال کرنے والے ذرا اس کے حالات زندگی اور اس کی توثیق تو پیش کریں۔ نیز یہ بھی بتائیں کہ عبد الله حذاء کا یوسف علیہ السلام سے کیا واسطہ تھا؟
➌ یہ روایت مسلمانوں کے اجماع کے بھی خلاف ہے، کیونکہ کوئی ثقہ مسلمان اسحاق علیہ السلام کے ذبیح ہونے کا قائل نہیں۔
دلیل نمبر 28:
امام اصمعی رحمہ اللہ سے مروی ہے:
وقف الأعرابي مقابل قبر النبى صلى الله عليه وسلم ، فقال: اللهم ان هذا حبيبك وأنا عبدك ، والشيطان عدوك ، فإن غفرت لي سر حبيبك ،
وفاز عبدك ، وغضب عدوك ، وإن لم تغفرلي غضب حبيبك ، ورضي عدوك ، وهلك عبدك ، وانت اكرم من ان تغضب حبيبك ، وترضي عدوك ، وهلك عبدك ، وانت اكرم من ان تغضب حبيبك ، و ترضي عدوك ، وتهلك عبدك ، اللهم ! ان العرب الكرام اذا مات فیھم سيد اعتقوا علي قبره ، وان هذا سيد العالمين ، فاعتقي على قبره ، قال الاصمعي: فقلت: يا اخا العرب! ان الله قد غفرلك ، واعتقك بحسن هذا السوٗال

”ایک بدوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگا: اے اللہ ! یہ تیرا حبیب ہے، میں تیرا بندہ ہوں اور شیطان تیرا دشمن ہے۔ اگر تو مجھے معاف فرما دے تو تیرا حبیب راضی ہو جائے گا، تیرا بندہ کامیاب ہو جائے گا اور تیرا دشمن غصے میں آئے گا۔ اگر تو نے مجھے معاف نہ کیا تو تیرا حبیب غصے میں آئے گا، تیرا دشمن راضی ہو جائے گا اور تیرا بندہ ہلاک ہو جائے گا۔ تو اس بات سے بلند ہے کہ اپنے حبیب کو غصہ دلائے ، اپنے دشمن کو راضی کرے اور اپنے بندے کو ہلاک کرے۔ اے اللہ ! معزز عربوں کی یہ عادت ہے کہ جب ان میں سے کوئی سردار فوت ہو جاتا ہے تو اس کی قبر پر غلاموں کو آزاد کرتے ہیں۔ یہ جہانوں کے سردار ہیں، لٰہذا ان کی قبر پر مجھے آزاد کر دے۔ اصمعی کہتے ہیں کہ میں نے اس بدوی سے کہا: اے عرب ! تیرے اندازِ سوال کی بنا پر تجھے معاف کر دیا گیا ہے۔ “
[وفاء الوفاء باخبار دار المصطٖفي للسمهودي: 214/4]
تبصره:
یہ سفید جھوٹ ہے۔ امام اصمعی رحمہ اللہ تک سند مذکور نہیں ۔ بعض امتیوں سے منقول بے سروپا روایات دین نہیں بن سکتیں۔
دلیل نمبر 29:
عبد الله بن جعفر بن ابو طالب (م: 80 ھ ) کہتے ہیں:
كنت اذا ساٗلت عليا شيٗا ، فامتنع ، قلت له: بحق جعفر ، فيعطيني
”میں جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کوئی چیز مانگتا اور وہ نہ دیتے تو میں ان سے کہتا: جعفر کے واسطے ! اس پر وہ مجھے دے دیتے۔“
[تاريخ يحيى بن معين برواية ابن محرز: 168/1 ، كتاب الولاة سكندي: 21 ، المعرفة والتاريخ للفسوي: توضيح المشتبه: 230/1 ، صحيح ابن السكن: الإصابة فى تمييز الصحابة لابن حجر: 237/1 ، الاستيعاب لا بن عبد البر: 244/1 ، تاريخ دمشق لابن عساكر: 389/56]
تبصره:
یہ اثر بلحاظ سند سخت ”ضعیف“ ہے۔ اس کا راوی مجالد بن سعید جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ اور غیر ثقہ ہے۔ اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجالد ، حديثه عن اصحابه كانه حلم
”مجالد کی اپنے اصحاب سے روایت بے اصل ہوتی ہے۔“
[كتاب المجروحين لا بن حبان: 11/3، وسنده حسن]
نیز فرماتے ہیں.
حديث مجالد عن الشعبي كانه حلم
”مجالد کی شعبی سے روایت بے اصل ہوتی ہے۔“
[مسائل الإمام أحمد و إسحاق بن راهويه: 750]
مذکورہ بالا روایت بھی امام شعبی سے ہے، لٰہذا یہ جرح مفسر ہے اور روایت ”ضعیف“ ہے۔
نیز اسے امام شافع [المحروحين لابن حبان: 11/3، وسنده حسن] ، حافظ ابن سعد [الطبقات الكارى: 349/5] ، حافظ جوزجانی [أحوال الرجال: 126] ، امام نسائی [كتاب الضعفاء والمتروكين، ص: 233] ، (بعض علماء نے امام نسائی سے اس کا ثقہ ہونا بھی ذکر کیا ہے، لیکن اس کا ثبوت نہیں ملا ) ، امام دارقطنی [كتاب الضعفاء والمتروكين: 532] ، امام یحیٰی بن معين [الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 362/8، وسنده صحيح] ، امام يحيى بن سعيد (أيضا، وسنده صحيح) ، امام ابو حاتم رازی (أيضا) ، امام عبد الرحمن بن مهدى [الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي: 421/6، وسنده صحيح] ، امام ابن عدى [أيضا: 423/6] ، امام ترمذی [السنن: 648] ْ و غیره نے ”ضعیف“ اور ”غیر محتج بہ“ کہا ہے۔
حافظ ابن عراقی فرماتے ہیں:
وقد ضعفه الجمهور ، وقد اختلط اخيرا
”اسے جمہور محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔ یہ آخری عمر میں سٹھیا گیا تھا۔
[طرح التثريب فى شرح سنقر يب: 381/2]
حافظ ہیثمی فرماتے ہیں:
وقد ضعفه الجمهور
”اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے ۔ “
[مجمع الزوائد: 33/5 ، 190]
علامہ عینی حنفی کہتے ہیں:
ومجالد ضعفه الجمور
”مجالد کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“
[عمدة القاري بشرح صحيح البخاري: 240/6 ، تحت حديث: 934]
علامہ شوکانی لکھتے ہیں:
وقد ضعفه الجمهور
”اس کی جمہور نے تضعیف کر رکھی ہے ۔ “
[نيل الأوطار: 205/3، وفي نسخة: 2 /273]
دوسری بات یہ ہے کہ اگر بالفرض اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو اس کا وہ معنی نہیں جو بعض لوگوں سے سمجھ لیا ہے، یعنی اس سے مراد یہ نہیں کہ عبد اللہ بن جعفر اپنے چچا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کی قسم دیتے تھے، بلکہ شیخ الا سلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
فان بعض الناس ظن ان هذا من باب الاقسام عليه بجعفر ، او من باب قولهم: اسالك بهق انبيائك ، ونحو ذلك ، وليس كذلك ، بل جعفر هو اخو على ، وعبدالله هو ابنه ، وله عليه حق الصلة ، فصلة عبدالله صلة لابيه جعفر ، كما فى الحديث:
ان من ابر البر ان يصل الرجل اهل و دابيه بعد ان يولي م وقوله: ان من برهما بعد موتهما الدعاء لهما ، والاستغفار لهما ، وانفاذ عهدهما من بعدهما ، وصلة رحمك التى لا رحم لك الا من قبلهما ،
ولو كان هذا من الباب الذى ظنوه لكان سواله لعلي بحق لنبي وابراهيم الخليل ونحوهما ، اولي من شواله بحق جعفر ، مكان على الي تعظيم رسول الله صلى الله عليه وسلم ومحيته واجابة اسائل به اسرع منه الي اجابة اسائل بغيره لكن بين المعنيين فرق

”بعض لوگ یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ عبد اللہ بن جعفر نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے جعفر رضی اللہ عنہ کا ذکر کر کے ان کو جعفر رضی اللہ عنہ کی قسم دی ہے یا ان کا یہ فعل انبیائے کرام کے بحق مانگنے کے مترادف ہے، حالانکہ ایسا بالکل نہیں۔ سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ تو سیدناعلی رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں اور عبد اللہ ان کے بیٹے ہیں۔ ان کا سیدنا علی رضی اللہ عنہ پر اپنے والد کی وجہ سے حق رشتہ داری تھا، جیسا کہ حدیث میں ہے:
سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے والد کی وفات کے بعد اس کے تعلق داروں سے حسن سلوک کرے۔
نیز فرمایا: والدین کے ساتھ نیکی کی ایک صورت یہ ہے کہ ان کے لیے دُعا کی جائے ، ان کے لیے مغفرت طلب کی جائے ، ان کی وفات کے بعد ان کے کیے گئے وعدے پورے کیے جائیں اور اپنے والدین کی طرف سے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے۔
اگر اس سے مراد وہ وسیلہ یا واسطہ ہوتا جو ان لوگوں نے سمجھا ہے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابراہیم خلیل علیہ السلام وغیرہ کے واسطے سے مانگنا بحق جعفر مانگنے سے زیادہ فائدہ مند ہوتا، کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تعظیم اور محبت کی وجہ سے سوالی کی مراد بحق جعفر مانگنے کی نسبت جلدی پوری کر دیتے۔ لیکن ان دونوں باتوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ “
[اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم: 2 /329,330]
دلیل نمبر 30:
امام شعبی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لقد رايت عجبا ، كنا بفناء الكعية انا ، عبدالله بن عمر ، وعبدالله بن الزبير ، و معصب بن الزبير ، عبدالملك بن مروان ، فقال القوم بعد ان فرغوا من حديثهم: ليقم كل رجل منكم فليا خذ بالركن اليماني ، وئساٗل الله حاجته ، فانه يعطٰي من ساعنه ، قم يا عبدالله بن الزبير ! فانك اول مولد ولد فى الهجرة ، فقام فاخذ بالر كن ، ثم قال: اللهم ! انك عظيم ، ترجي لكل عظيم ، اسالك بحرمة وجهك ، و حرمة عرشك ، و حرمة شك ، وحرمة نبيك صلى الله عليه وسلم ، الا تميتني من الدنيا حتي توليني الحجاز ، ويسلم على باخلافة ، وجاء حتي جلس ، فقالوا: قم يامصعب بن الزبير ! فقام حتي اخذ بالركب اليماني ، فقال: اللهم ! انك رب كل شيء واليك مصير كل شيء ، اسالك بقدر تك على كل شئيء ، الا تميتني من الدنيا حتي توليني العراق ، وتزو جني سكينة بنت الحسين ، وجاء حتي جلس فقالو: قم يا عبدالملك بن مروان ! فقام حتي اخذ بالركن اليماني ، فقال: اللهم ! رب السمعوات السبع، ورب الارضين ذات النبت بعد القفر ، اسالك بما سالك عبادك المطيعون لا مرك ، اسالك بحرمة وجهك واسالك بحقك على جميع خلقك ، و بحق الطائفين حول بيتك ، الا تميتني من الدنا حتي توليني شرق الدنيا وغربها ، ولا ينازعني احد الا اتين براسه ، ثم قال: اللهم ! انك رحمن رحيم ، اسالك برحمتك التى سبقت غضبك ، واسالك بقدرتك على جميع خلقك ، الا تميتني من الدنيا حتي توجب لي الجنة ، قال الشعيي: فما ذهبت عيناي من الدينا حتي رايت كل رجل منهم قد اعطي ما سال ، وبشر عبدالله بن عمر بالجنة ، وزينت له
”میرے ساتھ ایک بہت عجیب واقعہ پیش آیا۔ ایک دن میں ، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ، سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہ اور عبد الملک بن مروان خانہ کعبہ کے صحن میں بیٹھے تھے۔ جب سب لوگ اپنی باتوں سے فارغ ہوئے تو کہنے لگے: ہرشخص کھڑا ہو اور رکن یمانی پکڑ کر اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت طلب کرے۔ اس وقت اس کی دعا قبول ہو گی۔ پھر کہنے لگے: عبد اللہ بن زبیر! آپ کھڑے ہوں کیونکہ آپ ہجرت کے بعد سب سے پہلے پیدا ہونے والے مسلمان تھے۔ عبداللہ بن زبیر کھڑے ہوئے اور رکن یمانی پکڑ کر عرض کی: اللہ! تو بہت بڑا ہے، ہر بڑے معاملے میں تجھ ہی سے امید لگائی جاتی ہے۔ میں تجھ سے تیرے چہرے، تیرے عرش اور تیرے نبی کی حرمت کے طفیل سوال کرتا ہوں کہ تو مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں حجاز کا حکمران نہ بن جاؤں اور مجھے خلیفہ نہ مان لیا جائے۔ سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ واپس آ کر اپنی جگہ بیٹھ گئے ۔ لوگوں نے کہا: مصعب بن زبیر! اب تم جاؤ۔ وہ گئے اور رکن یمانی پکڑ کر یوں عرض گزار ہوئے: اللہ ! تو ہر چیز کا مالک ہے۔ ہر چیز تیری ہی طرف لوٹ کر جانے والی ہے۔ میں ہر چیز پر تیری قدرت کے وسیلے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک میں عراق کا حکمران نہ بن جاؤں اور سکینہ بنت حسین سے میری شادی نہ ہو جائے ۔ وہ آئے اور بیٹھ گئے ۔ پھر لوگوں نے عبد الملک بن مروان سے کہا۔ وہ کھڑے ہوئے اور رکن یمانی تھام کر کہا: اللہ ! تو ساتوں آسمانوں اور ان ساتوں زمینوں کا مالک ہے جو پہلے بنجر تھیں اور پھر سرسبز وشاداب ہو گئیں۔ میں تجھ سے اسی طرح سوال کرتا ہوں جس طرح تیرے فرمانبردار بندوں نے سوال کیا تھا ۔ میں تجھ سے تیرے چہرے کی حرمت کے وسیلے ، تمام مخلوقات پر تیرے حق کے طفیل اور تیرے گھر کا طواف کرنے والے لوگوں کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ دینا جب تک میں زمین کے مشرق و مغرب کا حکمران نہ بن جاؤں اور جو بھی مجھ سے مقابلہ کرے میں اس کا سر قلم کر دوں۔ وہ آئے اور بیٹھ گئے ۔ لوگوں نے سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا ، وہ کھڑے ہوئے اور رکن یمانی پکڑ کر عرض کرنے لگے: میرے اللہ ! تو رحمن و رحیم ہے۔ میں تیری اس رحمت کے طفیل سوال کرتا ہوں جو تیرے غصے پر غالب ہے، نیز میں تمام مخلوق پر تیری قدرت کے طفیل مطالبہ کرتا ہوں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے جب تک تو مجھ پر جنت واجب نہ کر دے۔ شعبی کہتے ہیں: میں نے مرنے سے پہلے ہر شخص کی دعا کو قبول ہوتے ہوئے دیکھ لیا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھی جنت کی بشارت دے دی گئی اور ان کے لیے جنت آراستہ کر دی گئی ۔ “
[مجابوا الدعوة لابن أبى الدنيا: 121 ، 120 ، المنتظم لابن الجوزي: 134,135/6 ، تاريخ دمشق لابن عساكر: 171/31]
تبصره:
➊ یہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اس جھوٹی روایت کو گھڑنے کا کارنامہ سخت جھوٹے شخص اسماعیل بن ابان غنوی نے سرانجام دیا ہے۔
اس کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كتبنا عنه ثم حدث احاديث موضوعة فتر كناه
”ہم نے اس سے ۔ ۔ ۔ کچھ احادیث لکھی تھیں ، پھر اس نے ۔ ۔ ۔ جھوٹی احادیث بیان کیں ۔ ۔ ۔ تو ہم نے اسے چھوڑ دیا ۔“
[الملل ومعرفة الرجال للإمام أحمد برواية ابنه عبدالله: 211/3 ، ت: 4912]
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ ”کذاب“ راوی ہے۔
[الكامل فى ضعفاء الرجال لابن عدي: 502/1 ، وسنده صحيح]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے ”متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔
[كتاب الضعفاء: 16]
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
متروك الحديث ، كان كذابا
”یہ متروک الحدیث اور سخت جھوٹا راوی تھا۔ “
[الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 160/2]
امام ابو زرعہ رحمہ اللہ نے بھی اسے ”متروک الحدیث“ قرار دیا ہے۔ (ایضا)
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے ۔ [سنن الدار قطني: 329/1]
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وكان يضع على الثقات
”یہ ثقہ راویوں سے منسوب کر کے جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔“
[كتاب المجروحين: 128/1]
علامہ جوزجانی کہتے ہیں:
ظهر منه على لاكذب
”میں نے اس کا جھوٹ پکڑ لیا ہے ۔“
[أحوال الرجال: 84]
➋ طارق بن عبد العزیز نامی راوی کی توثیق نہیں مل سکی ، بلکہ کتب رجال میں اس کا ذکر تک نہیں۔
➌ اس سند میں سفیان ثوری کی ”تدلیس“ بھی موجود ہے۔ سماع کی تصریح نہیں مل سکی۔
دليل نمبر 31:
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
جو شخص اذان سننے کے بعد یہ الفاظ کہے تو روز قیامت اسے میری شفاعت نصیب ہو گی:
بحق هذه الدعوة و الصلاة القائمة ، آت محمد الوسيلة ولفضيلة ، وابعثه المقام المحمو دالذي وعدته ، انك لا تخلف الميعاد
”اے اللہ ! اس کامل دعوت اور قائم ہونے والی نماز کے طفیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلہ عطا فرما اور ان کو اس مقام محمود پر مبعوث فرما جس کا تُو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے۔ بلاشبہ تو اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا ۔“
[المعجم الأوسط للطبراني: 4654 ، المعجم الصغير للطبراني: 670 ، السنن الكبرى للبيهقي: 410/1 ، الدعوات الكبير للبيهقي: 49 ، وسنده صحيح]
اس حدیث کے الفاظ کے متعلق حافظ ابن رجب رحمہ اللہ (736-795 ھ) فرماتے ہیں:
وهذا الفظ لا اشكال فيه ، فان الله سبحانه جعل لهذه الدعوة اللصلاة خقا كتنه على نفسه ، ولا يخلفه عمن قم بهما من عباده فرجع الامر الي السوال بصفات الله و كلماته
”ان الفاظ میں کوئی اشکال نہیں، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس دعوت اور نماز کے بدلے (اپنے نبی کی شفاعت عطا کرنے کا ) حق اپنے اوپر لازم کیا ہے۔ جو شخص ان دونوں چیزوں کا اہتمام کرتا ہے، اللہ تعالٰی اس سے اپنے وعدے کو ضرور وفا کرتا ہے۔ یوں آخر کار معاملہ اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے کلمات (کے وسیلے) کا ہی ہے ۔“
[فتح الباري: 271/5]
علامہ محمد بشیر سہسوانی رحمہ اللہ (م: 1326 ھ) فرماتے ہیں:
ان المراد بھذہ الدعوۃ التامۃ نوع الاذان ، لا اذان موذن مخصوص ، کما ان لامراد مطلق الصلاۃ ، لا صلاۃ مصل معین ، فغایۃ ما یثبت منہ التوسل بمطلق الاعمال الصالحۃ من غیر اضافتھا الی اشخاص معینین ، وھو بمعزل عن المطلوب
”اس دعوت کاملہ سے مراد نوع اذان ہے، کسی مخصوص مؤذن کی اذان یہاں مراد نہیں ۔ اسی طرح نماز سے یہاں مطلق نماز مراد ہے، کسی خاص نمازی کی نماز نہیں۔ لٰہذا زیادہ سے زیادہ اس حدیث سے ثابت ہو گا کہ معین اشخاص کی طرف نسبت کیے بغیر نیک اعمال کو وسیلہ بنانا جائز ہے اور یہ صورت ان کے مقصود کے خلاف ہے۔ “
[صيانة الإنسان عن وسوسة الشيخ دحلان، ص: 203]
دلیل نمبر 32:
امام شافعی کی طرف منسوب ایک ضعیف اور باطل روایت یوں ہے:
اني لاتبرك بائي حنيفة ، واجيء الي قبره فى كل يوم ، يعني زائرا ، فاذا عرضت لي حاجة صليت ركعتين ، وجئت الي قبره ، وسالت الله تعالي الحاجة عنده ، فما تبعد عني حتي تقضي
”میں امام ابو حنیفہ سے تبرک حاصل کرتا ہوں اور ان کی قبر پر ہر دن زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو میں دو رکعتیں ادا کرتا ہوں اور ان کی قبر کی طرف جاتا ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ سے اپنی ضرورت کا سوال کرتا ہوں ، جلد ہی وہ ضرورت پوری کر دی جاتی ہے ۔ “
[تاريخ بغدادللخطيب البغدادي: 135/1]
تبصره:
یہ جھوٹی اور باطل روایت ہے ۔ اس کے راوی عمر بن اسحاق بن ابراہیم کا کتب رجال میں کوئی نام ونشان نہیں ملتا۔ نیز علی بن میمون راوی کی بھی تعیین نہیں ہو سکی۔
اس کے باوجود محمد زاہد الکوثری حنفی جہمی نے اس کی سند کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔
[مقالات الكوثري: 380]
جس روایت کے راوی کا حال یہ ہو کہ اس کا کتب رجال میں ذکر ہی نہ ہو، اس کی سند صحیح کیسے ہوئی؟ کیا یہ سب کچھ قبر پرستی کو تقویت دینے کے لیے تو نہیں کیا جارہا؟
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م 728ھ ) اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وهذا كذب معلوم كذبه بالاضطرار عند من له اذني معرفة بالنقل ، فاز الشافعي لما قدم بغداد لم يكن ببغداد قبر ينتاب للدعاه البتة ، بل ولم يكن هذا على عهد الشافعي معروفا وقد راي الشافعي بالحجاز واليمن والشام والعرق و مصر من قبور الانبياء والصحابة التابعين ، من كان اصحابها عنده و عندالمسلمين افضل من ابي حنيفة وامثاله من العلماء فما باله لم يتوخ الدعاء الا عند قبر ابي حنيفة ، ثم اصحاب ابي حنيفة الذين ادركوه مثل ابي يوسف و محمد وزفر والحسن بن زياد وطبقتهم لم يكونوا يتحرون الدعاء ، لا عند قبر ابي حنيفة ولا غيره ، ثم قد تقدم عن الشافعي ما هو ثابت فى كتانه من كراهة تعظيم قبور الصالحين خشية الفينه بها ، وانما يضع مثل هذه لحكايات من يقل علمه و دينه ، واما ان يكون المنقول من هذه الحكايات عن مجهول لا يعرف
”یہ ایسی جھوٹی روایت ہے جس کا جھوٹا ہونا ہر اس شخص کو لازمی طور پر معلوم ہو جاتا ہے جو فن روایت سے ادنٰی معرفت بھی رکھتا ہو۔ امام شافعی رحمہ اللہ ، جب بغداد تشریف لائے تو وہاں قطعاً کوئی ایسی قبر موجود نہیں تھی جس پر دعا کے لیے حاضر ہوا جاتا ہو ۔ یہ چیز امام شافعی رحمہ اللہ کے دور میں معروف ہی نہیں تھی ۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے حجاز ، یمن ، شام ، عراق اور مصر میں انبیائے کرام اور صحابہ و تابعین کی قبریں دیکھی تھیں۔ یہ لوگ تو امام شافعی اور تمام مسلمانوں کے ہاں امام ابوحنیفہ اور ان جیسے دوسرے علماء سے افضل تھے۔ کیا وجہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ نے سوائے امام ابو حنیفہ کے کسی کی قبر پر دعا نہیں کی؟ پھر امام ابو حنیفہ کے وہ شاگرد جنہوں نے ان کی صحبت پائی تھی، مثلاً ابو یوسف محمد (بن حسن) ، ابو زفر اور حسن بن زیاد ، نیز ان کے طبقے کے دوسرے لوگ امام ابو حنیفہ یا کسی اور کی قبر پر دعا نہیں کرتے تھے۔ پھر یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک نیک لوگوں کی قبروں کی تعظیم کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس میں فتنے کا خدشہ ہے۔ اس طرح کی جھوٹی روایات وہ لوگ گھڑتے ہیں جو علمی اور دینی اعتبار سے تنگ دست ہوتے ہیں یا پھر ایسی روایات مجہول اور غیر معروف لوگوں سے منقول ہوتی ہیں ۔ “
[اقتضاء الصراط المستقيم لمخالفة أصحاب الجحيم، ص: 165]
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (691-751 ھ) فرماتے ہیں:
قال شيخنا قدس الله روحه: وهذه الامور المبتدعة عند القبور مراتب ، ابعدها عن الشرع: ان يسال الميت حاجته ، ويستغيث به فيها ، كما يفعله كثير من الناس ، قال: وهولاء من جنس عباد الاصنام ، ولهذا قد يتمثل لهم الشيطان فى صورة الميت او الغائب كام يتمثل لعباد الاصنام ، يحصل للكفار من المشركين واهل الكتاب ، يدعو احدهم من يعظمه ، فيتمثل له الشيطان احيانا ، وقد يخاطبهم ببعض الامور الغائية ، وكذلك السجود القبر ، التمسح به وتقبيله ، المرتبة الثانية: ان يسال الله عزوجل به ، وهذا يفعله كثير من المتاخرين ، وهوبدعة باتفاق المسلمين الربعة: ان يظن ان لدعاء عند قبره مستجاب او انه افضل من الدعاء فى المسجد ، فيقصد زيارته والصلاة عنده لاجل طلب حوائجه ، فهذا ايضا من المنكرات المبتدعة باتفاق المسلمين ، وهى محرمة ، وما علمت فى ذلك نزرعا بين اعمة الدين ، وان كان كثير من المتاخرين يفعل ذلك ، ويقول بعضهم: قبر فلان ترياق محرب ، والحكاية المقولة عن الشافعي انه كان يقصد الدعاء عند قبر ابي حنيفة من الكذب الظاهر
”ہمارے استاذ قدس اللہ سترہ (شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ) نے فرمایا: قبروں کے پاس بدعت پر مبنی امور کے کئی مراتب ہیں۔ سب سے بڑھ کر شریعت کے منافی مرتبہ یہ ہے کہ میت سے اپنی حاجت روائی کا سوال کیا جائے اور اس سے مدد کی درخواست کی جائے جیسا کہ بہت سے لوگ کرتے ہیں۔ یہ لوگ بت پرستوں جیسے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات شیطان ان کے سامنے کسی میت یا کسی غیر موجود شخص کی صورت بنا کر آتا ہے اور بت پرستوں کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرتا ہے۔ مشرکوں ، کافروں اور اہل کتاب کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ وہ اپنے ہاں قابل تعظیم ہستی کو پکارتے ہیں تو شیطان ان کے سامنےنہ اس کی صورت میں ظاہر ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار تو انہیں بعض غیبی امور کی خبر بھی دیتا ہے۔ قبروں کو سجدہ کرنا، ان کو تبرک کی نیت سے چھونا اور ان کو چومنا بھی اس مرتبے سے تعلق رکھتا ہے۔
دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ قبر والوں کے طفیل اللہ تعالیٰ سے دُعا کی جائے۔ بہت سے متاثرین ایسا کرتے ہیں ۔ اس کام کے بدعت ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے ۔
چوتھا مرتبہ یہ ہے کہ انسان کسی بزرگ کی قبر کے پاس دُعا کی قبولیت کا اعتقاد رکھے یا یہ سمجھے کہ وہاں دعا کرنا مسجد میں دعا کرنے سے افضل ہے اور اسی خیال سے وہ قیر کی زیارت کو جائے اور وہاں اپنی حاجات کو پورا کرنے کے لیے نماز ادا کرے۔ مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ یہ کام بھی بدی منکرات میں سے ہے جو کہ حرام ہیں ۔ مجھے اس بارے میں ائمہ دین کا کوئی اختلاف معلوم نہیں ۔ ہاں ، مناخرین میں سے بہت سے لوگ اس میں مبتلا ہیں۔ بعض تو کہتے ہیں کہ فلاں کی قبر تجربہ شدہ ریاق ہے۔ امام شافعی کے بارے میں امام ابو حنیفہ کی قبر کے پاس دُعا کرنے کی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ صاف جھوٹ ہے۔“
[إغاثة اللهفان من مصايد الشيطان: 218/1]
جناب سرفراز خان صفدر دیو بندی حیاتی صاحب (م: 2008 ) لکھتے ہیں:
”یہ واقعہ ہی جھوٹا اور گھڑا ہوا ہے ۔“
[باب جنت، ص: 66]
دلیل نمبر 33:
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فارغ ہونے کے بعد یوں دعا کیا کرتے تھے،
اللهم ! اني اسالك بحق السائلين عليك
”اے اللہ میں اس حق کے وسیلے سے مانگتا ہوں جو تجھ پر سوال کرنے والوں کا ہے۔ “
[مسند الديلمي بحواله كنز العمال للمتقي الهندي: 4977]
تبصره:
یه سخت ”ضعیف“ روایت ، کیونکہ:
➊ عمر و بن عطیہ عوفی راوی ”ضعیف“ ہے۔ کسی نے اس کی توثیق نہیں کی۔ اس کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فى حديثه نظر
”اس کی روایت منکر ہوتی ہے ۔“
[الضعفاء الكبير للعقيلي: 290/3، وسنده صحيح]
امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ ذرا بھی قوی نہیں ۔
[الجرح والتعديل: 250/6]
امام دار قطنی رحمہ اللہ بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
[کتاب الضعفاء والمتروكين: 388]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ بھی اسے ”ضعیف“ کہا ہے ۔
[مجمع الزوائد: 82/6]
➋ عطیہ عوفی راوی بھی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے، نیز یہ ”مدلس“ بھی ہے اور ”تدلیس تسویہ“ کا مرتکب تھا۔
دلیل نمبر 34:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
میں سیدنا یعقوب علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے یوں دُعا کی:
يااله ابراهيم ! اسالك بحق ابراهيم خليلك عليك ، واسحاق ذبيحك عليك
”اے ابراہیم کے الٰہ ! میں تجھ سے تیرے خلیل ابراہیم علیہ السلام اور تیرے ذبیح اسحاق علیہ السلام کے اس حق کے وسیلے سوال کرتا ہوں جو ان کا تجھ پر ہے۔“
[تخريج أحاديث الكشاف للزيلعي: 179/3]
تبصره:
یہ باطل اور جھوٹی روایت ہے۔ خود علامہ زیلعی امام دار قطنی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
هذا حديث موضوع باطل ، واسحاق بن وهب الطر طوسي يضع الحديث على ابن وهب وغيره ، حدث عنه بهذا الاسناد احاديث لا اصل لها
”یہ حدیث جھوٹی اور مردود ہے۔ اسحاق بن وہب طر طوسی راوی ، ابن وہب اور دیگر ثقہ راویوں سے منسوب کر کے خود ساختہ روایات بیان کرتا ہے۔ اس نے اسی سند کے ساتھ ابن وہب سے بہت سی بے بنیاد روایات بیان کی ہیں ۔“ (ایضا)
دلیل نمبر 35:
سیدنا سواد بن قارب سدوسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی تو یہ اشعار کہے:
فاشهد ان الله لا عب غيره وانك مامون على كل غاعب وانك ادني المرسلين وسيلة الي الله يا الا كر مين الا طايب وكن لي شفيعا يوم لا ذوشفاعة سواك بتغن عن سواد بن قارب
”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی رب نہیں ، آپ ہر غائب کے محافظ ہیں اور اے معزز و پاکیزہ لوگوں کی اولاد! آپ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب رسولوں سے بڑھ کر مقام و مرتبہ رکھتے ہیں۔ آپ اس دن میرے لیے سفارشی بن جانا جس دن آپ کے سوا سواد بن قارب کو کسی کی سفارش فائدہ نہیں دے سکے گی ۔“
[المعجم الكبير للطبراني: 94/7 ، 95 ، ح: 6475 ، معجم الشيوخ لأبي يعلى: 329 ، المستدرك للحاكم: 610/3 ، ح: 6558 ، دلائل النبوة للبيهقي: 31/2 ، 32 ، دلائل النبوة لأبي نعيم الأصبهاني: 280 ، دلائل النبوة لأسماعيل الأصبهاني: 144]
تبصره:
① یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی عثمان بن عبد الرحمن و قاصی با تفاق محدثین ”ضعیف“ اور ”متروک“ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
متروك وكذبه ابن معين
”یہ متروک راوی ہے۔ امام ابن معین رحمہ اللہ نے اسے سخت جھوٹا قرار دیا ہے۔“
[تقريب التهذيب: 4494]
➋ اس کی سند میں انقطاع بھی ہے۔ محمد بن کعب قرظی کا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سماع ولقاء نہیں ہے۔
امام شافعی رحمہ اللہ (150 – 204 ھ ) فرماتے ہیں:
نحن لا تقبل الحديث المنقطع
”ہم (جماعت محدثین) منقطع حدیث کو قبول نہیں کرتے ۔“
[الآء: 461/10]
حافظ ہیثمی نے اس کی سند کو ”ضعیف“ کہا ہے ۔
[مجمع الزوائد: 250/8]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
الاسناد منقطع
”یہ سند منقطع ہے۔ “
[تلخيص المستدرك: 610/3]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهذا منقطع من هذا الوجه
”یہ روایت اس سند سے منقطع ہے ۔ “
[السيرة النبوية: 346/1]
اس میں اور بھی علتیں اور خرابیاں ہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ابو عبد الرحمن اسمه عثمان بن عبد الرحمن الوقاصي ، متفق على تركه ، وعلي بن منصور فيه جهالة ، مع ان الحديث منقطع
” (اس سند میں مذکور ) ابو عبد الرحمن کا نام عثمان بن عبد الرحمن وقاصی ہے۔ اس کے متروک ہونے پر اجماع ہے۔ نیز علی بن منصور مجہول ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ حدیث منقطع بھی ہے ۔ “
[تاريخ الإسلام: 1/ 208 ، سير أعلام النبلاء: 246/1]
② اس کی مزید کئی سندیں ہیں۔ ان کا حال بھی ملاحظہ فرمائیں:
➊ اس کی ایک جھوٹی سند خرائطی کی [هواتف الجان 27] اور ابونعیم اصبہانی کی [معرفة الصحابة 1405/3، ح: 3551] میں مذکور ہے ۔ اس کے راوی عبید اللہ بن ولید وصافی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
احد المتروكين
”یہ متروک راوی ہے ۔“
[تاريخ الاسلام: 216/9]
اسے امام نسائی وغیرہ نے ”متروک“ قرار دیا ہے۔ اس کے بارے میں ادنیٰ کلمہ توثیق بھی ثابت نہیں ۔
حافظ بوصیری فرماتے ہیں:
اجمعوا على ضعفه
”اہل علم کا اس کے ضعیف ہونے پر اجماع واتفاق ہے۔“
[اتخاف الخيرة المهرة: 477/1 ، ح: 888]
اس میں اور بھی خرابیاں موجود ہیں۔
➋ امام بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب [دلائل النبوة 249/2] میں بھی اس کی ایک سند موجود ہے۔ وہ بھی سخت ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
1 ، 2 . محمد بن تراس کوفی اور زیاد بن یزید بن ہارویہ ابو بکر قصوی ، دونوں ”مجہول“ ہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اس حدیث کو منکر قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
و محمد بن تراس و زياد مجهولان ، لا تقبل روايتهما ، واخاف ان يكون موضوعا على ابي بكر بن عياش
”محمد بن تراس اور زیاد دونوں مجہول ہیں، ان کی روایت قبول نہیں ہو سکتی۔ مجھے خدشہ ہے کہ اسے گھڑ کر ابوبکر بن عیاش کے ذمے لگا دیا گیا ہے۔“
[سير أعلام النبلاء: 245/1]
یہ سخت ”ضعیف“ اور باطل روایت انہی نامعلوم افراد کی کارستانی ہوسکتی ہے۔
3. ابو اسحاق سبیعی ”مدلس“ ہیں۔
➌ علامہ سیوطی نے [الخصائص الكبري 255/1] اور ابو نعیم اصبہانی نے [معرفة الصحابة: 3552] میں مسند حسن بن سفیان کے حوالے سے اس کی ایک سند ذکر کی ہے۔ یہ بھی سخت ترین ”ضعیف“ ہے ، کیونکہ:
ا۔ اس میں حسن بن عمارہ جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے ۔
اس کے بارے میں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعفه الجمهور
”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“
[طبقات المدلسين: 53]
نیز فرماتے ہیں:
والحسن ضعيف جدا
”حسن سخت ترین ضعیف ہے ۔“
[التلخيص الحبير: 409/1]
حافظ سہیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
فهو ضعيف یاجماع اهل الحديث
”محدثین کرام کا اجماع ہے کہ یہ ضعیف راوی ہے۔“
[الروض الأنف: 43/6 ، نصب الراية للزيلعي الحنفي: 311/2]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعفه شعيبه وجماعة كثيرة
”اسے امام شعبہ اور اہل علم کی ایک بڑی جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے۔“
[مجمع الزوائد: 289/2 ، ح: 3721]
حافظ بوصیری لکھتے ہیں:
وقد تكلمو فيه كثيرا ، كذبه شعبة ، ونقل الساجي اجماع اهل الحديث على ترك حديثه ، وفيه كلام كثير جدا
”محمدثین کرام نے اس کے بارے میں بہت زیادہ کلام کیا ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ نے اسے کذاب قرار دیا ہے اور امام ساجی نے اس کی حدیث کو چھوڑ دینے پر محدثین کا اجماع نقل کیا ہے۔ اس پر بہت زیادہ جرح موجود ہے۔“
[اتحاف الخيرة المهرة: 80/2 ، ح: 1075]
ثابت ہوا کہ یہ متروک راوی ہے۔ یہ ”مدلس“ بھی ہے۔
2. اس سند میں موجود عراک بن خالد بن یزید نامی راوی کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لين
”یہ کمزور راوی ہے ۔ “
[تقريب التهذيب: 4548]
➍ امام ابن عساکر رحمہ اللہ نے [تاريخ دمشق 322/72] میں بھی اس کی ایک سند ذکر کی ہے۔ وہ بھی جھوٹی اور باطل ہے، کیونکہ اس کا بیان کرنے والا حکم بن یعلی بن عطاء رعینی راوی ”متروک“ اور ”ضعیف“ ہے۔
➎ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے [المسيرة النبوية 349/1] میں ایک سند نقل کی ہے۔ وہ بھی خود ساختہ ہے، اس کو محمد بن سائب کلبی نے گھڑا ہے جو باتفاق محدثین سخت جھوٹا اور ”ضعیف“ ہے۔
➏ علامہ سیوطی نے [الخصائص الكبري 255/1] میں امام ابن شاہین رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک سند لکھی ہے۔ وہ بھی انتہائی جھوٹی ہے۔ اس کو علاء بن یزید نامی راوی نے تراشا ہے۔ یہ ”منکر الحدیث“ ، ”متروک الحدیث“ اور احادیث گھڑنے والا راوی ہے۔ اسی طرح اس کا شاگرد فضل بن عیسیٰ رقاشی بھی ”متروک“ اور ”ضعیف“ ہے۔
پھر مزے کی بات یہ ہے کہ اس روایت میں وسیلے سے مراد مقام و مرتبہ اور قدر و منزلت ہے اور ان اشعار میں روزِ قیامت شفاعت کی درخواست ہے۔
دلیل نمبر 36:
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
قلت العلي: يا امير المومنين ! اسالك بالله ورسوله ، الا حصصتني باعظم ما خصك به رسول الله صلى الله عليه وسلم ، واختصه به جبريل ، وارسله به الرحمن فضحك ثم قال له: يا براء! اذا اردت ان تدعو الله عزوجل بايمه الاعظم ، فاقرا من اول سورة الحديد الي آخر ست آيات منها ، الي عليم بذات الصدور ، وآخر سورة الحشر ، يعني اربع آيات ثم لرفع يديك ، فقل: يامن هو هكذا ، اسالك بحق هذه الاسماء ان تصلي على محمد وال محمد ، وان تفعل بي كذا وكذا ، مما تريد ، فوالذي لااله عيره لتقبلن بحاجتك ان شاء الله
”میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا: اے امیر المومنین ! میں اللہ و رسول کے واسطے آپ سے کہتا ہوں کہ مجھے وہ سب سے بڑی چیز دے دیجیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف آپ کو اور جبریل نے اللہ کی طرف سے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی ہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ مسکرائے ، پھر فرمایا: اے براء ! جب تم چاہو کہ اللہ سے کچھ مانگو تو اسم اعظم کے ذریعے مانگو۔ سورۂ حدید کی پہلی چھے آیات اور سورہ حشر کی آخری چار آیات پڑھ لو، پھر اپنے ہاتھ اٹھاؤ اور کہو: اے وہ ذات جو ان اوصاف سے متصف ہے! میں تجھ سے ان اسمائے حسنیٰ کے واسطے سے سوال کرتا ہوں کہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر درود و سلام نازل فرما اور مجھے یہ ، یہ چیز عطا فرما۔ اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، تیری حاجت ضرور پوری کر دی جائے گی۔ “ ان شاء الله
[ابن النجار بحواله كنز العمال للمتقي الهندي: 249,248/2]
تبصره:
یہ جھوٹی روایت ہے، کیونکہ:
➊ اس کا راوی عمرو بن ثابت بن ہرمز ”متروک و کذاب“ ہے۔
➋ اس میں کئی راوی مجہول ہیں، مثلاً احمد بن ادریس بن احمد بن نصر بن مزاحم محمد بن محمد بن عبد العزیز عبکری اور ابو عبد اللہ محمد بن فضل اخباری وغیرہ۔
حافظ سیوطی (849-911ھ) نے اس کی سند کو ”ضعیف“ کہا ہے ۔
[الدر المنثور: 49/8]
تنبيه:
اس کی ایک سند ابو علی عبد الرحمن بن محمد بن احمد بن فضالہ نیشا پوری کے ”فوائد“ (21) میں بھی آئی ہے۔ یہ بھی جھوٹی سند ہے جو درج ذیل افراد میں سے کسی کی کارروائی ہے:
➊ رافع بن عبد اللہ فقیہ کے حالات زندگی نہیں مل سکے۔
➋ احمد بن محمد بن یونس کون ہے؟
➌ معروف بن موسی کی توثیق نہیں ملی ۔
➍ عبد العزیز بن حیلہ کا کتب جرح و تعدیل میں نام و نشان تک نہیں ملتا۔
➎ صاحب کتاب ابو علی عبد الرحمن بن محمد بن احمد بن فضلہ خود رافضی تھا۔ اس کی روایت کا کوئی اعتبار نہیں ۔ غالب گمان یہ ہے کہ یہ اسی کی کارروائی ہے۔
اس طرح کی سند میں تو ان لوگوں کا متاعِ عظیم ہوتی ہیں جو سند کو دین نہیں مانتے۔
دلیل نمبر 37:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے:
كانت يهود خيبر تقاتل عطفان ، فكلما التقوا هزمت يهود خيبر ، فعازت اليهود بهذا الدعاء ، اللهم ! انا نسالك بحق محمد النبى الامي الذى وعدتنا ان تخرجه لنا فى آخر الرمان ، الا نصرتنا عليهم ، قال: فكانع اذا التقوا دعوا بهذا الدعاء ، فهزمو غطفان، فلما بعث النبى صلى الله عليه وسلم كفروا به ، فانزل الله وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ [البقرة 2: 89] بك يا محمد على الكافرين .
”خیبر کے یہود کی بنو غطفان سے لڑائی تھی۔ جب بھی میدان سجنا یہود شکست کھاتے ۔ آخر یہود نے اس دُعا کے ذریعے پناہ پکڑی: اے اللہ ! ہم تجھ سے اس امی نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سوال کرتے ہیں جس کو آخر زمانے میں مبعوث کرنے کا تو نے ہمیں وعدہ دیا ہے کہ ہماری نصرت فرما۔ اس کے بعد جب بھی مڈ بھیڑ ہوتی یہود ، بنو غطفان کو شکست دیتے ۔ جب نبی اکرم صلى الله عليه وسلم مبعوث ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کفر شروع کر دیا ۔ اسی بارے میں یہ فرمانِ باری تعالٰی نازل ہوا: وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ [البقرة 2: 89] (اس سے پہلے یہ یہود اللہ تعالیٰ سے فتح طلب کیا کرتے تھے ) [اے محمد! آپ کے طفیل] ۔
[المستدرك للحاكم: 263/2 ، ح: 3042 ، الشريعة للآجري: 448 ، دلائل النبوة للبيهقي: 76/2]
تبصره:
یہ جھوٹی روایت ہے ۔ اس کی سند میں عبد الملک بن ہارون بن عثرہ راوی ”کذاب“ اور ”متہم“ ہے ۔ اس کے بارے میں:
علامہ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وهو مجمع على ضعفه
”اس کے ضعیف ہونے پر محدثین کرام کا اتفاق ہے۔“
[مجمع الزوائد: 150/10]
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ نے اسے ”کذاب“ کہا ہے۔
[تاريخ ابن معين برواية الدوري: 1688]
علامہ جوز جانی اسے دجال اور کذاب قرار دیتے ہیں۔
[أحوال الرجال: 77]
امام بخاری رحمہ اللہ [التاريخ الكبير: 436/5] اسے ”منکر الحدیث“ ، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ [العلل ومعرفة الرجال: 2648] ”ضعیف الحدیث“ ، امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ: [الجرح والتعديل لا بن أبى حاتم: 374/5] ، ”متروک الحدیث ، ذاہب الحدیث“ اور امام نسائی رحمہ اللہ [كتاب الضعفاء والمتروكين: 384] ”متروک الحدیث“ کہتے ہیں۔
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان ممن يضع الحديث
”یہ جھوٹی احادیث گھڑنے والا شخص تھا۔ “
[كتاب المجروحين: 133/2]
امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
متروك يكذب
”یہ متروک اور کذاب شخص ہے۔“
[سؤالات البرقاني للدارقطني: 252 ، 253]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے ”متروک ہالک“ (پرلے درجے کا جھوٹا ) قرار دیا ہے۔
[تلخيص المستدرك: 213/2، ح: 3042]
نیز فرماتے ہیں:
متروك بالاتفاق
”یہ بالا تفاق متروک ہے۔“
[أيضا: 81088]
اس کے بارے میں توثیق و توصیف کا ادنٰی کلمہ بھی ثابت نہیں ۔
امام حاکم رحمہ اللہ خود اس کے بارے میں فرماتے ہیں:
روي عن ابيه احاديث موضوعة
”اس نے اپنے باپ سے من گھڑت روایات نقل کی ہیں ۔ “
[المدخل: 170]
لٰہذا حافظ سیوطی [الدر المنثور: 216/1] کا اس کی سند کو صرف ”ضعیف“ کہنا صحیح نہیں، بلکہ یہ موضوع و مکذوب سند ہے۔
دليل نمبر 38:
سیدہ صفیہ بنت عبد المطلب رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر یہ مرثیہ پڑھا:
الا يا رسول الله كنت رجائنا وكنت بنا برا ، ولم تك جافيا
”اے اللہ کے رسول ! آپ ہماری امید تھے ۔ آپ ہم سے اچھا سلوک کرتے تھے، سختی و زیادتی نہیں کرتے تھے ۔ “
[المعجم الكبير للطبراني: 320/24، ح: 805]
تبصره:
اس کی سند ”ضعیف“ ہے، کیونکہ:
➊ عبد اللہ بن لہیعہ راوی جمہور کے نزدیک ”ضعیف“ ہے۔ نیز یہ ”مدلس“ اور ”مختلط“ بھی ہے۔
حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (368-463 ھ ) فرماتے ہیں:
وابن لهيعة ، اكثر اهل العلم لا يقبلون شيئا من حديثه
”اکثر اہل علم ابن لہیعہ کی کوئی بھی حدیث قبول نہیں کرتے ۔“
[التمهيد لما فى المؤطا من المعاني والأسانيد: 254/12]
حافظ نووی رحمہ اللہ (631-676 ھ) فرماتے ہیں:
وهو ضعيف بالاتفاق لاختلال ضبطه
”ابن لہیعہ حافظے کی خرابی کی بنا پر بالاتفاق ضعیف ہے۔“
[خلاصة الأحكام: 625/2]
حافظ ہیثمی (735-807 ھ ) کہتے ہیں:
والاكثر على ضعفه
”اکثر اہل علم اس کو ضعیف قرار دیتے ہیں ۔ “
[مجمع الزوائد: 13/7]
نیز فرماتے ہیں:
وابن الهيعة ضعفه الجمهور
”ابن لہیعہ کو جمہور نے ضعیف قرار دیا۔ “
[مجمع الزوائد: 365/10]
ابن ترکمانی حنفی (683-750 ھ ) لکھتے ہیں:
وقد ضعفه جماعة
”محدثین کی ایک بڑی جماعت نے اسے ضعیف قراردیا ہے۔“
[الجوهر النفي: 286/3]
حافظ سخاوی رحمہ اللہ (831-902 ھ ) فرماتے ہیں:
وهو ممن ضعفه الجمهور
”یہ ان راویوں میں سے ہے جنہیں جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے ۔“
[فتح المغيث: 221]
حافظ ابراہیم بن موسیٰ ابو اسحاق ابناسی (م: 802 ھ ) کہتے ہیں:
ضعفه الجمهور
”اسے جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔“
[الشذا الفياح من علوم ابن الصلاح: 201/1]
ابن عراقی (762-826 ھ ) فرماتے ہیں:
ضعيف عند الاكثر
”یہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“
[طرح التثريب: 64/6]
حافظ سیوطی (م: 911ھ ) کہتے ہیں:
وهو ضعيف عند الجمهور
”ابن لہیعہ جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔“
[تدريب الراوي: 294/1]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ ) فرماتے ہیں کہ ابن لہیعہ ”ضعیف الحدیث“ ہے۔
[تعليق التخليق: 239/3]
➋ عروہ بن زبیر رحمہ اللہ کا سیدہ صفیہ سے سماع ولقاء ممکن نہیں۔ عروہ کی ولادت 29 ہجری کو ہوئی ، جبکہ سیدہ صفیہ 19 ہجری کو وفات پا گئی تھیں۔ 10 سال بعد پیدا ہونے والا انسان سیدہ صفیہ سے وہ مرثیہ کیسے سن سکتا ہے جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے موقع پر پڑھا۔
لٰہذا حافظ ہیثمی [مجمع الزوائد: 39/9] کا اس کی سند کو ”حسن“ قرار دینا بالکل غلط ہے۔
➌ اس ضعیف روایت میں بھی مروجہ وسیلے کا سرے سے کوئی ذکر نہیں۔ اس روایت کے مطابق سیدہ صفیہ تو کہہ رہی ہیں کہ آپ زندگی میں ہمارے ساتھ اچھا سلوک کرتے تھے۔ بعض لوگوں کے مطابق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات کے بعد بھی وفات سے پہلے کی طرح زندہ ہیں، لٰہذا یہ روایت ان کے عقیدے پر ضرب کاری ہے۔ اگر آپ اسی طرح زندہ ہوتے اور لوگوں کے مسائل حل فرماتے تو اس مرثیے کا کیا معنیٰ کہ آپ زندگی میں ہمارے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے؟
جن لوگوں کے دلائل بودے ہوں اور دعوی او دلیل میں مطابقت نہ ہو، اکثر ایسے لوگوں کے دلائل انہی کے خلاف ہو جایا کرتے ہیں۔ اس روایت کا مطلب بالکل صاف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری کئی امیدیں وابستہ تھیں لیکن آپ دنیا چھوڑ کر چلے گئے ۔
تنبيه:
اس روایت کی ایک دوسری سند احمد بن مروان دینوری کی کتاب [المجالسته و جواهر العلم 758] میں ہے۔ یہ سند بھی باطل ہے، کیونکہ:
➊ خود صاحب کتاب احمد بن مروان دینوری ”متکلم فیہ“ ہے۔
➋ اس کے استاذ عامر بن عبد اللہ زبیری کی توثیق بھی نہیں ملی۔
➌ اس کے راوی مصعب بن ثابت کو جمہور محدثین کرام نے ”ضعیف“ کہا ہے۔ امام احمد بن حنبل ، امام یحیٰی بن معین، امام ابو حاتم رازی ، امام ابو زرعہ رازی، امام نسائی، حافظ ابن سعد، حافظ جوز جانی ، امام دار قطنی وغیرہ ہم نے اسے ”ضعیف“ قراردیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے لين الحديث کیا ہے۔
[تقريب التهذيب: 6686]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لين لغلطه
”اپنی غلطیوں کی بنا پر یہ کمزور راوی ہے ۔“
[الكاشف: 130/3]
دلیل نمبر 39:
وعن كعب الاحبار ان بني اسرائيل كانو اذا قحطوا ، استسقو بأهل بيت نبيهم
”کعب احبار سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل پر جب قحط پڑتا تو وہ اپنے نبی کے گھر والوں کے وسیلے بارش طلب کرتے تھے۔ “
[عمدة القاري للعيني الجنفي: 32/7]
تبصرہ:
یہ بے سند اور جھوٹی بات ہے جو بعض لوگوں کا دین بن گئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس جھوٹی روایت کا مطلب بھی یہ ہے کہ ان سے بارش کے لیے دعا کرائی جاتی تھی۔ ناجائز وسیلے کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
دليل نمبر 40:
کعب بن ماتع احبار تابعی سے روایت ہے:
ان نور رسول الله صلى الله عليه وسلم – لما صار الي عبد المطلب وادرك ، نام يوما فى لحجر ، فانتبه مكحولا مدهونا ، قد كسي حلة البهاء
والجمال ، فبقي متحير الا يدري من فعل به ذلك ، فاخذه ابو بيده ، ثم انطلق به الي كهنه قريش ، فاخبرهم بذلك ، فقالواله: اعلم ان اله السماوات قد اذن لهذا الغلام ان يتروج ، فزوجه قيلة ، فو لدت له الحارث ثم ماتت ، فزوجه بعدها هند بنت عمرو ، وكان عبد المطلب يفوح منه رائحة المسك الاذفر ، ونور رسول الله صلى الله عليه وسلم – يضيء فى غريه ، وكانت قريش اذا اصابها قحط تاخذ بيد عبد المطلب ، فتخرج به الي جبل ثبير ، فيتقربون به الي الله تعالي ، ويسالونه ان يسقيهم الغيث ، فكان يغيثهم ويسقيهم ببركة نور محمد صلى الله عليه وسلم ، غيثا عظيما

”جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جناب عبد المطلب کے پاس آیا اور وہ عمر بلوغت کو پہنچ گئے تو اس کے بعد ایک دن حطیم میں سوئے ہوئے تھے۔ جب وہ بیدار ہوئے تو ان کی آنکھوں میں سرما اور سر میں تیل لگا ہوا تھا۔ ان پر خوبصورتی اور جمال کا لباس تھا۔ وہ بہت حیران ہوئے اور وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ کس نے کیا؟ ان کے والد نے انہیں ہاتھ سے پکڑا اور قریش کے کاہنوں کے پاس لے گئے اور ساری بات سنائی ۔ کاہنوں نے کہا: تمہارے علم میں یہ بات ہونی چاہیے کہ آسمانوں کے الٰہ نے اس لڑکے کو شادی کی اجازت دے دی ہے۔ ان کے والد نے ان کی شادی قیلہ سے کی۔ اس کے بطن سے حارث پیدا ہوا اور قیلہ فوت ہو گئی۔ پھر قیلہ کے بعد ان کی شادی ہند بنت عمرو سے ہوئی ۔ ۔ ۔ جناب عبد المطلب سے کستوری کی بہت تیز اور عمدہ خوشبو آتی تھی۔ اللہ کے رسول کا نور ان کی پیشانی میں چمکتا تھا۔ قریش جب قحط سالی میں مبتلا ہوتے تو جناب عبد المطلب کا ہاتھ پکڑ کر ثبیر پہاڑ کی طرف لے جاتے اور اللہ تعالیٰ کے دربار میں انہیں وسیلہ بناتے ہوئے بارش طلب کرتے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی برکت سے انہیں بہت زیادہ بارش عطا فرما تا ۔ “
[المواهب اللدنية للقسطلاني: 97/1 ، وفي نسخة: 63/1 ، سمط النجوم لعبد الملك بن حسين العصامي: 226/1]
تبصره:
یہ جھوٹا واقعہ ہے۔ اس کی سند جھوٹی اور باطل ہے، کیونکہ:
➊ کعب احبار تابعی ہیں اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے قبل کا واقعہ بیان کر رہے ہیں۔ اس وقت تک تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد بھی پیدا نہیں ہوئے تھے۔ کعب احبار اور جناب عبد المطلب میں صدیوں کا فاصلہ ہے۔ لٰہذا سند میں سخت انقطاع ہے۔
➋ عمرو بن شرحبیل انصاری راوی ”مجہول الحال“ ہے۔ سوائے امام ابن جبان رحمہ اللہ [الثقات: 225/7] کے کسی نے اس کی توثیق نہیں کی ۔ اسی لیے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے ”مقبول“ (مجہول الحال) قرار دیا ہے ۔
[تقريب التهذيب: 5047]
➌ ابوبکر بن عبد اللہ بن ابو مریم راوی جمہور محدثین کرام کے نزدیک ”ضعیف“ اور ”مختلط“ ہے۔ اس کے بارے میں:
1۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعيف ، كان عيٰسي ابن يونس لا يرضاه
”ضعیف راوی ہے۔ امام عیٰسی بن یونس اسے پسند نہیں کرتے تھے ۔“
[الجرح والتعديل لابن أبى حاتم: 2 / 405 ، العلل ومعرفة الرجال: 203/1]
2. امام ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف الحدیث ، منکر الحدیث“ قرار دیا ہے۔
[الجرح والتعديل: 405/2]
3. امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ضعف الحديث ، طرقته لصوص ، فاخذوا متاعه ، فاختلط
”اس کی حدیث ضعیف ہوتی ہے۔ اسے چور پڑے اور اس کا سامان لوٹ لیا ، اسی رنج سے اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔“
[الجرح والتعديل: 405/2]
4. امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
[ايضا، وسنده صحيح]
نیز فرماتے ہیں:
ليس حديثه بشئء
”اس کی حدیث کسی کام کی نہیں ۔ “
[تاريخ الدوري: 437/4]
تنبیه:
امام ابن معین رحمہ اللہ نے اسے ثقہ بھی کہا ہے ۔
[سؤالات ابن الجنيد: 399]
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ کا جمہور کے موافق قول لے لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ امام صاحب سے ایک روایت میں اس راوی کو ”صدوق“ کہنا بھی منقول ہے، لیکن وہ روایت ضعیف ہے۔ اس کی سند کے دو راویوں احمد بن علی مدائنی اور لیث بن عبدہ کے حالات نہیں مل سکے ۔ جرح والا قول ہی رائج ہے۔
5. امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ قرار دیا ہے۔
[كتاب الضعفاء والمتروكين: 668]
6. امام دار قطنی رحمہ اللہ نے ”متروک“ کیا ہے۔
[اسئلة البرقاني: 596]
نیز انہوں نے اسے ”ضعیف“ بھی کہا ہے۔
[سنن الدار قطني: 104/1 ، 4/3 ، 148]
7. حافظ جوز جانی کہتے ہیں:
ليس بالقوي فى الحديث ، وهو متماسك
”یہ حدیث میں قوی نہیں تھا۔ یہ متروک راوی ہے ۔ “
[أحوال الرجال: 315]
8. امام دحیم فرماتے ہیں:
من كبار شيوخ حمص ، وفي حديثه بعض مافيه
”یہ حمص کے بڑے شیوخ میں سے تھا لیکن اس کی حدیث میں بعض مناکیر ہیں۔“
[تهذيب التهذيب لابن حجر: 29/12]
9. حافظ ابن سعد رحمہ اللہ نے اسے ”ضعیف“ لکھا ہے۔
[الطبقات الكبري: 467/7]
10. امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الغالب على حديثه الغرائب ، وقل ما يوافقه عليه الثقات ، واحاديثه صالحة ، وهو ممن لا يحتج بحديثه ، ولكن يكتب حديثه
”اس کی اکثر احادیث منکر ہیں۔ اس کی بہت کم روایات پر ثقہ راوی موافقت کرتے ہیں۔ اس کی احادیث (بظاہر ) خوبصورت ہیں، لیکن اس کی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی۔ البتہ اس کی حدیث کو (متابعت و شواہد کے لیے ) لکھا جائے گا۔“
[الكامل فى ضعفاء ، الرجال: 40/2]
11. امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ساقط الا حتجاج به اذا انفرد
”جب یہ کسی روایت کو بیان کرنے میں منفرد ہو تو اس کی روایت سے دلیل نہیں لی جا سکتی ۔“
[كتاب المجروحين: 146/3]
12۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لا يبلغ حديثه رتبة الحسن
”اس کی حدیث حسن کے درجے تک نہیں پہنچتی ۔“
[سير أعلام النبلاء: 65/7]
13. حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے ”ضعیف“ کہا ہے۔
[تقريب التهذيب: 7974]
جمہور کی تضعیف کے مقابلے میں اسے حافظ بزار [كشف الأستار: 106/1 ، ح: 189] نے ”ثقہ“ کہا ہے اور امام حاکم رحمہ اللہ: [المستدرك على الصحيحين: 696/1 ، ح: 1897] نے اس کی ایک حدیث کی سند کو ”صحیح“ قرار دیا ہے۔ جمہور کے مقابلے میں یہ توثیق نا قابل اعتبار ہے۔
➍ مذکورہ سند میں ابوبکر بن ابو مریم سے نیچے سند غائب ہے۔ مسلمان بے سند روایات کا کوئی اعتبار نہیں کرتے ۔
دلیل نمبر 41:
قال الحافظ ابن بشكوال: اخبرنا القاضي الشهيد ابو عبد الله محمد بن احمد رحمه الله قراءة عليه ، وانا اسمع ، قال: قرات على ابي على حسين بن محمد الغساني ، قال: اخبرني ابو الحسن طاهر بن مفوز المعافري ، قال: انا ابو الفتح وابو الليث نصر بن الحسن التنكتي ، المقيم بسمر قند ، قدم عليهم بلنسية ، عام اربعة وستين واربع مائة ، قال: قحط المطر عندنا بسمر قند فى بعض الاعوام ، قال: فاستسقي الناس مرارا فلم يسقوا ، قال: فاتي رجل من الصالحين معروف بالصلاح ، مشهور به ، الي قاضي سمرقند ، فقال له: اني قد رايت رايا اعرضه عيلك ، قال: وما هو؟ قال: اري ان تخرج و يخرج الناس معك الي قبر الامام محمد بن اسماعيل البخاري رحمه الله ، قبره بخرتنك ، و تستسقو عنده ، فعسي الله ان يسقينا ، قال: فقال القاضي: نعم ما رايت ، فخرج القاضي ، وخرج الناس معه ، واستسقي القاضي بالناس ، و بكي الناس عند القبر ، وتشفعوا بصاحبه ، فارسال الله السماء بماء عظيم غزير ، اقام الناس من اجاله بخرتنك سبعة ايام او نحوها ، لا يسطيع احد الوصول الي سمرقند من كثرة المطر وغزارته ، ويبن خرتنك و سمر قند ثلاثه اميال او نحوها
سمر قند میں ایک سال قحط پڑا ۔ لوگوں نے نہت دفعہ بارش طلبی کے لیے دعائیں کیں ، لیکن بارش نہ ہوئی۔ ایک نیک آدمی جس کا ورع و تقویٰ مشہور تھا، وہ قاضی سمرقند کے پاس آیا اور کہنے لگا: میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے، میں وہ آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ قاضی نے کہا: وہ ترکیب کیا ہے؟ اس نے کہا: میرا خیال ہے کہ آپ اور تمام لوگ امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کریں۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں بارش عطا فرما دے۔ امام صاحب کی قبر خرتنک نامی جگہ میں ہے۔ قاضی اور تمام لوگ باہر نکلے اور امام صاحب کی قبر کے پاس جا کر بارش کی دُعا کی، اللہ کے ہاں گڑ گڑائے اور امام صاحب کا وسیلہ پیشن کیا۔ اللہ تعالیٰ نے بہت زیادہ بارش نازل کی۔ اس بارش کی وجہ سے لوگوں کو خرتنک میں تقریباً سات دن ٹھہرنا پڑا۔ زیادہ بارش کی بنا پر کوئی بھی سمرقند نہ جاسکتا تھا۔ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تقریبا تین میل کا فاصلہ تھا۔“
[الصلة فى تاريخ أئمة الأندلس لا بن بشكوال، ص: 603 ، وسنده صحيح]
تبصره:
پانچویں صدی کے اواخر کے بعض لوگوں کا عمل دین کیسے بن گیا؟ ایک شخص کے کہنے پر بادشاہ اور اس کی رعایا کا یہ عمل قرآن و سنت اور سلف صالحین کے تعامل کے خلاف تھا۔ رہا بارش کا ہو جانا تو وہ ایک اتفاقی امر ہے۔ آج بھی کتنے ہی مشرکین قبر والوں سے اولادیں مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں اولاد ملتی ہے تو وہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ صاحبِ قبر نے ان پر یہ عنایت کی ہے۔ کیا بتوں کے پجاریوں اور ان سے مانگنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی چیز نہیں ملتی؟ اور کیا ان کی کوئی مراد پوری ہو جانا بت پرستی کے جواز کی دلیل ہے؟ قرآن و حدیث میں بزرگوں کی قبروں پر دُعا اور ان کے توسل کا کوئی جواز نہیں۔ اگر ایسا کرنا جائز ہوتا تو صحابہ و تابعین ضرور ایسا کرتے۔ خیر القرون کے بعد دین میں منکر کام داخل ہو گئے تھے ، یہ بھی انہی کاموں میں سے ہے۔ اس دور میں کسی سے عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں۔
قارئین کرام ! یہ تھے ان لوگوں کے دلائل جو دعا میں کسی مخلوق کی ذات یا فوٹ شدگان کے وسیلے کو مشروع اور جائز قرار دیتے ہیں۔ آپ نے ان کو بغور ملا حظہ فرمایا ۔ ان روایات کی دو قسمیں ہیں:
اکثر تو ایسی ہیں جن میں فوت شدگان اور دیگر نیک ہستیوں کی ذات کے وسیلے کا تذکرہ تک نہیں لیکن بعض لوگ سلف صالحین کے فہم کو لات مارتے ہوئے ان سے اپنے خود ساختہ وسیلے کے اثبات کے لیے کوشش کرتے ہیں۔
جبکہ دوسری وہ روایات ہیں جن میں ذات کے وسیلے کا تذکرہ تو ہے لیکن وہ موضوع ، من گھڑت اور ضعیف و نا قابل حجت ہیں۔ ایسی روایات پر اعتماد کرنا اہل سنت والجماعت ہونے کے دعویداروں کو بالکل زیب نہیں دیتا۔ دین سند کا نام ہے۔ اگر ایک بھی صحیح سند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے تو شرعی امر کا اثبات ہو جاتا ہے ، لیکن اگر کوئی صحیح سند نہ مل سکے تو لاکھوں موضوع ، من گھڑت اور ضعیف روایات بھی مل کر کسی چیز کو مشروع قرار نہیں دے سکتیں۔
امام بریلویت جناب احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:
”ضعیف حدیثیں کسی غیر ثابت چیز کو ثابت نہیں کرتیں۔“
[فتاوي رضويه: 726/29]
دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے