قرآن: فصاحت، بلاغت، اور دوام کا لازوال معجزہ

دنیا کی تقریباً ہر علمی زبان میں ایسی نادر تصانیف پائی جاتی ہیں جو اپنے منفرد انداز بیان، حسن اسلوب، اور فصاحت و بلاغت کی نزاکتوں کی وجہ سے بے مثال سمجھی جاتی ہیں۔ مگر قرآن مجید ان تمام تصانیف سے ایک الگ اور منفرد مقام رکھتا ہے۔ قرآن کے مضامین کی روانی، موتیوں کی مانند الفاظ کی ترتیب اور خوبصورت بندش، لفظی و معنوی خوبصورتی کی عمدہ آرائش، بلاغت میں ڈوبا ہوا اسلوب، اور عظیم مطالب کی دلکش تصویریں — یہ سب عناصر اسے دنیا کی کسی بھی تصنیف سے منفرد بناتے ہیں۔ قرآن کی فصاحت و بلاغت کا اعجاز اس کی عظمت کو دنیا کی ہر دوسری کتاب سے کہیں بلند ثابت کرتا ہے۔

دنیا کی معروف کتابوں جیسے فارسی کی "گلستان” یا "مثنوی مولانا روم”، انگریزی ادب میں شیکسپئیر کے ڈرامے، سنسکرت میں "مہابھارت” اور دیگر زبانوں کی مشہور تصانیف کی بے مثالیت میں کوئی شبہ نہیں، مگر ان میں وہ طاقت نہیں کہ وہ دنیا بھر کے انسانوں کو اپنے مقابلے کے چیلنج کے آگے عاجز کر دیں جیسے کہ قرآن مجید نے کیا۔ آج تک کسی مصنف نے اپنی تصنیف کو اس طرح سے دنیا کے سامنے چیلنج دینے کی جرأت نہیں کی جیسے قرآن مجید نے کی۔

اہل کمال کا اعتراف

اگر دنیا کے کسی علم میں ماہرین کی ایک جماعت کسی کی برتری کو قبول کر لے، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ اس علم میں دنیا کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اس صورت میں اگر کسی اور نے مقابلے کی کوشش کی اور ناکام ہوا، تو یہ شکست پوری دنیا کی شکست کہلائے گی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ایسے تمام ماہرین نے جب اپنی شکست تسلیم کر لی تو یہ واضح ہو گیا کہ وہ قوت جو نبی لے کر آئے، دنیا کے ہر کمال سے بالاتر تھی۔

فنون کی ترقی کے ساتھ معجزات

معجزات کا تصور عموماً اس وقت سامنے آتا ہے جب کوئی نبی اس فن کے ماہرین کو اپنی غیرمعمولی صلاحیت کے آگے عاجز کر دیتا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور میں جادو کا زور تھا، تو اللہ نے انہیں عصا کا معجزہ دیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے وقت میں شفایابی اور مردوں کو زندہ کرنے کے معجزے دکھائے، جس سے طبی دنیا کے ماہرین بھی عاجز آ گئے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کا معجزہ عطا کیا گیا جس کی فصاحت و بلاغت کے آگے اہل عرب اپنے کمالات کو ہیچ سمجھنے پر مجبور ہوگئے۔

معجزہ قرآن اور اس کی دوامی حیثیت

قرآن مجید کا معجزہ دیگر انبیاء کے معجزات سے مختلف ہے، کیونکہ جہاں دیگر معجزات وقتی اور عارضی تھے، قرآن ایک دوامی معجزہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ قرآن کا اعجاز کم ہونے کی بجائے اور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کے مضامین اور تعلیمات پر صدیاں گزرتی ہیں مگر اس کی قوت اور حقیقت میں کوئی ضعف نہیں آتا، بلکہ نئے علوم اور دریافتیں اس کے اعجاز کو مزید نمایاں کرتی ہیں۔

قرآن کی تعلیمات کی حفاظت

قرآن مجید کو ایک ایسے اعجازی حصار میں رکھا گیا ہے کہ اس کی تعلیمات زمانے کے بدلاؤ اور تحریفات سے ہمیشہ محفوظ رہیں گی۔ پچھلی آسمانی کتب یا تو وقت کے ساتھ مٹ گئیں یا ان میں اس قدر تبدیلیاں آئیں کہ ان کی اصل تعلیمات میں فرق پڑ گیا۔ قرآن نے نہ صرف اسلام کی تعلیمات کو محفوظ رکھا بلکہ انہیں ہر قسم کے اختلاط سے بھی پاک رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن قیامت تک اسی اصلی صورت میں محفوظ رہے گا اور اس کی تعلیمات ہمیشہ صحیح حالت میں رہیں گی۔

سابقہ انبیاء اور امتوں پر قرآن کا احسان

قرآن مجید نے گزشتہ انبیاء اور ان کی امتوں کے حوالے سے ایک احسان کیا کہ ان انبیاء کے حقیقی مراتب اور عظمت کو دنیا کے سامنے واضح کیا۔ بائبل اور دیگر کتب نے ان انبیاء کی سیرتوں کو ماند کر دیا تھا، مگر قرآن نے ان کی سچائی، فضیلت، اور عظمت کو اجاگر کیا۔ اس طرح نہ صرف ان انبیاء کے مرتبے کی بحالی ہوئی بلکہ ان کی قوموں کو بھی اپنے پیشواؤں کے اصل مقام سے روشناس کرایا گیا۔

قرآن کا معجزہ: سچائی اور جدید علوم

آج کے دور میں تمدن اور تہذیب کی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی دریافتیں، اور مختلف علوم کا عروج جاری ہے۔ مگر قرآن کا اعجاز یہ ہے کہ چودہ سو سال بعد بھی جغرافیہ، سائنس، طب، فلسفہ، اور دیگر جدید علوم کی روشنی میں قرآن کی آیات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ قرآن کے بیانات کبھی فرسودہ نہیں ہوتے بلکہ دنیا کی ترقیات ان کی حقانیت کو مزید واضح کرتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

توحید ڈاٹ کام پر پوسٹ کردہ نئے اسلامی مضامین کی اپڈیٹس کے لیئے سبسکرائب کریں۔