بڑھاپے میں دودھ پلانے سے رضاعت کا شرعی حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

اس عورت کے دودھ کا کیا حکم ہے جو ناامیدی (بڑھاپے ) کی عمر کو پہنچ جائے لیکن کسی (روتے ) بچے کو دیکھ کر اس کی چھاتی میں دودھ اتر آئے اور وہ مدت رضاعت میں ایک بچے کو پانچ یا اس سے زائد مرتبہ دودھ پلا دے تو اس دودھ کا کیا حکم ہے ؟ نیز کیا یہ دورہ حرمت کا باعث بنے گا اور کیا اس کا رضاعی باپ ہو گا، جبکہ دودھ پلانے والی عورت کا اس وقت کوئی خاوند نہیں ؟

جواب :

یقیناً رضاعت بھی نسب کی طرح حرام کرنے والی ہے، اس بنا پر مدت رضاعت (دو سال) کے دوران جس عورت نے بچے کو پانچ یا اس سے زائد مرتبہ دودھ پلایا وہ اس بچے کی رضاعی ماں بن جائے گی۔ اس لئے کہ یہ آیت عام ہے :
وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ [4-النساء:23 ]
”اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا (تم پر حرام ہیں )“۔
اگر مایوسی کی عمر تک پہنچنے کے بعد بھی کوئی عورت کسی بچے کو دودھ پلائے تو بھی رضاعت ثابت ہو جائے گی۔ پھر اگر دودھ پلانے والی عورت خاوند والی ہے تو شیر خوار بچہ اس کا رضاعی بیٹا اور جس آدمی کی طرف عورت کا دودھ منسوب ہے وہ اس بچے کا باپ ہو گا۔ اگر وہ عورت بے خاوند ہے لیکن ابھی اس کی شادی ہی نہیں ہوئی، لیکن اس کی چھاتی میں دودھ اتر آئے (اور وہ دودھ پلا دے ) تو وہ اس بچے کی ماں بن جائے گی جسے اس نے دودھ پلایا ہو گا۔ لیکن اس کا رضاعی باپ نہیں ہو گا۔ یہ بات تعجب والی نہیں ہے کہ بچے کی رضاعی ماں تو ہو مگر اس کا رضاعی باپ نہ ہو، بعینہ یہ بھی تعجب والی بات نہیں ہے کہ اس کا رضائی باپ تو ہو مگر رضاعی ماں نہ ہو۔
پہلی صورت کچھ یوں ہے کہ ایک عورت نے کسی بچے کو دو دفعہ دودھ پلایا یہ دودھ اس کے (پہلے) خاوند کے سبب تھا، پھر وہ خاوند اس سے الگ ہو گیا اور عورت نے عدت گزرنے کے بعد دوسرے خاوند سے شادی کر لی، اس سے جماع ہوا اور وہ حاملہ ہو گئی اس نے ایک بچے کو جنم دیا تب اس نے اس پہلے رضاعی بچے کو باقی ماندہ تین رضعات دودھ پلایا تو اس طرح وہ اس کی رضاعی ماں بن جائے گی۔ کیونکہ اس نے اس عورت سے پانچ مرتبہ دودھ پی لیا ہے۔ مگر اس بچے کا کوئی
رضائی باپ نہیں ہو گا کیونکہ اس عورت نے بچے کو ایک خاوند سے پانچ یا ان سے زائد مرتبہ رودھ نہیں پلایا۔
جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے کہ ایک بچے کا رضاعی باپ تو ہو مگر رضاعی ماں نہ ہو تو وہ یوں ہے کہ مثلاً ایک شخص کی دو بیویاں ہیں۔ ان میں سے ایک نے بچے کو دو مرتبہ دودھ پلایا اور دوسری نے مزید تین دفعہ دودھ پلا کر پانچ رضعات مکمل کئے تو اس صورت میں یہ بچہ ان کے خاوند کا رضاعی بیٹا تو ہو گا کیونکہ اسے ایک باپ کا پانچ مرتبہ دودھ پلایا گیا ہے جبکہ اس کی رضاعی ماں نہیں ہو گی کیونکہ اس نے پہلی عورت سے دو مرتبہ اور دوسری عورت سے تین مرتبہ دودھ پیا۔
(نوٹ) یاد رہے حدیث نبوی کی رو سے رضاعت ثابت کرنے کے لئے بچے کا کم از کم پانچ رضعات دودھ پینا ضروری ہے، اس سے کم دودھ پینے کی صورت میں رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔ (مترجم)
( شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے