بدسلوک شوہر سے طلاق یا خلع کا شرعی حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

جب مندرجہ ذیل اسباب کی بناء پر خاوند کے ساتھ زندگی بسر کرنا محال ہو جائے تو مطالبہ طلاق کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے ؟ میرا خاوند جاہل ہے اور میرے حقوق سے آگاہ نہیں وہ مجھے اور میرے والدین کو لعن طعن کرتا ہے۔ مجھے یہودی، عیسائی اور رافضی جیسے القاب دیتا ہے، لیکن میں بچوں کی خاطر اس کے مذموم اخلاق پر صبر کرتی ہوں، مگر جب میں جوڑوں کی تکلیف میں مبتلا ہوئی تو بے بسی کے عالم میں میرے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ گیا۔ مجھے اس سے اتنی شدید نفرت ہو گئی کہ اس سے بات کرنا بھی گوارہ نہیں رہا۔ میں نے ان حالات میں طلاق کا مطالبہ کیا تو اس نے رد کر دیا۔ میں گزشتہ چھ سال سے اپنے بچوں کے ساتھ اس کے گھر میں ایک مطلقہ اور اجنبی کی طرح پڑی ہوں لیکن وہ میرا طلاق کا مطالبہ رد کرتا آ رہا ہے۔ براہ کرم جواب باصواب سے نوازیں۔

جواب :

اگر خاوند کا رویہ ایسا ہی ہے جیسا آپ نے بتایا ہے تو ایسے حالات میں اس سے طلاق طلب کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اس طرح اس سے جان چھڑانے کے لئے خلع کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ اس کی بدکلامیوں، زیادتیوں اور سوء معاشرت کی بنا پر اس سے طلاق لینے کے لئے اسے کچھ مال دے دیں اور اس سے جان چھڑا لیں۔ اگر آپ اپنے بچوں کی خاطر اور اپنے اور ان کے اخراجات کی خاطر اسے برداشت کر سکیں اور ساتھ ہی ساتھ اچھے انداز سے اسے سمجھاتی رہیں اور اس کے لئے ہدایت کی دعا کرتی رہیں تو ہم آپ کے لئے اجر و ثواب اور اپنے انجام کی امید کرتے ہیں۔ ہم بھی اس کے لئے ہدایت اور استقامت کے لئے اللہ رب العزت سے دعا کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ اگر وہ نماز پڑھتا ہو اور اہانت دین کا مرتکب نہ ہوا ہو اور اگر وہ تارک نماز ہے یا دین کی اعانت کا مرتکب ہوتا ہے تو وہ کافر ہے اور آپ کا اس کے ساتھ رہنا یا اسے اپنے اوپر بااختیار بنا دینا ناجائز ہے۔ کیونکہ علماء کا اجماع ہے کہ دین اسلام کو گالیاں دینا اور اس کا استہزاء کرنا کفر گمراہی اور ارتدار عن الاسلام ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ٭ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ [ 9-التوبة:65 ]
”آپ فرما دیجئیے ! اچھا تم استہزاء کر رہے تھے اللہ، اس کی آیتوں اور اس کے رسول کے ساتھ ؟ اب بہانے نہ بناؤ تم اظہار ایمان کے بعد کافر ہو چکے ہو۔“
اسی طرح اہل علم کے صحیح قول کی رو سے ترک نماز کفر اکبر ہے، اگرچہ ایسا شخص نماز کے وجوب کا انکار نہ بھی کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلاة [صحيح مسلم كتاب الإيمان باب 35]
”مومن اور کافر کے درمیان نماز کا چھوڑنا ہی حد فاصل ہے۔“
اور دوسری حدیث میں ہے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر [سنن ترمذي رقم 2623، سنن نسائي، سنن ابن ماجة رقم 1079۔ مسند أحمد 346/5، مستدرك الحاكم 7/1، سنن دارمي، السنن الكبري للبيهقي 366/3، مصنف ابن أبى شيبة 34/11 وصحيح ابن حبان رقم 1454]
”ہمارے اور ان (کفار) کے مابین نماز ہی تو حد فاصل ہے، جس نے نماز کو چھوڑا اس نے یقیناً کفر کیا۔ علاوہ ازیں کتاب و سنت کے بہت سارے دلائل اس موضوع پر موجود ہیں۔“ والله المستعان
(سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے