عدت کے دوران مطلقہ عورت کی وراثت کا شرعی حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

خاوند نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، وہ عدت گزار رہی تھی یا گزار چکی تھی کہ اچانک خاوند کا انتقال ہو گیا۔ کیا اس صورت میں عورت خاوند کے ترکہ کی وارث بن سکتی ہے ؟

جواب :

اگر مطلقہ عورت کا خاوند عدت کے دوران مر گیا تو یہ طلاق دو حال سے خالی نہیں۔ یا تو وہ طلاق رجعی ہو گی یا غیر رجی۔ اگر طلاق رجعی ہے تو عورت اختتام مدت تک بیوی کے حکم میں ہے وہ خاوند کی وفات کے بعد طلاق کی عدت سے وفات کی عدت میں منتقل ہو جائے گی۔
طلاق رجعی یہ ہے کہ خاوند بیوی کو دخول کے بعد بغیر معاوضہ دئیے پہلی یا دوسری طلاق (خلع نہیں) دے دے اس دوران اگر اس کا خاوند فوت ہو جائے تو وہ اس کی وارث ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
«وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّـهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ إِنْ كُنَّ يُؤْمِنَّ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ» [2-البقرة:228]
”اور طلاق دی گئی عورتیں اپنے آپ کو تین حیض تک روکے رکھیں اور ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحموں میں جو پیدا کیا ہے اسے وہ چھپائیں، اگر وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتی ہیں۔ اور ان کے خاوند اس مدت میں ان کے واپس لوٹا لینے کے زیادہ حقدار ہیں، بشرطیکہ اصلاح احوال کا ارادہ رکھتے ہوں اور عورتوں کے بھی ویسے ہی حق ہیں جیسے ان پر مردوں کے حق کے ہیں۔“
اسی طرح ارشاد ہوا :
« يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّـهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا » [64-الطلاق:1]
”اے نبی ! جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی مدت میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اللہ سے جو تمہارا پروردگار ہے ڈرتے رہو نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، بجز اس صورت کے کہ وہ کھلی برائی (بے حیائی) کا ارتکا ب کریں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا، تو اس نے اپنے اوپر ظلم کیا۔ تم نہیں جانتے شائد کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی بات پیدا کر دے۔“
اللہ تعالیٰ نے مطلقہ عورت کو عدت کے دوران خاوند کے گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے، اور فرمایا ہے کہ وہ نہیں جانتی کہ شائد اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی نئی صورت حال پیدا فرما دے، یعنی اس کا خاوند اس سے رجوع کر لئے۔
اور اگر اچانک مر جانے والے خاوند نے بیوی کو طلاق بائنہ یعنی تیسری طلاق دی ہو یا بیوی نے خاوند سے خلع کیا ہو یا وہ طلاق کی عدت نہیں بلکہ فسخ نکاح کی عدت گزار رہی ہو تو ان سب صورتوں میں وہ خاوند کی وارث نہیں بن سکتی اور نہ عدت طلاق سے عدت وفات میں منتقل ہو گی۔ ہاں ایک ایسی صورت ہے جس میں بائنہ طلاق والی عورت خاوند کی وارث بن سکتی ہے، وہ یہ کہ خاوند نے مرض الموت کے دوران بیوی کو ترکہ سے محروم کرنے کے ارادے سے طلاق دی ہو۔ اس صورت میں اگر چہ عدت گزر گئی ہو وہ پھر بھی خاوند کے ترکے کی وارث بن جائے گی، لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ عورت نے آگے نکا ح نہ کیا ہو، ورنہ وہ اس سے محروم ہو جائے گی۔
(شیخ ابن جبرین)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے