اخبارات اور بچا کھانا ضائع کرنے کا شرعی حکم
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

① کیا اخبارات کو دسترخوان کے طور پر استعمال کرنا جائز ہے ؟ اگر نہیں تو پڑھنے کے بعد ان سے کیا سلوک کرنا چاہیے ؟
② بعض لوگ باقی ماندہ کھانا کسی کارٹن وغیرہ میں ڈال کر اسے سڑک پر رکھ دیتے ہیں تاکہ اسے جانور کھا لیں، مگر صفائی کا عملہ اسے اٹھا کر دوسرے کمرے میں پھینک دیتا ہے۔ کیا اس طرح کرنا درست ہے ؟

جواب :

① اگر اخبارات قرآنی آیات اور دیگر مقدس عبارات پر مشتمل ہوں تو انہیں بطور دستر خوان استعمال نہیں کرنا چاہیئے اور نہ ہی استعال کے لئے ان کے لفافے وغیرہ بنانے چاہئیں اور نہ ہی کسی دیگر ذریعے سے ان کی بے وقعتی ہونی چاہیئے۔ ایسے اخبارات کو کسی مناسب جگہ پر محفوظ کرنا یا جلا دینا یا پاک مٹی میں دفن کرنا ضروری ہے۔
② باقی ماندہ کھانا فقراء کے میسر آنے کی صورت میں ان کے حوالے کرنا ضروری ہے تاکہ وہ اسے استعمال کر لیں اگر فقراء میسر نہ ہوں تو اسے بے وقعتی سے بچاتے ہوئے کہیں دور ٹھکانے لگانا ضروری ہے تاکہ جانور وغیرہ کھا سکیں۔ اگر ایسا نہ ہو سکے تو اسے کارٹن یا لفافوں وغیرہ میں محفوظ کرنا چاہیئے۔
کھانے کو اہانت اور ضیاع سے بچانے کے لئے ہر شہر کی بلدیہ اپنے سٹاف کو اس بات کا پابند کرے کہ وہ ایسے کھانے کو کسی صاف جگہ پر رکھے تا کہ وہ جانوروں کی خوراک بن جائے یا بعض لوگ اسے اپنے جانوروں کے لئے اٹھا کر لے جائیں۔
(شیخ ابن باز)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے