سوال:
کیا مرد کا اپنی منگیتر سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
مرد کے اپنی منگیتر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ عورت اس کے پیغام نکاح کو قبول کر چکی ہو اور یہ گفتگو مفاہمت پیدا کرنے کے لیے بقدر ضرورت ہو تو اس میں کسی فتنے کا ڈر نہیں ہے۔ اور اگر یہ بات چیت عورت کے ولی کی معرفت سے ہو تو زیادہ بہتر اور شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ رہے وہ مکالمات جو ایسے مردوں اور عورتوں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہوتے ہیں، جن کی آپس میں منگنی نہیں ہوئی ہوتی اور وہ یہ مکالمات اس غرض کے لیے کرتے ہیں جس کا نام وہ ’’تعارف“ رکھتے ہیں، یعنی ایک دوسرے کی جان پہچان حاصل کرنے کے لیے تو یہ منکر اور حرام ہیں، فتنے کو دعوت دیتے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا» [33-الأحزاب:32]
”تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔“
عورت اجنبی مرد سے کسی ضروری کام سے ہی بات چیت کرے اور وہ بات چیت بھی ایسے معروف طریقے سے ہو جس میں کوئی فتنہ اور شک و شبہ نہ ہو۔ اور یقیناً علماء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بلاشبہ احرام باندھنے والی عورت تلبیہ پکارتے وقت اپنی آواز کو بلند نہ کرے۔
اور حدیث میں ہے:
«إذا نابكم شيء فى صلوتكم، فليسبح الرجال، ولتصفق النساء»
[صحيح سنن الدار مي 365/1]
”جب تمہیں اپنی نماز میں کوئی چیز پیش آ جائے تو (خبردار کرنے کے لیے) مرد حضرات’’سبحان اللہ“ کہیں اور عورتیں الٹے ہاتھ پر ہاتھ ماریں۔“
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت مردوں کو اپنی آواز نہ سنائے، مگر ایسے حالات میں جب اسے مردوں سے ہم کلام ہونے کی اشد ضرورت ہو اور وہ ان سے شرم و حیا کے ساتھ ہم کلام ہو۔ والله اعلم
[صالح بن فوزان بن عبد الله رحمه الله]