خاوند کی اجازت کے بغیر اس کا مال لینا
یہ تحریر علمائے حرمین کے فتووں پر مشتمل کتاب 500 سوال و جواب برائے خواتین سے ماخوذ ہے جس کا ترجمہ حافظ عبداللہ سلیم نے کیا ہے۔

سوال :

میں ایک شادی شدہ خاتون ہوں، بحمد اللہ میرا گھر ہے، خاوند ہے اور بچے ہیں۔ میں نماز روزے کی پابندی کرتی ہوں اور تمام فرائض دینیہ بجا لاتی ہوں۔ میرا ایک چھوٹا سا سوال ہے۔ امید ہے کہ آپ جواب باصواب سے نوازیں گے۔ سوال یہ ہے کہ میں گھریلو اخراجات سے کچھ مال جمع کرتی رہتی ہوں جس کا میرے خاوند کو علم نہیں ہوتا، اسی طرح میں اس کے علم میں لائے بغیر اس کی جیب سے کچھ پیسے نکال لیتی ہوں، ویسے بحمد اللہ میں اس کے مال کو کسی ناجائز مصرف میں نہیں لاتی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک تو حالات کا علم نہیں ہوتا، پھر خاوند اور اولاد سے متعلق خوف بھی لاحق رہتا ہے۔ کیا اس طرح میں گناہ گار ٹھہروں گی ؟ کیونکہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے عذاب سے ڈرتی رہتی ہوں۔

جواب :

میں سمجھتا ہوں کہ جب تک خاوند بیوی بچوں کے جائز اخراجات ادا کرنے میں بخل سے کام نہیں لیتا اسے بتائے بغیر اس کا مال لینا اور پھر اسے جمع کرتے رہنا جائز نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک آپ کے پاس گزشتہ جمع شدہ مال موجود ہے خاوند سے اخراجات کا مطالبہ ناروا ہے۔ خاوند خود حوادثات زمانہ کے لئے مال بچاتا، اسے بڑھانا اور اس کی حفاظت کرتا ہے، اس بناء پر جمع شدہ مال اسے واپس لوٹا دینا چاہیے کیونکہ یہ اس کا مال ہے جو اسے بتائے بغیر روک لیا گیا ہے۔
[شیخ ابن جبرین رحمہ اللہ]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے