روایت نمبر ۱
ابوحرب ہلالی کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے فریضہ حج ادا کیا، پھر وہ مسجد نبوی کے دروازے پر آیا، وہاں اپنی اونٹنی بٹھا کر اسے باندھنے کے بعد مسجد میں داخل ہو گیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے پاس آیا اور آپ کے پاؤں مبارک کی جانب کھڑا ہو گیا اور کہا: السلام عليك يا رسول الله ! پھر ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی طرف بڑھا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، میں گناہگار ہوں، اس لیے آیا ہوں تاکہ اللہ کے ہاں آپ کو وسیلہ بنا سکوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب قرآن کريم میں فرمایا ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُوا أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّـهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّـهَ تَوَّابًا رَّحِيمًا﴾ (النساء 4 :64 )
” (اے نبی !) اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو آپ کے پاس آئیں، پھر اللہ سے معافی مانگیں اور ان کے لیے اللہ کا رسول بھی معافی مانگے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحیم پائیں گے.“ (شعب الإيمان للبيھقي:495/3، ح:4178، وفي نسخة:3880)
تبصره :
یہ سخت قسم کی ’’ضعیف ‘‘ روایت ہے، کیونکہ :
(1) محمد بن روح بن یزید مصری راوی کے حالات نہیں مل سکے۔
(2) ابوحرب ہلالی کون ہے؟ معلوم نہیں۔
(3) عمرو بن محمد بن عمرو بن الحسین کے نہ حالات ملے ہیں، نہ توثیق۔
یہ ’’مجہول ‘‘ راویوں میں سے کسی کی کارستانی ہے۔ ایسی روایت سے دلیل لینا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔
حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۵۔۷۴۴ ھ) فرماتے ہیں : باسناد مظلم۔
”یہ واقعہ سخت مجہول سند سے مروی ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص : 384)
روایت نمبر ۲
ابوالجوزاء اوس بن عبداللہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :
قحط أهل المدينة قحطا شديدا، فشكوا إلى عاشة، فقالت : انظروا قبر النبي صلى الله عليه وسلم، فاجعلوا منه كوى إلى السما، حتى لا يكون بينه وبين السما سقف، قال : ففعلوا، فمطرنا مطرا حتى نبت العشب، وسمنت الإبل، حتى تفتقت من الشحم، فسمي عام الفتق
”ایک مرتبہ اہل مدینہ سخت قحط میں مبتلا ہو گئے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے (اس کیفیت کے بارے میں) شکایت کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس جاؤ اور وہاں سے ایک کھڑکی آسمان کی طرف اس طرح کھولو کہ قبر اور آسمان کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ رہے۔ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے اسی طرح کیا تو بہت زیادہ بارش ہوئی یہاں تک کہ خوب سبزہ اُگ آیا اور اونٹ ایسے ہو گئے کہ (محسوس ہوتا تھا) جیسے وہ چربی سے پھٹ پڑیں گے، لہٰذا اس سال کا نام عام القق (پیٹ پھٹنے والا سال ) رکھ دیا گیا۔“ (مسند الدارمي: 58/1، ح:93، مشكاة المصابيح:5650)
تبصره :
اس روایت کی سند ’’ضعیف ‘‘ ہے۔
اس کے راوی عمرو بن مالک نکری (ثقہ وحسن الحدیث ) کی حدیث ابوالجوزاء سے غیر محفوظ ہوتی ہے، یہ روایت بھی ایسی ہی ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
وقال ابن عدي : حدث عنه عمرو بن مالك قدر عشرة أحاديث غير محفوظة۔
امام ابن عدی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ابوالجوزاء سے عمرو بن مالک نے تقریباً دس غیر محفوظ احادیث بیان کی ہیں۔‘‘(تھذيب التھذيب:336/1)
یہ جرح مفسر ہے، یہ اثر بھی عمرو بن مالک النکری نے اپنے استاذ ابوالجوزاء سے روایت کیا ہے، لہٰذا غیر محفوظ ہے۔
اس کی نکارت پر وہ بات بھی دلالت کرتی ہے، جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ (م : ۶۶۱۔۷۲۸ ھ) فرماتے ہیں :
وما روي عن عائشة رضي الله عنها من فتح الكوة من قبره إلى السماء، لينزل المطر فليس بصحيح، ولا يثبت إسناده، ومما يبين كذب هذا : أنه في مدة حياة عائشة لم يكن للبيت كوة، بل كان باقيا كما كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، بعضه مسقوف، وبعضهم مكشوف، وكانت الشمس تنزل فيه، كما ثبت في الصحيحين عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي العصر والشمس في حجرتها، لم يظهر الفيء بعد، ولم تزل الحجرة النبوية كذلك في مسجد الرسول۔۔ صلى الله عليه وسلم . . . ومن حينئذ دخلت الحجرة النبوية في المسجد، ثم إنه بنى حول حجرة عائشة التي فيها القبر جداراً عال، وبعد ذلك جعلت الكوة لينزل منها من ينزل إذا احتيج إلى ذلك لأجل كنس أو تنظيف . وأما وجود الكوة في حياة عائشة، فكذب بَيِّن۔
”سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بارش کے لیے جو قبر نبوی پر سے روشن دان کھولنے کی روایت مروی ہے، وہ صحیح نہیں۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کے خلاف واقعہ ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات مبارکہ میں حجره مبارکہ میں کوئی روشن دان نہیں تھا۔ وہ حجرہ تو اسی طرح تھا جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں تھا کہ اس کا بعض حصہ چھت والا اور بعض کھلا تھا۔ دھوپ اس میں داخل ہوتی تھی جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم میں ثابت ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز ادا فرماتے تو ابھی حجرہ مبارکہ میں دھوپ ہوتی تھی اور ابھی تک سایہ نہ آیا ہوتا تھا۔ مسجد نبوی کے ساتھ یہ حجرہ نبویہ بالکل اسی طرح قائم رہا۔۔ (پھر جب مسجد میں توسیع ہوئی ) تو اس وقت سے حجرہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ پھر حجرہ عائشہ،جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک ہے، اس کے گرد ایک بلند دیوار بنا دی گئی۔ اس کے بعد اس دیوار میں ایک کھڑکی رکھی گئی تاکہ صفائی وغیرہ کی ضرورت کے لیے اس میں داخل ہوا جا سکے۔ جہاں تک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حیات مبارکہ میں کسی کھڑکی کے ہونے کی، تو یہ واضح طور پر غلط ہے۔“ (الرد علي البكري، ص:68۔74)
اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے تو اس سے توسل کی وہ صورت ثابت نہیں ہوتی جس کا اثبات بعض لوگ اس سے کرتے ہیں۔ بلکہ اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے توسل نہیں کرتے تھے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ہی فرماتے ہیں :
لو صح ذلك لكان حجة ودليلاً على أن القوم لم يكونوا يقسمون على الله بمخلوق، ولا يتوسلون في دعائهم بميت، ولا يسألون الله به، وإنما فتحوا على القبر لتنزل الرحمة عليه، ولم يكن هناك دعاء يقسمون به عليه، فأين هذا من هذا۔
”اگر یہ روایت صحیح ہو تو بھی اس بات پر دلیل بنے گی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نہ تو اللہ تعالیٰ کو مخلوق کی قسم دیتے تھے، نہ اپنی دعا میں فوت شدگان کا وسیلہ دیتے تھے، نہ اللہ تعالیٰ سے اس کے وسیلے سے مانگتے تھے۔ انہوں نے تو صرف اس قبر مبارک سے روشن دان کھولا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو۔ وہاں کوئی دعا تو نہیں مانگی تھی انہوں نے۔ اس کا مسئلہ توسل سے کیا تعلق ؟“ (الرد علي البكري، ص:74)
یعنی یہ روایت فوت شدگان سے توسل لینے والوں کو کوئی فائدہ نہیں دیتی۔
ایک الزامی جواب
اس روایت کا ایک الزامی جواب یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
ومن حدثك أنه يعلم الغيب، فقد كذب، وھو يقول : لا يعلم الغيب الا الله۔
جو کوئی تمہیں یہ بتائے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں، وہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ غیب کی باتوں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘ (صحيح بخاري:298/2، ح7380، صحيح مسلم:98/1،ح177)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ بات چونکہ قبوری مذہب کے سخت خلاف تھی، اس لیے اس کے جواب میں ’’بعض الناس ‘‘ نے لکھا ہے:
’’آپ کا یہ قول اپنے رائے سے ہے، اس پر کوئی حدیث مرفوع پیش نہیں فرماتیں، بلکہ آیات سے استدلال فرماتی ہیں۔‘‘ (جاء الحق:124/1)
ہم پوچھتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم غیب کے متعلق قول قبول نہیں تو ان کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے متعلق یہ قول قبول کیوں ہے؟ جب کہ وہ اس پر بھی کوئی آیت یا حدیث پیش نہیں فرما رہیں۔ پھر اس پر سہاگہ کہ یہ قول ثابت بھی نہیں ہے۔
روایت نمبر ۳
قاضی عیاض بن موسیٰ (م : ۵۴۴ ھ) لکھتے ہیں :
حدثنا القاضي أبو عبد الله محمد بن عبد الرحمن الأشعري وأبو القاسم أحمد بن بقى الحاكم وغير واحد فيما أجازونيه، قالو : أخبرنا أبو العباس أحمد بن عمر بن دلهاث، قال : حدثنا أبو الحسن على بن فهر، حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن الفرج، حدثنا أبو الحسن عبد الله بن المنتاب، حدثنا يعقوب بن إسحاق بن أبى إسرائيل، حدثنا ابن حميد، قال : ناظرا أبو جعفر أمير المؤمنين مالكا في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له مالك : يا أمير المؤمنين ! لا ترفع صوتك في هذا المسجد، فإن الله تعالى أدب قوما، فقال : ﴿لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي﴾ الآية، ومدح قوما، فقال : ﴿إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله﴾ الآية، وذم قوما، فقال : ﴿إن الذين ينادونك﴾ الآية، وإن حرمته ميتا كحرمته حيا، فاستكان لها أبو جعفر، وقال : يا أبا عبد الله ! أستقبل القبلة وأدعو، أم أستقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟ فقال : ولم تصرف وجهك عنه وهو وسيلتك ووسيلة أبيك آدم عيه السلام إلى الله تعالى يوم القيامة ؟ بل استقبله واستشفع به، فيشفعه الله، قال الله تعالى: ﴿ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم﴾ الآية
محمد بن حمید کا بیان ہے کہ مسجد نبوی میں امیر المؤمنین ابوجعفر کا امام مالک رحمہ اللہ سے مناظرہ ہوا۔ امام مالک رحمہ اللہ نےفرمایا: امیر المؤمنین ! اس مسجد میں اپنی آواز بلند نہ کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب سکھاتے ہوئے فرمایا تھا: ﴿لا ترفعوا أصواتكم فوق صوت النبي﴾ ”تم اپنی آوازوں کو میرے نبی کی آواز سے بلند نہ کرو“۔ نیز کچھ لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ﴿إن الذين يغضون أصواتهم عند رسول الله۔۔۔﴾ ”جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں (وہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں) “۔ کچھ لوگوں کی مذمت میں فرمایا: ﴿إن الذين ينادونك﴾ ”جو لوگ آپ کو حجروں کے پیچھے سے پکارتے ہیں (ان میں سے اکثر بےعقل ہیں) “۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم موت کے بعد بھی اسی طرح ہے جس طرح زندگی میں تھی۔ یہ سن کر ابوجعفر لاجواب ہو گئے اور کہنے لگے: ابوعبداللہ ! میں قبلے کی طرف رخ کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کروں یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رخ کروں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا چہرہ کیوں پھیریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تو روز قیامت آپ کا اور آپ کے باپ آدم عليه السلام کا وسیلہ ہوں گے۔ آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرف رخ کریں اور آپ کو سفارشی بنائیں، اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سفارش قبول کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم﴾ ”اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر لینے کے بعد (آپ کے پاس آئیں اور اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور آپ بھی ان کے لیے مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ ضرور انہیں معاف فرمائے گا) “ (الشفاء بتعريف حقوق المصطفٰي:41/2)
تبصره :
یہ روایت درج ذیل نامعلوم اور مجہول راویوں کی کارروائی ہے:
(1) ابوالحسن علی بن فہر۔
(2) ابوبکر محمد بن احمد بن فرج۔
(3) ابوالحسن عبداللہ بن منتاب۔
ان تینوں راویوں کی توثیق ثابت نہیں ہو سکی۔
علامہ سبکی (شفاء السقام،ص:115) اور سمہودی (وفاء الوفاء:422/2) کا اس کی سند کو ’’جید‘‘ قرار دینا اور بعض لوگوں کا ان کی بات پر اعتماد کر لینا بے تکی بات ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں :
وكذلك من نقل عن مالك أنه جوّز سؤال الرسول صلى الله عليه وسلم أو غيره بعد موتهم أو نقل ذلك عن إمام من أئمة المسلمين۔ غير مالك۔ كـالشافعي وأحمد وغيرهما، فقد كذب عليهم، ولكن بعض الجهال ينقل هذا عن مالك، ويستند إلى حكاية مكذوبة عن مالك رحمه الله، ولو كانت صحيحة لم يكن التوسل الذي فيها هو هذا، بل هو التوسل بشفاعته يوم القيامة، ولكن من الناس من يحرف نقلها، وأصلها ضعيف۔
”اسی طرح جو امام مالک رحمہ اللہ یا ديگر ائمہ مسلمین، مثلاً امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہا اللہ وغیرہما سے یہ نقل کرے کہ انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور نیک انسان کی موت کے بعد ان سے سوال کرنا جائز قرار دیا، وہ ان ائمہ کرام پر جھوٹ باندھتا ہے۔ بعض جاہل لوگ اس بات کو امام مالک رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک جھوٹی روایت پر اعتماد کرتے ہیں۔ اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو اس میں مذکورہ وسیلہ وہ نہیں جو متنازع فیہ ہے، بلکہ اس میں قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت مراد ہے۔ لیکن بعض لوگ اس میں تحریف معنوی کرتے ہیں۔ بہرحال اس روایت کی سند ہی ضعیف ہے۔“ (قاعدة جليلة في التوسل والوسيلة،ص:128)
علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۷۔۷۴۴ھ) اس سند کے بارے میں فرماتے ہیں :
إسنادھا إسناد ليس بجيد، بل ھو إسناد مظلم منقطع۔
”اس کی سند جید نہیں بلکہ جہالت سے بھرپور اور منقطع ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي،ص:260)
روایت نمبر ۴
اسی سلسلےکی ایک اورروایت یوں ہے:
روى أبو الحسن علي بن إبراهيم بن عبدالله بن عبدالرحمن الكرخي عن علي ابن محمد بن علي، حدثنا أحمد بن محمد بن الهيثم الطائي قال حدثني أبي عن أبيه، عن سلمة بن كهيل، عن أبي صادق، عن علي بن أبي طالب رضي الله عنه، قال: قدم علينا أعرابي بعد ما دفنا رسول الله صلى الله عليه وسلم بثلاثة أيام، فرمى بنفسه على قبر رسول الله صلى الله عليه وسلم وحثا على رأسه من ترابه، فقال: قلت يا رسول الله ! فسمعنا قولك، ووعيت عن الله عز وجل فوعينا عنك، وكان فيما أنزل الله عليك: ﴿ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم﴾ الاية، وقد ظلمت نفسي، و جئتك تستغفر لي، فنودي من القبر: إنه غفر لك
”سیدنا علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے تین دن بعد ہمارے پاس ایک بدوی آیا۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر لیٹ گیا اور اس کی مٹی اپنے سر پر ڈالی۔ پھر کہنے لگا: اللہ کے رسول ! آپ نے فرمایا تو ہم نے آپ کی بات کو غور سے سنا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے وحی کو محفوظ کیا تو ہم نے آپ سے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت بھی آپ پر نازل فرمائی تھی : ﴿ولو أنهم إذ ظلموا أنفسهم﴾ ”جب وہ اپنے جانوں پر ظلم کر بیٹھیں، پھر آپ کے پاس آ کر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کریں اور آپ بھی ان کے لیے مغفرت کریں تو اللہ تعالیٰ انہیں ضرور معاف کر دے گا“۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ کے پاس آ گیا ہوں۔ آپ میرے لیے اللہ سے مغفرت طلب کیجیے۔ اسی اثنا میں قبر مبارک سے آواز آئی کہ تجھے معاف کر دیا گیا ہے۔“ (كنزالعمال للمتقي الھندي:4322، الصارم المنكي في الرد علي السبكي لابن عبدالھادي، ص430، تفسير القرطبي:439/6، جامع الأحاديث للسيوطي:34153)
تبصره:
یہ جھوٹی اور من گھڑت حکایت ہے۔
علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ اسے ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
أن هذا الخبر منكر موضوع، وأثر مختلق مصنوع، لا يصلح الاعتماد عليه، ولا يحسن المصير إليه، وإسناده ظلمات بعضها فوق بعض، والهيثم جد أحمد بن الهيثم، أظنه ابن عدي الطائي، فإن يكن هو، فھو متروك كذاب، وإلا فهو مجهول۔
”یہ روایت منکر، موضوع، من گھڑت اور خود ساختہ ہے۔ اس پر اعتماد کرنا اور اس کے مطابق عقیدہ بنانا درست نہیں۔ اس کی سند میں اندھیرے ہی اندھیرے ہیں۔ ہیثم جو کہ احمد ابن ہیثم کا دادا ہے، میرے خیال میں وہ عدی طائی کا بیٹا ہے۔ اگر یہ واقعی وہی ہے تو وہ متروک اور کذاب ہے، ورنہ مجہول ہے۔“ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص430)
اس روایت کا راوی ہیثم بن عدی ’’کذاب‘‘ اور ’’متروک‘‘ ہے۔ اس کے بارے میں :
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ليس بثقة، كان يكذب۔ ”یہ معتبر راوی نہیں تھا، بلکہ جھوٹ بولتا تھا۔“ (تاريخ يحيي بن معين:626/2)
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : سكتوا عنه ”یہ متروک الحدیث راوی ہے۔“ (الكامل في ضعفاء الرجال:104/7، وسنده حسن)
امام نسائی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک الحدیث‘‘ قرار دیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:637)
امام عجلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : كذاب، وقدرأيته۔ ”یہ سخت جھوٹا شخص تھا۔ یہ ميرا دیکھا بھالا ہے۔“ (تاريخ العجلي:1924)
امام ابوزرعہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ليس بشيء۔ ”یہ چنداں قابل اعتبار راوی نہیں۔“ (تاريخ أبي زرعة:431/2)
امام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : متروك الحديث، محله محل الواقدي۔ ”متروک الحدیث راوی ہے۔ یہ واقدی (کذاب) کا ہم پلہ ہے۔“ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:85/2)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو جھوٹی قرار دیا ہے۔ (الضعفاء الكبير للعقيلي:352/4، وسنده صحيح)
علامہ جوزجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ساقط، قد كشف قناعه ”یہ متروک راوی ہے۔ اس کا پردہ چاک ہو چکا ہے۔“(أحوال الرجال:368)
امام یعقوب بن شیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
والھيثم بن عدي كانت له معرفة بأمور الناس وأخبارھم، ولم يكن في الحديث بالقوي، ولا كانت له به معرفة، وبعض الناس يحمل عليه في صدقه۔
”ہیثم بن عدی کو لوگوں کے قصوں اور واقعات سے کچھ معرفت تھی، لیکن حدیث میں وہ مضبوط نہیں تھا، نہ اسے حدیث کی کوئی معلومات تھیں۔ بعض محدثین اس کی سچائی میں بھی شک کرتے ہیں۔“ (تاريخ بغداد للخطيب البغدادي:53/14، وسنده صحيح)
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’ضعیف‘‘ اور ’’متروک‘‘ راویوں میں ذکر کیا ہے۔ (كتاب الضعفاء والمتروكين:565)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
روی عن الثقات أشیاء، کأنھا موضوعۃ، بسبق إلی القلب أنہ کان یدلسھا، فالتزق تلک المعضلات بہ، ووجب مجانبۃ حدیثہ علی علمہ بالتاریخ ومعرفتہ بالرجال۔
”اس نے ثقہ راویوں سے بہت سی من گھڑت قسم کی روایات بیان کیں۔ محسوس یوں ہوتا ہے کہ وہ ان کے بیان میں تدلیس سے کام لیتا تھا۔ یہی منقطع روایات اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئیں اور باوجود اس کے تاریخ اور رجال کا عالم ہونے کے، اس کی حدیث سے بچنا ضروری ہو گیا۔“ (كتاب المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين:93/3)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : أجمعوا علی ضعف الھیثم۔ ”محدثین کرام کا ہیثم کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔“(سير أعلام النبلاء:462/9)
دوسری بات یہ ہے کہ ابوصادق مسلم بن یزید / عبداللہ بن ناجد کی سیدنا علی رضی الله عنہ سے روایت ’’مرسل‘‘ ہوتی ہے۔ امام ابوحاتم رحمہ اللہ نے ان کی سیدنا علی رضی الله عنہ سے روایت کو ’’مرسل‘‘ کہا ہے۔ (الجرح والتعديل لابن أبي حاتم:198/8)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حديثه عن علي مرسل۔ ”ابوصادق کی سیدنا علی رضی الله عنہ سے روایت مرسل ہوتی ہے۔“ (تقريب التھذيب:8167)
سابق مفتی دارالعلوم دیوبند، محمد شفیع دیوبندی حیاتی کراچوی صاحب (م : ۱۳۹۶ھ) اس جھوٹی روایت کو اپنے عقیدے کی بنیاد بناتے ہوئے لکھتے ہیں :
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری جیسے آپ کی دنیوی حیات کے زمانہ میں ہو سکتی تھی، اسی طرح آج بھی روضہ اقدس پر حاضری اس حکم میں ہے۔ حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے فرمایا کہ جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کر کے فارغ ہوئے تو اس کے تین روز بعد ایک گاؤں والا آیا اور قبر شریف کے پاس آ کر گر گیا اور زار زار روتے ہوئے آیت مذکورہ کا حوالہ دے کر عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں وعدہ فرمایا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اگر گنہگار حاضر ہو جائے اور رسول اس کے لیے دعائے مغفرت کر دیں تو اس کی مغفرت ہو جائے گی۔ اس لیے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں کہ آپ میرے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ اس وقت جو لوگ حاضر تھے، ان کا بیان ہےکہ اس کے جواب میں روضۂ اقدس کے اندر سے آوازقدغفرلك (بحر محيط) یعنی مغفرت کر دی گئی (معارف القرآن:458/2، 459)
صحابہ کرام، تابعین عطام اور سلف صالحین میں سے کوئی بھی اس بات کا قائل نہیں تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ سے دعائے مغفرت کی درخواست کی جائے۔ اگر قرآن و حدیث میں اس کی کوئی دلیل ہوتی تو اسلاف امت ضرور اس کے قائل و فاعل ہوتے۔ سلف صالحین کے خلاف بدعی عقیدہ گھڑ کر اسے جھوٹی روایت کا کمزور اور بےکار سہار ادینے کی کوشش کرنا اہل حق کا وطیرہ نہیں۔ جن روایات کو جھوٹے اور متروک راویوں نے بیان کر رکھا ہے، محدثین کرام انہیں بےفیض سمجھ کر ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیتے ہیں، انہی روایات کو جھاڑ پونچھ کر اپنے ماتھے کا جھومر بنانا کون سی دینداری ہے؟
روایت نمبر ۵
محمد بن حرب ہلالی بیان کرتا ہے:
دخلت المدينة فأتيت قبر النبي صلى الله عليه وسلم فزرته, وجلست بحذائه، فجاء أعرابي فزاره، ثم قال: يا خير الرسل ! إن الله أنزل عليك كتابًا صادقًا، قال فيه: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ﴾إلي قوله ﴿رَحِيمًا﴾ واني جئتك مستغفرًا ربك من ذنوبي، متشفعابك۔۔۔
میں مدینہ منورہ میں داخل ہوا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر گیا، اس کی زیارت کی اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ ایک بدوی شخص آیا اور قبر مبارک کی زیارت کے بعد کہنے لگا: اے خیرالرسل !بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر سچی کتاب نازل کی ہے۔ اس میں اللہ نے فرمایا ہے: ﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ۔۔۔﴾ اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں اور پھر آپ کے پاس آ کر اللہ سے معافی طلب کریں اور آپ بھی ان کے لیے معافی مانگیں تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کو معاف فرما دے گا)۔۔۔ (وفاء الوفاء بأخبار دارالمصطفٰي للسمھودي:1361/4، اتحاف الزائر لأبي اليمن عبدالصمد بن عبدالوھاب بن عساكر:68،69، أخبار المدينة لابن النجار:147، مثيرالعزم الساكن لابن الجوزي:477، شفاء الغرام بأخبار البلد الحرام لمحد بن أحمد بن علي الفاسي:369/4، وقد ذكره ابن بشكوال أيضا كما في القول البديع للسخاوي:162، 163)
تبصره:
یہ بھی جھوٹی داستان ہے۔ اس حکایت کے بارے میں علامہ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۴۴ھ) فرماتے ہیں :
وهذه الحكاية التي ذكرها بعضهم يرويها عن العتبي، بلا إسناد، وبعضهم يرويها عن محمد بن حرب الهلالي، وبعضهم يرويها عن محمد بن حرب، بلا إسناد، عن أبي الحسن الزعفراني عن الأعرابي. وقد ذكرها البيهقي في كتاب "شعب الإيمان” بإسناد مظلم عن محمد بن روح بن يزيد البصري، حدثني أبو حرب الهلالي، قال: حج أعرابي، فلما جاء إلى باب مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم أناخ راحلته فعقلها، ثم دخل المسجد حتى أتى القبر، ثم ذكر نحو ما تقدم. وقد وضع لها بعض الكذابين إسناداً إلى علي بن أبي طالب رضي الله عنه، كما سيأتي ذكره۔ وفي الجملة؛ ليست ھذه الحكاية المذكورة عن الأعرابي مما تقوم به الحجة، وإسنادها مظلم، ولفظها مختلف "أيضاً”، ولو كانت ثابتة لم يكن فيها حجة على مطلوب المعترض، ولا يصلح الاحتجاج بمثل هذه الحكاية، ولا الاعتماد على مثلها عند أهل العلم
اس حکایت کو بعض لوگوں نے عتبی سے بیان کیا ہے اور بعض نے بلاسند ذکر کیا ہے۔ جبکہ بعض نے محمد بن حرب ہلالی سے اسے روایت کیا ہے۔ کچھ لوگوں نے اس کی سند یوں بیان کی ہے: محمد بن حرب، ابوالحسن زعفرانی سے بیان کرتا ہے اور وہ بدوی سے ۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس واقعے کو اپنی کتاب شعب الایمان میں ایک سخت ضعیف سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ وہ سند یوں ہے : محمد بن روح بن یزید بصری کہتے ہیں کہ ہمیں ابوحرب ہلالی نے بیان کیا کہ ایک بدوی نے حج کیا پھر مسجد نبوی کے پاس آ کر اپنا اونٹ باندھ دیا، مسجد میں داخل ہوا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر، مبارک پر آیا۔۔۔ بعض جھوٹے لوگوں نے اس کی سیدنا علی رضی اللہ عنہ تک سند گھڑ لی ہے ، الغرض بدوی والے اس منکر قصے سے دلیل نہیں لی جا سکتی۔ اس کی سند سخت ضعیف ہے اور اس کی سند و متن دونوں میں اختلاف ہے۔۔۔ اس جیسی حکایت سے دلیل لینا اور اس پر اعتماد کرنا اہل علم کے نزدیک جائز نہیں۔ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص:212)
اب اس کے راویوں کا حال بن ملاحظہ فرما لیں کہ :
(1) ابن فضیل نحوی
(2) محمد بن روح
(3) محمد بن حرب ہلالی
تینوں کی توثیق نہیں مل سکی۔ جس کے دین کا علم نہ ہو، اس کی بیان کردہ روایات کو اپنا دین بنانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟ یہ داستان انہی تینوں میں سے کسی ایک کی کارروائی لگتی ہے۔
روایت نمبر ۶ حکایت عتبی
عتبی والی حکایت حافظ نووی (الأذكار:206، الإيضاح:451) ، علامہ قرطبی (تفسير القرطبي:265/5) ، حافظ ابن کثیر (تفسير ابن كثير:306/2) ، اور ابن قدامہ (المغني:557/3) نے بغیر، سند کے ذکر کی ہے۔
معجم الشیوخ لابن عساکر (ص:600) میں بھی اس کی سند موجود ہے، لیکن یاد رہے کہ یہ بھی جھوٹی سند ہے۔ کیونکہ :
(1) اس کے راوی ابن فضیل نحوی کی توثیق نہیں مل سکی۔
(2) عبدالکریم بن علی راوی کی تعیین و توثیق بھی نہیں ملی۔
(3) محمد بن محمد بن نعمان راوی کون ہے؟ اگر یہ ابن شبل ہے تو یہ ’’متہم بالوضع‘‘ ہے اور اگر یہ ی ہے تو ’’مجہول‘‘ ہے۔
(4) محمد بن حرب ہلالی کی توثیق بھی نہیں ملی۔
جس حکایت کی سند کا یہ حال ہو، اسے عقیدے میں دلیل بنانا کیسے صحیح ہے؟
حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ (م : ۷۰۴۔۷۴۴ھ) اس حکایت کے بارے میں فرماتے ہیں :
وأما حكاية العتبي التي أشار إليها، فانھا حكاية ذكرها بعض الفقهاء والمحدثين، وليست بصحيحة ولا ثابتة إلى العتبي، وقد رويت عن غيره بإسناد مظلم كما بينا ذلك فيما تقدم، وهي في الجملة حكاية لا يثبت بها حكم شرعي، لا سيما في مثل هذا الأمر الذي لو كان مشروعاً مندوباً، لكان الصحابة والتابعون أعلمَ به وأعملَ به من غيرهم
عتبی والی حکایت جس کی طرف سبکی نے اشارہ کیا ہے، اسے بعض فقہا اور محدثین نے ذکر کیا ہے، لیکن یہ عتبی تک صحیح اور ثابت نہیں ہے۔ عتبی کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی یہ گمنام سند کے ساتھ مذکور ہے جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ الغرض اس حکایت سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہو سکتا، خصوصاً ایسے معاملے میں جو اگر مشروع و مستحب ہوتا تو صحابہ و تابعین بعد والوں سے بڑھ کر اس کو جانتے اور اس پر عمل کرتے۔ (الصارم المنكي في الرد علي السبكي، ص:321، وفي نسخة:490)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فمثل هذا الإمام كيف يشرع دينا لم ينقل عن أحد السلف، ويأمر الأمة أن يطلبوا الدعاء والشفاعة والاستغفار، بعد موت الأنبياء والصالحين، منهم عند قبورهم، وهو أمر لم يفعله أحد من سلف الأمة؟
”عتبي جیسا امام ایسی بات کو دین کیسے قرار دے سکتا ہے جو سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں۔ کیسے ممکن ہے کہ عتبي انبیائے کرام اور صالحین کی وفات کے بعد ان کی قبر پر جا کر ان سے دعا، شفاعت اور استغفار طلب کرنے کا حکم دیں، حالانکہ یہ ایسا کام ہے جسے اسلاف امت میں سے کسی نے نہیں کیا؟“ (مجموع الفتاوٰي:221/1)
جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب (م : ۱۲۸۰۔۱۳۶۲ھ) لکھتے ہیں :
”محمد بن حرب کی وفات ۲۲۸ھ میں ہوئی۔ غرض زمانہ خیرالقرون کا تھا اور کسی سے اس وقت نکیر منقول نہیں، پس حجت ہو گیا۔“ (نشرالطيب، ص:254)
عربی کی مشہور مثل ہے کہ ثبت العرش، ثم انقش یعنی پہلے عمارت کھڑی کرو، پھر نقش و نگار کرو۔ تھانوی صاحب نے عمارت بنانے سے پہلے ہی بیل بوٹے کا کام شروع کر دیا ہے۔ پہلے واقعہ کی سند تو ثابت ہو جائے، پھر اس سے استدلال و استنباط کا کام بھی ہو جائے گا۔ جس سند میں نامعلوم و مجہول اور مجروح افراد نے ڈیرے ڈال رکھے ہوں، کیا محدثین کرام اور ائمہ دین اسے اپنا دین بنا لیتے تھے؟ جس واقعہ کو سب سے پہلے حافظ ابوالیمن عبدالصمد بن عبدالوہاب بن عساکر (۶۱۸۔۶۸۶ ھ) نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہو اور وہ بھی سخت ’’ضعیف‘‘ سند کے ساتھ، اسے خیرالقرون کے سلف صالحین کیسے اپنا سکتے تھے؟
تنبیہ :
سفیان ثوری رحمہ اللہ نے بھی ایک اعرابی کا واقعہ بیان کیا ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آیا تھا….. (المنتقٰي من مسموعات مرو للضياء المقدسي:418، المكتبة الشامله)
لیکن یہ امام سفیان ثوری رحمہ اللہ پر صریح بہتان ہے، کیونکہ :
(1) ابن بنت یزید بن ہارون کے حالات زندگی نہیں ملے۔
(2) حسن بن یوسف کاتب کون ہے؟ معلوم نہیں ہو سکا۔
(3) ابوالحسن محمد بن اسحاق تمار کی توثیق نہیں مل سکی۔
(4) ابواسحاق ابراہیم بن محمد بن عبداللہ بن یزداد رازی کی توثیق نہیں ملی۔
(5) ابوعلی حسین بن ابراہیم قنطری کے حالات نہیں ملے۔
جس سند میں کئی نامعلوم افراد موجود ہوں، وہ ثابت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ کسی نامعلوم جھوٹے کی مذموم کوشش ہے۔
تنبیہ :
سعید بن ابی مریم رحمہ اللہ بھی قبر نبوی کے متعلق ایک دیہاتی کا واقعہ نقل کرتے ہیں۔ (المجلس من أمالي أبي الفتح المقدسي،ص:15)
یہ بھی سخت باطل روایت ہے، کیونکہ :
(1) ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن عمر بن نصر بن محمد شیبانی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقال ابن عساكر : اتھم في القاء أبي إسحاق بن أبي ثابت۔
”امام ابن عساکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ابواسحاق بن ابوثابت کے ساتھ دعوئ ملاقات کی وجہ سے اس پر جھوٹ کاا لزام تھا۔“(ميزان الاعتدال:580/2)
یہی بات علامہ عبدالعزیز کتانی رحمہ اللہ نے کہی ہے۔ (لسان الميزان لابن حجر:424/3)
ابوالحسن علی بن خضر بن سلیمان بن سعید سلمی کے بارے میں حافظ ابن عساکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
سمع الكثير، وجمع مالو لم يجمعه، كان خيراله۔
”اس نے بہت سے لوگوں سے سماع کیا اور ایسی روایات جمع کیں کہ ان کو جمع نہ کرنا ہی اس کے لیے بہتر تھا۔“ (تاريخ ابن عساكر:461/41)
نیز فرماتے ہیں :
وسمع من شيخنا أبي الحسن بن قيس، ولم يقع إلينا من حديثه عنه شيء إلا بعد موت ابن قيس، وكان جدي أبو المفضل يذكر أنه سمع منه، ولم يجر سماعه منه۔
”اس نے ہمارے شیخ ابوالحسن بن قیس سے سماع کیا تھا۔ ہمارے پاس ابوالحسن بن قیس کی احادیث بواسطه علی بن خضران کی موت کے بعد ہی پہنچیں۔ میرے دادا ابومفضل بیان کرتے تھے کہ انہوں نے علی بن خضر سے سماع کیا ہے، لیکن انہوں نے اس سے سنی ہوئی روایات کو آگے بیان نہیں کیا۔“ (تاريخ دمشق لابن عساكر:462/41)
علامہ عبدالعزیز کتانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
صنف کتبا کثیرۃ، لم یکن ھذا الشأن من صنعتہ، وخلط تخلیطا عظیما، کان یروی أشیاء لیست لہ سماع ولا إجازۃ۔
”اس نے بہت سی کتابیں تصنیف کی تھیں، لیکن یہ کام اس کے بس کا نہیں تھا۔ اس کا حافظہ بہت زیادہ خراب ہو گیا تھا۔ وہ ایسی روایات بیان کرتا تھا، جن کا نہ اس نے سماع کیا تھا، نہ ان کو بیان کرنے کی اجازت اسے ملی تھی۔“ (تاريخ دمشق لابن عساكر:463/41)
الحاصل:
قارئین کرام ! آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں وسیلے کا ذکر ہے، اس سے مراد ذاتی نیک اعمال کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے۔ قرآن مجید کی صرف دو آیات میں وسیلے کا لفظ مستعمل ہے۔ ان دونوں آیات کے بارے میں اہل سنت و الجماعت کے مفسرین کے اقوال اور ان کی تفاسیر آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔ تیسری آیت جس میں گناہگاروں کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے اور آپ سے اپنے لیے دعا کرانے کا ذکر ہے، اس سے بعض لوگوں نے قبر نبوی اور ذات نبوی کے توسل کا اثبات کرنا چاہا اور کچھ روایات پیش کیں، ان کے بارے میں بھی اصول محدثین اور فہم سلف کی روشنی میں تفصیلی و تحقیقی بحث سپرد قلم کر دی گئی ہے۔ فیصلہ خود کریں کہ کیا قرآن کریم سے فوت شدگان کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے؟