دین اسلام نے اصول و احکام اور تہذیب و معاشرت کے بارے میں واضح رہنمائی فرمائی ہے، باپ بیٹی جیسے مقدس رشتے کے حقوق سے بھی شناسا کیا، بیٹی عزت ہوتی ہے، جب وہ اپنے باپ کی اجازت کے بغیر شادی رچا لیتی ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ فلاں کی عزت فرار ہوگئی ہے، ایسا باپ شرم سے زمین میں گڑ جاتاہے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی دہلیز سے باہر قدم رکھنا اپنے لیے باعث ذلت و رسوائی سمجھتا ہے۔
اسلام بھلا اپنے ماننے والوں کی ذلت کب برداشت کر سکتا ہے؟ اسی لیے اس نے ایسی عورت کے نکاح کو کالعدم قرار دیا جو ولی (Guardian) کی اجازت کے بغیر نکاح کرلے، لیکن افسوس کہ اسلام کا نام لے کر اسلام کو رسوا کرنے والوں نے جہاں اور بہت سے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے، وہاں ایک کوشش یہ بھی کی کہ کسی طریقے سے ولی کی اجازت کو نکاح سے نکال باہر کیا جائے تاکہ بے حیائی آسانی سے اسلامی معاشرے میں سرایت کر جائے۔
آئیے نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہونے کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور اس کے خلاف دی جانے والی دلیلوں کا منصفانہ جائزہ لیتے ہیں۔
دلیل نمبر۱:
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ
[البقرة:۲۳۲]
”اور جب تم عورتوں کو طلاق دے دو، پھر وہ اپنی مقررہ عدت کو پہنچ جائیں تو ان کو اپنے خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو۔“
یہ آیت کریمہ اس بات پر دلیل ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح درست نہیں، اس آیت میں اولیاء کو خطاب ہے، اس سے عورت کے نکاح میں ان کا اختیار اور حق ثابت ہوتا ہے۔
مشہور سنی مفسر امام ابو جعفر ابن جریری طبری رحمہ اللہ (م۳۱۰ھ) اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
”اس آیت کریمہ میں واضح دلالت ہے کہ ان لوگوں کی بات صحیح ہے جو کہتے ہیں کہ عصبہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، کیونکہ اگر عورت نکاح کرنا چاہے تو اس کو روکنے سے اللہ تعالی نے ولی کو منع فرما دیاہے، اگر عورت بغیر ولی کے خود اپنا نکاح کرسکتی ہوتی یا جسے چاہے اپنا ولی بنا سکتی ہوتی تو اس کے ولی کو نکاح کے سلسلے میں اسے روکنے کی ممانعت کا معنیٰ مفہوم نہیں، کیونکہ اس صورت میں ولی کے پاس عورت کو روکنے کا کوئی راستہ ہی نہیں، اس لیے کہ وہ جب چاہتی خود اپنا نکاح کر لیتی یا اپنا ولی بناتی وہ اس کا نکاح کر دیتا (ٓاصلی ولی کو منع کرنے کا کوئی مطلب ہی نہ ہوتا)۔“
[تفسير طبري: ۴۸۸/۲]
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م۷۷۴ھ) لکھتے ہیں:
وفيهما ولالة على أن المرأة لا تملك أن تزوج نفسها، وأناه لا بد فى لنكاح من ولي، كما قال الترمذي و ابن جرير عند هذه الآية.
” اس آیت میں دلیل ہے کہ عورت خود اپنا نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ نکاح کےلیے ولی کا ہونا ضروری ہے، یہی بات امام ترمذی اور امام ابن جریر رحمہا اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں کہی ہے۔“
[تفسير ابن كثير ۵۶۵-۵۶۴/۱، بحقيق عبد الرزاق المهدي]
اس آیت کریمہ کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے، سیدنا معقل بن یساررضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
كانت لي أخت الي، فأتاني ابن عم لي، فأنكحتها اياه، ثم طلقها طلاقاله رجعة، ثم تركها حتي انقضت عدتها، فلما خطبت الي، أتاني يخطب، فقلت، لا والله! لا أنكحها أبدا، قال: ففي نزلت هذه الآية: (واذا طلقتم النساۗء فبلغن اجلهن فلا تعضلوهن ان ينكحن ازواجهن) الآية، قال: فكفرت عن يميني، فأنكحتها اياه.
”میری طرف میری ایک بہن سے نکاح کے لیے پیغام آئے، میرا ایک چچا زاد بھی آیا، میں نے اس سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا، پھر اس نے اسے رجعی طلاق دے دی، پھر اس کو چھوڑ دیا حتی کہ اس کی عدت پوری ہوگئی، جب میری طرف (دوسرے لوگوں کی طرف سے) نکاح کے پیغام آنے لگے تو وہ بھی نکاح کا پیغام لے کر آگیا، میں نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! میں کبھی اپنی بہن کا نکاح تجھ سے نہیں کرے گا، میرے بارے میں ہی یہ آیت نازل ہوئی۔“
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاۗءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ
[البقرة:۲۳۲]
”پھر میں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور اسی سے اپنی بہن کا نکاح کر دیا۔“
[ صحيح بخاري: ۷۷/۱، ح: ۵۱۳۰، سنن ابي داؤد: ۳۰۸۷، واللفظ له، سنن الترمذي: ۲۹۸۱]
امام ترمذی رحمہ اللہ (۲۷۹-۲۰۰ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
و فى هذا الحديث دلالة على أنه لا تجوز النكاح بغير ولي، لأن أخت معقل بن يسار كانت ثيبا، فلو كان الأمر اليها لزوجت نفسها ولم تحتج الي وليها معقل بن يسار، و انما خاطب الله فى هذه الآية الأولياء: فقال:(واذا طلقتم النساۗء فبلغن اجلهن فلا تعضلوهن ان ينكحن ازواجهن) ففي هذه الآية دلالة على أن الأمر الي الأولياء فى التزويج مع رضاهن.
اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ بغیر ولی کے نکاح جائز نہیں، کیونکہ سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی بہن ثیبہ (طلاق یافتہ) تھی، اگر معاملہ نکاح اسی کے ہاتھ میں ہوتا تو وہ خود اپنا نکاح کر لیتی اور اپنے ولی سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی محتاج نہ ہوتی، اللہ تعالی نے اس آیت میں ولیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ)
(ان کو اپنے سابقہ خاوندوں سے نکاح کرنے سے نہ روکو)
لہذا اس آیت سے معلوم ہوا کہ معاملہ نکاح ولیوں کے ہاتھ میں ہے، ہاں عورتوں کی رضامندی ضروری ہے۔
[سنن ترمذي، تحت حديث: ۲۹۸۱]
علامہ شوکانی رحمہ اللہ (۱۲۵۰-۱۱۷۳ھ) اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
یہ حدیث دلیل ہے کہ نکاح میں ولی کا ہونا شرط ہے، اگر یہ شرط نہ ہوتی تو مرد کی عورت میں اور عورت کی مرد میں دلچسپی کافی ہو جاتی، اس حدیث کے ذریعے اس قیاس کا بھی رد ہو جاتاہے جس قیاس کے ذریعے امام ابوحنیفہ نے ولی کی اجازت کی شرط کے نہ ہونے پر حجت لی ہے، انہوں نے نکاح کو بیع (خرید و فروخت) پر قیاس کیاہے، اس طرح کہ اس معاملے میں عورت خود مختار ہے، ولی کی ضرورت نہیں اور یہی معاملہ نکاح کا ہے، انہوں نے ولی کی اجازت نکاح کے لیے شرط ہونے پر دلالت کرنے والی احادیث کو چھوٹی بچی پر محمول کیا ہے اور اس قیاس کے ذریعے ان احادیث کے عموم کو خاص کیا ہے، لیکن یہ قیاس فاسد ہے، سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے مقابلے میں اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
[نيل الاوطار:۱۹۷/۴]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (۸۵۲-۷۷۳ھ) لکھتے ہیں:
نکاح میں ولی کی اجازت کی شرط ہونے میں علماء نے اختلاف کیاہے، جمہور کا مذہب یہ ہے کہ ولی کی اجازت نکاح کےلیے شرط ہے، ان کا کہنا ہے کہ عورت قطعاً اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی، انہوں نے مذکورہ احادیث کو دلیل بنایا ہے، ان میں سے قوی ترین دلیل وہ سبب نزول ہے جو اس آیت کریمہ کے بارے میں مذکور ہے اور یہ ولی کی اجازت شرط ہونے پر صریح ترین دلیل ہے، ورنہ ان (سیدنا معقل رضی اللہ عنہ) کے روکنے کےکوئی معنی نہیں، نیز یہ کہ اگر وہ عورت خود نکاح کرسکتی ہوتی تو اپنے بھائی کی محتاج نہ ہوتی اور جو اپنے معاملے میں خود مختار ہو، اس کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کسی نےا س کام سے روک دیا ہے، امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ اس بارے میں کسی صحابی کا اختلاف ان کے علم میں نہیں۔
دلیل نمبر ۲:
فرمان باری تعالی ہے:
(فَانْكِحُوْهُنَّ بِاِذْنِ اَهْلِهِنَّ وَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ)
[ النساء:۲۵]
تم ان کے گھر والوں کی اجازت کے ساتھ ان سے نکاح کرو اور ان کو معروف طریقے سے ان کے حق مہر ادا کرو۔
امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(باذن اهلهن) باذن أربابهن و أمرهم اياكم بالنكاح و رضا هم
” یعنی ان عورتوں کے سر پرستوں کی اجازت، نکاح کے بارے میں ان کے حکم اور رضا مندی سے (نکاح کرو)۔“
[تفسير ابن جرير:۱۹/۴]
دلیل نمبر ۳:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
( وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا)
[ البقرة: ۲۲۱]
” اور تم (اپنی عورتوں کا) مشرکین سے نکاح نہ کرو حتٰی کہ وہ ایمان لے آئیں۔“
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ووجه الاحتجاج من الآية والتي بعدها أنه تعالي خاطب بالنكاح الرجال ولم يخاطب به النساء، فكأنه قال: لا تنكحوا أيها الأولياء مولياتكم للمشركين.
اس آیت اور بعد والی آیت سے وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالی نے نکاح کے بارے میں مردوں کو مخاطب کیاہے، عورتوں کو نہیں، گویا کہ یوں فرمایا ہے کہ اے ولیو! تم اپنی زیر ولایت عورتوں کا مشرکین سے نکاح نہ کرو۔
[فتح الباري:۱۸۴/۹]
دلیل نمبر۴:
فرمان الہی ہے:
(وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ)
[ النور:۳۲]
اور اپنے میں سے بے نکاح مردوں کا نکاح کرو۔
اس آیت کریمہ سے بھی امام بخاری نے ثابت کیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں۔
قرآنی دلائل کے بعد حدیثی دلائل ملاحظہ ہوں:
دلیل نمبر ۱:
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا دور جاہلیت میں نکاح کی چار صورتیں بیان کرتی ہوئی فرماتی ہیں :
ان النكاح فى الجاهلية كان على ۷۱ربعة أنحاء، فنكاح منها نكاح الناس اليوم، يخطب الرجل الي الرجل وليته أوابنته، فيصدقها، ثم ينكحها….. فلما بعث محمد صلى الله عليه وسلم بالحق هدم نكاح الجاهلية كله الا نكاح الناس اليوم.
دور جاہلیت میں نکاح کے چار طریقے تھے، ان میں سے ایک تو وہی ہے جو آج لوگ اختیار کرتے ہیں، یعنی ایک آدمی دوسرے آدمی کی طرف اس کی زیر ولایت عورت یا بیٹی کے بارے میں پیغام نکاح بھیجتا، پھر اس عورت کو حق مہر دے کر اس سے نکاح کر لیتا۔۔۔۔ جب محمد صلّی اللہ علیہ و سلم حق دے کر مبعوث فرمائے گئے تو آپ نے جاہلیت کے سارے نکاح ختم کر دئیے سوائے اس نکاح کے جو لوگ آج کرتے ہیں۔
[صحيح بخاري: ۷۶۸/۲، ح: ۵۱۲۷]
امام بخاری رحمہ اللہ نےا س حدیث میں موجود الّا نکاح النّاس الیوم کے الفاظ سے ثابت کیاہے کہ ولی کی اجازت نکاح میں ضروری ہے، کیونکہ جس نکاح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برقرار رکھا ہے، اس کا انداز سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہی بیان کیا ہے کہ ولی خود عورت کا نکاح کرے۔
دلیل نمبر ۲:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ یہ فرمان باری تعالی:
(وَمَا يُتْلٰي عَلَيْكُمْ فِي الْكِتٰبِ فِيْ يَتٰمَي النِّسَاۗءِ الّٰتِيْ لَا تُؤْتُوْنَهُنَّ مَا كُتِبَ لَهُنَّ وَتَرْغَبُوْنَ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ)
[النساء:۱۲۷]
اور وہ (بھی فتوی دیتا ہے تم کو) ان کی بابت جو پڑھا جاتا ہے تم پر کتاب میں یتیم لڑکیوں کے بارے میں جنہیں تم ان کے مقرر کردہ حق مہر ادا نہیں کرتے اور تم ان سے نکاح کرنے کی رغبت نہیں رکھتے۔
ایسی یتیم لڑکی کے بارے میں نازل ہوا جو کسی ایسے آدمی کے پاس ہو جس کے مال میں وہ شریک ہو، وہ آدمی اس لڑکی سے نکاح کا زیادہ مستحق ہے، لیکن وہ اس سے نکاح کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتا اور اسے دوسروں سے نکاح کرنے سے بھی روکتا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں کوئی اس کے مال میں شریک نہ ہو جائے۔
[صحيح بخاري: ۷۷۰/۱، ح:۵۱۲۸]
دلیل نمبر ۳:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ان عمر حين تأيمت حفصة بنت عمر من ابن حذافة السهمي و كان من أصحاب النبى صلى الله عليه و سلم من أهل بدر توفي بالمدينة، فقال عمر: لقيت عثمان بن عفان، فعرضت عليه، فقلت: ان شئت أنكحتك حفصة، فقال: سأنظر فى أمري، فلبثت ليالي، ثم لقيني، فقال: بدالي أن لا أتزوج يومي هذا، قال عمر: فلقيت أبا بكر، فقلت: ان شئت أنكحتك حفصة.
جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بیٹی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے خاوند سیدنا ابن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ جو کہ بدری صحابی تھے، مدینہ میں فوت ہو گئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان کو پیشکش کی، میں نے کہا، اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کردوں، انہوں نے فرمایا، میں اپنے میں غور و فکر کروں گا (پھر بتاؤں گا)، میں کچھ راتیں ٹھہر گیا، پھر عثمان رضی اللہ عنہ مجھے ملے اور فرمایا، میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ میں اس وقت شادی نہ کروں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا، اگر آپ چاہیں تو میں حفصہ کا نکاح آپ سے کردوں (آخر ان کا نکاح نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے ہوگیا اور انہیں ام المومنین بننے کا شرف حاصل ہو گیا)۔
[صحيح بخاري ۷۷۰/۱، ح:۵۱۲۹]
ان دونوں حدیثوں سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح جائز نہیں ہے، کیونکہ پہلی حدیث میں نکاح سے روکنے کی نسبت ولی کی طرف کی گئی ہے اور اس بات کو ناجائز قرار دیا گیا ہے، اگر اسلام میں ولی کے پاس عورت کو نکاح سے روکنے کی اتھارٹی ہے ہی نہیں تو اس آیت کے نزول کا کوئی مقصد نہ ہوا، حالانکہ ایسا قطعا نہیں۔
دوسری حدیث میں بھی واضح ہے کہ باوجود بیوہ ہونے کے سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے نکاح کا انتظام ان کے ولی یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا ہے، نیز
ان شئت أنكحتك حفصة
(اگر آپ چاہیں تو میں آپ سے حفصہ کا نکاح کردوں)
کے الفاظ عورت کے نکاح میں ولی کی اجازت کے ضروری ہونے پر صریح دلیل ہیں، کیونکہ اگر ولی کو کوئی اختیار نہ تو اس کی طرف نکاح کی نسبت کرنا لغت و عقل دونوں کے خلاف ہے۔
دلیل نمبر۴:
سیدنا ابو موسی الاشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا نكاح الا بولي.
”ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں۔“
[المستدرك للحاكم: ۱۷۳ح، ۲۷۱۷، وسندهٗ حسن والحديث صحيح]
اس حدیث کو امام ابن الجارود(۷۰۲)، امام ابن حبان(۴۰۸۳)، امام علی بن المدینی (المستدرک للحاکم:۱۷۰/۲، السنن الکبری للبیہقی:۱۰۸/۷)، امام ذہلی (المستدرک للحاکم:۱۷۰/۲)اور امام حاکم رحہم اللہ نے صحیح کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
هذا حديث حسن صحيح
[ تخريج احاديث المختصر: ۳۷۲-۳۷۱/۲]
یہ حدیث اس بات پر نص ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
امیر صنعانی فرماتے ہیں:
والحديث دل على أنه لا يصح النكاح الا بولي، لأن الأصل فى النفي نفي الصحة لا الكمال.
” یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح صحیح نہیں، کیونکہ نفی میں اصل صحت کی نفی ہوتی ہے نہ کہ کمال کی نفی۔“
[سبل السلام:۱۱۷/۳]
دلیل نمبر ۵:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ايما امرأة نكحت بغير اذن و ليها فنكا حها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فان دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها، فان اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له.
” جو عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرتی ہے، اس کا نکاح باطل ہے، اس کا نکاح باکل ہے، اگر مرد اس کے ساتھ دخول کرلیتاہے تو اس عورت کو مرد کی طرف سے شرمگاہ کو حلال کرنے کے عوض حق مہر ملے گا اور اگر (باپ نہ ہو اور) ان (دوسرے ولیوں) میں اختلاف ہو جائے تو حاکم وقت اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہیں ہے۔“
[مسند احمد:۴۹۹، مسند الامام احمد:۱۶۶-۱۶۵، مسند الحميدي: ۲۲۸، مسند الطيالسي منحة: ۳۰۵/۱، سنن ابي داؤد: ۲۰۸۳، سنن ابي ماجه: ۱۸۷۹، سنن ترمذي:۱۱۰۲، السنن الكبريٰ للنسائي: ۵۳۹۴، مسند ابي يعلي: ۲۰۸۳، سنن الدارقطني: ۲۲۱/۳، السنن الكبري للبيهقي: ۱۰۵/۷، وسنده حسن]
اس حدیث کو امام ترمذی اور حافظ ابن عساکر(معجم الشیوخ:۲۳۴) رحمہما اللہ نے “حسن”، جبکہ امام ابن الجارود(۷۰۰)، امام ابو عوانہ (۴۲۵۹)، امام ابن خزیمہ (فتح الباری: ۱۹۱/۹)، امام ابن حبان (۴۰۷۵،۴۰۷۴)، حافظ بیہقی (السنن الکبریٰ: ۱۰۷/۷)، حافظ ابن الجوزی (التحقیق: ۲۵۵/۲) اور امام حاکم رحمہم اللہ نے “صحیح”کہا ہے۔
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ليس يصح فى هذا شيء الا حديث سليمان بن موسيٰ.
اس (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث) میں صرف سلیمان بن موسی کی حدیث صحیح ہے۔
[التاريخ لابن معين برواية الدوري:۲۳۶/۲، الكامل لابن عدي: ۱۱۱۵/۳، السنن الكبري للبيهقي: ۱۰۷/۷]
حافظ ابو موسیٰ المدینی کہتے ہیں:
هذا حديث ثابت مشهور يحتج به.
یہ ثابت شدہ اور مشہور قابل حجت حدیث ہے۔
[اللطائف:۶۰۶،۵۸۶،۵۵۶]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کو حسن کہا ہے۔
[تخريج احاديث المختصر: ۲۰۵/۲]
حافظ بیہقی رحمہ اللہ اس حدیث کے راویوں کے بارے میں لکھتے ہیں:
و كلهم ثقه حافظ.
” یہ سب ثقہ حافظ ہیں“
[معرفة السنن والآثار:۲۹/۱]
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتےہیں:
و هذا حديث جليل فى هذا الباب ((لا نكاح الا بولي))، و على هذا الاعتماد فى ابطال نكاح بغير ولي.
ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، اس بارے میں یہ حدیث عظیم الشان ہے اوربغیر ولی کے نکاح کو باطل قرار دینے پر اسی پر اعتماد کیا جاتاہے۔
[الكامل لابن عدي: ۱۱۱۵/۳، و فى نسخة :۲۶۶/۳]
امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حدیث پرباب قائم کیاہے:
ذكر بطلان النكاح الذى نكح بغير ولي.
ولی کے بغیر کیے گئے نکاح کے باطل ہونے کا بیان۔
[صحيح ابن حبان: ۳۸۴/۹]
دلیل نمبر ۶:
خلیفہ راشد سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أيما امرأة نكحت بغير اذن وليها فنكاحها باطل، لا نكاح الا باذن ولي.
جو عورت بھی اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لے، اس کانکاح باطل ہے، ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں۔
[السنن الكبري للبيهقي: ۱۱۱/۷، وسندهٗ صحيح]
امام بیھقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا اسناد صحيح.
یہ سند صحیح ہے۔
دلیل نمبر ۷:
ام المومنین سیدہ زنیب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بارے میں ہے:
فكانت زينب تفخر على أزواج النبى صلى الله عليه و سلم تقول: زوجكن أهاليكن و زوجني الله تعالىٰ من فوق سبع سموت.
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج مطہرات پر فخر کرتے ہوئے کہتی تھیں کہ تم سب کا نکاح تمہارے گھروالوں نے کیا ہے، جبکہ میرا نکاح اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کے اوپر سے کیا ہے۔
[صحيح بخاري: ۱۱۰۶/۲، ح: ۶۴۲۰]
دلیل نمبر ۸:
سیدنا موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
اذا أراد الرجل أن يزوج ابنته فليستأدنها.
جب کوئی آدمی اپنی بیٹی کی شادی کرنے لگے تو اس سے اجازت طلب کرے۔
[مسند ابي يعليٰ: ۷۲۲۹، وسندہ صحيح]
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
رواه أبو يعليٰ و الطبراني و رجاله رجال الصحيح.
اس کو امام ابو یعلی اور امام طبرانی نے بیان کیا ہے اور اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں۔
[مجمع الزوائد: ۲۷۹/۴]
اس حدیث میں آدمی کو اپنی بیٹی کا نکاح کرتے وقت اس سے اجازت لینے کا حکم دیا گیا ہے، واضح ہے کہ نکاح کا اختیار والی کے پاس ہے، ورنہ اگر عورت اس معاملے میں خود مختار ہوتی تو ولی کیسے اس کا نکاح کر سکتا تھا اور کیوں اس سے اجازت طلب کرتا پھرتا، پھر تو عورت اپنے گھر والوں کو بتاتی کہ میں نے فلاں مرد سے نکاح کرنا ہے، جبکہ حدیث میں ولی کو حکم ہے کہ وہ لڑکی کو اعتماد میں لے۔
دلیل نمبر ۹:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
الثيب أحق بنفسها من وليها، والبكر نستأمر، واذنها سكوتها.
شوہر دیدہ عورت اپنے (نکاح کے) بارے میں اپنے ولی سے بڑھ کر حق رکھتی ہے اور کنواری لڑکی سے اجازت طلب کی جائے گی، اس کی خاموشی ہی اس کی اجازت ہے۔
[صحيح مسلم: ۴۵۵/۱، ح: ۱۴۳۱]
ایک روایت میں ہے:
ليس للولي مع لثبت أمر، واليتيمة تستأمر، وصمتها اقرارها.
ولی کو شوہر کے ساتھ کوئی کام نہیں، کنواری لڑکی سے مشورہ لیا جائے گا، اس کی خاموشی ہی اقرار ہے۔
امام ابن حبان اس حدیث کے مفہوم کو یوں بیان کرتےہیں:
(( الأيم أحق بنفسها)) أرادبه أحق بنفسها من وليها بأن تختار من الأزواج من شاءت، فتقول: أرضي فلانا، ولا أرضي فلانا، لا أن عقد النكاح اليهن دون الأولياء.
” شوہر دیدہ عورت اپنے نفس کی زیادہ حق دار ہے، اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ ہے کہ وہ خاوندوں میں سے جس کو چاہے پسند کرے، وہ کہے کہ میں فلاں کو پسند کرتی ہوں اور فلاں کو پسند نہیں کرتی، یہ مراد نہیں کہ عقد نکاح اولیاء کے بجائے اس کے ہاتھ میں ہے۔“
[صحيح ابن حبان، تحت حديث: ۴۰۸۷]
نيز ليس للولي مع الثيب أمر کا مطلب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
قوله صلى الله عليه و سلم (( ليس للولي مع الثيب أمر)) يبين لك صحة ما ذهبنا اليه أن الرضا و الاختيار الي النساء والعقد الي الأولياء، لنفيه صلى الله عليه و سلم عن الولي انفراد الامر دونها اذا كانت ثيبا، لأن لها الخيار فى بضعها و الرضا بما يعقد عليها. و قوله صلى الله عليه و سلم: (( اليتيمة تستأمر)) أراد به تسترضيٰ فيمن عزم له على العقد عليها، فان صمتت فهو اقرارها، ثم يتربص بالعقد الي البلوغ، لأنها و ان صمتت و أذنت ليس لها أمر و الا اذن، اذ الأمر و الاذن لا يكون الا للبالغة.
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ شوہر دیدہ کے ساتھ ولی کو کوئی کام نہیں، ہمارے اس مذہب کی صحت کو روز روشن کی طرح عیاں کرتا ہے کہ مرد کے بارے میں رضا و اختیار تو عورتوں کا حق ہے اور نکاح کرنا اولیاء کا حق ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے شوہر دیدہ ہونے کی صورت میں ولی کو عورت سے پوچھے بغیر اپنی مرضی سے نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے، کیونکہ عورت کی اپنی عصمت میں اختیار اور مرد میں رضا مندی ظاہر کرنے کا حق حاصل ہے۔نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ کنواری لڑکی سے مشورہ کیا جائے، اس سے مراد یہ ہے کہ جس مرد سے اس کا نکاح کرنے کا ارادہ ہو، اس کے بارے میں اس کی رضامندی طلب کی جائے، اگر وہ خاموش ہو جائے تو یہ اس کا اقرار ہے، پھر وہ اس لڑکی کے بالغ ہونے تک عقد کا انتظار کرے، کیونکہ اگرچہ اس نے خاموش ہو کر اجازت دے دی ہے، مگر اس نابالغ کے لیے یہ امر ہے نہ اجازت، کیونکہ مشورہ اور اجازت صرف بالغہ کے لیے ہے۔
امام ترمذی رحمہ اللہ اس حدیث کے تحت لکھتےہیں:
و قداحتج الناس فى اجازة النكاح بغير ولي بهذا الحديث، وليس فى هذا الحديث ما احتجوا به، لأنه قدروي من غير وجه عن ابن عباس عن النبى صلى الله عليه وسلم قال: لا نكاح الا بولي(سنن ابن ماجه :۱۸۸۰، وسنده حسن والحديث صحيح) وهكذا أفتي به ابن عباس بعد النبى صلى الله عليه و سلم فقال: لا نكاح الا بولي (سنن سعيد بن منصور: ۵۵۳، مصنف ابن ابي شيبة: ۱۲۸/۲/۴، وسنده ضعيف)، و انما معنٰي قول النبى صلى الله عليه و سلم (( الأيم أحق بنفسها من وليها)) عند أكثر أهل العلم أن الولي لا يزوجها الا برضاها و أمرها، جان زوجها فالنكاح مفسوخ عليٰ حديث خنساء بنت خدام (صحيح بخاري: ۷۷۱/۱، ح: ۵۱۳۸، سنن ترمذي: ۱۱۰۸)حيث زوجها أبوها و هي ثيب، فكرهت ذالك، فرد النبى صلى الله عليه و سلم نكاحه.
اس حدیث سے بعض لوگوں نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کے جواز کی دلیل لی ہے، حالانکہ اس حدیث میں ان کی دلیل موجود نہیں، کیونکہ یہ حدیث کئی سندوں کے ساتھ سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، ولی کے بغیر کوئی نکاح نہیں (سنن ابن ماجہ :۱۸۸۰، وسندہٗ حسن والحدیث صحیح) ،
اسی طرح سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اس طرح فتویٰ دیا ہے (سنن سعید بن منصور: ۵۵۳، مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۲۸/۲/۴، وسندہٗ ضعیف)،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کہ شوہردیدہ اپنے ولی سے بڑھ کر اپنے نفس کی حق دار ہوتی ہے، اکثر علمائے کرام کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ اس کا نکاح اس کی رضا مندی اور مشورے کے بغیر نہیں کر سکتا، اگر ولی نے اس کا نکاح بغیر اس کی مرضی کے کر دیا تو وہ نکاح فسخ کر دیا جائے گا، جیسا کہ خنساء بنت خدام کی حدیث (صحیح بخاری: ۷۷۱/۱، ح: ۵۱۳۸، سنن ترمذی: ۱۱۰۸) ہے کہ ان کے باپ نے ان کا نکاح کر دیا، وہ شوہردیدہ تھیں، انہوں نے اس نکاح کو پسند نہ کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ولی کا کیا ہوا نکاح رد کر دیا۔” [سنن ترمذي، تحت حديث: ۱۱۰۸]
علامہ سندھی حنفی لکھتےہیں:
(( الأيم أحق)) هو يقتضي المشاركة، فيفيد أن لها حقا فى نكاحها و لو ليها حقا، و حقها أوكد من حقه، فانها لا تجبر لأجل الولي، و هو يجبر لأجلها، فان أبي زوجها لقاضي، فلاينا فى هذا الحديث حديث: لا نكاح الا بولي.
شوہر دیدہ زیادہ حق رکھتی ہے، یہ فرمان نبوی مشارکت کا تقاضا کرتاہے، یہ اس بات کا فائدہ دیتاہے کہ نکاح میں عورت کا بھی حق ہے اور اس کے ولی کا بھی حق ہے اور اس کا حق زیادہ تاکید والا ہے، پس (شوہر دیدہ) کو ولی کی وجہ سے مجبور نہیں کیا جائے گا، جبکہ اس کے ولی کو اس شوہردیدہ کی وجہ سے مجبور کیا جائے گا، چنانچہ اگر وہ (ولی) انکار کر دے تو قاضی اس کا ولی بن کر نکاح کردے گا، پس یہ حدیث لا نکاح الّا بولی کے خلاف نہیں ہے۔
[حاشية المسندي على النسائي: ۸۴/۶]
یہی بات حافظ نووی رحمہ اللہ نے کہی ہے۔
[شرح صحيح مسلم: ۴۵۵/۱]
فائدہ:
الأيم کا لفظ اگرچہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے عام ہے، لیکن یہاں اس سے مراد شوہردیدہ ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ البکر کا عطف الأیّم پرہے، معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان مغایرت ہوتی ہے، اس کی تائید صحیح مسلم ( ۴۹۵/۱، ح: ۱۴۲۱) کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے:
الثيب أحق بنفسها من وليها.
شوہردیدہ عورت اپنے نفس کی اپنے ولی سے بڑھ کر حق دار ہے۔
حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال العلماء الأيم هنا الثيب.
علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہاں الأیّم سے مراد شوہردیدہ عورت ہے۔
[ شرح مسلم للنووي: ۴۵۵/۱]
امام سعید بن مسیّب اور امام حسن بصری ایسی عورت جس نے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرلیا ہو، اس کے بارے میں فرماتے ہیں: یفرّق بینھما۔ “ ان دونوں کے درمیان جدائی واقع کی جائے گی۔
[مصنف ابن ابي شيبة: ۱۳۱/۴، ح:۱۶۱۷۶، وسندهٗ صحيح]
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وبهذا يقول سفيان الثوري و الأوزاعي و مالك و عبدالله ابن المبارك و الشافعي و أحمد و اسحاق.
امام سفیان بن سعید ثوری، امام اوزاعی، امام مالک، امام عبداللہ بن مبارک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ کہتےہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔
[سنن ترمذي، تحت حديث: ۱۱۰۷]
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہونے کے متعلق لکھتے ہیں:
فانة دل عليه القرآن فى غير موضع و السنة فى موضع، وهو عادة الصحابة، انما كان يزوج النساء الرجال، لا يعرف أن امرائة تزوج نفسها، و هذا مما يفرق فيه بين النكاح و متخذات أخدان.
اس کی دلیل قرآن و سنت میں بارہا مقامات پر موجود ہے، یہی صحابہ کی عادت تھی، مردہی عورتوں کا نکاح کرتے تھے، یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ (اس دور میں) کسی عورت نے اپنا نکاح خود کر لیا ہو، اسی بات سے نکاح اور ناجائز آشنائی والیوں میں فرق ہوتا ہے۔
[مجموع الفتاويٰ: ۱۳۱/۳۲]
ابن قدامہ المقدسی لکھتے ہیں:
ان النكاح لا يصح الا بولي و لا تملك المرأة تزويج نفسها و لا توكيل غير و ليها فى تزويجها، فان فعلت لم يصح النكاح.
ولی کے بغیر نکاح جائز نہیں، نہ ہی عورت اپنایا کسی اور عورت کا نکاح کر سکتی ہے، نہ اپنے ولی کے علاوہ کسی اور کو اپنے نکاح کی ذمہ داری دے سکتی ہے، اگر ایساکرے گی تو نکاح درست نہ ہو گا۔
[المغني: ۱۴۹/۶]
شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی نکاح میں ولی کی اجازت شرط ہونے کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
نکاح میں ولی کی جو شرط لگائی گئی ہے، اس میں ولیوں کی شان کو بلند کرتا ہےاور عورتوں کا نکاح کے ساتھ منفرد ہونا یہ ان کی رسوائی ہے، جس کا باعث قلت حیاء، مردوں پر برجستہ ہونا اور ان کی پروانہ کرنا ہے اور یہ بات بھی ہے کہ نکاح کو بدکاری سے تشہیر کے ساتھ جدا کیا جائے اور اس تشہیر میں سب سے زیادہ حق دار چیز ولیوں کا حاضر ہوناہے۔
[حجة الله البالغة: ۱۲۷/۲]
اعتراض:
ان عائشة روج النبى صلى الله عليه و سلم روجت حفصة بنت عبدالرحمن ، المنذر بن الزبير، وعبدالرحمن غائب بالشام، فلما قدم عبدالرحمن قال: ومثلي يصنع هذا به؟ و مثلي يفتات عليه؟ فكلمت عائشة المنذربن الزبير، فقال المنذر: فان ذالك بعد عبدالرحمن، فقال عبدالرحمن:ما كنت لأرد أمراقضيتنة، فقرت حفصة عند المنذر، ولم يكن ذالك طلاقا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حفصہ بنت عبدالرحمن کا نکاح زیبر سے کردیا، جبکہ عبدالرحمن شام کے سفر پرتھے، جب وہ آئے تو کہنے لگے، کیا میرے جیسے شخص کے ساتھ یہ معاملہ کیا جاتاہے؟ کیا میرے جیسے شخص کے مشورے کے بغیر کام کیاگیاہے؟ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے منذر سے بات کی، منذر نے کہا، یہ کام عبدالرحمن کے بعد ہوا تھا، عبدالرحمن نے کہا، میں اس معاملے کو رد نہیں کر سکتا جس کو آپ نے طے کر دیا ہے، لہذا حفصہ منذر کے ہاں ہی رہیں اور یہ طلاق نہ ہوئی۔
[موطا امام مالك: ۵۵۵/۲، السنن الكبريٰ للبيهقي: ۱۱۳-۱۱۲/۷]
جواب:
یہ معاملہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے سے طے پایا تھا، اس لیے نکاح کی نسبت ان کی طرف کر دی گئی ہے، ولی کوئی اور ہو گا، کیونکہ ایک عورت دوسری عورت کی ولی نہیں بن سکتی، اس میں اشارہ تک نہیں ملتا کہ یہ نکاح ولی کےبغیر ہوا تھا، جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتےہیں:
وأجيب بأنه لم يرد فى الخبر التصريح بأنها باشرت العقد، فقد يحتمل أن تكون البنت لمذكورة ثيبا و دعت الي كف وأبوها غائب، فانتقلت الولاية الي الولي الأبعد أوالي السلطان.
اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ حدیث میں یہ وضاحت موجود نہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود نکاح کیا تھا، احتمال ہے کہ مذکورہ لڑکی شوہر دیدہ ہو اور وہ ہم سررشتے کے سپرد کر دی گئی اس حال میں کہ اس کا باپ غائب تھا، چنانچہ ولایت دوروالے ولی یا حاکم وقت کی طرف منتقل ہو گئی۔
[فتح الباري: ۱۸۶/۹]
امام بیہقی رحمہااللہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
انما أريد به انها مهدت تزويجها، ثم تولٰي عقد النكاح غيرها، فأضيف التزويج اليها، لأنها فى ذالك و تمهيدها أسبابه، والله أعلم!
اس سے مراد یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نکاح کا بندوبست کیا تھا، جبکہ نکاح کا ولی وہ نہیں بنی تھیں، مگر (اس بندوبست کی وجہ سے) نکاح کی نسبت ان کی طرف کر دی گئی، کیونکہ وہ اس نکاح کے بندوبست میں شریک تھیں اور نکاح کا بندوبست کرنا یہ اس نکاح کے اسباب میں سے ہے، ( لہذا سبب بننے والے کی طرف نسبت ہو گئی)۔
[ السنن للبيهقي: ۱۱۳/۴]
ثابت ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی روایت کے خلاف کچھ نہیں کیا، والحمد لله!
یاد رہے کہ قرآن مجید میں جہاں بھی نکاح کی نسبت عورت کی طرف کی گئی ہے، وہاں شوہر دیدہ عورت مراد ہے، نہ کہ کنواری، بعض الناس خوامخواہ قرآن و حدیث میں تعارض پیدا کرتے رہتے ہیں۔
عبدالرحمن بن أبي الزناد عن أبيه من الفقهاء الذين ينتهي الي قولهم من تابعي أهل المدينة، كانوا يقولون: لا تعقد امرأة عقدة النكاح فى نفسها و لا فى غيرها.
عبد الرحمن بن ابی زناد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ جن تابعین کے قول کو فیصلہ کن سمجھا جاتا تھا، وہ کہتے تھے کہ عورت نہ خود اپنا نکاح کرسکتی ہے، نہ کسی اور عورت کا۔
[السنن الكبري للبيهقي: ۱۱۳/۴، وسندهٗ حسن]
مشہور تابعی امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لا تنكح المرأة المرأة.
کوئی عورت دوسری عورت کا نکاح نہیں کر سکتی۔
[ مصنف ابن ابي شيبة: ۱۳۳/۲/۴، وسندهٗ صحيح]
فائدہ: امام محمد بن سیرین تابعی رحمہ اللہ فرماتےتھے:
لا تنكح المرأة نفسها، و كانوا يقولون: ان الزانية هي التى تنكح نفسها.
عورت اپنا نکاح خود نہیں کر سکتی، وہ (صحابہ و تابعین) کہا کرتے تھے کہ جو عورت خود اپنا نکاح کرتی ہے، وہ بلاشبہ زانیہ ہے۔
[مصنف ابن ابي شيبة: ۱۳۴/۲/۴، وسندهٗ صحيح]
اعتراض نمبر۲:
سیدنا علی ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
انه أجاز نكاح امرأة بغير ولي، أنكحتها أؐمها برضاها.
آپ نے ایک عورت کا بغیر ولی کے نکاح جائز قرار دیا، اس کی ماں نے اس کی رضا مندی سے نکاح کیا تھا۔
[ مصنف ابن ابي شيبة: ۱۳۲/۲/۴]
تبصرہ:
اس کی سند سخت ترین “ضعیف” ہے، کیونکہ:
➊ اس میں ابو معاویہ الضریر “ مدلس” ہیں اور عن سے روایت کررہے ہیں۔
➋ اس میں ایک مبہم و مجہول راوی موجود ہے۔
➌ یہ قرآن و حدیث اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کےاپنے قول کے بھی خلاف ہے۔