عیسائیوں کے لیے اسلام میں دلچسپی کا ایک پہلو
اسلام کے موضوع پر بحث کرتے ہوئے عیسائیوں کے لیے دلچسپی کا باعث یہ امر ہونا چاہیے کہ جو پہلا عیسائی نبی آخرالزماں ﷺ پر ایمان لایا، وہ ایک عظیم الشان بادشاہ تھا۔ سیرت کی کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں ’ہجرت حبشہ‘ کے عنوان کے تحت اس واقعے کا ذکر نہ ہو۔
اسی طرح، مشہور شخصیت حاتم طائی کے بیٹے، عدیؓ بن حاتم جو اپنی قوم کے بادشاہ تھے اور نصرانی تھے، وہ بھی نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر شرفِ صحبت حاصل کرتے ہیں۔
یثرب کا انتخاب: ایک اہم اشارہ
علاوہ ازیں، کیا یہ بات قابل غور نہیں کہ اگر معاذ اللہ نبی اکرم ﷺ کے پاس دلائل کی کوئی کمی ہوتی تو وہ یثرب کا رخ کیوں کرتے، جہاں یہود کے علماء اپنے صحیفے کھول کر بیٹھے تھے؟ پورے عرب میں انبیاء کے صحیفے رکھنے کے حوالے سے یہودی علماء کی ہی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ کیا اس واقعے سے یہ لوگ یہ اشارہ نہیں لیتے کہ دار الہجرت کے لیے یثرب کا انتخاب کیوں ہوا؟ اس کا مقصد تو پورے عرب کو یہ دکھانا تھا کہ اگرچہ عرب امّی یعنی ناخواندہ ہیں، لیکن نبی اکرم ﷺ کے دلائل اور آیات یہود کے ان علماء کے سامنے بھی ٹھوس ثابت ہوئیں، جو علمِ نبوت میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں کے بڑے یہودی علماء، جیسے کہ عبد اللہ بن سلام، نے اسلام قبول کرلیا۔
یہود کی مخالفت اور عیسائیوں کے اعتراضات
آج کے کیتھولک اور پروٹسٹنٹ مصنفین کس قدر ’ناقدانہ بے پروائی‘ سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ’اگر آپ ﷺ نبی تھے اور دلائل رکھتے تھے تو پھر یہود، جو انبیاء کی شناخت سے واقف تھے، نے آپ کو کیوں نہ پہچانا؟‘ بلکہ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’محمد ﷺ صرف ان پڑھ عربوں کو ہی قائل کرسکتے تھے۔ اگر ان کے پاس واقعی دلائل ہوتے تو کتاب کے علم رکھنے والے یہود ان کی دعوت قبول کرتے۔‘ معاذ اللہ۔
حضرت مسیح اور یہود کا رویہ
کیا ہم ان اعتراض کرنے والوں سے پوچھ سکتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا تھا؟ حالانکہ یہودی انبیاء کی تاریخ سے اچھی طرح واقف تھے۔ پھر حضرت مسیح پر کیوں ایمان نہ لائے؟ کیا وہاں بھی معاذ اللہ کسی دلیل کی کمی تھی؟ حالانکہ حضرت مسیح کو تو خصوصی طور پر یہودیوں کے لیے بھیجا گیا تھا۔ محمد ﷺ پر تو پھر بھی آپ کی اپنی قوم نے ایمان لے لیا، لیکن حضرت مسیح کی اپنی قوم، یعنی یہود، نے انہیں رد کر دیا۔
یہود کے ایمان نہ لانے سے محمد ﷺ کی نبوت کیوں متاثر ہو؟
یہودیوں کے ایمان نہ لانے سے تم عیسائیوں کے نزدیک مسیح کی (معاذ اللہ) خدائی پر حرف نہ آیا، تو یہودیوں کے ایمان نہ لانے سے مسلمانوں کے نزدیک محمد ﷺ کی نبوت کیوں متاثر ہونے لگی؟ حضرت مسیح نے فریسی یہودیوں کو جو تنبیہات کیں، کیا وہ تمہاری بائبل کے عہدِ جدید میں مذکور نہیں؟ کیا آج تک تمہارے ہاں یہ بات کہی نہیں جاتی کہ انہوں نے (معاذ اللہ) تمہارے ’خدا‘ کو صلیب پر چڑھا دیا؟ ہمارے نبی ﷺ نے تو ایسے لوگوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا، باوجود اس کے کہ یہ لوگ حضور اکرم ﷺ اور مسلمانوں کے قتل کے منصوبے بناتے رہے۔ مگر یہ بات حقیقت ہے کہ انبیاء کے علم رکھنے والے اس قوم کا رویہ حضرت مسیح اور حضرت محمد ﷺ دونوں کے ساتھ یکساں رہا۔
حضرت مسیح اور محمد ﷺ کی حجت اور یہود کی اکثریت کا رد
اصل بات یہ ہے کہ حضرت مسیح اور محمد ﷺ دونوں نے نہایت مدلل انداز میں ان پر حجت قائم کی۔ یہود میں سے چند مخلص افراد حضرت مسیح پر ایمان لائے، اسی طرح یہود میں سے چند مخلص افراد حضرت محمد ﷺ پر بھی ایمان لائے۔ یہود کی اکثریت نے دونوں کے ساتھ کفر کیا، پھر فرق کیسا؟
نبی اکرم ﷺ کا یثرب میں قیام: ایک الہامی منصوبہ
البتہ اہم بات یہ ہے کہ یہود حضرت مسیح کی اپنی قوم تھے اور حضرت مسیح کو خاص طور پر ان ہی کے لیے بھیجا گیا تھا، لہذا ان کا سامنا حضرت مسیح کے لیے ناگزیر تھا۔ تاہم، حضرت محمد ﷺ کے لیے نہ یہودی اپنی قوم تھے اور نہ ہی ان سے سامنا کرنا ضروری تھا۔ پھر بھی نبی اکرم ﷺ کا یہود کے گڑھ میں جا کر قیام کرنا، حتیٰ کہ بعض مواقع پر یہودی اجتماعات میں جا کر ان سے گفتگو کرنا، کیا اس بات کی دلیل نہیں کہ یہ خدا کا ایک خاص منصوبہ تھا؟ تاکہ انبیاء کے علم رکھنے والی اس قوم کے ساتھ اس نبی ﷺ کی حقانیت کو پوری عرب قوم کے سامنے ثابت کر دیا جائے۔ نیز، نبی اکرم ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ چونکہ مستند تاریخ کا حصہ بنتا جا رہا تھا، لہذا ان کا یہ جدال اور بنی اسرائیل کو مخاطب کرنے والی قرآن کی سورتیں، پوری انسانی تاریخ کے سامنے اس حق کو آشکار کر دیں۔