مستشرقین اور دیگر معاندین نے نبیﷺ کے حسی معجزات کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا ہے کہ ان کا ذکر صرف مسلمانوں کی اپنی روایات میں ملتا ہے اور کسی دوسرے غیر مسلم یا غیر عربی ماخذ میں ان کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس اعتراض کے جواب میں یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ بائبل پر ایمان رکھنے والے خود بتا دیں کہ کس نبی کے معجزات کا ذکر صدیوں بعد اُس کے پیروکاروں کے علاوہ کسی اور ذریعے سے ملتا ہے؟
دیگر انبیاء کے معجزات اور ان کی روایات
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات
حضرت موسیٰؑ نے مصر میں اللہ کے حکم سے جو معجزات دکھائے، وہ بنی اسرائیل کی روایتوں میں ڈیڑھ ہزار سال تک منتقل ہوتے رہے، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کا وقت آیا۔ یہ معجزات بنی اسرائیل کی اپنی مستند روایتوں میں بیان ہوئے اور انہیں جھٹلانے کی کوئی وجہ نہ تھی۔ تاہم، آلِ فرعون یا کسی دوسرے مصری ذریعہ میں ان معجزات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات
حضرت عیسیٰؑ کے معجزات بھی ان کے پیروکاروں کی روایات میں محفوظ رہے اور ان کی خدائی کے ثبوت کے طور پر آج تک بیان کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان معجزات کا ذکر یہود یا کسی دوسری قوم کے ریکارڈز میں نہیں ملتا۔
نبی کریمﷺ کے معجزات کی انفرادیت
نبیﷺ کی زندگی اور ان کے معجزات کے ذکر کا معاملہ کچھ مختلف رہا۔ جزیرۂ عرب کے تمام لوگوں نے نبیﷺ کی صداقت کی گواہی دی اور پورے عرب نے ایمان قبول کر لیا۔ اس تناظر میں سوال یہ ہے کہ ان معجزات کے گواہ اگر اہلِ عرب نہ ہوں تو پھر کون ہوگا؟ بالکل اسی طرح جیسے حضرت عیسیٰؑ کے معجزات کا ذکر فلسطین میں ہوا، ان کی گواہی امریکہ سے ملنا ضروری نہیں۔
معجزات کے ثبوت کے لیے قوم کی گواہی
اگر حسی معجزات کے ثبوت کے لیے ایک پوری قوم کی گواہی بھی کافی نہیں، تو پھر کون سا تاریخی واقعہ قابلِ قبول رہ جائے گا؟ معجزات کو سرے سے رد کر دینے کے بجائے یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت انبیاء کے ذریعے تاریخ میں ظاہر ہوتی رہی ہے۔
علم الاسناد و روایت: امتِ محمدیہ کا خاصہ
نبی کریمﷺ کی احادیث اور روایات کو محفوظ کرنے کے لیے امتِ محمدیہ کو ایک خاص علم عطا کیا گیا جسے علم الاسناد و روایت کہتے ہیں۔ یہ علم محض نبیﷺ کی معجزاتی تعلیمات ہی کا حصہ ہے اور اسے دنیا بھر میں مسلم عبقریت کا ایک اہم ثبوت مانا جاتا ہے۔
علم الاسناد میں راویوں کے نام، ان کے القاب، عہد، عقائد، دینی حالت اور دیگر تفصیلات محفوظ کی گئیں ہیں۔ ان کی زندگی کے اہم حالات درج کیے گئے ہیں اور کسی بھی راوی کی کمی یا خامی کو بنا کسی رو رعایت کے درج کیا گیا ہے۔ یہ ایک عظیم کمال ہے جسے دنیا کے دوسرے تاریخی عجائب کے مقابلے میں بھی ایک عظیم کارنامہ مانا جا سکتا ہے۔
علم رجال: مسلم محدثین کا حیرت انگیز کارنامہ
مسلم محدثین نے علم رجال اور علم تخریج کی صورت میں ایک ایسی دستاویز ترتیب دی ہے جس کی نظیر کسی اور قوم میں نہیں ملتی۔ اس علم کے ذریعے احادیث کی صداقت کو جانچا گیا، حتیٰ کہ ضعیف روایات میں بھی راویوں کی سند موجود ہوتی ہے، جس سے روایت کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔
امتِ محمدیہ کے دو عظیم کارنامے
- حفاظتِ قرآن: قرآن کریم کو زبانی و تحریری صورت میں محفوظ کیا گیا۔
- فنِ رجال: احادیث کے راویوں کی جانچ اور پرکھ کا نظام وضع کیا گیا۔
یہ دونوں کارنامے ختمِ نبوت کی عظیم نشانی ہیں اور اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ امتِ محمدیہ کو ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
بخدا! جو کوئی بھی امتِ محمدیہ کی روایات کو دیکھے گا، وہ اس حقیقت کی گواہی دے گا کہ اہل کتاب کی روایات ہماری روایات کے مقابلے میں اس درجے کو نہیں پہنچتیں۔