کیا اہلحدیث نام واقعی انگریزوں نے دیا؟ حقیقت جانیے
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال

مولانا محمد حسین بٹالوی نے انگریز سے اہلحدیث نام الاٹ کروایا۔ اس دعوے میں کتنی صداقت ہے؟ کیا برِصغیر میں اہلحدیث نام انگریز کے دور سے قبل جماعتِ اہلحدیث کے لیے خاص نہیں تھا؟

جواب

یہ دعویٰ بالکل بے بنیاد اور غلط ہے اور زیادہ تر مسلکی تعصب میں مبتلا افراد کی طرف سے گھڑا گیا ہے۔ شیخ زبیر علی زئی نے اس حوالے سے اہلحدیث کی ابتداء پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

جس طرح عربی زبان میں "اہل السنۃ” کا مطلب ہے سنت والے، اسی طرح "اہل الحدیث” کا مطلب ہے حدیث والے۔
اہل سنت اور اہل حدیث ایک ہی گروہ کے دو صفاتی نام ہیں۔
اہل حدیث میں صحیح العقیدہ علماء اور عوام دونوں شامل ہیں جو تقلید نہیں کرتے اور قرآن و حدیث کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

تاریخی اور علمی پس منظر

اہل حدیث کا تاریخی پس منظر بہت قدیم ہے اور یہ نام صرف انگریزی دور میں سامنے نہیں آیا۔ صحیح العقیدہ محدثین کرام اور عوام جو حدیث پر عمل کرتے ہیں، انہیں اہل حدیث کہا جاتا ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

اہل حدیث کا قدیم ہونا:

اہل حدیث کا وجود صحابہ، تابعین، اور تبع تابعین کے دور سے چلا آ رہا ہے۔ امام احمد بن حنبل، امام بخاری، امام مسلم اور دیگر محدثین اہل حدیث کو طائفہ منصورہ قرار دیتے ہیں۔

اہل حدیث کی تعریف:

حافظ ابن تیمیہ نے اہل حدیث کی تعریف میں فرمایا کہ اہل حدیث سے مراد وہ ہیں جو حدیث کی معرفت رکھتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں، نہ کہ صرف حدیث کے سامعین یا راوی۔

اہل حدیث کی فضیلت:

امام بخاری و امام مسلم اور دیگر علماء نے اہل حدیث کو سنت پر عمل پیرا ہونے والا گروہ قرار دیا ہے۔ امام احمد بن سنان الواسطی نے کہا:
"دنیا میں کوئی بدعتی نہیں جو اہل حدیث سے بغض نہ رکھتا ہو۔”

برصغیر میں اہل حدیث کا وجود

برصغیر میں اہل حدیث کا وجود انگریزوں کے دور سے بہت پہلے سے ہے۔ مثال کے طور پر:

◄ شیخ محمد حیات السندھی: شیخ محمد حیات بن ابراہیم السندھی المدنی رحمہ اللہ اور ان کے شاگرد تقلید کے قائل نہیں تھے اور وہ عمل بالحدیث پر کاربند تھے۔

◄ مولانا محمد فاخر الٰہ آبادی: ان کا شمار بھی ان علماء میں ہوتا ہے جو تقلید سے آزاد تھے اور ان کا دور انگریزوں کے برصغیر پر قبضے سے پہلے کا ہے۔

◄ امام محمد بن عبدالہادی السندھی: انہیں غیر مقلد قرار دیا گیا ہے اور ان کا زمانہ بھی انگریزی دور سے پہلے کا ہے۔

تاریخی کتب کے حوالہ جات

ابو عبد اللہ محمد بن احمد المقدسی نے "احسن التقاسیم” میں ملتان کے بارے میں لکھا:
"ان کے مذاہب: ان میں اکثریت اہل حدیث ہے۔”

رشید احمد لدھیانوی نے اپنی کتاب "احسن الفتاویٰ” میں تسلیم کیا کہ:
"اہل حدیث کا وجود دوسری تیسری صدی ہجری سے ہے اور یہ اہل حق میں شامل ہیں۔”

محمد ادریس کاندھلوی اور حاجی امداد اللہ مکی جیسے دیوبندی علماء نے تسلیم کیا کہ:
"اہل حدیث تو تمام صحابہ تھے۔”

اہل حدیث کا نام اور انگریزی دور کا تعلق

اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ اہل حدیث کا وجود انگریزوں کے دور سے بہت پہلے تھا اور یہ دعویٰ کہ مولانا محمد حسین بٹالوی نے انگریز سے اہل حدیث کا نام الاٹ کروایا، تاریخی اور علمی اعتبار سے بے بنیاد ہے۔ بلکہ انگریزی دور کے بعد دیوبندی اور بریلوی مکاتب فکر کی ابتدا ہوئی۔ اہل حدیث نام تو صدیوں سے موجود ہے اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے والے لوگوں کی جماعت کا عنوان ہے۔

چیلنج

میرے دیوبندی اور بریلوی احباب سے سوال ہے کہ انیسویں صدی (یعنی انگریزی دور) سے پہلے کیا دیوبندی یا بریلوی مسلک کا کوئی شخص موجود تھا؟ اگر تھا تو اس کا ایک مستند حوالہ پیش کریں۔ اگر نہیں، تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی مسلک انگریزی دور کے بعد کی پیداوار ہیں۔

نتیجہ

اہل حدیث کی تاریخ اور ان کا وجود انگریزوں کے آنے سے پہلے کا ہے اور یہ دعویٰ کہ اہل حدیث نام انگریزوں نے دیا، سراسر جھوٹ اور افتراء ہے۔ مسلمان علماء کو چاہیے کہ وہ سچائی کی تحقیق کریں اور حقائق کو سامنے رکھ کر بات کریں، تاکہ غلط فہمیاں دور ہوں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے