مروجہ اسلامی بینکاری: کیا واقعی شرعی اصولوں کے مطابق؟
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ جلد 1

سوال

میرا سوال یہ ہے کہ کیا موجودہ اسلامی بینکاری حلال اور درست ہے اور اس کی اساس (BASE) کیا ہے؟ جواب دے کر مشکور ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا

جواب

مروجہ اسلامی بینکاری کے جواز اور عدم جواز کے حوالے سے اہل علم میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ علماء اس کے جواز کے قائل ہیں جبکہ کچھ اس کے عدم جواز کے قائل ہیں۔ جواز کا فتویٰ دینے والوں میں مولانا تقی عثمانی صاحب کا نام اہم ہے، جبکہ عدم جواز کا فتویٰ دینے والوں میں مولانا سلیم اللہ خان صاحب نمایاں ہیں۔ دونوں فریقین کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات راجح معلوم ہوتی ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری اسلام کے اصولِ تجارت کے منافی ہے اور اسے اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔ جمہور اہل علم کا بھی یہی موقف ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل ہے:

اسلامی بینکاری کا غیر اسلامی ہونا

اسلام کی طرف منسوب "بینکاری نظام” کو خالص غیر اسلامی سمجھا جاتا ہے، بلکہ بعض پہلوؤں سے یہ نظام روایتی بینکاری سے زیادہ خطرناک اور ناجائز ہے۔ اسے غیر اسلامی کہنے کی دو اہم وجوہات ہیں:

پہلی وجہ: عملی عدم مطابقت

مروجہ اسلامی بینکاری کے مجوّزین نے جو فقہی اصول اور شرائط فراہم کی تھیں، ان پر عمل نہیں کیا جا رہا۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں:

پہلی شہادت: مروجہ اسلامی بینکوں کے مجوزین علماء کرام نے خود تسلیم کیا ہے کہ اسلامی بینکاری کی حقیقی بنیادیں "شرکت” اور "مضاربت” ہیں، جبکہ "مرابحہ” اور "اجارہ” کو محض عبوری اور مشروط طور پر جائز قرار دیا گیا تھا۔ مگر عملی طور پر بینکار حضرات "شرکت و مضاربت” کے بجائے "اجارہ و مرابحہ” پر ہی انحصار کر رہے ہیں۔

دوسری شہادت: اسلامی بینکاری کے اہم حامی مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب بھی موجودہ نظام سے مایوس ہیں اور اس کا اظہار مختلف بیانات میں کر چکے ہیں، یہاں تک کہ انہوں نے فرمایا: "مروجہ اسلامی بینکاری کا پہیہ اب الٹا چلنے لگا ہے۔”

تیسری شہادت: عام عوام اور ماہرین اقتصادیات جو روایتی اور اسلامی دونوں بینکوں سے وابستہ رہے ہیں، وہ بھی دونوں کے درمیان کوئی واضح فرق محسوس نہیں کرتے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ عملی طور پر مروجہ اسلامی بینکاری روایتی بینکاری کے طریقوں پر چل رہی ہے۔

دوسری وجہ: فقہی بنیادوں کی کمزوریاں

مروجہ اسلامی بینکاری کو غیر اسلامی قرار دینے کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کی فقہی بنیادیں بھی کئی پہلوؤں سے کمزور ہیں۔ مثالیں درج ذیل ہیں:

فقہی اصطلاحات میں تبدیلی: مجوزین حضرات نے اسلامی شکل دینے کے لیے کئی فقہی اصطلاحات میں تبدیلی کی ہے اور ضعیف اقوال پر انحصار کیا ہے، جو کہ شریعت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔

مرابحہ و اجارہ کا غلط استعمال: بینکوں میں "مرابحہ” اور "اجارہ” جیسے معاہدے اسلامی تمویلی طریقے نہیں ہیں، بلکہ ان کو حیلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

منافع کی تقسیم: مضاربت میں منافع کی تقسیم کا طریقہ بھی اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ فرضی اور تخمینی بنیادوں پر کی جاتی ہے۔

شرکت متناقصہ:شرعی اعتبار سے یہ ناجائز ہے کیونکہ اس میں متعدد شرعی خرابیاں پائی جاتی ہیں، مگر اس کے باوجود اسے مروجہ اسلامی بینکاری میں شامل کیا گیا ہے۔

علماء کا متفقہ فتویٰ

مروجہ اسلامی بینکاری کے حوالے سے جمہور علماء کا متفقہ فتویٰ یہ ہے کہ:

"مروجہ اسلامی بینکاری قطعی غیر شرعی اور غیر اسلامی ہے، لہٰذا ان بینکوں کے ساتھ اسلامی یا شرعی سمجھ کر جو معاملات کیے جاتے ہیں وہ ناجائز اور حرام ہیں، اور ان کا حکم دیگر سودی بینکوں کی طرح ہے۔”

نتیجہ

اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ مروجہ اسلامی بینکاری دراصل غیر اسلامی بینکاری ہے، اور لوگ اسے اسلامی سمجھ کر معاملات کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے علماء امت مروجہ اسلامی بینکاری کو مسلمانوں کے لیے روایتی بینکاری سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناجائز عمل کو ناجائز سمجھتے ہوئے کرنا کم درجے کا گناہ ہے، جبکہ اسے جائز سمجھتے ہوئے کرنا بڑے درجے کا گناہ ہے۔

مسلمانوں کے لیے نصیحت

مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ دیگر حرام اور خلاف شرع امور کی طرح مروجہ اسلامی بینکاری سے بھی بچنے کا اہتمام کریں اور اپنے سابقہ معاملات پر توبہ و استغفار کریں۔ بے شک اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے