تحویل قبلہ سے متعلق حدیث پر منکرین حدیث کے اعتراضات کا جائزہ
اصل مضمون ابو یحییٰ امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

قارئین کرام! صحابہ کرام، تابعین اور آج تک کے مسلمانوں کا متفقہ نظریہ رہا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو تقریباً سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا فرماتے رہے۔ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی آپ کی اقتداء میں اسی طرح نماز پڑھتے رہے۔ تاہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیرینہ خواہش تھی کہ ان کا قبلہ مسجد حرام ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کے مطابق قبلہ تبدیل فرما دیا۔

سورۃ البقرہ کی آیت (144) میں اسی واقعہ کا ذکر ہے۔ صحابہ، تابعین اور امت کے ائمہ کرام نے اس آیت کی تفسیر میں بھی یہی متفقہ موقف اختیار کیا ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر تفصیل میں جانا یہاں طوالت کا باعث ہوگا اور یہ ہمارے موضوع سے بھی باہر ہے، اس کی تفصیل ہم شبیر احمد میرٹھی صاحب کی نام نہاد تفسیر "مفتاح القرآن” کے جواب میں پیش کریں گے، ان شاء اللہ!

مختصراً، آج تک کسی مسلمان مفسر، محدث یا عالم نے اس بات کا انکار نہیں کیا۔ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ اس بارے میں فرماتے ہیں:

"علمائے امت کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ قرآن میں سب سے پہلے منسوخ ہونے والا معاملہ قبلہ کا ہے، نیز ان کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ تحویل قبلہ والا معاملہ مدینہ میں ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس سے ہٹ کر کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم مدینہ میں دیے گئے۔” (التمھید لابن عبدالبر: 17/49)

مزید انہوں نے لکھا:

"اس بات میں علمائے امت کا اختلاف نہیں (بلکہ اجماع) ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے (کم از کم) سولہ ماہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نمازیں ادا کیں۔” (التمھید لما فی الموطا من المعانی والاسانید: 23/134-135)

لیکن، منکرینِ حدیث نے اپنی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے امت مسلمہ کے اس متفقہ نظریے کو ٹھکرا دیا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے پیچھے نماز پڑھنے والے مہاجرین نے کبھی بیت المقدس کی طرف رخ کر کے کوئی فرض نماز ادا نہیں کی، اور ہمیشہ آپ کا قبلہ خانہ کعبہ ہی رہا ہے۔” ("صحیح بخاری کا مطالعہ”: 1/45)

تحویل قبلہ سے متعلق سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث پر منکرین حدیث کے اعتراضات کا جائزہ

اعتراض نمبر 1

"حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث صرف ابواسحاق ہمدانی کوفی نے روایت کی ہے۔ یہ جلیل القدر اور ثقہ محدث تھے، جنہوں نے صحابہ کرام میں سے حضرت براء بن عازب، جابر بن سمرہ، اور حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہم سے احادیث سنی تھیں۔ ان سے کثیر تعداد میں محدثین نے علمی استفادہ کیا اور احادیث روایت کی ہیں، مگر بڑھاپے میں ان کی عقل و حفظ کی قوت میں فتور آگیا تھا اور وہ کبھی کبھار کچھ اور بیان کر دیتے تھے۔ زہیر بن معاویہ، شعبہ، زکریا بن ابی زائدہ، سفیان بن عیینہ، اور اسماعیل بن ابی خالد نے ان سے ان کے آخری زمانہ میں احادیث سنی تھیں۔ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ ان کے پوتے اسرائیل بن یونس نے ان سے ہوش مندی کے زمانے میں بھی کچھ احادیث سنی تھیں اور اختلاط کے بعد بھی۔ اس لیے زہیر بن معاویہ، شعبہ، زکریا، اور ابن عیینہ اگرچہ ثبت و ثقہ محدثین تھے، لیکن ان کی ابو اسحاق سے سنی ہوئی احادیث میں بے شمار غلط سلط باتیں پائی جاتی ہیں، اسی طرح اسرائیل کی احادیث کا بھی یہی حال ہے۔ البتہ سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ابو اسحاق سے اس زمانہ میں احادیث سنی تھیں جب وہ صحیح الحواس تھے۔” (“صحیح بخاری کا مطالعہ”: 1/24-25)

جواب

اس ایک عبارت میں میرٹھی صاحب نے کئی غلط باتیں بیان کی ہیں۔ تفصیل یہ ہے:

امام شعبہ رحمہ اللہ کے بارے میں غلط بیانی:

اولاً: میرٹھی صاحب کے بیان کے برعکس، محدثین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امام شعبہ رحمہ اللہ نے ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ سے ان کی عقل میں فتور آنے سے پہلے احادیث سنی تھیں۔ یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ شعبہ نے اختلاط کے بعد ابو اسحاق سے احادیث نہیں لیں۔ امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"زکریا بن ابی زائدہ، زہیر بن معاویہ اور اسرائیل کی احادیث ابو اسحاق سے تقریباً برابر ہیں۔ ابو اسحاق کے (سب سے پختہ) شاگرد تو سفیان اور شعبہ ہیں۔” (تاریخ ابن معین بروایۃ الدوری: 3/372)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"میں نے صحیح بخاری میں ان (ابو اسحاق رحمہ اللہ) کی کوئی روایت نہیں دیکھی، سوائے ان روایات کے جو ان کے (اختلاط سے پہلے) شاگرد بیان کرتے ہیں، جیسے امام سفیان ثوری اور شعبہ۔” (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری: 431)

محدث البانی رحمہ اللہ کا قول ہے:

"وہ (ابو اسحاق) اختلاط کا شکار ہوگئے تھے، سوائے سفیان ثوری اور شعبہ کی روایت کے، کہ انہوں نے اختلاط سے پہلے بیان کیا تھا، لہٰذا ان دونوں کی ان سے حدیث حجت ہے۔” (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: 4/83)

امام ترمذی رحمہ اللہ کی وضاحت:

"امام شعبہ اور امام سفیان ثوری نے یہ حدیث امام ابو اسحاق سے ایک ہی مجلس میں سنی ہے۔” (تحت حدیث: 1126)

"میں نے سفیان ثوری کو سنا کہ وہ امام ابو اسحاق سے یہ پوچھ رہے تھے کہ، کیا آپ نے ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے؟” (جامع ترمذی، تحت حدیث: 1125)

اس سے واضح ہوتا ہے کہ میرٹھی صاحب کا یہ دعویٰ کہ "سفیان بن سعید ثوری رحمہ اللہ نے ابو اسحاق سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی تھیں” اور امام شعبہ نے ان کے بعد سنیں، سراسر غلط ہے۔

سفیان بن عیینہ کے بارے میں غلط دعویٰ:

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا ابو اسحاق سے اختلاط کے بعد سننا ثابت نہیں ہے، چہ جائیکہ اس پر اہل علم کا اتفاق ہو۔ حافظ ابن الصلاح نے لکھا:

"کہا جاتا ہے کہ سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا سماع ان (ابو اسحاق) سے اختلاط کے بعد ہے۔” (مقدمۃ ابن الصلاح: 248)

حافظ زین الدین عبد الرحیم بن حسین العراقی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:

"مصنف (حافظ ابن الصلاح) نے سفیان بن عیینہ کا (ابو اسحاق کے) اختلاط کے بعد سننا شک والے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور یہ درست ہے، کیونکہ بعض اہل علم نے یہ بات سفیان بن عیینہ کی کلام سے اخذ کی ہے جو کہ اس بارے میں صریح نہیں ہے۔” (التقیید والایضاح شرح مقدمۃ ابن الصلاح: 1/145)

اسرائیل بن یونس کے بارے میں وضاحت:

امام عبدالرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"مجھ سے ابو اسحاق کی جو حدیث سفیان ثوری کے توسط سے رہ گئی ہے، وہ اسی وقت رہی جب میں نے اس کے بارے میں اسرائیل پر اعتماد کیا ہے، کیونکہ وہ اسے مکمل بیان کرتے ہیں۔” (جامع ترمذی، تحت حدیث: 1126)

اگر اسرائیل نے ابو اسحاق سے اختلاط کے بعد احادیث سنی ہوتیں، تو عبدالرحمن مہدی جیسا ماہر رجال کبھی اسرائیل پر اعتماد نہ کرتا۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے سفیان ثوری اور شعبہ کے مقابلے میں ابو اسحاق کی روایت میں اسرائیل کی زیادت کو "ثقہ کی زیادت” قرار دے کر قبول کیا ہے۔

(السنن الکبری للبیہقی: 7/108، سند صحیح)

یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امام بخاری کے نزدیک اسرائیل نے ابو اسحاق سے اختلاط سے پہلے احادیث سنی تھیں۔

حجاج بن محمد کا قول:

"ہم نے امام شعبہ رحمہ اللہ سے ابو اسحاق رحمہ اللہ کی حدیث بیان کرنے کو کہا تو انہوں نے فرمایا: ‘ان احادیث کے لیے اسرائیل سے پوچھو، وہ اس میں مجھ سے زیادہ ثقہ ہیں۔'” (الکامل لابن عدی: 1/413، سند صحیح)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسرائیل بن یونس کو ابو اسحاق کی احادیث میں امام شعبہ سے زیادہ "اثبت” قرار دیا ہے:

"ہاں! شعبہ ان (اسرائیل بن یونس) سے اثبت ہیں، سوائے ابو اسحاق کی احادیث کے، ان میں اسرائیل شعبہ سے زیادہ اثبت ہیں۔” (میزان الاعتدال: 1/209)

امام ابو حاتم رحمہ اللہ نے فرمایا:

"اسرائیل ابو اسحاق کے سب سے پختہ تلامذہ میں سے ہیں۔” (الجرح والتعدیل: 2/331)

"زہیر ہمیں ہر چیز میں اسرائیل سے زیادہ اچھے ہیں، سوائے ابو اسحاق کی حدیث کے۔ زہیر متقن اور صاحب سنت ہیں، لیکن ان کا سماع ابو اسحاق سے (اختلاط کے) بعد ہوا ہے۔”

(الجرح والتعدیل: 3/588)

امام ابو زرعہ رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ زہیر نے ابو اسحاق سے اختلاط کے بعد سنا ہے، جبکہ اسرائیل کے بارے میں فرمایا:

"ابو اسحاق کے تلامذہ میں سے سب سے زیادہ پختہ سفیان ثوری، شعبہ اور اسرائیل ہیں۔” (الجرح والتعدیل: 1/66)

امام ترمذی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اسرائیل ابو اسحاق سے بیان کرنے میں ثقہ اور ثبت ہیں۔” (جامع ترمذی، تحت حدیث: 1126)

 اسرائیل بن یونس کی یادداشت کے بارے میں عیسیٰ بن یونس کا قول

عیسیٰ بن یونس فرماتے ہیں:

"اسرائیل کو امام ابو اسحاق کی حدیث اس طرح یاد ہے، جس طرح آدمی کو قرآنِ مجید کی سورت یاد ہوتی ہے۔” (السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/108، سند صحیح)

اسی طرح شبابہ بن سوار نے جب عیسیٰ بن یونس سے ان کے والد (ابو اسحاق) کی حدیث لکھوانے کا مطالبہ کیا تو انہوں نے جواب دیا:

"یہ حدیث اسرائیل سے لکھ لو، کیونکہ میرے والد (ابو اسحاق) نے اسے اسرائیل کو لکھوائی تھی۔” (الجرح والتعدیل: 2/330)

 امام ابن عدی رحمہ اللہ کا بیان

امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اسرائیل بن یونس بن ابو اسحاق کثیر الحدیث ہیں، ابو اسحاق اور دیگر شیوخ سے بیان کرنے میں مستقیم الحدیث ہیں۔ ان سے ائمہ کرام نے احادیث بیان کی ہیں اور کسی نے ان سے روایت کرنے سے احتراز نہیں کیا۔” (الکامل لابن عدی: 1/425)

حدیث لا نکاح إلا بوليّ کے بارے میں مزید فرماتے ہیں:

"کچھ ائمہ کرام نے اس مسئلے میں صرف اسرائیل کی اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، کیونکہ اسرائیل کو ابو اسحاق کی حدیث خوب یاد تھی۔” (الکامل لابن عدی: 1/425)

 امام دارقطنی رحمہ اللہ کا تبصرہ

امام دارقطنی رحمہ اللہ اسرائیل کی ابو اسحاق سے بیان کی گئی حدیث کو صحیح قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں:

"اسرائیل، ابو اسحاق سے بیان کرنے والے حفاظ (یاد رکھنے والے لوگوں) میں سے تھے۔” (العلل للدارقطنی: 7/211)

نیز، ایک اور حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:

"یہ محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل کا قول محفوظ ہے، کیونکہ وہ ابو اسحاق سے احادیث کو (خوب) یاد رکھنے والے لوگوں میں سے تھے۔” (العلل للدارقطنی: 13/258)

 امام حاکم رحمہ اللہ کا بیان

امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اسرائیل بن یونس بن ابو اسحاق اپنے دادا ابو اسحاق سے حدیث بیان کرنے میں ثقہ اور حجت ہیں۔” (المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 2/184)

 اختلاط کا وقت اور اسرائیل کی عمر

عبیداللہ بن عمرو الرقی کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ محمد بن سوقہ کو لے کر ابو اسحاق کے پاس گئے اور اسرائیل سے کہا کہ ان کے شیخ سے ملاقات کی اجازت طلب کریں۔ اس پر اسرائیل نے کہا:

"شیخ (ابو اسحاق) نے کل رات ہمارے ساتھ نماز پڑھی، پھر وہ اختلاط کا شکار ہو گئے۔” (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی: 1/469، سند صحیح)

یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسرائیل نے ابو اسحاق سے ان کے اختلاط سے پہلے احادیث سنی ہیں، کیونکہ اسرائیل کی عمر اس وقت اتنی تھی کہ وہ اپنے دادا سے ملاقات کی اجازت لیتے تھے اور اختلاط اور غیر اختلاط کی تمیز بھی رکھتے تھے۔

عبیداللہ بن عمرو الرقی جو ابو اسحاق سے احادیث سننے آئے تھے، اسرائیل سے ایک سال چھوٹے تھے۔ اسرائیل 100 ہجری میں پیدا ہوئے، اور عبیداللہ بن عمرو 101 ہجری میں۔ اگر اس وقت عبیداللہ بن عمرو حدیث سننے کے قابل تھے تو اسرائیل کیوں نہیں تھے، جو ابو اسحاق کے پوتے بھی تھے؟

 اسرائیل کی روایت کے درست ہونے کے دلائل

امام شعبہ رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ ابو اسحاق سے بیان کرنے میں اسرائیل ان سے زیادہ ثقہ ہیں، اور امام ابو حاتم کا اسرائیل کو ابو اسحاق سے بیان کرنے میں "اثبت” قرار دینا بالکل درست اور مستند ہے۔ اس کے علاوہ:

امام علی بن مدینی اور محمد بن یحییٰ جیسے ائمہ نے اسرائیل کی ابو اسحاق سے بیان کردہ احادیث کو "صحیح” قرار دیا ہے۔ (المستدرک للحاکم: 2/184)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اسرائیل نے اپنے دادا (ابو اسحاق) سے بہت زیادہ احادیث بیان کی ہیں، اور وہ ان سے بیان کرنے میں ثبت (ثقہ) ہیں۔” (تاریخ الاسلام للذہبی)

اور مزید فرماتے ہیں:

"انہوں نے اپنے دادا سے سنا ہے، ان کی احادیث کو بہت عمدہ (بیان) کیا ہے اور پختہ کیا ہے۔” (تذکرۃ الحفاظ: 1/214)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا کہنا ہے:

"اسرائیل کا اپنے دادا (ابو اسحاق) سے سماع حددرجہ صحیح ہے، کیونکہ دادا ہونے کی وجہ سے انہوں نے ان کو لازم پکڑ رکھا تھا اور ان کے بہت خاص شاگرد تھے۔” (فتح الباری: 1/351)

امام بخاری کی احتیاط اور احادیث کی قبولیت

امام بخاری رحمہ اللہ کی روایات کو دیکھتے ہوئے، محدثین اختلاط کے شکار راویوں کی روایات کے بارے میں بھی زبردست احتیاط سے کام لیتے تھے۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اور صحیحین یا ان میں سے کسی ایک میں اختلاط کا شکار ہونے والے راویوں کی ایسی روایات، جن کو ان کے وہ شاگرد بیان کر رہے ہیں، جنہوں نے اپنے شیوخ سے صرف اختلاط کے بعد ہی سنا ہے، ہم ان سب کے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ مصنف کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ یہ حدیث اس کی پرانی (اختلاط کا شکار ہونے سے پہلے کی) حدیثوں میں سے ہے۔” (فتح المغیث: 3/366)

یعنی اگر صحیح بخاری یا صحیح مسلم میں کوئی حدیث اختلاط کے بعد سننے والا شاگرد بیان کر رہا ہے تو مصنفین کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث اختلاط سے پہلے کی بھی موجود ہے۔

اسرائیل بن یونس کی روایات کا مقام

اس سے ثابت ہوا کہ اسرائیل کی ابو اسحاق سے سنی ہوئی حدیثیں "صحیح” ہیں۔ حتیٰ کہ جن راویوں نے ابو اسحاق سے اختلاط کے بعد سنا ہے، جیسے زہیر بن معاویہ اور ابوالاحوص، ان کی احادیث بھی ان کی موافقت کی وجہ سے "صحیح” ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

"زہیر کا سماع ان (ابو اسحاق السبیعی رحمہ اللہ) سے امام احمد کے بقول ان کے حافظے کی خرابی کے ظاہر ہونے کے بعد ہے، لیکن مصنف (امام بخاری رحمہ اللہ) کے ہاں (صحیح بخاری میں) ہی اس کی متابعت ان کے پوتے اسرائیل بن یونس وغیرہ نے کر دی ہے، (لہٰذا اختلاط والا شبہ رفع ہو گیا ہے)۔” (فتح الباری: 1/96)

اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بھی بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، یہاں تک کہ تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا:

"بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، پھر یہ آیت نازل ہوئی: (البقرہ: 144)، پھر بنو سلمہ میں سے ایک شخص آیا، وہ صحابہ کرام کو صبح کی نماز کے رکوع میں دیکھ کر پکارا کہ ‘قبلہ بدل دیا گیا ہے’، تو وہ نماز کی حالت میں ہی قبلہ کی طرف مڑ گئے۔” (صحیح مسلم: 527)

اعتراض نمبر 2 

"حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے متعلق جو تحقیقی مباحث ناظرین کے سامنے رکھے گئے ہیں، ان کے ساتھ یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہیے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے وقت براء بن عازب نابالغ اور تقریباً نو سالہ بچے تھے۔ اکابر صحابہ میں سے کسی سے بھی یہ حدیث مروی نہیں ہے۔” (“مطالعہ”: 1/46)

جواب:

میرٹھی صاحب کی جانب سے پیش کی گئی "تحقیقی” باتیں دراصل کئی جھوٹے دعووں پر مبنی ہیں۔ انہوں نے "اہل علم کے اتفاق” کا حوالہ دے کر اپنی بات ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اگر ایسی تحقیق کو تحقیق کہا جائے تو ادباً کہنا پڑے گا کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے بھی ایسی تحقیق میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔ باقی باتوں کی تحقیق ایک ایک کرکے قارئین کے سامنے پیش کی جائے گی، ان شاء اللہ العزیز!

اصولِ حدیث کا بنیادی علم:

میرٹھی صاحب اصولِ حدیث سے اس قدر نابلد ہیں کہ انہیں "جاہل مطلق” کہنا بے جا نہیں ہوگا۔ کیا کسی راوی کا نو سال کی عمر میں حدیث سننا اور جوان ہونے کے بعد اسے بیان کرنا اس حدیث کو کمزور بناتا ہے، خصوصاً جب وہ صحابی رسول ہو؟

حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ کا بیان:

حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"جو شخص اسلام لانے سے قبل روایت سنے اور اسلام لانے کے بعد بیان کرے، اس کی روایت قبول کی جائے گی۔ اسی طرح اس کی روایت بھی قبول کی جائے گی جس نے بلوغت سے قبل روایت سنی ہو اور بالغ ہونے کے بعد اسے بیان کرے۔ کچھ لوگوں نے اس سے منع کیا ہے، لیکن انہوں نے غلطی کی ہے، کیونکہ (دورِ سلف کے تمام) لوگوں نے کم سن صحابہ مثلاً حسن بن علی، ابن عباس، ابن زبیر، نعمان بن بشیر اور ان جیسے دوسرے صحابہ کی احادیث کو یہ فرق کیے بغیر قبول کیا ہے کہ انہوں نے وہ بلوغت سے پہلے سنی ہیں یا بعد میں۔ پھر قدیم و جدید دور میں محدثین بچوں کو حدیث سننے کی مجالس میں حاضر کرتے رہے ہیں اور ان کی روایات کو اہمیت دیتے رہے ہیں۔” (مقدمہ ابن الصلاح: 1/73)

علامہ سخاوی رحمہ اللہ کا بیان:

علامہ سخاوی رحمہ اللہ (م 902ھ) لکھتے ہیں:

"بچے کی (بچپن میں سنی ہوئی اور بالغ ہونے کے بعد بیان کی گئی) حدیث قبول نہ کرنے والوں کا ردّ اس طرح کیا گیا ہے کہ امت کا ایسے بہت سے راویوں سے روایت لینے پر اجماع ہے، جنہوں نے بچپن میں (رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) احادیث سنیں، جیسا کہ سیدنا حسن، حسین، عبداللہ بن جعفر، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عباس، نعمان بن بشیر، سائب بن یزید، مسور بن مخرمہ، انس بن مالک وغیرہم ہیں۔ امت نے ان کی احادیث کو مطلق طور پر قبول کیا ہے، بغیر یہ فرق کیے کہ انہوں نے بلوغت سے پہلے وہ حدیثیں سنی ہیں یا بعد میں۔” (فتح المغیث للسخاوی: 2/7)

بچپن میں حدیث سننا اصولِ حدیث کے مطابق قابل قبول ہے

صحابہ، تابعین، اور محدثین کا اس پر اجماع ہے کہ اگر کوئی بچہ پانچ سال کی عمر میں حدیث سنے اور اسے یاد کر لے تو اس کی روایت قبول کی جائے گی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی "صحیح بخاری” میں اس مسئلے پر ایک باب قائم کیا ہے:

"بچے کا حدیث کو سماع کرنا کب درست ہے؟”

اس باب میں سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی حدیث پیش کی ہے:

"مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈول سے پانی لے کر اپنے منہ مبارک سے میرے چہرے پر ڈالنا یاد ہے، حالانکہ میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔” (صحیح بخاری: 77، صحیح مسلم: 33)

قاضی عیاض بن موسیٰ یحصبی رحمہ اللہ کا بیان:

قاضی عیاض رحمہ اللہ (م 476-544ھ) لکھتے ہیں:

"بچے کا سماع صحیح ہونے کی شرط یہ ہے کہ جب وہ سنی ہوئی بات کو محفوظ کرنے لگے تو اس کا سماعِ حدیث صحیح ہوگا، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ محدثین نے سماع کی کم از کم عمر کی تحدید میں سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ کی عمر کو کسوٹی بنایا ہے۔” (الالماع: 1/62)

اسی اصول کو ابن الصلاح، ابن دقیق العید، خطیب بغدادی، ابن کثیر، ابن حجر اور دیگر علمائے حدیث نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا اور اس کی تائید کی ہے۔

صحابہ کے بچپن میں سنی ہوئی احادیث کا اجماع

معلوم ہوا کہ حدیث کی صحت کے لیے یہ شرط نہیں ہے کہ صحابی نے حدیث بلوغت کے بعد سنی ہو۔ یہ محدثین کا متفقہ اور اجماعی فیصلہ ہے، جس کی مخالفت کوئی اصولِ حدیث سے بے خبر شخص ہی کر سکتا ہے۔

منکرینِ حدیث کی سازش

قارئین کرام سے اپیل ہے کہ ایسے افراد، جو اصولِ حدیث سے نابلد ہیں اور جنہوں نے پوری امت کے نزدیک متفق علیہ کتاب صحیح بخاری پر اعتراضات کیے ہیں، ان سے بچیں۔ یہ اعتراضات دراصل قرآن کی تشریح و توضیح کے انکار کی سازش ہیں۔ صحابہ کرام کی کم عمری میں سنی ہوئی احادیث پر اعتراضات کا مطلب ہزاروں احادیث کا انکار کرنا ہے۔ کیا ایسے لوگ اسلام سے مخلص ہو سکتے ہیں؟

صحیح بخاری کی سند کے اعتبار سے حدیث کی قبولیت

جب سند کے اعتبار سے صحیح بخاری کی تحویل قبلہ والی حدیث بالکل صحیح ہے، تو اس پر عقلی اعتراضات کی کوئی علمی حیثیت نہیں۔ ایسے اعتراضات تو منکرینِ قرآن بھی کرتے رہے ہیں۔ اگلی قسط میں ان اعتراضات کے علمی جوابات پیش کیے جائیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ!

مضمون کا خلاصہ:

یہ مضمون تحویل قبلہ کے واقعے، احادیث کی صداقت، اور ان پر کیے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیتا ہے۔ اس میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی حدیث کو بنیاد بنا کر یہ وضاحت کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز ادا کی، پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبلہ خانہ کعبہ کی طرف تبدیل کیا گیا۔ منکرین حدیث کی طرف سے اس روایت پر اعتراضات کیے گئے ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ براء بن عازب نابالغ تھے اور ان کی روایت قابل اعتماد نہیں۔ مضمون میں اصولِ حدیث کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ کم عمری میں سنی گئی احادیث بھی قابل قبول ہیں، جیسے کہ متعدد صحابہ کرام کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ، ابو اسحاق السبیعی کی روایت کے درست ہونے پر محدثین کے دلائل کا ذکر بھی موجود ہے، جس میں ان کے شاگرد اسرائیل بن یونس کی روایات کی صحت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ مضمون کا مقصد منکرین حدیث کی غلط فہمیوں اور اعتراضات کا علمی جواب دینا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے