کیا امامت نبوت کی طرح ہے؟
یہ تحریر ڈاکٹر احمد بن سعد بن حمدان الغامدي رحمه الله کی کتاب اثناعشری گروہ کے ساتھ اصول میں عقلی گفتگو سے ماخوذ ہے جس کا اُردو ترجمہ محترم شفیق الرحمان شاہ صاحب نے کیا ہے۔

شیعہ کے ہاں امامت نبوت کی طرح ہے

شیعہ اثنا عشریہ کا خیال ہے: ظاہری وحی کے علاوہ [باقي امور] امامت نبوت کی مانند ہے ۔ محمد حسین آل کا شف الغطا: زمانہ حاضر کا ایک شیعہ مرجع کہتا ہے:
”امامت بھی نبوت کی طرح منصب الٰہی ہے: جیسا کہ اللہ تعالیٰ نبوت و رسالت کے لئے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں چن لیتے ہیں اور پھر ان معجزات سے ان کی تائید کرتے ہیں جو کہ اللہ تعالی کی طرف سے نص کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ جسے چاہیں امامت کے لئے چن لیتے ہیں۔ اور اپنے نبی کو امام متعین کرنے کا حکم دیتے ہیں کہ اسے اپنے بعد لوگوں کا امام بنایا جائے ۔“
[اصل الشعه: واصولها ص: 5]

آل كاشف الغطا کی عبارت پر ایک سرسری ملاحظہ:

اللہ تعالیٰ امام متعین کرنے کا حکم کیوں نہیں دیتے؟ خود قرآن میں اللہ تعالٰی اس کا حکیم کیوں نہیں دیتے؟ جبکہ تمہارا ایمان ہے کہ امامت بھی نبوت کی طرح ہے۔
اللہ عزوجل نے اپنے نبی کے لئے نصوص اتاری ہیں ۔ تمہارا ایمان ہے کہ امام نبی کی طرح ہے۔ اگر امامت ایسے ہی ہوتی جیسے تمہارا ایمان ہے تو اس بارے میں اللہ تعالیٰ ضرور نصوص نازل فرماتے۔
اور یہ اعتراف اس دعوی کو باطل ثابت کرتا ہے کہ: قرآن میں امامت کی نصوص موجود ہیں۔ جیسا کہ بہت سارے شیعہ علماء کا عقیدہ ہے ۔ اور اس دعوی کو بھی ردّ کرتا ہے کہ امامت بھی نبوت کی طرح ہے۔ اگر واقعی ایسے ہوتا تو اللہ تعالٰی اس بارے میں آیات نازل فرماتے ۔ جیسا کہ نبوت کے بارے میں آیات نازل فرمائی ہیں۔

اگر نبوت امامت کی طرح ہے تو اس کی نصرت لازم آتی ہے :

ہم سوال کرتے ہیں: جب امامت نبوت کی طرح ہے ۔ جیسا کہ شیعہ حضرات کا عقیدہ ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ صاحب امامت کی نصرت و مدد کریں۔ بلا شک و شبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی قوم پر نصرت فرمائی۔ فرمان الٰہی ہے:
إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ۖ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ ۗ وَكَلِمَةُ اللَّهِ هِيَ الْعُلْيَا ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ‎ [التوبه: 40]
”اگر تم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو گے تو اللہ تعالیٰ ان کے مددگار ہیں ، یاد کرو جب ان کو کافروں نے نکال دیا ، اس وقت دو ہی شخص تھے ، جب وہ دونوں غار میں تھے ، اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے: غم نہ کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنی تسکین نازل فرمائی اور ان کی ایسے لشکروں سے مدد کی جو تم کو نظر نہیں آتے تھے اور کافروں کی بات کو پست کر دیا۔ اور بات تو اللہ تعالیٰ ہی کی بلند ہے اور اللہ تعالیٰ زبردست اور حکمت والا ہے۔“
تو کیا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے نبی کی نصرت کی تھی؟
اگر آپ کہیں گے کہ نصرت کی تھی ۔
تو ہم پوچھتے ہیں کہ پھر نائب نبوت کی نصرت کیوں نہ کی؟ جب کہ تمہارے عقیدہ میں ان دونوں کا حکم ایک ہے۔
اور اگر آپ کہیں کہ اپنے نبی کی نصرت نہیں کی تھی۔
تو ہم کہتے ہیں کہ: حالات و واقعات تمہاری اس بات کو جھٹلاتے ہیں۔
پھر اگر آپ کہیں گے کہ نصرت کی تھی ۔
تو ہم سوال کرتے ہیں کہ کن کے ذریعہ؟
اگر تم کہو گے: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ ۔
تو ہم پوچھتے ہیں: نصرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کون تھے؟
اگر تم کہو: وہ چار یا سات اشخاص تھے۔
تو ہم کہتے ہیں: عقلاً یہ درست نہیں ۔ سات افراد کی ہمراہی میں نصرت کیسے ممکن ہے جبکہ مکہ میں آپ کے ساتھ سینکڑوں افراد تھے۔ مگر آپ کو نصرت نہیں ملی۔
اگر تم کہو گے کہ: یہ لوگ زیادہ تھے۔
تو ہم کہتے ہیں: پھر ان کے نام لو۔
اگر تم کہو کہ: ان میں بہت سارے غیر معروف تھے۔
تو ہم پوچھتے ہیں تمہیں ان کے بارے میں کیسے پتہ چلا؟ ۔
اگر تم کہو کہ اللہ تعالی نے آپ کی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار سے کی تھی جیسا کہ تمہاری روایات کہتی ہیں۔
تو ہم کہتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار ان نصرت کرنے والوں میں سے ایک تھی، اکیلے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسلام کی نصرت نہیں ہوئی۔ اگر صرف اکیلے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار سے اسلام کی نصرت ہوئی ہوتی تو آپ کی تلوار کو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر بھی نصرت حاصل ہوتی ۔ حالانکہ اس وقت آپ کو فتح و نصرت کی بہت زیادہ ضرورت تھی، پھر کیا ہو گیا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر نصرت حاصل نہ ہوئی۔ جب کہ آپ کی تلوار وہی تلوار تھی۔
پھر ہم پوچھتے ہیں: کیا اللہ تعالی نے اپنے نبی کی نصرت ان کی زندگی میں کی تھی یا موت کے بعد بھی؟
اگر تم کہو کہ یہ صرف زندگی میں مدد کی تھی .
تو ہم کہتے ہیں: اس نصرت کا کیا فائدہ جو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کے بعد ضائع ہو گئی ، اور کیا آپ کی نصرت سے مقصود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی نصرت تھی یا شخصیت کی نصرت؟
پھر ہم پوچھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے یہ دین کیوں نازل فرمایا؟
اگر آپ کہیں: تاکہ اس کی اتباع کریں اور اس سے قربت الٰہی حاصل کریں۔
تو ہم کہتے ہیں:
آپ کے مذہب کے مطابق ایسا بہت تھوڑا سا واقع ہوا ہے۔
تو پھر اس دین کے نازل ہونے کا فائدہ کہاں گیا؟
کیونکہ تمہارے عقیدہ کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام دین کی حفاظت اور معاشرہ میں اس کے نفاذ کا ذمہ دار ہے۔ اور بعد کے آئمہ جنہیں تم امام گمان کرتے ہو ، وہ تمہارے عقیدہ کے مطابق اس دین کو نافذ نہ کر سکے ، حتٰی کہ ان کی نسل ختم ہو گئی ، یا پھر راہ فرار اختیار کر لی۔ یہ تمہارے مذہب کے مطابق صحیح عقیدہ ہے۔

دین کے ساتھ فرار:

اگر تم کہو کہ: دین کا غلبہ مہدی غائب کے ہاتھ پر آخری زمانے میں ہو گا ۔
تو ہم پوچھتے ہیں: اللہ تعالیٰ کا جود بن آسمان سے نازل ہوا تھا، وہ سب سے بڑا دین، سب سے اعظم نبی پر؟
سب سے اعظم کتاب کی صورت میں ،
سب سے عظیم الشان جگہ پر نازل ہوا۔
وہ سرداب میں مہدی کے پاس محفوظ نہیں کہ امام کا خروج ہو ۔ اس وقت تک بشریت ہزار برس سے زائد عرصہ سے اس قرآن سے محروم رہے، اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اس لئے کہ اس کے لئے مناسب شخصیات دستیاب نہیں ہوئیں۔ یا امام دین لے کر بھاگ گیا؟
یا پھر امام مہدی کے لئے اس دین کا اعلان و نفاذ کیسے ممکن ہو گا؟
اگر آپ کہیں کہ اللہ تعالی آپ کو انصار و مددگار مہیا کرے گا۔
تو ہم پوچھتے ہیں کہ: کیا یہ امام اللہ کے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ عزت والا ہے کہ انہیں وہ مددگار نہ دیے جو دین کی نصرت کریں۔ بلکہ ان کی مدد وقتی طور پر ظاہر کی گئی اور پھر اس فضیلت کو اس مولود کے لئے ذخیرہ کر لیا گیا۔ جو ان کے عقیدہ کے مطابق ایک ہزار سال سے چھپا ہوا ہے۔ اگر مدد و نصرت کرنے والا اللہ تعالٰی تھا تو بشریت کے عظیم انسان اپنے نبی جناب محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیوں نہ کی؟ اور آپ کے بعد امام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدد کی ۔ جیسا کہ تمہارا عقیدہ ہے۔ اور پھر اس سلسلہ میں تم لوگوں نے ہزاروں روایات نقل کی ہیں۔ جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ظاہری نبوت کے علاوہ تمام خصائص و فضائل میں شریک بنایا ہے۔
اگر آپ کے اتنے فضائل ہوتے تو کیا آپ اس نصرت الٰہی کے مستحق نہ تھے جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں اور اس مدد سے مومن کو عزت و غلبہ ملتا اور کافر ذلیل و رسوا ہوتے ۔
کیا وجہ ہے کہ آپ نے کمزوری اور مظلومیت کی زندگی گزاری جیسا کہ تمہاری روایات کہتی ہیں۔ جب کہ ان چیزوں سے یقینا بری تھے۔
پھر اس امامت کا کیا فائدہ جس سے مقصود حاصل نہ ہو سکتا ہو؟

دعوی امامت کے متناقض مواقف:

پھر ہم یہ سوال کرتے ہیں: حضرت علی رضی اللہ عنہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے امام تھے اور آپ کو اس کا علم تھا اور امامت دین کے اصولوں میں سے ایک اصول تھی جس کے بغیر دین مکمل نہیں ہوتا اور اس کا اعتقاد نہ رکھنے والا کافر ہوتا ہے۔ مجلسی نے اپنے شیخ ، شیخ مفید سے نقل کیا ہے وہ کہتا ہے:
”امامیہ کا اس بات پر اجماع ہے کسی ایک امام کی امامت کا منکر ، اور جس کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے ، اسے نہ ماننے والا کافر ہے جو کہ ہمیشہ کیلئے جہنم کا مستحق ہے۔“
[المسائل للمفيد نقل زلك عنه المجلسي فى البحار: 366/8]
طوسی نے کہا ہے: ”امامت کا انکار کرنا اور اسے نہ ماننا ایسے ہی ہے جیسے نبوت کا انکار کرنا اور اسے نہ ماننا۔“
[الاقتصاد فيما يتعلق بالاعتقاد: 358]
تو پھر آپ کو کیا ہو گیا تھا کہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساری زندگی گزار دی اور اللہ کی زمین میں کہیں ہجرت نہیں کی تاکہ کسی مددگار کو تلاش کرتے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تھی۔ جب مکہ میں آپ کی قوم نے آپ کی مدد نہ کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے۔
❀ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیسے خلفا ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی بیعت کر لی جب کہ انہوں نے صرف آپ کی خدمت کا ہی انکار نہیں کیا بلکہ اس پر تعاقب بھی کیا۔ اور یہ تمہارے شیخ مفید کے مطابق کافر ہیں۔
❀ پھر یہ کہ آپ ان کے ساتھ اور ان کے پیچھے کیسے اتنا عرصہ نمازیں پڑھتے رہے جب کہ وہ (تمہارے عقیدہ کے مطابق) کافر تھے۔
❀ پھر آپ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے لائے ہوئے بنو حنیفہ کی قیدی خواتین میں سے ایک سے شادی کیسے کر لی؟ جب کہ کافر حاکم کے احکام نافذ نہیں کئے جاتے۔
❀ اس عورت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر محمد نامی بیٹا بھی پیدا ہوا۔
❀ پھر آپ کو کیا ہو گیا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اپنی بیٹی ام کلثوم کی شادی کر دی۔ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تمہارے ایمان کے مطابق کافر تھے۔ کوئی عام مسلمان یا اللہ کی طرف سے منصوب امام اس بات پر راضی ہو سکتا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی کسی کافر سے اپنی مرضی کے یا بغیر مرضی کے کر دے اور وہ اپنی بیٹی کی مدد نہ کرے۔

اولاد علی رضی اللہ عنہ کے نام خلفا کے ناموں پر:

❀ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی اولاد کے نام ان حضرات کے ناموں پر رکھے۔ شیخ مفید اور اس کے عقیدہ پر کار بند لوگوں کے نزدیک خلفا ثلاثه رضی اللہ عنہم کافر تھے ۔ انہوں نے خلافت غصب کی ، اور آپ کو کی گئی وصیتوں کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ یہ تمہارا عقیدہ ہے۔
مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی اولاد کا نام ابو بکر ، عمر و عثمان رضی اللہ عنہم رکھا تھا۔
آپ کو کس نے اس بات پر مجبور کیا تھا؟
یہاں پر ہم صرف اس قدر ذکر کرنے میں کفایت سمجھتے ہیں کہ آپ کی اولاد میں سے کس کس کے نام ابو بکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیٹی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے نام پر رکھے گئے۔ یہ مواد آپ کے مذہب کی اہم ترین کتابوں سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس لئے کہ آپ لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے خلافت چھین لی گئی تھی۔
شیعہ اثنا عشری عالم: شیخ مفید نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے نام ذکر کرتے ہوئے ان میں ابو بکر کا نام بھی لیا ہے ۔ (اس نے باب قائم كيا هے اور) وہ کہتا ہے:
ذكر أولاد أمير المومنين عليه السلام و عددهم و أسمائهم و مختصر من أخبار هم .
”حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی اولاد کا ذکر اور ان کی تعداد اور ان کے اسماء ، اور مختصر احوال ۔“
محمد الاصغر ، کنیت ابو بکر، اور عبیداللہ جو کہ اپنے بھائی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شہید ہوئے۔ اس کی ماں لیلی بنت مسعود دارمیہ تھیں ۔
[الارشاد ص: 186]
یعقوبی شیعہ مؤرخ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہتا ہے:
”آپ کی نرینہ اولاد کی تعداد چودہ تھی۔ عبید اللہ اور ابو بکر انہوں نے کوئی اولاد نہیں چھوڑی۔ ان کی ماں لیلی بنت مسعود حنظلیہ ، بنو تمیم سے تھیں ۔ “
[تاريخ يعقوبي: 213/2]
اصفہانی نے مقاتل الطالبین میں عنوان قائم کیا ہے:
ذكر خير حسين بن على رضی اللہ عنہ ، بن ابي طالب و مقتله ومن قتل معه من أهله .
”ان میں ابو بکر بھی تھے۔ ان کی ماں لیلی بنت مسعود تھی۔ ابو جعفر نے ذکر کیا ہے کہ اس کو قتل کرنے والا ہمدان کا ایک آدمی تھا۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ آپ کو پیدل دستہ میں مقتول پایا گیا۔ آپ کے قاتل کا علم نہیں ہو سکا۔ “
[مقاتل البالبين لابي الفرج الاصفهائي 142 ، جلاء العيون 582]
کیا یہ آپس میں سچی محبت اور بھائی چارے اور جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عزت و توقیر اور احترام کی دلیل نہیں ہے؟
پھر یہ آپ کے بڑے لخت جگر پسر فاطمہ ، نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ ، دوسرے امام معصوم ۔ (تمہارے عقیدہ کے مطابق ) ۔ اپنے ایک بیٹے کا نام حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھتے ہیں۔ جیسے یعقوبی نے کہا ہے کہ:
”حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی نرینہ اولاد کل آٹھ تھی۔ ان کی ماں کا نام خولہ تھا ۔ ابوبکر اور عبدالرحمن یہ علیحدہ ماں کی اولاد تھے۔ ایسے ہی طلحہ اور عبداللہ بھی ۔ “
[تاريخ يعقوبي 228/2 ، منتهي الآمال 240/1]
الاصفہانی نے کہا ہے:
”ابو بکر بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ ان افراد میں سے تھے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہوئے۔ انہیں عقبہ غنوی نے قتل کیا ۔ “
[مقاتل الطالبين ص 87]
حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا تھا ۔ جیسا کہ شیعہ مؤرخ مسعودی نے ذکر کیا ہے۔ وہ
التنبيه والا شراف میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں شہید ہونے والوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
”کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے تین بیٹے شہید ہوئے ، علی اکبر ، عبد اللہ الصبی اور ابو بکر ۔ یہ تینوں حضرت حسین کے بیٹے تھے ۔“
[التنبيه والاشراف 263]
”اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ زین العابدین بن حسن کی کنیت ابوبکر تھی۔ “
[كشف الغمة: 4/2]
مزید برآں حسن بن الحسن بن علی رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابو طالب کے پوتے نے اپنے ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا تھا۔ جیسا کہ اصفہانی نے محمد بن حمزہ علوی سے نقل کیا ہے، جو لوگ حضرت ابراہیم بن الحسن بن الحسن بن علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے ساتھ ان میں ابو بکر بن الحسن بن الحسن بھی تھے۔ ایسے ہی شیعہ کے ہاں ساتویں امام موسٰی بن جعفر الکاظم نے اپنے ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا تھا۔ جب کہ اصفہانی نے کہا ہے:
”آپ کا بیٹا علی ، شیعہ کا آٹھواں امام ۔ اس کی کنیت ابو بکر تھی۔ “
اور عیسی بن مہران ابو صلت ہروی سے روایت کیا ہے وہ کہتا ہے:
”ایک دن مامون نے مجھ سے ایک مسئلہ پوچھا میں نے کہا: اس میں ہمارے ابو بکر بھی ہیں۔“
عیسی بن مہران کہتے ہیں:
”میں نے ابی صلت سے پوچھا تمہارے ابو بکر کون ہیں؟ تو اس نے کہا علی بن موسٰی الرضا ، یہ ان کی کنیت تھی اور آپ کی ماں ام ولد تھی ۔
[مقاتل الطالبين ص: 561 – 562 ]
جہاں تک عائشہ نام کا تعلق ہے تو ساتویں امام موسٰی کاظم نے ایک بیٹی کا نام صدیقہ بنت صدیق کے نام پر عائشہ رکھا گیا تھا۔ جیسا کہ مفید نے موسٰی بن جعفر الصادق کی اولاد کی تعداد اور ان کے احوال میں بیان کیا ہے وہ کہتا ہے:
”ابو الحسن موسی علیہ السلام کے سینتیس (37) بیٹے تھے ان میں سے علی بن موسٰی الرضا ، فاطمہ ، اور عائشہ اور ام سلمی بھی تھیں ۔ “
[ الارشاد: 302 ، 303 – الفضول المهم: 242]
”اور ان کے بیٹے علی بن حسین نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام عائشہ رکھا تھا۔“
[ كشف الغمه: 90/2]
ایسے ہی ان کے نزدیک دسویں امام علی بن محمد الھادی ابو الحسن نے بھی اپنی ایک بیٹی کا نام عائشہ رکھا تھا۔ شیخ مفید کہتا ہے:
”ابو الحسن فوت ہوئے تو رجب کا مہینہ تھا 45 ہجری تھی ۔ آپ کو اپنے گھر (سری من رای) میں دفن کیا گیا ۔ آپ نے اپنے پیچھے بیٹا ابومحمد حسن اور بیٹی عائشہ چھوڑی۔“
[كشف الغمية : 334 ، فصول المهمة : 283]
یہ شیعہ مراجع کی کتب ہیں جو اس بات کی تائید کرتی ہیں کہ آل بیت کے دلوں میں آل صدیق کے لئے کوئی میل نہ تھی، اسی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام آپ کے اور آپ کی بیٹی کے نام پر رکھے۔
اگر آپ نے خلافت چھینی ہوتی تو ان کے جی انہیں اجازت نہ دیتے کہ ان کی زبانوں پر ہر وقت ان کے نام آئیں، بلکہ وہ اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کے نام ان کے ناموں پر رکھیں۔ بلکہ انہوں نے اپنے گھروں میں اپنی اولادوں کے نام ان کے نام پر رکھے ہیں جو ان کو سب
سے محبوب تھے۔
یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ ان لوگوں کے متعلق تمہارے عقیدہ کی روایات من گھڑت ہیں ۔ ورنہ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے نام اپنے دشمنوں کے ناموں پر رکھنے کی وجہ سے ان پر نفاق کی تہمت لگانا پڑے گی۔ جیسا کہ تمہارا عقیدہ ہے۔ اور یہ لوگ عند اللہ نفاق سے بری ہیں۔
اگر یہ تسلیم کرلیں کہ کوئی شیعہ جرات کر کے اس کی تفسیر تقیہ سے کرے تو یہ ان شریف النفس اور نیکو کارلوگوں پر سب سے بڑا طعنہ ہو گا۔ اس لئے کہ ایسی حرکت کرنا ان کے شایان شان نہیں ہے۔ یہ لوگ دختر پیغمبر کی اولاد ہیں اور انہوں نے اسلامی آغوش میں تربیت پائی ہے تو پھر ایسی باتیں کیونکر کر سکتے ہیں۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور امامت سے تنازل:

پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو کیا ہو گیا تھا کہ انہوں امامت سے تنازل اختیار کیا۔ حالانکہ تمہارے عقیدہ کے مطابق اس کے بغیر دین قائم نہیں ہو سکتا۔ اور آپ اس بات پر راضی ہو گئے کہ ان کی زندگی میں اور آپ کی موافقت سے کفر کے مطابق فیصلہ کیا جائے ۔ اور آپ کی جان محفوظ رہے جب کہ آپ کے ساتھ چالیس ہزار سے زیادہ کا بڑا لشکر موجود تھا؟
❀ جب تمہارے عقیدہ کے مطابق آپ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ امام تھے ، تو کیا آپ کے لئے یہ ممکن تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کی تفویض کردہ ذمہ داری سے دستبرداری اختیار کر لیں تا کہ آپ اپنی جان بچا لیں۔ بھلے لوگ کفر میں مبتلا رہیں۔
❀ جب آپ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کر لی اور آپ کے حق میں تنازل اختیار کر لیا تو تمام لوگ اگر آپ کی امامت کا اعتقاد رکھتے تھے۔ تو ان کا یہ اعتقاد بھی تھا کہ اس تنازل سے ان کے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر یہ تنازل مؤثر ہوتا تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اس بات پر راضی نہ ہوتے خصوصاً جب کہ آپ امام متعین من اللہ تھے۔ اور تمہارے عقیدہ کے مطابق امام سہو ، اور نسیان و خطا سے معصوم ہوتا ہے۔ اور وہ امت کے کفر کا سبب کیسے بن سکتے ہیں۔ تا کہ آپ کئی برس تک زندہ رہیں اور دین کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول کو ضائع کر دیں۔
❀ کیا مسلمان۔ بلکہ امام کے لئے اس دین سے بڑھ کر کوئی چیز عزیز ہو سکتی ہے؟
❀ یہ مسٹر خمینی جی ہیں جنہوں نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالا تا کہ اپنی حکومت قائم کر سکیں ۔ کیا خمینی امام حسن رضی اللہ عنہ سے زیادہ بہادر تھا؟
❀ پھر یہ سپاہی جو کہ دنیا بھر میں فوج میں خدمات سر انجام دیتے ہیں اور وہ موت سے آنکھیں چار کئے رہتے ہیں۔ اور وہ اپنی حکومتوں کی مدد کے لئے آگے ہی بڑھتے رہتے ہیں اور اکثر و بیشتر ان کی حکومتیں کافر ہوتی ہیں، تو کیا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی قربانی اور اپنی امامت پر قناعت ان لوگوں سے بھی کم تھی؟
کیا عقل و دانش کی بیداری کا وقت ابھی تک نہیں آیا؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے