انسان کا اختیار اور اللہ کی مشیت: ذمہ داری کی حقیقت
تحریر: مولانا محمد ابراہیم

اعتراض:

اگر اللہ جانتا ہے کہ کون جہنم میں جائے گا تو پھر ہم ذمہ دار کیوں ہیں؟ اللہ نے شر کو کیوں پیدا کیا؟

یہ سوال دو مختلف تصورات کو سمجھنے کی ضرورت پر مبنی ہے:
✿ اللہ کا علم
✿ اللہ کی مشیت (مرضی)

ان دونوں میں فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ کا علم ازل سے ابد تک ہر لمحے کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ علم اچھے حالات، برے حالات، خیر اور شر، سب پر محیط ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیت ہمیشہ خیر میں ہوتی ہے، شر میں نہیں۔

اللہ کی تخلیق اور اس کی منشأ کا فرق

اللہ تعالیٰ کی دو صفات ہیں:

صفتِ تخلیق:

اللہ تعالیٰ ہر چیز کا خالق ہے۔

منشأ تخلیق:

ہر چیز کی تخلیق کے پیچھے اللہ کی منشأ کیا ہے، اسے سمجھنا ضروری ہے۔

اللہ خیر کو پیدا کرتا ہے تاکہ لوگ اسے اپنائیں، اور شر کو اس لیے پیدا کرتا ہے تاکہ لوگ اس سے بچ کر اللہ کی وفاداری کا ثبوت دیں۔ اللہ تعالیٰ نے خیر اور شر دونوں کو پیدا کیا، لیکن کسی پر مسلط نہیں کیا۔ انسانوں کو اختیار دیا گیا ہے، جس میں انہوں نے خیر یا شر میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ اللہ نے خیر کے فوائد اور شر کے نقصانات کو واضح طور پر بیان کیا ہے تاکہ لوگ اپنے عمل کا انتخاب خود کریں۔

اللہ کا علم ازلی اور انسانی اختیار

اللہ تعالیٰ اپنے ازلی علم کے ذریعے یہ جانتا ہے کہ کون اس کی بنائی ہوئی خیر کو اپنائے گا اور کون شر کی پیروی کرکے اس کی نافرمانی کرے گا۔ اسی علم کو تقدیر میں لکھا جاتا ہے۔ اگر اللہ اپنے علم ازلی سے بتا دے کہ ایک طبقہ جہنم میں جائے گا، تو کیا یہ کہنا عقلاً درست ہے کہ وہ جہنم میں اس لیے گئے کہ وہ مجبور تھے؟ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ اللہ نے انسان کو اختیار دیا ہے، اب جسے چاہے، وہ چن لے۔

آزمائش اور انسان کا اختیار

آزمائش صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ شیطان کے لیے بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ شر کے خالق ہیں مگر فاعل نہیں۔ اللہ کی پیدا کی ہوئی اشیاء کا غلط استعمال انہیں شر بناتا ہے، ورنہ وہ اصلاً شر نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر، اللہ نے انسان کو زبان کی نعمت دی ہے، جس سے وہ اچھی یا بری گفتگو کر سکتا ہے۔ اگر انسان زبان سے جھوٹ بولے، فحش کلامی کرے یا غیبت کرے، تو یہ اس کے اپنے اختیار کا غلط استعمال ہے، جس میں شیطان بھی ورغلاتا ہے۔ اس اعتبار سے، جھوٹ اور غیبت کی نسبت انسان یا شیطان کی طرف ہونی چاہئے، نہ کہ اللہ کی طرف۔

قرآن کا نقطہ نظر

قرآن کے مطابق، اللہ نے انسان کو محدود آزادی اور خودمختاری دے کر اس دنیا میں امتحان کے لیے پیدا کیا ہے۔ شیطان کو بھی اس کے مطالبے پر آزادی دی ہے تاکہ وہ انسان کو اس امتحان میں ناکام کرنے کی کوشش کرے، مگر وہ صرف ترغیب دینے تک محدود ہے؛ زبردستی اپنے راستے پر نہیں چلا سکتا۔

اللہ نے خود بھی انسان کو جبراً ہدایت پر چلانے سے اجتناب کیا ہے، اور انبیاء اور کتابوں کے ذریعے راہِ راست کو واضح کیا ہے۔ اس کے بعد انسان کو اختیار دیا کہ وہ اللہ کی ہدایت کو اپنائے یا شیطان کی ترغیبات کو۔ ان دونوں راستوں میں سے جو بھی انسان چنتا ہے، اللہ اسے اسی پر چلنے کے مواقع فراہم کرتا ہے تاکہ امتحان کے تقاضے پورے ہوں۔

کیا اللہ کو زبردستی مداخلت کرنی چاہیے؟

اب سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کو انسان کو زبردستی کامیاب کرانا چاہیے؟ اللہ نے انسان کو یہ اختیار دیا ہے تاکہ وہ اپنے اعمال کے مطابق آزمائش میں کامیاب یا ناکام ہو سکے۔ اگر اللہ زبردستی مداخلت کرے تو یہ امتحان کا مقصد ختم ہو جائے گا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے