کیا حدیث غدیر میں حضرت علی رض کی امامت کا ذکر ہے؟
شیعہ امامیہ اثنا عشریہ کا خیال ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ، بن ابی طالب کی امامت کا ذکر کئی احادیث میں آیا ہے ان میں سے ایک حدیث ، حدیث غدیر بھی ہے۔ اسے کئی الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے صرف آگے آنے والے الفاظ ہی صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں۔
حدیث غدیر کا متن:
من كنت مولاه فعلي مولاه
”جس کا میں مولا ہوں پس علی بھی اس کے مولا ہیں ۔“ [مولا يعني محبوب]
ایک اور روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں:
اللهم وال من والاه و عاد من عاداه
”اے اللہ ! اس سے دوستی رکھ جو ان سے دوستی کرے، اور ان کے دشمن سے دشمنی رکھ ۔“
باقی جو الفاظ اس روایت کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں وہ تمام صحیح اور ثابت نہیں ہیں۔
ہمارے نزدیک ضعیف یا موضوع حدیث سے استدلال کرنا فروع دین میں بھی جائزہ نہیں ، تو پھر اصول دین میں کہاں جائز ہو گا؟ ۔ ہم غیر کے لئے بھی یہ بات پسند نہیں کرتے ۔ پس بایں سبب ہم تھوڑی دیر کے لئے اس وقت اور جگہ کے متعلق ایک وقفہ لیں گے اور ان لوگوں کے متعلق بھی جو وہاں پر حاضر تھے۔ تاکہ عقلی طور پر غور و فکر کرنے سے حدیث کی مراد ہم پر واضع ہو جائے۔
اعلان حدیث کا زمانہ اور جگہ:
روایات کے مطابق یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج مکمل کرنے کے بعد واپسی کے سفر میں مدینہ طیبہ کی طرف ایک سو ایک سو پچاس میل سفر طے کرنے کے بعد ارشاد فرمائی۔ جس جگہ پر یہ واقع پیش آیا اس کا نام غدیر خم تھا اور وہ اٹھارہ ذوالحجہ کی تاریخ تھی۔ اس وقت آپ کے ساتھ اہل مدینہ کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں تھا۔ نہ ہی اہل مکہ میں سے نہ ہی اہل طائف نہ ہی اہل یمن اور نہ ہی اہل یمامہ اور نہ ہی کسی دوسرے شہر کا کوئی باشندہ۔ اس لئے کہ باقی لوگ مکہ سے اپنے اپنے شہروں کو چلے گئے تھے۔ اور یہ جگہ ان کے راستے میں نہیں پڑتی تھی۔
سوال :
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ حدیث اس امامت عظمی سے متعلق ہوتی ، جسے شیعہ اثنا عشریہ دین کے اصولوں میں سے ایک اصول مانتے ہیں۔ تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چیز کو عرفات ، منٰی اور مکہ کے دیگر مقامات پر لوگوں کے عظیم الشان اجتماع میں کیوں بیان نہیں کیا جب کہ اس معاملہ میں تمام لوگ برابر خصوصیت کے حامل تھے، مگر پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا اعلان صرف اپنے اصحاب میں سے اہل مدینہ کے سامنے کرتے ہیں؟ میرا خیال نہیں کہ کوئی عقلمند انسان جو کہ اپنی عقل کا احترام کرتا ہو وہ اس حدیث کے اعلان کے وقت اور جگہ کو بھی جانتا ہو اور پھر یہ کہے کہ اس حدیث سے مراد امامت عظمی ہے،
حالانکہ اس کا اعلان مسلمانوں کے ایک گروہ کے سامنے ہوا ہے۔
اور پھر شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اصحاب کرام رضی اللہ عنہم نے اس وصیت کو چھپا دیا تھا۔ پھر ہم پوچھتے ہیں: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات جانتے تھے کہ یہ لوگ وصیت چھپائیں گے یا نہیں؟
اگر تم کہو: ہاں جانتے تھے۔
تو ہم یہ کہیں گے کہ:
اس کا مطلب یہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وصیت کو نافذ نہیں کرنا چاہتے تھے، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو چھوڑ دیا۔ جو کہ آپ کے حق میں گواہی دیتے ، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عظیم الشان موقع پر اعلان کیا ہوتا ۔ اور پھر جا کر ان لوگوں میں اعلان کیا جو تمہارے خیال کے مطابق خائن لوگ تھے۔
اور اگر تم کہو کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جانتے تھے۔
تو پھر ہم پوچھتے ہیں: کیا اللہ عزوجل اس بات کو جانتے تھے یا نہیں؟
اگر آپ کہو کہ بلا شک اللہ تعالیٰ جانتے تھے ۔
تو پھر ہم پوچھتے ہیں کہ: پھر اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم کیوں نہ دیا کہ آپ حج کے موقع پر مسلمانوں کے بہت بڑے اجتماع میں اس کا اعلان کریں تا کہ یہ تمام لوگوں پر حجت بھی ہو جائے اور اس کو چھپانا ممکن بھی نہ رہے۔
پھر یہ کیسے ہو گیا کہ اللہ تعالی نے تقریباََ ایک لاکھ لوگوں کو چھوڑ دیا اور وہ اِدھر اُدھر بکھر گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم نہ دیا کہ ان میں امامت کا اعلان کیا جائے اور پھر ایک چھوٹے سے گروہ میں اعلان کا حکم دیدیا اور وہ لوگ بھی تمہارے عقیدہ کے مطابق خائن لوگ تھے ۔
درایں صورت اللہ تعالیٰ بھی اپنی وصیت کا نفاذ نہیں چاہتے تھے۔
اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ بعض شیعہ علما کا خیال ہے کہ اس جگہ پر تمام حاجی جمع ہوتے ہیں۔ یہ ایسی بات ہے جس پر ردّ کرنا بھی بلا وجہ مشقت ہے۔ اس لئے کہ ہر وہ شیعہ جس نے حج کیا ہو وہ اس دعوی کے جھوٹ ہونے سے آگاہ ہے۔
پس شیعہ آج تک اس جگہ پر جمع ہوتے ہیں اور عید مناتے ہیں۔
یہ کچھ ہر سال اٹھارہ ذوالحجہ کو ہوتا ہے۔ یہ جگہ مکہ مکرمہ سے کافی دور ہے۔ یہاں سے صرف اہل مدینہ ہی گزرتے ہیں جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
سبب ورود حدیث:
کوئی یہ بات کہہ سکتا ہے کہ اگر اس حدیث سے امامت عظمی مراد نہیں تو پھر کیا مراد ہے؟
ہم کہتے ہیں:
طبری میں ایسی روایات وارد ہوئی ہیں جن سے اس حدیث کا سبب بیان ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجاج کے وفود سے دور یہ کلمات کیوں ارشاد فرمائے؟
یہ ذکر کیا گیا ہے کہ: جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس تشریف لائے تو آپ کے ساتھیوں کے مابین کچھ جفا ہو گئی جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات ارشاد فرمائے ۔
ابنِ جریر نے اپنی سند سے یزید بن طلحہ بن یزید بن رکانہ سے روایت کیا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے تشریف لائے تو آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے جلدی آگے نکل گئے اور اپنی جگہ لشکر میں سے ایک آدمی کو جانشین بنا دیا۔ اس آدمی نے لشکر والوں کو ریشمی لباس پہنا دیے جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب یمن سے لائے تھے ۔ جب لشکر قریب پہنچا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے آگے آئے اور ان پر ریشمی لباس دیکھ کر کہا: تمہارے لئے بربادی ہو یہ کیا کیا؟
اس جانشین نے کہا: یہ لباس اس لئے پہنایا ہے تا کہ جب لوگوں میں جائیں تو خوبصورت لگیں۔ تو آپ نے فرمایا: ہلاکت ہو ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچنے سے پہلے یہ اتار دو ، انہوں نے وہ لباس اتار کر واپس اپنی جگہ پر رکھ دیے ، لیکن لوگوں کے دلوں میں شکوہ باقی رہا۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فصل: اس حدیث کے متعلق جو دلالت کرتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج الوداع سے واپسی پر جحفہ کے قریب مکہ اور مدینہ کے درمیان میں خطبہ دیا تھا، اس جگہ کو غدیر خم کہا جاتا ہے ۔ اس خطبہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب کے فضائل بیان فرمائے اور آپ کی عزت و آبرو کی اس چیز سے برأت ظاہر کی جس پر وہ لوگ اعتراض کرتے تھے جو آپ کے ساتھ یمن میں تھے۔ اور اس کا سبب اس مال کی واپسی تھا جسے یہ لوگ جورو ستم ، تنگی ، سختی اور آپ کا بخل شمار کرتے تھے۔ جبکہ حق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا۔“
یہی وجہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم حج سے فارغ ہوئے اور مدینہ واپس لوٹے تو آپ نے راستہ میں بہت ہی عظیم الشان خطبہ دیا یہ اٹھارہ ذوالحجہ پیر کے دن اور بمقام غدیر خم کا واقع ہے۔ وہاں پر ایک درخت کے نیچے یہ خطبہ دیا جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قرابت داری، عدل و امانت بیان کیے۔ جس سے بہت سارے لوگوں کے دلوں سے شکوک وشبہات کا ازالہ ہو گیا ۔
[البدايه النهايه 2/5]
اس سے وہ سبب واضح ہو گیا جس کی بنا پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے متفرق ہو جانے کے بعد اس وقت خطبہ دیا تھا جب آپ کے ساتھ معدود صحابہ رہ گئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وعظ و نصیحت کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت بتائی۔
تو معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ امامت کے ساتھ خاص نہیں تھا۔ بلکہ اس اختلاف کے ساتھ خاص تھا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے مابین پیدا ہو گیا تھا۔ پس ایسی چیز کا حج میں تمام لوگوں میں اعلان کرنا مناسب نہیں تھا۔
یہ بھی اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعلان کو مؤخر کیوں نہیں کیا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے مربی اور اس امت کے دلوں میں پائی جانے والی جرح ختم کرنے کے حریص تھے۔ اور صحابہ کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آ گیا تھا جس کی وجہ سے کچھ لوگوں کے دلوں میں حزن و ملال اور کدورت تھی، اور ابھی بہت لمبا راستہ باقی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس فرمایا کہ اتنے لمبے راستے میں دلوں میں وحشت اور کدورت کا باقی رہنا مناسب نہیں۔ خصوصاً وہ لوگ جن کا اس معاملہ سے براہ راست تعلق تھا ۔ اور پھر مدینہ میں ایسے لوگ بھی باقی تھے جو مدینہ کی حفاظت کیلئے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا بھی اس معاملہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محسوس فرمایا تھا کہ تمام لوگوں میں حج میں اس کا اعلان مناسب نہیں یہاں تک کہ علیحدہ ہو جائیں۔ اور جب علیحدہ ہو گئے تو پھر جلدی سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مقام و مرتبہ بھی بیان کر دیا تا کہ وہ لوگ اپنے مؤقف سے رجوع کر لیں جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں جفا ہو گئی تھی۔ کیونکہ یہ تمام لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے اور آپ کی رضامندی کے حصول کے حریص تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من كنت مولاه فهذا على مولاه
”جس کا میں دوست ہوں اس کا یہ علی رضی اللہ عنہ بھی دوست ہے۔“
یہ انتہائی مختصر کلمہ ہے جس سے دلوں کی میل کا ختم کیا جانا ممکن تھا۔
یہ اعلان اپنے موقع و محل پر ہے۔
یہ اعلان نہ وقت سے پہلے مناسب تھا اور نہ ہی وقت میں تاخیر کر کے ۔
اس سے یہ واضح ہو گیا کہ اس کا سبب امت کے ایک کروہ کے ساتھ خاص تھا پوری امت کے ساتھ عام نہیں۔
بعض روایات کے زائد الفاظ:
بعض روایات میں یہ الفاظ زیادہ وارد ہوئے ہیں:
الهم وال من والاه و عاد من عاداه
”اے اللہ ! اس سے دوستی کر جو ان سے دوستی کرے ، اور اس سے دشمنی رکھ جو اس سے دشمنی رکھے۔“
اس کے باوجود کہ ان الفاظ کے صحیح اور ثابت ہونے میں علماء کا اختلاف ہے پھر بھی یہ حدیث اپنے سابقہ استدلال سے فارغ نہیں ہوتی ۔ اور وہ استدلال یہ ہے کہ یہاں پر مولاہ کی تفسیر محبت [محبوب] سے کی گئی ہے نہ کہ امامت سے۔ اس لئے کہ اگر یہاں پر امامت مراد ہوتی تو یوں فرمایا جاتا:
اللهم والِ من اطاعه وعاد من عصاه
”اے اللہ ! اس سے دوستی کر جو ان کی اطاعت کرے، اور اس سے دشمنی رکھ جو اس کی نافرمانی کرے۔“
یقیناً آپ نے موالاۃ یعنی دوستی اور اس کی ضد کا ذکر کیا ہے جو کہ عداوت ہے۔ اور یہی چیز حدیث کے سبب کے ساتھ مناسب تھی۔ اور یہ سبب وہ جفا تھی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے مابین پیدا ہو گئی تھی۔ اور یہ حدیث ان مقدمات کا علاج تھی جن کے بارے میں کسی بڑی عداوت یا حادثہ پیش آنے کا سبب بننے کا اندیشہ تھا۔ کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھی صحابہ میں کچھ رنجش پیدا ہو گئی تھی۔
حدیث میں زائد الفاظ صحیح نہیں ہیں:
اس حدیث میں اپنی طرف سے کچھ الفاظ زیادہ کئے گئے ہیں تاکہ یہ حدیث امامت عظمی سے متعلق بن جائے۔
آپ اس حدیث کے سبب ، واقعہ کی جگہ اور وقت پر غور کریں تو اس سے خود اس دعوی کا باطل ہونا ثابت ہو جائے گا ۔ اس لئے کہ اگر اس سے مراد امامت ہوتی تو پھر دوسری جگہ یعنی مکہ مکرمہ اس اعلان کے لئے مناسب تھا۔ جہاں حجاج کا اجتماع ہوتا ہے ، اور پھر کسی دوسرے وقت میں یعنی ایام حج میں تمام حاجیوں کے سامنے اس کا اعلان کیا جاتا۔ اس لئے کہ یہ مسئلہ تمام حاجیوں سے متعلق تھا۔ اس لئے کہ اس کا تعلق پوری امت سے تھا۔ میرا خیال نہیں ہے کہ طالب حق کے لئے اس سے بڑھ کر مزید کسی وضاحت کی ضرورت ہو گی ۔ اس سے ان شاء اللہ تعالیٰ حق بات واضح ہو گئی ہے۔
اس کے برعکس روایت کی صحت:
شیعہ امامیہ کا خیال یہ ہے کہ اس [مذکورہ بالا روایت] کے علاوہ بھی بیسیوں احادیث ایسی ہیں جن سے امامت ثابت ہوتی ہے۔
ہم کہتے ہیں: بیسیوں دیگر صحیح احادیث ایسی ہیں جو اس دعوی کو ردّ کرتی ہیں۔
◈ اگر یہ کہا جائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقولہ روایات میں ثابت ہے۔
تو ہم کہتے ہیں: آپ کی اور ہماری کتابوں میں ان سے بڑھ کر صحیح اور ثابت وہ روایات ہیں ، جن میں آپ کی وصیت کا انکار اور خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم کی خلافت کا اثبات ہے۔
نہج البلاغہ سے دعوی امامت کا ابطال:
”نہج البلاغہ“ شیعہ اثنا عشریہ کی معتمد کتاب ہے۔ اس میں ایسی روایات موجود ہیں۔ ان میں سے ایک: حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
”تم لوگ مجھے چھوڑ دو اور میرے علاوہ کسی اور کو چن لو ۔ کیونکہ ہم ایسے کام کا استقبال کرنے جا رہے جس کے کئی رنگ اور چہرے ہیں اور اس پر دلوں کو قرار نہیں اور نہ ہی عقول کو ثبات ہے۔ آفاق اپنے اندر کئی رنگ چھپائے ہوئے ہے اور راہیں اوپری لگ رہی ہیں ۔ اور جان لو کہ اگر میں تمہاری بات مان لوں گا تو ایسی چیز پر سوار ہو جاؤں گا جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ میں نہ ہی کسی کہنے والے کی بات سن سکوں گا اور نہ ہی منع کرنے والے کا عتاب کام آئے گا اور اگر تم مجھے چھوڑ دو گے تو میں بھی دیگر افراد کی طرح تمہارا ایک فرد ہوں گا۔ اور یقیناََ میں اس کے لئے جسے تم اپنا حاکم بناؤ زیادہ اطاعت گزار اور بات مانے والا بن کر رہوں گا۔ میں تمہارا وزیر بن کر رہوں یہ اس سے بہتر ہے کہ میں تمہارا امیر بنوں ۔“
[نهج البلاغة: خطبه نمبر 92 ، ص 236]
آپ تو مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ کو امامت کی ذمہ داری سے معاف رکھا جائے۔
اگر آپ اللہ تعالی کی طرف سے متعین امام ہوتے تو آپ کے لئے ایسا کرنا روا نہ ہوتا ۔ پھر آپ تائید و تاکید کرتے ہیں کہ ان کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ ان کے علاوہ کسی دوسرے کو امیر بنائیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اس امامت کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ اور آپ کے لئے جائز تھا کہ کسی دیگر کی امامت کو قبول کر لیں۔
آپ سابقہ کلام سے بھی بڑھ کر واضح الفاظ میں اور سخت اصرار کے ساتھ فرما رہے ہیں:
”میری اطاعت و بیعت ان لوگوں نے اسی بات پر کی ہے جس پر انہوں نے ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی تھی۔ کسی شاہد کو انکار کا کوئی اختیار حاصل نہیں اور نہ ہی کوئی غائب اس کو ردّ کر سکتا ہے۔ بیشک شوری مہاجرین و انصار کیلئے ہے۔ اگر یہ لوگ کسی ایک آدمی پر جمع ہو جائیں اور اسے اپنا امام بنا دیں تو اسی میں اللہ تعالی کی رضا مندی ہے ۔ اگر معاملہ کسی طعن یا بدعت کی وجہ سے باہر نکل جائے تو وہ اسے اپنی اصل پر لوٹائیں گے۔ اگر کوئی نہ مانے تو اس سے اہل ایمان کی راہ چھوڑنے کی وجہ سے قتال کریں گے اور اللہ اسے اسی طرف لے جائیگا جس طرف وہ پھرا ہے ۔“
[نهج البلاغه: 625]
آپ تائید فرما رہے ہیں کہ امامت منصوص من اللہ نہیں ہے بلکہ شوری سے طے ہوتی ہے۔ اور یہ کہ شوری جس کو اپنا امام قرار دیدے وہ امام کہلانے کا مستحق ہے ورنہ نہیں۔
اور اگر امامت منصوص من اللہ ہوتی تو لوگوں کے ساقط کرنے سے ساقط نہ ہوتی۔ اور پھرآپ تائید کر رہے ہیں کہ جس کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امام قرار دے دیں، وہ امامت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اور صحابہ کرام بشمول آپ کے حضرت ابو بکر ، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو خلیفہ قرار دیتے تھے ۔ اس میں اللہ تعالی کی رضا مندی تھی۔ جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے وارد یہ نصوص اور دوسرے عقلی سوالات ان روایات کو جھوٹ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں جن روایات نے امت کو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے دو گرہوں میں تقسیم کر دیا ہے۔
روایات میں بحث اورغور و فکر میں رکاوٹ:
لیکن امامت کے بارہ میں وہ موضوع روایات جنہیں اپنی طرف سے تراش کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہل بیت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ، اور جس سے ان لوگوں کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بیت میں سے خلیفہ کو متعین کیا ہے۔ اور یہ کہ ان کی امامت کا عقیدہ رکھنے میں نجات ہے اور ان کی امامت کا اعتقاد نہ رکھنا ہلاکت ہے۔ اگرچہ اللہ تعالی کی کتنی ہی عبادت کیوں نہ کر لے۔ اور پھر اس عقیدہ کو ثابت کرنے کے لئے ہزاروں احادیث گھڑ لیں جن میں اس امام کی اتباع کرنے والوں کے لئے اجر عظیم کو ثابت کیا گیا ہے۔ اور ان لوگوں کو درد ناک عذاب سے ڈرایا گیا ہے جو کہ اس سے پیچھے رہیں۔ پس لوگ اس عقیدہ کے پیچھے چلے پڑے، اس لئے کہ اس میں ترغیب و ترہیب کا کوڑا شامل کر لیا گیا تھا۔ اور انہوں نے اُس نرمی اور عاطفت کی چنگاری کو بھڑکایا جس نے اس فکر کو شعلہ کر دیا ، اور سوچ و بچار کا موقع بالکل نہیں دیا۔
اللہ عزوجل نے انسان کو عقل کی کرامت و بزرگی سے نوازا ہے، اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ عقل کو کلی ترک کر کے ان روایات کے پیچھے اندھا بن کر چلنا شروع کر دے جو انسان کو ایمان اور معرفت حق کی لذت سے محروم کر دیں ، وہ حق جو کہ سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے، اسے ترک کر کے اور اہل بیت پر جھوٹی روایات گھڑ کر ان کی اتباع کی جائے۔
محترم برادر شیعہ:
اگر آپ نجات چاہتے ہیں تو پھر ان روایات سے دور رہ کر قرآن پڑھیں تا کہ آپ کی رسائی صحیح دین تک ہو سکے۔ قرآن اللہ تعالیٰ کی حفاظت سے آج تک محفوظ چلا آ رہا ہے۔ فرمان الٰہی ہے:
لَّا يَأْتِيهِ الْبَاطِلُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَلَا مِنْ خَلْفِهِ ۖ تَنزِيلٌ مِّنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ [سورة فصلت: 42]
”اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے اور نہ پیچھے سے ، یہ دانا اور خوبیوں والے اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی ہے۔“
یہ قرآن قیامت تک کے لئے لوگوں پر حجت ہے۔ اور ایسا ہرگز نہ کریں کہ خود کو جھوٹی روایات کے قید خانہ میں ڈال دیں۔
شیعہ روایات میں اہل بیت پر جھوٹ:
اہل بیت نبوت کو ہمیشہ شکائیت رہی ہے کہ شیعہ ان پر جھوٹ بولتے ہیں۔ امام جعفر صادق رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ اس انسان پر رحم کریں جو ہمیں لوگوں کے نزدیک محبوب بنائے ، مبغوض نہ بنائے۔ ہاں اللہ کی قسم ! اگر وہ ہمارے کلام کے محاسن کو دیکھ لیتے تو اس کی وجہ سے عزت والے ہوتے۔ اور کوئی ایک ان پر انگلی اٹھانے کی جرت نہ کر سکتا ۔ لیکن ان کی حالت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک ، ایک بات سنتا ہے تو اس میں دس اپنی طرف سے ملا دیتا ہے ۔“
[الكافي: 229/8]
نیز آپ فرماتے ہیں:
”جو لوگ اس راہ پر چل نکلے ہیں یعنی آپ کے متبعین ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ یقیناً اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہیں کہ اب شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت ہے۔ “
[الكافي: 254/8 ، بحار الانوار 296/25 ، رجال الكشي ص: 297]
نیز یہ بھی فرمایا ہے کہ:
”لوگوں کو ہم پر جھوٹ کی عادت پڑ گئی ہے۔ “
[بحار الانوار 246/2]
اور فرمایا کہ:
”بیشک ہم اہل بیت سچے لوگ ہیں۔ لیکن ہم ان جھوٹوں سے خالی نہیں جو ہم پر جھوٹ بولتے ہیں۔ ان کے ہم پر جھوٹ بولنے کی وجہ سے لوگوں کے ہاں ہمارے سچ کی بھی کوئی اہمیت نہیں رہتی ۔ “
[رجال الكشي ص: 108 ، بحار الانوار: 287/25]
اس سے ہم پر ان کثیر تعداد میں من گھڑت احادیث کا سبب واضح ہوتا ہے جو کہ قرآن کریم سے بھی متناقض ہیں۔ اور آپس میں بھی ٹکراؤ رکھتی ہیں۔ اور وہ روایات بھی جو کہ انتہائی کمزور اور بودے دین کا شکار ہیں۔ پھر کسی مسلمان کیلئے کیسے مناسب ہو سکتا ہے کہ وہ ان روایات کو قبول کر لے۔ جب کہ خود اہل بیت کہتے ہیں کہ:
”یہ لوگ ایک بات کے ساتھ دس باتیں اپنی طرف سے ملا دیتے ہیں اور اتنا جھوٹ بولتے ہیں کہ شیطان بھی ان کے جھوٹ کا محتاج اور ضرورت مند ہے۔“
بلا شک و شبہ یہ ان لوگوں کے متعلق انتہائی تلخ شکوہ ہے جو ان کی محبت کا دعوی کئے ہوئے ہیں ، اور ان پر جھوٹ بولا کرتے ہیں۔
یہ وہ آئمہ ہیں جو تمہاری روایات کے مطابق خوف کے زمانے میں ہو گزرے ہیں۔ پس پھر ان لوگوں نے یہ روایات کب اور کہاں (اور کن سے) بیان کیں؟
پھر آئمہ کی موجودگی کے دور میں دوسرے لوگوں سے دین کیوں لیا جا رہا ہے؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایات نئے امام کی موجودگی میں سابقہ امام سے نقل کی گئی ہیں جس سے اس نئے امام کا بےکار ہونا ثابت ہوتا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شیعہ روایات سے برأت:
معاذ اللہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے ہوں جیسا ان کے متعلق تصور ان کی روایات میں پیش کیا جاتا ہے ۔ آپ بہادر اور قریش کے جوانمرد شہسواروں میں سے ایک تھے ۔ بلحاظ نسب سے زیادہ قابل عزت اور تخلیقاَََ سب سے بزرگ اور بہادر تھے۔ اُس ذلت اور رسوائی پر آپ اور آپ کی اولاد میں سے کوئی ایک راضی نہیں رہ سکتا، وہ رسوائی جس کی تصویر شیعہ اثنا عشریہ کی روایات پیش کرتی ہیں۔ اور کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ قبل از اسلام اور بعد از اسلام عزت و شرف سے بہرہ ور تھے۔ آپ پہلے فرد تھے جنہوں نے اسلام قبول کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں تربیت پائی۔ اور تئیس سال تک آپ کے زیر سایہ رہے۔ پھر ان کے متعلق یہ خیال بھی کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آپ کے لئے امامت کی وصیت کی گئی ۔ مگر آپ نے اپنے لئے تنازل کا یہ اعلان کر دیا ، اس لئے کہ آپ گھبرا گئے یا بزدلی دکھائی۔
پھر اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی اطاعت بھی کی اور ان کے ہاں کی قیدی خاتون سے شادی بھی کی اور اپنی اولاد کے نام بھی ان کے ناموں پر رکھے ، اور ان کے پیچھے نمازیں بھی پڑھتے رہے۔ حالانکہ انہوں نے آپ سے امامت چھین لی تھی۔
حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا تنازل:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد آپ کے لخت جگر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اس انسان کے حق میں خلافت سے تنازل اختیار کر لیا جس کے متعلق تمہارا عقیدہ ہے کہ وہ کافر ہے۔
اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے یہ اس لئے کیا تا کہ امت کو دھوکہ دیگر اپنی جان بچا سکے، اور انہیں حیران و پریشان چھوڑ دے۔ سبحان الله یہ کتنا بڑا بہتان ہے۔
کیا اب وہ وقت نہیں آ گیا کہ اہل عقل کو اپنے موروثی عقائد پر نظر ثانی کرتے ہوئے انہیں قرآن پیش کرنا چاہئے تا کہ قرآنی ہدایت سے فیض یاب ہوں ، اور ان بے شمار روایات سے جان چھڑا لیں جو افتراق امت کا سبب ہیں۔ ہم تو اس بات کی امید کرتے ہیں ، اور یہ بات اللہ تعالی پر گراں نہیں۔ وہی سب کو راہِ راست پر چلانے والے ہیں۔