سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے، جنت کے نوجوانوں کے سردار، اور حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا کے لخت جگر تھے، کو زہر دیا گیا تھا۔ عمیر بن اسحاق نے اس واقعے کی تفصیل بیان کی ہے:
دخلت أنا ورجل علی الحسن بن علی نعودہ ، فجعل یقول لذلک الرجل: سلنی قبل أن لا تسألنی ، قال: ما أرید أن أسألک شیأا ، یعافیک اللّٰہ ، قال: فقام فدخل الکنیف ، ثمّ خرج إلینا ، ثمّ قال: ما خرجت إلیکم حتی لفظت طائفۃ من کبدی أقلبہا بہذا العود ، ولقد سقیت السمّ مرارا ، ما شیء أشدّ من ہذہ المرّۃ ، قال: فغدونا علیہ من الغد ، فإذا ہو فی السوق ، قـال : وجاء الحسین فجلس عند رأسہ ، فقال: یا أخی ، من صاحبک ؟ قال : ترید قتلہ ؟ قال: نعم ، قال: لئن کان الذی أظنّ ، للّٰہ أشدّ نقمۃ ، وإن کان بریأا فما أحبّ أن یقتل بریء . ”
میں اور ایک شخص سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی عیادت کے لیے ان کے پاس گئے۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہما اس شخص سے فرمانے لگے: مجھ سے سوال کر لو، اس سے پہلے کہ تمہارا سوال کرنے کا موقع ختم ہو جائے۔ اس شخص نے جواب دیا: میں آپ سے کوئی سوال نہیں کرنا چاہتا، اللہ تعالیٰ آپ کو شفا عطا فرمائے۔ اس کے بعد سیدنا حسن رضی اللہ عنہما اٹھے اور بیت الخلا چلے گئے۔ جب وہ واپس آئے تو فرمایا: تمہارے پاس آنے سے پہلے میں نے اپنے جگر کا ایک ٹکڑا (پاخانہ کے ذریعے) باہر نکال دیا ہے اور اسے ایک لکڑی کے ساتھ پلٹ رہا تھا۔ میں نے کئی مرتبہ زہر پیا ہے، لیکن یہ بار سب سے زیادہ سخت تھی۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ ہم اگلے دن ان کے پاس آئے تو آپ رضی اللہ عنہما حالت نزع میں تھے۔ اسی دوران سیدنا حسین رضی اللہ عنہ آئے اور آپ کے سرہانے بیٹھ گئے۔ انہوں نے پوچھا: اے میرے بھائی! آپ کو زہر دینے والا کون ہے؟ سیدنا حسن رضی اللہ عنہما نے جواب دیا: کیا تم اسے قتل کرنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا: جی ہاں! سیدنا حسن رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر وہ وہی ہے جس کا میں گمان کر رہا ہوں، تو اللہ تعالیٰ انتقام لینے میں سب سے زیادہ سخت ہے، اور اگر وہ بے گناہ ہے، تو میں کسی بے گناہ کو قتل نہیں کرنا چاہتا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ: ١٥/٩٣، ٩٤؛ کتاب المحتضرین لابن ابی الدنیا: ١٣٢؛ المستدرک للحاکم: ٣/١٧٦؛ الاستیعاب لابن عبدالبر: ٣/١١٥؛ تاریخ ابن عساکر: ١٣/٢٨٢، وسندہ حسنٌ)
سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دینے والا کون تھا؟ شیعہ حضرات کا کہنا ہے کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دینے میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کا ہاتھ تھا۔ تاہم، یہ دعویٰ بے بنیاد اور غیر مستند ہے۔ شیعہ حضرات کی طرف سے پیش کردہ دلائل کا تحقیقی جائزہ درج ذیل ہے:
دلیل نمبر 1: ابن عبدالبر نے نقل کیا
"ابوزید عمر بن شُبہ اور ابوبکر بن ابی خیثمہ کہتے ہیں کہ ہمیں موسیٰ بن اسماعیل نے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوبلال سے روایت کی، جو قتادہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا: اے بھائی! مجھے زہر دیا گیا ہے، لیکن اس بار کی طرح کبھی نہیں دیا گیا۔ میرا جگر نکل رہا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا: آپ کو زہر کس نے دیا؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہما نے کہا: آپ اس بارے میں کیوں پوچھ رہے ہیں؟ کیا آپ ان سے لڑنا چاہتے ہیں؟ میں ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ جب حضرت حسن رضی اللہ عنہما کا انتقال ہوا اور ان کی موت کی خبر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے کہا: تعجب ہے، حسن نے رومہ کے پانی کے ساتھ شہد کا ایک جام پیا اور انتقال کرگئے۔”
(الاستیعاب لابن عبدالبر: ١/١١٥)
تبصرہ:
اس روایت کی سند کو انتہائی "ضعیف” قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس کے راوی محمد بن سلیم ابو ہلال الراسبی (م ١٦٧ھ) جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف آئمہ کرام کے اقوال درج ذیل ہیں:
جرح کرنے والے آئمہ:
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"حديثه مضطربة” قتادہ سے اس کی روایتیں مضطرب ہیں۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ٧/٢٧٣)
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ابو ہلال راسبی کی قتادہ سے روایت کیسی ہیں؟ انہوں نے فرمایا:
"فيه ضعف، لا شيء”
(الجرح والتعدیل: ٧/٢٧٤)
امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"جميع أحاديثه عن قتادة مضطربة”
(الکامل لابن عدی: ٦/٢١٤)
ان تینوں ائمہ کی جرح سے یہ روایت ضعیف ثابت ہوتی ہے، کیونکہ یہ ابو ہلال کی قتادہ سے روایت کردہ ہے۔
امام ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"فيه ضعف”
(الطبقات الکبریٰ لابن سعد: ٧/٢٧٥)
امام نسائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ليس بالقوي”
(الضعفاء للنسائی: ٢٠٢)
امام ابو زرعہ الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ضعيف”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ٧/٢٧٤)
امام یزید بن زریع کہتے ہیں کہ:
"ليس بشيء”
نیز فرماتے ہیں:
"كنت أتعمد أن لا أسمع منه”
(الجرح والتعدیل: ٧/٢٧٣)
امام یحییٰ بن سعید القطان ان سے روایت نہیں لیتے تھے۔
(الجرح والتعدیل: ٧/٢٧٣)
امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كان شيخاً صادقاً لكنه يخطئ كثيراً”
(المجروحین لابن حبان: ٢/٢٩٥۔٢٩٦)
امام البزار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وقد أخذ المحدثون حديثه”
(مسند البزار: ١٧٩٦)
معدلین کا موقف:
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ثقہ کہا ہے۔
(سوالات الحاکم: ٤٦٨) تاہم، یہ قول امام دارقطنی کے دوسرے قول کے معارض ہے، جس میں انہوں نے اسے "ضعیف” قرار دیا ہے۔
(العلل: ٤/٤٠ بحوالہ موسوعۃ اقوال الدارقطنی)
امام ابوحاتم الرازی رحمہ اللہ نے اسے محدثین کے زیادہ قریب قرار دیا۔
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: ٧/٢٧٤) لیکن جمہور کی جرح کے مقابلے میں یہ قول ناقابل قبول ہے۔
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے ایک قول میں کہا کہ "لا بأس به”
(الجرح والتعدیل: ٧/٢٧٤) مگر خود انہوں نے ایک دوسری روایت میں اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
(تاریخ ابن ابی خیثمہ: ٢٢٠٥)
امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی اسے ثقہ کہا ہے۔
(تہذیب الکمال: ١٦/٣١٩) مگر یہ قول راوی کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد ہے۔
مزید کمزوریاں:
قتادہ بن دعامہ مدلس ہیں، جس کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اصول یہ ہے کہ جب ثقہ مدلس بخاری و مسلم کے علاوہ "عن” یا "قال” کے ساتھ روایت بیان کرے، تو وہ "ضعیف” ہوتی ہے۔
سماع کی عدم موجودگی:
قتادہ بن دعامہ کا حسنین کریمین سے سماع ثابت نہیں، لہٰذا یہ روایت منقطع ہے، اور منقطع روایت حجت نہیں بنتی۔
دلیل نمبر 2: ہیثم بن عدی کا قول
"ہیثم بن عدی نے کہا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کی اہلیہ، سہیل بنت عمروہ، کو ایک ہزار دینار کی پیشکش کی تاکہ وہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر دے۔ اس نے وہ زہر اس کے پاس بھیجا، اور انہوں نے یہ کام کر ڈالا۔”
(انساب الاشراف لأحمد بن یحیی البلاذری: ٣/٥٩)
تبصرہ:
یہ روایت موضوع یعنی من گھڑت ہے۔ اس روایت کا راوی ہیثم بن عدی ہے، جو متفقہ طور پر کذاب اور متروک الحدیث (چھوڑی ہوئی حدیثوں کا راوی) ہے۔ اسی وجہ سے یہ روایت مستند نہیں ہے اور شیعہ حضرات اسے اپنے عقائد کی بنیاد کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
دلیل نمبر 3: امام ابن سعد کی روایت
"عبداللہ بن حسن بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کثرت سے شادیاں کرتے تھے اور ان کی بیویوں کو کم عرصہ ہی ان کے ساتھ رہنے کا موقع ملتا تھا۔ ان سے شادی کرنے والی عورتیں ان سے محبت کرنے لگتی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ انہیں زہر دیا گیا، لیکن وہ بچ گئے۔ پھر دوبارہ زہر دیا گیا، لیکن وہ پھر جانبر ہوگئے۔ آخری بار جب انہیں زہر دیا گیا، تو وہ انتقال کرگئے۔ جب ان کا انتقال قریب تھا، تو طبیب نے آکر کہا: یہ وہ شخص ہے جس کی آنتوں کو زہر نے کاٹ دیا ہے۔ حسین رضی اللہ عنہ نے کہا: اے ابو محمد! مجھے بتائیں کہ آپ کو زہر کس نے دیا؟ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں پوچھتے ہو، اے میرے بھائی؟ حسین رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اللہ کی قسم! میں اسے آپ کی تدفین سے پہلے قتل کردوں گا یا اس پر قابو نہ پا سکوں گا، یا وہ ایسی زمین پر ہوگا جہاں پہنچنا مشکل ہوگا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: اے میرے بھائی! یہ دنیا چند فانی راتوں پر مشتمل ہے، اسے چھوڑ دو، میں اس سے اللہ کے ہاں ملاقات کروں گا۔ انہوں نے اس کا نام بتانے سے انکار کردیا۔ میں نے کچھ لوگوں سے سنا ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حسین رضی اللہ عنہ کے ایک خادم کو زہر دینے پر آمادہ کیا تھا۔”
(تاریخ ابن عساکر: ١٣/٢٨٢۔٢٨٣)
تبصرہ:
یہ روایت سخت ترین ضعیف ہے، کیونکہ اس کا راوی محمد بن عمر الواقدی ہے، جو کذاب ہے۔ محدثین کے نزدیک الواقدی پر بالاتفاق جھوٹ کا الزام ہے، اس لیے اس کی بیان کردہ روایات کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔
دلیل نمبر 4: ابوبکر بن حفص کی روایت
"سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کے دس سال بعد فوت ہوئے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں زہر دیا تھا۔”
(مقاتل الطالبین لأبی الفرج علی بن الحسین الاصبہانی: ص ٢٠)
تبصرہ:
یہ روایت شیطانی من گھڑت ہے، جو شیعہ راویوں نے گھڑی ہے اور اسے اپنے عقائد کی بنیاد کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس روایت میں مندرجہ ذیل خامیاں موجود ہیں:
کتاب کا مصنف اموی شیعہ ہے:
اس کے بارے میں کوئی معتبر توثیق نہیں ہے۔ مصنف کے شاگرد محمد بن ابی الفوارس کہتے ہیں:
"كان قد اختلط عقله قبل موته”
(تاریخ بغداد للخطیب: ١١/٣٩٨)
روایت کا راوی احمد بن عبیداللہ بن عمار:
امام خطیب بغدادی فرماتے ہیں:
"كان على مذهب الشيعة”
(تاریخ بغداد: ٤/٢٥٢)
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
"كان من رؤساء الشيعة”
(میزان الاعتدال للذہبی: ١/١١٨)
اس کے بارے میں کوئی معتبر توثیق موجود نہیں ہے۔
مرکزی راوی عیسیٰ بن مہران:
حافظ ذہبی فرماتے ہیں:
"كان رافضياً كذاباً”
(میزان الاعتدال للذہبی: ٣/٣٢٤)
امام ابوحاتم الرازی کہتے ہیں:
"كان كذاباً”
(الجرح والتعدیل: ٦/٢٩٠)
امام ابن عدی نے اسے حدیث کے حوالے سے سخت ضعیف قرار دیا ہے۔
خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ:
"كان عيسى بن مهران شيطاناً من شياطين الرافضة، وبلغني عنه كتاب فيه طعن على الصحابة وتكفيرهم وتفسيقهم، والله إنني قرأته فاقشعر جلدي لما فيه من أحاديث مكذوبة.”
(تاریخ بغداد للخطیب: ١١/١٦٧)
دلیل نمبر 5: عمیر بن اسحاق کی روایت
"عمیر بن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے ساتھ گھر میں موجود تھا۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ دروازے میں داخل ہوئے، پھر باہر آئے اور فرمایا: میں نے زہر پیا ہے…”
(مقاتل الطالبین لأبی الفرج الاصبہانی الشیعی الاموی: ص ٢٠)
تبصرہ:
یہ روایت بھی من گھڑت ہے اور اس کا معنیٰ و مفہوم وہی ہے جو اس سے پہلے بیان کردہ روایات کا تھا۔ اس میں بھی وہی خامیاں اور علتیں موجود ہیں جو پہلے بیان کی گئی روایات میں ہیں، لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
دلیل نمبر 6: یزید اور جعدہ کا قصہ
"ابنِ جعدہ نے کہا کہ جعدہ بنت الاشعت بن قیس، جو سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے نکاح میں تھی، یزید نے اسے کہا کہ حسن کو زہر دے، میں تم سے شادی کرلوں گا۔ اس نے ایسا ہی کیا، اور جب حسن رضی اللہ عنہ وفات پاگئے تو جعدہ نے یزید سے اپنے وعدے کو پورا کرنے کا مطالبہ کیا۔ یزید نے کہا: اللہ کی قسم! ہم نے تجھے حسن کے لیے پسند نہیں کیا تھا، تو اپنے لیے کیسے پسند کریں گے؟”
(تاریخ ابن عساکر: ١٣/٢٨٤؛ المنتظم لابن الجوزی: ٥/٢٢٦)
تبصرہ:
یہ قصہ جھوٹا ہے۔ اس کی بنیاد پر یزید بن عیاض بن جعدہ اللیثی کی روایت ہے، جسے مختلف آئمہ محدثین نے "ضعیف”، "منکر الحدیث”، اور "متروک الحدیث” قرار دیا ہے۔ اس کی توثیق میں کوئی مستند قول نہیں ملتا۔ اس کے بارے میں محدثین کی آراء درج ذیل ہیں:
یزید بن عیاض بن جعدہ اللیثی:
امام یحییٰ بن معین، امام علی بن المدینی، امام بخاری، امام مسلم، امام نسائی، امام ابن عدی، امام ابو زرعہ الرازی، امام ابو حاتم الرازی، امام ساجی، امام جوزجانی، امام عمرو بن علی الفلاس اور دیگر محدثین نے اسے "ضعیف”، "منکر الحدیث” اور "متروک الحدیث” قرار دیا ہے۔
محمد بن خلف بن المرزبان الآجری:
متقدمین میں سے کسی محدث نے اس کی توثیق نہیں کی۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كان رجلاً ضعيفاً في التاريخ”
(سوالات السہمی: ١٠٤)
لہٰذا حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اسے "صدوق” قرار دینا درست نہیں ہے۔
دلیل نمبر 7: جعدہ بنت الاشعت کے حوالے سے امِ موسیٰ کی روایت
"امِ موسیٰ بیان کرتی ہیں کہ جعدہ بنت الاشعت بن قیس نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو زہر پلایا، جس سے آپ بیمار ہوگئے۔ آپ کے نیچے ایک برتن رکھا جاتا اور دوسرا اٹھایا جاتا، تقریباً چالیس دن تک یہ سلسلہ چلتا رہا۔”
(تاریخ ابن عساکر: ١٣/٢٨٤)
تبصرہ:
اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں موجود یعقوب نامی راوی کا تعین درکار ہے، اور امِ موسیٰ سے اس کا سماع بھی ثابت نہیں ہے۔ اس لیے اس روایت پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
مجموعی تجزیہ:
وہ تمام روایات جن میں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ یا یزید کے بارے میں یہ الزام ہے کہ انہوں نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا تھا، وہ سب کی سب من گھڑت اور غیر مستند ہیں۔ اگر ان سندوں کے علاوہ کسی کے پاس کوئی اور سند موجود ہے، تو اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی روایت قابل اعتبار نہیں ہے، اور بغیر سند اور ضعیف روایات پر عقیدہ بنانا اہل حق کا شیوہ نہیں ہے۔
صحابہ کرام کے بارے میں ضعیف اور بے بنیاد روایات پیش کرنا جائز نہیں
کیونکہ یہ بدگمانی کے دائرے میں آتا ہے، اور بدگمانی سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بدگمانی کو سب سے بڑا جھوٹ قرار دیا گیا ہے۔
رافضی شیعہ عقیدہ کے ساتھ تضاد:
یہ جھوٹی روایات رافضی شیعوں کے عقائد کے خلاف بھی ہیں، کیونکہ شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ:
"الأئمة يعلمون متى يموتون، ولا يموتون إلا باختيارهم.”
(اصول الکافی الکلینی: ١/٢٥٨؛ الفصول المہمہ للجر العاملی: ص ١٥٥)
ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں:
"ما من إمام إلا ويقتل أو يموت مسموماً”
(بحار الانوار للمجلسی: ٤٣/٣٦٤)
جب ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ائمہ عالم الغیب ہیں، تو پھر سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو یہ کیوں نہ پتا چلا کہ ان کے کھانے میں زہر موجود ہے؟
حتمی نتیجہ:
یہ دعویٰ کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو زہر دیا، ایک بہت بڑا جھوٹ اور بے بنیاد الزام ہے، کیونکہ اس بارے میں موجود تمام روایات من گھڑت اور غیر مستند ہیں۔
واللہ اعلم، وعلمہ احکم!