نبیﷺ کے ذکر پر کھڑے ہونا، اور آپﷺ کی حاضری کا دعوی
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

نبیِ اکرم ﷺ کے ذکر پر کھڑے ہونے کا عمل

نبیِ اکرم کے ذکر پر کھڑے ہونا، جیسا کہ محفلِ میلاد میں رائج ہے، بے بنیاد اور غیر مستند عمل ہے۔ یہ عمل محض نفسانی خواہشات اور غلو پر مبنی ہے اور اس کی کوئی اصل نہیں۔ شرعی احکام، قرآن، حدیث، اور اجماعِ امت سے سلف صالحین کی سمجھ کی روشنی میں ثابت ہوتے ہیں، لیکن ان میں سے کسی میں بھی اس عمل کی بنیاد نہیں ملتی، لہٰذا اسے بدعت قرار دیا جاتا ہے۔

محفلِ میلاد میں نبیِ اکرم ﷺ کی حاضری کا دعویٰ

بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ نبیِ اکرم خود محفلِ میلاد میں موجود ہوتے ہیں، جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ یہ ممکن ہے کہ آپ روحانی طور پر تشریف لائیں۔ کچھ افراد اسے معجزہ کی صورت میں ممکن قرار دیتے ہیں۔ تاہم، یہ سب ذاتی خیالات اور دعوے ہیں جن کی قرآن و سنت میں کوئی بنیاد نہیں۔

بیداری کی حالت میں نبیِ اکرم ﷺ کو دیکھنے کا دعویٰ

بعض جاہل صوفی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ بیداری کی حالت میں نبیِ اکرم کو دیکھتے ہیں یا یہ کہ آپ محفلِ میلاد میں حاضر ہوتے ہیں۔ ایسے دعوے نہایت سنگین غلطیاں ہیں، اور یہ لوگ کتاب و سنت اور اہلِ علم کے اجماع کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ دنیاوی زندگی میں وفات پانے والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

(ثُمَّ إِنَّكُم بَعْدَ ذَٰلِكَ لَمَيِّتُونَ، ثُمَّ إِنَّكُم يَوْمَ الْقِيَامَةِ تُبْعَثُونَ)
(المؤمنون: 15-16)
"پھر تم اس کے بعد ضرور مرنے والے ہو، پھر تم روزِ قیامت زندہ کیے جاؤ گے۔”

جو اس کے برعکس بات کرتا ہے، وہ جھوٹ بولتا ہے یا بات کو غلط انداز میں پیش کرتا ہے۔ یہ لوگ اس حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے جسے سلف صالحین نے سمجھا تھا اور جس پر رسول اللہ کے صحابہ اور تابعین چلتے رہے ہیں۔

صحابہ اور تابعین سے ثابت نہیں

جہاں تک نبیِ اکرم کے ذکر پر کھڑے ہونے کا تعلق ہے، تو کسی صحابی، تابعی یا ثقہ مسلمان سے اس عمل کا صحیح سند کے ساتھ کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ لہٰذا یہ عمل قبیح بدعت ہے۔

علماء کی رائے

علامہ عبدالحئی لکھنوی حنفی (1264-1304ھ) اس عمل کے بارے میں لکھتے ہیں:

”…یہ بھی ان جھوٹی باتوں میں سے ہے جو کسی دلیل سے ثابت نہیں۔ صرف احتمال اور امکان ہے، وہ بھی دلیل سے عاری ہے۔”
(الآثار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ لعبد الحی: ص 46)

اسی طرح، علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی (942ھ) فرماتے ہیں:

”بہت سے محبانِ نبی جب آپ کی کسی صفت کا ذکر سنتے ہیں تو تعظیم کے طور پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ قیام ایسی بدعت ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔”
(سبل الہدی والرشاد فی سیرۃ خیر العباد: 1/415)

محدث ابنِ حجر ہیتمی (909-974ھ) بھی فرماتے ہیں:

”یہ بھی بدعت ہے…لوگ اسے تعظیم کی نیت سے کرتے ہیں، لیکن عوام کے لیے اس عمل کا عذر قابلِ قبول ہے، جبکہ خاص لوگوں (علماء) کے لیے نہیں۔”
(الفتاوی الحدیثیۃ لابن حجر الہیتمی: ص 58)

دیوبندی اکابر کا نقطۂ نظر

دیوبندی اکابر میں سے بعض بھی اس قیام کو جائز قرار دیتے ہیں، جیسے کہ حاجی امداد اللہ مکی (م 1317ھ) فرماتے ہیں:

”…اگر احتمال تشریف آوری کا کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں…ذاتِ بابرکات کا بعید نہیں۔”
(امداد المشتاق از اشرف علی تھانوی: ص 56)

اشرف علی تھانوی صاحب بھی اسی رائے کا اظہار کرتے ہیں:

”…اگر بوجہ آئے نام آنحضرت کے کوئی شخص تعظیماً قیام کرے تو اس میں کیا خرابی ہے؟ جب کوئی آتا ہے تو لوگ اس کی تعظیم کے واسطے کھڑے ہو جاتے ہیں۔”
(امداد المشتاق از تھانوی: ص 88)

یہ نقطۂ نظر دراصل بدعت کو تقویت دینے کے مترادف ہے اور سلف صالحین کے طرزِ عمل کے خلاف ہے۔ یہ قیاس مع الفارق ہے، یعنی عالمِ ارواح کو عالمِ اجساد پر قیاس کرنا، حالانکہ دونوں کے احکام مختلف ہیں۔ اس کے علاوہ سلف صالحین میں سے کوئی بھی اس قیاس کا قائل نہیں تھا، اور قرآن و حدیث میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ملتی۔

نبیِ اکرم ﷺ کی تعظیم کی حدود

نبیِ اکرم کی تعظیم ہر مومن کے ایمان کا لازمی جزو ہے، لیکن اس تعظیم کی حدود اللہ اور اس کے رسول متعین کریں گے۔ امام اہلِ حدیث علامہ بشیر احمد سہسوانی (1250-1326ھ) فرماتے ہیں:

”…ہم اہلِ حدیث رسولِ اکرم کی ہر وہ تعظیم بجا لاتے ہیں جو قرآن و سنت میں ثابت ہے، خواہ وہ فعلی ہو، قولی ہو یا اعتقادی۔”
(صیانۃ الانسان عن وسوسۃ دحلان از سہسوانی: ص 244)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ (661-728ھ) بھی فرماتے ہیں:

”رسولوں کی تعظیم تو بس ان کی دی ہوئی خبروں کی تصدیق کرنے، ان کے احکام میں ان کی اطاعت کرنے، ان کی پیروی کرنے اور ان سے محبت کرنے میں ہے۔”
(کتاب الرد علی الاخنائی لابن تیمیہ: ص 24-25)

جبکہ بعض دیگر علماء اس میں وسعت کے قائل ہیں، جیسا کہ احمد یار خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:

”تعظیم میں کوئی پابندی نہیں، بلکہ جس زمانہ میں اور جس جگہ جو طریقہ بھی تعظیم کا ہو، اس طرح کرو، بشرطیکہ شریعت نے اس کو حرام نہ کیا ہو۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی: جلد 1 ص 254)

نبیِ اکرم ﷺ کے ذکر پر کھڑے ہونے کی غیر موجودگی

اگر نبیِ اکرم کے ذکر کے وقت کھڑا ہونا آپ کی تعظیم ہوتی، تو صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین اس سے محروم کیوں رہے؟ صحابہ کرام کی تعظیم اور موجودہ دور میں رائج تعظیمات میں بڑا فرق ہے۔ قرآن و سنت میں دینی معاملات میں عمل کی اجازت کے لیے دلیل ضروری ہوتی ہے، جبکہ دنیاوی امور میں منع کی دلیل درکار ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے، اس مسئلے میں لوگوں نے تعظیم کو شکم پروری اور دنیاوی مفادات تک محدود کر دیا ہے۔

رسول اللہ ﷺ کے قول کا حوالہ

ابو مجلز لاحق بن حمید تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

”…جو شخص یہ پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے لیے بُت بن کر کھڑے ہوں، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم سمجھے۔”
(مصنف ابن ابی شیبہ: 8/586، مسند الامام احمد: 4/91، 93، 100، الادب المفرد للبخاری: 977)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ وعید اس صورت میں ہے جب لوگ کسی بیٹھے ہوئے کے لیے کھڑے ہوں، جبکہ کسی آنے والے کے لیے کھڑا ہونا اس سے مراد نہیں۔ اس کی مزید تشریح محدث البانی نے بھی کی ہے:

”…بیٹھنے والوں کا باہر سے آنے والے کے لیے کھڑا ہونا ناپسندیدہ عمل ہے۔”
(السلسلۃ الصحیحۃ للالبانی: 1/629)

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

”…صحابہ کرام میں سے کوئی بھی نبیِ اکرم کو دیکھ کر کھڑا نہ ہوتا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ آپ اسے ناپسند کرتے ہیں۔”
(مسند الامام احمد: 3/134، وسندہ، صحیحٌ، سنن الترمذی: 2754)

سلف صالحین کا طرزِ عمل

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”نبیِ اکرم اور خلفائے راشدین کے زمانے میں سلف صالحین کی یہ عادت نہ تھی کہ جب وہ نبی کو دیکھیں، کھڑے ہو جائیں، جیسا کہ آج کل لوگ کرتے ہیں۔”
(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 1/374)

فائدہ نمبر 1: سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا اور نبیِ اکرم ﷺ کا باہمی احترام

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ:

"سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جب رسول اللہ کے پاس آتیں تو آپ ان کی طرف کھڑے ہو جاتے، ان کا ہاتھ پکڑتے، اسے بوسہ دیتے اور انہیں اپنی جگہ پر بٹھا دیتے۔ اسی طرح جب نبیِ اکرم ان کے ہاں تشریف لاتے تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کی طرف کھڑی ہوتیں، آپ کا ہاتھ پکڑتیں، اسے بوسہ دیتیں اور آپ کو اپنی جگہ پر بٹھاتیں۔”
(سنن ابی داود: 5217، سنن الترمذی: 3872، سند: صحیح)

اس روایت کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ نے (6952) اور امام حاکم رحمہ اللہ نے (4/264) صحیح قرار دیا ہے، اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ یہ قیام جائز ہے۔ اگرچہ یہ روایت کچھ دیگر روایات کے بظاہر خلاف نظر آتی ہے، تاہم ان کے درمیان تطبیق ممکن ہے۔ شیخ الاسلام ثانی علامہ ابنِ قیم رحمہ اللہ (691-751ھ) اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"کسی شخص کے لیے (تعظیماً) کھڑا ہونا مذموم عمل ہے، لیکن جب کوئی آئے تو اس کے استقبال کے لیے کھڑے ہونے میں کوئی حرج نہیں۔ اس سے تمام احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔”
(شرح ابن القیم لسنن ابی داود مع عون المعبود: 14/127)

فائدہ نمبر 2: نبیِ اکرم ﷺ کا رضاعی والدین کی تعظیم کرنا

عمرو بن السائب بیان کرتے ہیں کہ انہیں یہ روایت پہنچی:

"ایک دن رسول اللہ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے۔ آپ نے ان کے لیے اپنی چادر کا ایک حصہ بچھا دیا، وہ اس پر بیٹھ گئے۔ پھر آپ کی رضاعی والدہ آئیں تو آپ نے چادر کی دوسری جانب ان کے لیے بچھا دی، وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو نبیِ اکرم نے کھڑے ہو کر ان کو اپنے سامنے بٹھا لیا۔”
(سنن ابی داود: 5145)

تبصرہ: اس روایت کی سند "مرسل” ہونے کی وجہ سے "ضعیف” ہے۔

فائدہ نمبر 3: سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کا نبیِ اکرم ﷺ کا استقبال کرنا

سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:

"نبیِ اکرم تشریف لائے۔ جب سیدنا عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف کھڑے ہوئے، آپ کی دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا، اور پھر آپ کو اپنی دائیں جانب بٹھا لیا۔”
(المعجم الکبیر للطبرانی: 1/235، المعجم الاوسط للطبرانی: 9246، تاریخ بغداد: 1/63)

تبصرہ: یہ روایت جھوٹی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اسے باطل قرار دیا ہے۔ (میزان الاعتدال: 1/97)۔ اس کے راوی احمد بن رشدین الہلالی کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اسی نے اپنی جہالت کی بنا پر اس روایت کو گھڑا ہے۔”
(میزان الاعتدال: 1/97)

شبہ ضعیفہ اور اس کا ازالہ

اہل بدعت بعض اوقات یہ دلیل دیتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، نبیِ اکرم کی تعظیم میں کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ ان کی دلیل سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

"رسول اللہ ہمارے ساتھ مسجد میں بیٹھ کر باتیں کرتے تھے۔ جب آپ کھڑے ہوتے تو ہم بھی کھڑے ہو جاتے، اور اس وقت تک کھڑے رہتے جب تک آپ کو اپنی کسی زوجہ مطہرہ کے گھر میں داخل ہوتا نہ دیکھ لیتے۔”
(سنن ابی داود: 4775، السنن الکبریٰ للنسائی: 4780، سنن ابن ماجہ مختصراً: 2093، شعب الایمان للبیہقی: 8930)

تبصرہ

یہ روایت "ضعیف” ہے کیونکہ اس کے راوی ہلال بن ابی ہلال المدنی کے بارے میں امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"لا أعرفہ” یعنی "میں اسے نہیں جانتا۔”
(العلل: 1476)

امام ابن شاہین رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں:

"لا أعرفہ” یعنی "میں اسے نہیں جانتا۔”
(الثقات لابن شاہین: 1245)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا بھی یہی قول ہے:

"لا یعرف” یعنی "یہ غیر معروف ہے۔”
(میزان الاعتدال: 4/317)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسے "مقبول” (مستور الحال) قرار دیا ہے (تقریب التہذیب: 7351)، جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اسے "الثقات” (5/503) میں ذکر کیا، لیکن اس کے باوجود یہ راوی "مجہول الحال” ہے۔

روایت کی وضاحت

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852ھ) فرماتے ہیں:

"ممکن ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کھڑے رہنے کا سبب یہ تھا کہ شاید انہیں یہ خیال ہو کہ نبیِ اکرم کو ان کی کسی ضرورت کے لیے دوبارہ بلانے کی زحمت نہ ہو۔ بعد میں، جب میں نے سنن ابی داود کی طرف رجوع کیا، تو وہاں اعرابی کا واقعہ پایا جس میں نبیِ اکرم نے ایک شخص کو بلایا اور اعرابی کے لیے کھجور اور جو کا انتظام کرنے کا حکم دیا، اور پھر صحابہ کو رخصت کیا۔”
(فتح الباری: 11/52-53)

ملا علی قاری کا بیان

ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م 1014ھ) کہتے ہیں:

"شاید صحابہ کرام اس انتظار میں ہوتے کہ نبیِ اکرم کو کسی کی ضرورت پیش آئے یا دوبارہ ان کی طرف تشریف لے آئیں، اور جب انہیں یہ یقین ہو جاتا کہ آپ کو ان کی ضرورت نہیں رہی تو وہ منتشر ہو جاتے۔ آپ کے جانے کے بعد وہ بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے۔”
(مرقاۃ المفاتیح: 13/488)

تعظیم میں قیام کی دلیل کا رد

یہ کہنا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبیِ اکرم کی تعظیم میں کھڑے ہوتے تھے، درست نہیں۔ اور اسے ذکرِ ولادت کے وقت کھڑے ہونے کی دلیل بنانا بالکل غلط ہے۔ یہ قیام، جیسا کہ بیان ہوا، کسی ضرورت یا آداب کے تحت تھا، نہ کہ تعظیم کے لیے۔

سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کا استقبال

سیدنا ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"جب سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تو نبیِ اکرم نے ان کا استقبال کیا، ان کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا: مجھے نہیں معلوم کہ دو چیزوں میں سے مجھے کس بات پر زیادہ خوشی ہے—خیبر کی فتح پر یا جعفر کی آمد پر؟”
(المعجم الکبیر للطبرانی: 2/108، المعجم الاوسط للطبرانی: 2003، المعجم الصغیر للطبرانی: 30)

تبصرہ:

اس روایت کی سند "ضعیف” ہے کیونکہ اس میں راوی احمد بن خالد الحرانی ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"یہ ضعیف ہے، کچھ نہیں، میں نے کسی کو اس کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔”
(سوالات حمزہ السہمی للدارقطنی: ص 148)

حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"واہ” یعنی "یہ کمزور راوی ہے۔”
(المغنی للذہبی: 1/65)

عکرمہ بن ابی جہل رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت

"جب عکرمہ رضی اللہ عنہ نبیِ اکرم کے دروازے پر پہنچے، تو آپ خوشی سے جلدی سے کھڑے ہو گئے۔”
(المغازی للواقدی: 2/850-853، المستدرک للبیہقی: 3/269، المدخل الی السنن الکبریٰ للبیہقی: 710)

تبصرہ:

یہ روایت قابلِ اعتماد نہیں ہے، کیونکہ اس کے راوی محمد بن عمر الواقدی جمہور کے نزدیک "ضعیف” اور "متروک” راوی ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"یہ حدیثیں گھڑتا تھا۔”
(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 7/306)

سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے تو نبیِ اکرم میری قیام گاہ میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے دروازہ کھٹکھٹایا:

"رسول اللہ ان کی طرف مکمل لباس کے بغیر اپنے کپڑے کو سنبھالتے ہوئے کھڑے ہوئے۔ اللہ کی قسم! میں نے اس سے پہلے اور بعد کبھی آپ کو مکمل لباس کے بغیر کسی سے ملتے نہیں دیکھا۔ آپ نے ان سے معانقہ کیا اور ان کو بوسہ دیا۔”
(سنن الترمذی: 2732، وقال: حسن، شرح معانی الآثار للطحاوی: 4/92)

تبصرہ:

یہ روایت "سخت ترین ضعیف” ہے کیونکہ:

اس کا راوی ابراہیم بن یحییٰ بن محمد الشجری "لین الحدیث” ہے (تقریب التہذیب: 268)۔

یحییٰ بن محمد بن عباد المدنی الشجری "ضعیف” ہے، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا:

"یہ نابینا تھا اور لوگوں کی باتوں میں آجاتا تھا۔”
(تقریب التہذیب: 7637)

محمد بن اسحاق المدنی "مدلس” ہیں، اور امام زہری رحمہ اللہ بھی مدلس ہیں، دونوں نے سماع کی تصریح نہیں کی، لہٰذا روایت "ضعیف” ہے۔

سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا واقعہ

جب نبیِ اکرم نے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلایا تو وہ دراز گوش پر سوار ہو کر آئے:

"جب وہ مسجد کے قریب پہنچے تو نبیِ اکرم نے انصار سے فرمایا: قوموا إلی سیّدکم (اپنے سردار کی طرف اُٹھو)۔”
(صحیح البخاری: 2/926، ح: 6262، صحیح مسلم: 2/95، ح: 1768)

اس واقعہ کا مطلب یہ نہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تعظیم میں کھڑے ہوئے۔ دراصل، یہ حکم سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو زخمی حالت میں سواری سے اتارنے کے لیے تھا۔ دیگر روایات میں بھی اسی بات کی وضاحت موجود ہے:

"اپنے سردار کی طرف اُٹھو اور انہیں سواری سے نیچے اُتارو۔”
(مسند الامام احمد: 6/141-142، وسندہ حسن)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس وضاحت کے ساتھ لکھا ہے کہ:

"یہ الفاظ اس واقعہ سے تعظیمی قیام پر استدلال کو رد کرتے ہیں۔”
(فتح الباری: 11/51)

نبیِ اکرم ﷺ کی تعظیم کے لیے کھڑے ہونے کا ثبوت نہیں

یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نبیِ اکرم کے ذکرِ ولادت پر کھڑا ہونا، کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں۔ اس پر عمل کرنے والوں کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے، اور یہ قرآن و حدیث میں قطعی طور پر بے بنیاد ہے، لہٰذا اسے بدعت قرار دیا گیا ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی بریلوی (1324-1391ھ) لکھتے ہیں:

"نبیِ کریم کے ذکر پر کھڑا ہونا سلف صالحین کی سنت ہے۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی: جلد 1 ص 252)

یہ ایک جھوٹا دعویٰ ہے، کیونکہ کسی صحابی، تابعی یا تبع تابعی سے اس کا ثبوت نہیں ملتا، یہاں تک کہ امام ابو حنیفہ اور شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ سے بھی۔

مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں:

"ولادت کے وقت ملائکہ درِ دولت پر کھڑے تھے، اس لیے ولادت کے ذکر پر کھڑا ہونا فعلِ ملائکہ سے مشابہ ہے۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی: جلد 1 ص 253)

یہ بھی بے بنیاد اور بے ثبوت بات ہے۔ اس طرح کے دعوے نہ تو قرآن و حدیث سے ثابت ہیں اور نہ ہی سلف صالحین نے اس کی تصدیق کی ہے۔ ان کے دعوے دراصل لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں ہیں۔

مروّجہ عید میلاد النبی ﷺ بدعت ہے

عید میلاد النبی کی موجودہ شکل، جس میں جشن اور محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے، بدعت ہے اور اس کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اگر قرآن و حدیث میں اس کی کوئی واضح دلیل موجود ہوتی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اس سے ضرور آگاہ ہوتے اور اس پر عمل کرتے۔ اس کے برعکس، یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمل بدعت ہے۔ علمائے کرام نے اس حوالے سے کئی واضح تصریحات دی ہیں:

علمائے کرام کی تصریحات

تاج الدین عمر بن علی فاکہانی رحمہ اللہ (م 734ھ)

"مولد کا عمل مذموم بدعت ہے۔”
(الحاوی للفتاوی للسیوطی: 1/190 [24])

وہ مزید فرماتے ہیں:

"میں اس میلاد کی کوئی دلیل کتاب و سنت میں نہیں پاتا، نہ ہی اس کا عمل ان علمائے امت سے منقول ہے جو دین میں ہمارے پیشوا ہیں۔ یہ بدعت دراصل باطل پرست لوگوں نے ایجاد کی ہے اور یہ نفسانی خواہشات کا نتیجہ ہے جس کا اہتمام شکم پرور لوگ کرتے ہیں۔”
(الحاوی للسیوطی: 1/190-191)

علامہ شاطبی رحمہ اللہ (م 790ھ)

انہوں نے بھی عید میلاد النبی کو بدعت قرار دیا ہے۔
(الاعتصام للشاطبی: 1/39)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ)

وہ فرماتے ہیں:

"یہ عمل سلف صالحین نے نہیں کیا، باوجود اس بات کے کہ تعظیمِ رسول کا تقاضا موجود تھا اور کوئی رکاوٹ بھی نہ تھی۔ اگر یہ عمل سراسر خیر ہوتا یا زیادہ بہتر ہوتا تو اسلاف اس پر عمل کرنے کے ہم سے زیادہ حقدار تھے، کیونکہ وہ رسول اللہ کی محبت اور تعظیم میں ہم سے بڑھ کر تھے اور وہ نیکی کے زیادہ طلبگار تھے۔”
(اقتضاء الصراط المستقیم لابن تیمیہ: ص 295)

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (773-852ھ)

وہ فرماتے ہیں:

"میلاد کے عمل کی اصل بدعت ہے۔ یہ عمل تین (مشہود لہا بالخیر) زمانوں کے سلف صالحین میں سے کسی سے منقول نہیں۔”
(الحاوی للفتاوی للسیوطی: 1/196)

محمد بن محمد بن محمد ابن الحاج (م 737ھ)

وہ لکھتے ہیں:

"اگر میلاد میں گانے نہ ہوں، صرف کھانا بنایا جائے، اور نیت میلاد کی ہو، تو بھی یہ عمل نیت کی وجہ سے بدعت بن جاتا ہے، کیونکہ یہ دین میں اضافہ ہے۔ سلف صالحین نے اس پر عمل نہیں کیا۔ سلف کی اتباع ہی لائقِ عمل ہے۔ سلف صالحین میں سے کسی سے یہ منقول نہیں کہ اس نے میلاد کی نیت سے کوئی عمل کیا ہو۔ ہم سلف صالحین کے پیروکار ہیں۔ ہمیں وہی عمل کافی ہونا چاہیے جو سلف کو کافی تھا۔”
(الحاوی للفتاوی للسیوطی: 1/195)

حافظ سخاوی رحمہ اللہ (831-902ھ)

وہ لکھتے ہیں:

"یہ عمل تینوں زمانوں (صحابہ، تابعین اور تبع تابعین) میں سے کسی نے نہیں کیا۔ یہ تو بعد میں ایجاد ہوا۔”
(‘جاء الحق’ از نعیمی: 1/236)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ (849-911ھ)

"سب سے پہلے جس نے میلاد کو ایجاد کیا، وہ اربل کا بادشاہ مظفر ابو سعید کوکبری تھا۔”
(الحاوی للفتاوی للسیوطی: 1/189 [24])

علمائے کرام کا متفقہ مؤقف

علمائے کرام کی تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ عید میلاد النبی سلف صالحین سے ثابت نہیں ہے، بلکہ یہ بعد میں ایجاد کردہ عمل ہے۔ ابن الحاج رحمہ اللہ (م 737ھ) نے اس سلسلے میں کہا:

"کتنا خوش بخت ہے وہ شخص جو کتاب و سنت پر عمل اور ان کی طرف پہنچانے والے راستے کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے۔ کتاب و سنت کی طرف پہنچانے والا راستہ سلف صالحین کا راستہ ہے، کیونکہ وہ سنت کو ہم سے بہتر جانتے تھے۔”
(المدخل لابن الحاج: 2/10)

علامہ ابن رجب رحمہ اللہ (737-795ھ) فرماتے ہیں:

"جس کام کو چھوڑنے پر سلف صالحین نے اتفاق کیا ہو، اس پر عمل جائز نہیں، کیونکہ بلاشبہ انہوں نے یہ جان کر ہی اسے چھوڑا ہے کہ اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔”
(فضل علم السلف علی علم الخلف لابن رجب: ص 31)

سلف کی اتباع کی اہمیت

یہ بات طے ہے کہ جس کام کو سلف صالحین نے چھوڑا ہو، اس پر عمل کرنا درست نہیں۔ اسی لیے، عید میلاد النبی کا جشن منانا، ذکرِ ولادت کے موقع پر کھڑا ہونا، اور اس طرح کی دیگر بدعات و رسومات سلف صالحین، ائمہ اہل سنت اور متقدمین سے ثابت نہیں ہیں۔ لہٰذا، یہ سب امور بدعات سیئہ اور ناپسندیدہ افعال ہیں۔

نتیجہ

مروّجہ عید میلاد النبی بدعت ہے کیونکہ قرآن و سنت اور سلف صالحین کے طرز عمل میں اس کی کوئی بنیاد موجود نہیں۔ یہ عمل بعد کے لوگوں نے ایجاد کیا، اور علمائے امت نے اس کی سخت مذمت کی ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور تبع تابعین نے اس قسم کی محافل منعقد نہیں کیں، اور نہ ہی کسی نے ذکرِ ولادت پر کھڑے ہونے کو کوئی عبادت قرار دیا۔ اسی لیے یہ تمام رسومات دین میں اضافہ اور بدعت قرار دی جاتی ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے