روایت اُم ایمن رضی اللہ عنہما:
اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مٹی کے برتن کے پاس اٹھے اور اس میں پیشاب فرمایا۔ اسی رات مجھے پیاس لگی تو میں اٹھ کر اس برتن میں جو تھا، وہ پی لیا۔ جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أما إنّک لا یتجعن بطنک أبدا”
"خبردار! بے شک آپ آج کے بعد کبھی اپنے پیٹ میں بیماری نہ پاؤ گی۔”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: ٤/٦٣، ٦٤، حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی: ٢/٦٧، دلائل النبوۃ لابی نعیم الاصبہانی: ٢/٣٨٠، ٣٨١، المعجم الکبیر للطبرانی: ٢٥/٨٩، ٩٠، التلخیص الحبیر لابن حجر: ١/٣١، البدایۃ والنہایۃ لابن کثیر: ٥/٣٢٦، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ لابن حجر: ٤/٤٣٣)
سند پر تبصرہ:
اس روایت کی سند کو "سخت ضعیف” قرار دیا گیا ہے، کیونکہ اس کا راوی عبد الملک بن حسین ابو مالک النخعی "متروک” ہے۔
(تقریب التہذیب لابن حجر: ٨٣٣٧)
ایک تنبیہ یہ ہے کہ ابو یعلیٰ کی سند میں ابو مالک نخعی کا واسطہ حذف ہو گیا ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ابو مالک نخعی، یعلیٰ بن عطاء کے اساتذہ میں شامل ہیں، اور یعلیٰ بن عطاء کے شاگردوں میں ابو مالک نخعی ہیں، جبکہ یعلیٰ بن عطاء کے شاگردوں میں حسین بن حرب نہیں ہیں۔ اس سند کے دو راوی مسلم بن قتیبہ اور الحسین بن حرب کی تصدیق اور پہچان ضروری ہے۔
اس پر دوسرا قرینہ حافظ سیوطی کی بات سے ملتا ہے، جو لکھتے ہیں:
"وأخرج أبو یعلیٰ والحاکم والدارقطنی وأبو نعیم عن أم أیمن”
"ابو یعلیٰ، حاکم، دارقطنی اور ابو نعیم نے اسے ام ایمن سے بیان کیا ہے۔”
(الخصائص الکبری للبیہقی: ٢/٢٥٢)
حافظ سیوطی نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ سند ایک ہی ہے اور اس کا دارومدار ابو مالک نخعی پر ہے، جو کہ متروک ہے، نیز الولید بن عبدالرحمن کا ام ایمن سے سماع بھی ضروری ہے۔
ابو یعلیٰ کے علاوہ باقی سب میں نبیح العنزی اور ام ایمن کے درمیان انقطاع موجود ہے۔
دوسری روایت:
ایک روایت میں یہ بھی ہے:
"فما مرضت قطّ حتّی کانت مرضہا الذی ماتت فیہ”
"تو اس کے بعد وہ خاتون کبھی بیمار نہ ہوئی، سوائے اس بیماری کے جس میں ان کا انتقال ہوا۔”
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ١/٣٢)
اس روایت کی سند "سخت منقطع” اور "مدلس” ہے، اس میں امام عبد الرزاق اور امام ابن جریج دونوں مدلس ہیں، اور مخبر نامعلوم و مجہول ہے۔
فائدہ جلیلہ:
امیمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"إنّ النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم کان لہ قدح من عیدان یبول فیہ، ثمّ یوضع تحت سریرہ، فجاءت امرأۃ یقال لہا برکۃ، جاءت مع أمّ حبیبۃ من الحبشۃ، فشربتہ برکۃ، فسألہا، فقالت: شربتہ، فقال: لقد احتضرتی من النار بحضار، أو قال: جُنَّۃ، أو ہذا معناہ۔”
"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکڑی کا ایک پیالا تھا جس میں آپ پیشاب کرتے تھے، پھر اسے چارپائی کے نیچے رکھ دیا جاتا۔ ایک برکہ نامی عورت، جو امِ حبیبہ رضی اللہ عنہما کے ساتھ حبشہ سے آئی تھی، نے وہ پیالا پی لیا۔ سیدنا زینب رضی اللہ عنہما نے اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ میں نے اسے پی لیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے آگ سے بچاؤ حاصل کر لیا ہے، یا فرمایا: ڈھال بنا لی ہے، یا اسی طرح کی کوئی بات کہی۔”
(الآحاد والمثانی لابن ابی عاصم: ٣٣٤٢، وسندہ حسن، الاستیعاب فی معرفۃ الصحابۃ لابن عبد البر: ٤/٢٥١، وسندہ حسن، المعجم الکبیر للطبرانی: ٢٤/١٨٩، السنن الکبری للبیہقی: ٧/٦٧، وسندہ صحیح)
غالباً یہ عمل اس لونڈی سے غلطی سے سرزد ہوا تھا، اور اس ناپسندیدہ عمل کے بعد جو کراہت اور تکلیف اسے محسوس ہوئی، اس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے اسے جہنم سے نجات عطا فرمائی، کیونکہ مؤمن کی کوئی بھی مشقت یا تکلیف بغیر نیکی کے نہیں ہوتی۔ واللہ اعلم بالصواب!
تنبیہ:
ابو رافع کی بیوی سلمیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل سے بچا ہوا پانی پی لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"حرّم اللّٰہ بدنک علی النار”
"اللہ تعالیٰ تیرے جسم کو آگ پر حرام کرے۔”
(مجمع الزوائد: ٨/٤٨٣)
حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ورواہ الطبرانی فی الأوسط، وفیہ معمر بن محمّد، وہو کذّاب”
"اسے امام طبرانی نے اپنی کتاب الاوسط میں بیان کیا ہے۔ اس میں معمر بن محمد راوی ہے اور وہ کذاب ہے۔”
(مجمع الزوائد: ٨/٢٧٠)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وفی السند الضعف”
"اس کی سند میں کمزوری ہے۔”
(التلخیص الحبیر لابن حجر: ١/٣٢)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے پاک ہونے پر شرعی دلیل:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضلات کے پاک ہونے پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔ تاہم، زکریا تبلیغی دیوبندی صاحب لکھتے ہیں: "حضور کے فضلات، پاخانہ، پیشاب، وغیرہ سب پاک ہیں۔”
(تبلیغی نصاب از زکریا: ١٨٥)
اس بے دلیل اور مبالغہ آمیز دعویٰ کے رد میں جناب اشرف علی تھانوی دیوبندی صاحب کا قول بھی پیش ہے:
"طہارت (پاک ہونے) کا دعویٰ بلا دلیل ہے۔”
(بواد النوادر از تھانوی: ٣٩٣)