حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر پر اعتراضات کا علمی جائزہ

بہت سے لوگ علمی کمی کی بنا پر ان احادیث پر اعتراض کرتے ہیں جن میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عمر بوقت رخصتی نو (9) سال بیان کی گئی ہے۔ ان کے اعتراضات کسی علمی اصول پر مبنی نہیں ہوتے بلکہ اپنی ذاتی رائے اور عقل پر منحصر ہوتے ہیں۔ ان اعتراضات پر تبصرہ کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے حوالے سے احادیث صحیحہ میں جو بات آئی ہے، وہ اجتہادی مسئلہ نہیں بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جسے قبول کرنا ضروری ہے۔ اس کے ٹھوس ہونے کی چند وجوہات ہیں:

1. خود سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی وضاحت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے خود بیان کیا کہ ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس وقت ہوا جب وہ چھ سال کی تھیں، اور رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ یہ وضاحت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے، جو قرآن مجید کے بعد سب سے مستند کتابیں سمجھی جاتی ہیں۔ حدیث ملاحظہ فرمائیں:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا نکاح جب ہوا تو میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ (ہجرت کرکے) آئے۔ یہاں بخار کی وجہ سے میرے بال گرنے لگے، پھر ایک دن میری والدہ ام رومان آئیں۔ اس وقت میں اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی۔ انہوں نے مجھے بلایا اور تھوڑی دیر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہوں نے مجھے آپ کے سپرد کر دیا۔ میری عمر اس وقت نو سال تھی۔

صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، حدیث نمبر: 3894
صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1422

کیا ہشام بن عروہ اس حدیث کے واحد راوی ہیں؟

بعض حضرات دعویٰ کرتے ہیں کہ مذکورہ روایت کی صرف ایک ہی سند ہے، جبکہ یہ حقیقت نہیں ہے۔ یہ روایت متعدد سندوں سے نقل ہوئی ہے۔ مشہور ترین سند ہشام کی ہے: (ھشام بن عروة عن ابیه عن عائشة) جو سب سے صحیح مانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سندِ اعمش (اعمش عن ابراھیم عن الاسود عن عائشة) اور سندِ محمد بن عمرو (محمد بن عمرو عن یحی بن عبد الرحمن بن حاطب عن عائشة) بھی موجود ہیں۔ مزید یہ کہ شیخ ابو اسحاق حوینی نے ہشام بن عروہ اور عروہ بن زبیر دونوں کے متابعین بھی جمع کیے ہیں۔

 کیا ہشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا؟

دوسرا الزام یہ لگایا جاتا ہے کہ ہشام بن عروہ کا حافظہ آخر عمر میں بگڑ گیا تھا۔ یہ دعویٰ صرف ابن قطان نے کیا ہے، اور دیگر علماء اس بات کو نہیں مانتے۔ امام ذہبی بیان کرتے ہیں کہ:

"ہشام بن عروہ بڑے آدمی ہیں، حجہ ہیں، امام ہیں، بوڑھاپے میں حافظہ بگڑا تو تھا مگر ہمہ وقت بگڑا نہیں رہتا تھا۔ ابن قطان کی بات کا کوئی اعتبار نہیں۔ حافظہ بگڑا ضرور تھا مگر ایسا نہیں بگڑا تھا جیسا انتہائی بوڑھے لوگوں کا بگڑ جاتا ہے۔”

(ميزان الاعتدال 4/301-302)

عمر عائشہ رضی اللہ عنہا اور تاریخ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے حوالے سے روایات، تاریخی کتابوں میں موجود سوانحی خاکوں سے مطابقت رکھتی ہیں۔ ان کتابوں میں یہ بیان ملتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش بعثت نبوی کے چار یا پانچ سال بعد ہوئی تھی۔ امام بیہقی اور دیگر علماء نے بھی اس بات کو ذکر کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں ہوا اور رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہجرت کے وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر آٹھ یا نو سال تھی۔

تاریخی دلائل

  • سال وفات سے استدلال: تاریخی کتابوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر انتقال کے وقت 63 سال بیان کی گئی ہے، اور ان کا انتقال 57 ہجری میں ہوا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت کے وقت ان کی عمر چھ سال تھی۔
  • حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے ساتھ عمری فرق: روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تقریباً چودہ پندرہ سال بڑی تھیں۔ اگر ان کے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے درمیان یہ عمر کا فرق ملحوظ رکھا جائے تو یہ حساب صحیح بنتا ہے۔

مشکوک روایت کا جائزہ

بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ حضرت اسماء اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے درمیان دس سال کا فرق تھا۔ تاہم، یہ روایت سنداً درست نہیں ہے اور اس کی بنیاد پر صحیح روایات کو رد کرنا علمی زیادتی ہے۔

جغرافیائی اور تاریخی حالات کا جائزہ

عرب کی گرم آب و ہوا میں بلوغت جلد واقع ہوجاتی ہے، اور اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نو سال کی عمر میں بالغ ہونا بعید از عقل نہیں۔ عرب معاشرت میں نو سال کی عمر میں شادی کرنا غیر معمولی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے بہت سی مثالیں اسلامی تاریخ میں موجود ہیں، جن میں کم عمر لڑکیوں کا نکاح اور بچوں کی پیدائش کا ذکر ملتا ہے۔

موجودہ دور کی مثالیں

آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں کم عمر لڑکیوں کے حاملہ ہونے کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ مختلف اخبارات میں ایسے واقعات کی خبریں شائع ہوتی ہیں، جیسے کہ 1966 میں ایک آٹھ سالہ بچی کے حاملہ ہونے کی خبر روزنامہ ڈان میں شائع ہوئی تھی۔

خلاصہ

مذکورہ بالا دلائل کی روشنی میں، یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی کم عمری میں شادی اور رخصتی کے حوالے سے روایات مستند اور قابل اعتماد ہیں۔ ان اعتراضات کی بنیاد محض ذاتی قیاس آرائیاں اور ناقص معلومات ہیں، جبکہ مستند روایات اور تاریخی شواہد اس کے خلاف ایک مضبوط دلیل فراہم کرتے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے