نظریاتی جنگ: میڈیا کے ذریعے امت کی فکری یلغار

ایک طرف دو سو سال سے مشکلات کا سامنا کرنے والی ایک بدقسمت اور ان پڑھ قوم ہے، جسے شعور کی آخری رمق سے بھی محروم کرنے کے لیے دنیا بھر کے چور اس کے گھر میں نقب لگا کر بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف ہیں وہ ذہین افراد، جو نئے انداز میں، جدید لباس اور سوچ کے ساتھ میڈیا کی اسکرینوں پر نمودار ہوتے ہیں۔ انہیں یہاں مغرب کے نظریات کی جنگ لڑنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ لوگ نہایت تعلیم یافتہ، منصوبہ بند، ذہین اور تربیت یافتہ ہیں، اور ہر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہیں۔ ان کا ہر عمل خوب سوچا سمجھا ہوتا ہے، اور یہ لوگ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترتے ہیں۔

یہ وہ اینکرز، سیاستدان اور دانشور ہیں، جن کا ہر عمل اور رویہ ظاہر کرتا ہے کہ انہیں امتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عقائد، اس کی ثقافت، اور اس کے نظریات کو فرسودہ ثابت کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ ان کا مقصد ان عقائد کو امت کے دلوں سے نکالنا اور ان کی ذہنی بنیادوں سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔ یہ لوگ تہذیبی حملہ آور ہیں جو خود کو ترقی پسند اور جدیدیت کا علمبردار ظاہر کرتے ہیں، اور اپنی باتوں سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ امت کو ایسے دانشور اور علماء میسر نہیں جو اسلام کی حمایت میں اور اس کے دفاع میں میدان میں اتر سکیں۔ ایسے علماء کی کمی ہے جو اس فکری جنگ میں امت کی رہنمائی کریں، اور اسے فکری شعور اور بصیرت سے لیس کریں۔ دوسری طرف، اسلام کے خلاف کام کرنے والے افراد اور تنظیموں کو بڑے بڑے فکری ادارے اور تھنک ٹینکس کی مدد حاصل ہے، جو اپنے منصوبوں سے پہاڑوں کو بھی ہلا سکتے ہیں: (وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ)۔

"گلوبل ولیج” کے ماسٹر پلان کے مطابق یہاں "ڈویلپمنٹ” کا پہلا قدم یہ ہے کہ مذہبی روایات کو ختم کیا جائے اور ثقافتی طور پر ایک نئی راہ ہموار کی جائے۔ اس کے بعد باقی تعمیرات کی جائیں گی۔ جو منصوبے اس کے بعد زیر غور ہیں، ان کا تصور ہی خوفناک ہے۔ چنانچہ آج ہمیں ہر طرف ایسی کوششیں نظر آتی ہیں۔ ہر شعبہ، ہر ادارہ سویا ہوا ہے، سوائے میڈیا کے شعبے کے۔ میڈیا وہ واحد شعبہ ہے جو "پروفیشنلزم” کی انتہا پر پہنچا ہوا ہے، اور اس کی مستعدی کو دیکھ کر ہر باشعور شخص حیران رہ جاتا ہے کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ باقی تمام شعبے بھی اسی ملک کے ہیں، جو اس وقت سستی اور غیر فعالیت کی نیند سو رہے ہیں، مگر میڈیا کا یہ جوش و خروش کس وجہ سے ہے؟ اور کیا اس میں کوئی "زہر” تو نہیں ملا ہوا؟ یہ سوالات ہر درد مند اور حساس دل کے ذہن میں اٹھتے ہیں۔

اس مقصد کے لیے میڈیا پر دانشوروں کے غول چھوڑ دیے گئے ہیں، جو ہمارے نظریاتی وجود کو بے رحمی سے چیر پھاڑ رہے ہیں۔ دین سے کمزور طبقے تو ایک طرف، یہاں تک کہ نماز روزہ کرنے والا طبقہ بھی توحید کے بنیادی عقائد سے بے خبر ہے۔ دشمن جانتا ہے کہ یہ طبقہ اس فکری یلغار کے سامنے زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکے گا اور جلد ہی اس کے بہاؤ میں بہہ جائے گا۔

میڈیا کے وہ چینلز، جنہیں ایک معمولی تعلیم یافتہ شخص بھی دیکھ کر سمجھ سکتا ہے کہ یہ مسلم معاشروں میں یہودی اور فری میسن نظریات کو پھیلانے کا کام کر رہے ہیں۔ ان چینلز پر کبھی کبھار قرآن کی تلاوت نشر کرنا یہاں کے لوگوں کے لیے باعث حیرت نہیں بلکہ ایک نیک عمل سمجھا جاتا ہے۔ شاید یہ ان گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے جو تھوڑی بہت بے پردگی اور ناچ گانے کی شکل میں دن بھر ان سے سرزد ہوتے ہیں۔ اور شاید اس لیے بھی کہ "عوام” یہ سب دیکھنا چاہتے ہیں۔

یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ "توازن” جو ایک بے خدا اور بے حیا تہذیب کو اسلامی شعائر کے ہلکے پردے میں پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، یہ دراصل ایک "پیکیج” ہے، جو اکیسویں صدی کے عالم اسلام کے لیے کفریہ طاقتوں نے تیار کیا ہے۔ یہ محض اتفاق یا بے ربط عمل نہیں ہے بلکہ "اسلام” کا ایک خاص ورژن ہے، جو ہمیں دیا جا رہا ہے۔ اور ہم ہیں کہ اس کے کچھ حصے کو گناہ سمجھتے ہیں اور کچھ کو نیکی کا ذریعہ مانتے ہیں، جبکہ اس پیکیج کے چلانے والے اپنے منصوبے پر مکمل عمل پیرا ہیں اور اسے کامیاب بنا کر وقت کا فیشن بنانے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!