نکاحِ متعہ: دائمی حرمت کے شرعی دلائل اور اجماع
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

حرمت نکاحِ متعہ

اسلامی شریعت، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ہمیں ملی ہے، ایک مکمل اور جامع نظامِ حیات ہے۔ اس میں قیامت تک کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ شریعت نے مختلف حالات اور ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے قوانین کو مستقل حیثیت دی ہے۔ نزولِ وحی کے دور سے لے کر قیامت تک کے لیے شریعت نے ایک مستحکم دستورِ حیات پیش کیا ہے۔ اس کا کمال یہ ہے کہ یہ صرف افراد کے لیے نہیں بلکہ پورے معاشرتی ڈھانچے کو سامنے رکھ کر قوانین بناتا ہے۔ جن امور سے معاشرتی فساد پیدا ہوتا تھا، انہیں تدریجی حکمتِ عملی کے تحت حرام کیا گیا۔ شراب کی مثال واضح ہے کہ کس طرح نرمی سے مسلمانوں کے معاشرتی نظام کو اس سے پاک کیا گیا: پہلے شراب کے نقصانات پر توجہ دلائی گئی، پھر نماز کے اوقات میں نشہ کرنے سے منع کیا گیا، اور بالآخر اسے مکمل طور پر حرام قرار دے دیا گیا۔

نکاحِ متعہ اور اس کی حرمت

نکاحِ متعہ بھی انہی ممنوعہ امور میں شامل ہے جنہیں اسلام نے ہمیشہ کے لیے غیر شرعی قرار دیا۔ جیسے شراب عہد رسالت میں حلال تھی مگر بعد میں حرام کر دی گئی، اسی طرح تدریجی حکمت عملی کے تحت نکاحِ متعہ بھی ایک وقت تک جائز رہا، لیکن بعد میں اسے ہمیشہ کے لیے ممنوع قرار دے کر شرعی نکاح کو ایک لازمی اور قطعی اصول بنا دیا گیا۔ اگر شراب کی حرمت کے بعد اسے حلال قرار دینا ناممکن ہے، تو نکاحِ متعہ کے جواز کے سابقہ حالات کو بنیاد بنا کر اسے درست سمجھنا کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟

نکاحِ متعہ کے نقصانات

نکاحِ متعہ کے فرد اور معاشرے پر نہایت منفی اثرات مرتب ہوتے تھے، جن کی وجہ سے اسے ہمیشہ کے لیے شریعت سے خارج کر دیا گیا۔ جبکہ شرعی نکاح کو برقرار رکھا گیا کیونکہ یہ نکاح کسی بھی فساد سے پاک اور فرد و معاشرے کے لیے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔

نکاح کا مقصد: نکاح کا ایک اہم مقصد عفت و عصمت کی حفاظت ہے، جو نکاحِ متعہ سے حاصل نہیں ہوتا۔
دوام و استحکام: شرعی نکاح کا ایک بنیادی جزو دوام اور استحکام ہے، جو نکاحِ متعہ میں موجود نہیں ہے۔
محبت اور سکون: نکاح محبت، مودّت، اور سکون کا باعث بنتا ہے، جبکہ یہ نکاحِ متعہ میں ناپید ہے۔
کثرت شوہر: شرعی نکاح میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی اجازت ہے، لیکن ایک سے زیادہ شوہروں کا کوئی تصور نہیں۔ اس کے برعکس، نکاحِ متعہ میں عورت کئی شوہروں سے تعلق رکھ سکتی ہے، یہاں تک کہ وہ ایک دن میں متعدد مردوں سے تعلق قائم کر سکتی ہے، جو اسلامی معاشرتی اصولوں کے خلاف ہے۔
سماجی بے راہ روی: نکاحِ متعہ کے ذریعے معاشرہ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے، اور انسانوں میں بدترین رویے فروغ پاتے ہیں۔ نکاحِ متعہ کرنے والی عورت کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس کے بطن میں پرورش پانے والا بچہ کس کا ہے۔ ایسے بچے عموماً پرامن شہری نہیں بنتے، بلکہ معاشرتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں۔

علماء کی رائے اور امت کا اجماع

اسلامی علماء نے نکاحِ متعہ کی حرمت پر اتفاق کیا ہے۔ اس ضمن میں مختلف علماء کی آراء درج ذیل ہیں:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨ھ) نے فرمایا:

”جائز نکاح وہی ہے جو مسلمانوں کے ہاں معروف ہے۔ یہی وہ نکاح ہے جسے اللہ تعالیٰ نے زوجین کے درمیان مودّت و رحمت کا باعث بنایا ہے۔”
(مجموع الفتاوٰی: ٣٢/٩٢، ٩٣)

شیعہ عالم ابو جعفر محمد بن حسن طوسی (م: ٤٦٠ھ)کے مطابق:

”نکاحِ متعہ میں عورت سے یہ پوچھنا ضروری نہیں کہ اس کا شوہر ہے یا نہیں؟”
(النہایہ، ص: ٤٩٠)

شیعہ مذہب میں نکاحِ متعہ کی حیثیت

نکاحِ متعہ شیعہ عقیدے کا ایک بنیادی جزو ہے، جیسا کہ شیعہ فقیہ محمد بن حسن الحر العاملی (م: ١١٠٤ھ) لکھتے ہیں:

”نکاحِ متعہ کا جائز قرار دینا امامیہ کی مذہبی ضرورت ہے۔”
(وسائل الشیعۃ: ٧/٢٤٥)

امت کا اجماع

امتِ مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں نکاحِ متعہ ہمیشہ کے لیے حرام ہو چکا ہے۔ علماء کے اقوال درج ذیل ہیں:

امام ابو عبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (١٥٠۔٢٢٤ھ) نے کہا:

”آج مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نکاحِ متعہ منسوخ ہونے کی بنا پر حرام ہے۔ کتاب و سنت نے اسے منسوخ کہا ہے۔ کسی صحابی سے نکاحِ متعہ کی رخصت دینا ثابت نہیں، سوائے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے۔ لیکن یہ بھی معلوم ہوا کہ انہوں نے بعد میں اس فتویٰ سے رجوع کر لیا۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص: ٨٠)

امام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی رحمہ اللہ (٢٣٨۔٣٢١ھ)نے فرمایا:

”سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتماع میں نکاحِ متعہ سے منع فرمایا۔ کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ ثابت ہوا کہ تمام صحابہ کرام سیدنا عمر کے ہم نوا تھے۔ صحابہ کرام کا یہ اجماع منسوخیتِ متعہ کی ٹھوس دلیل ہے۔”
(شرح معانی الآثار: ٣/٢٦)

امام ابن منذر رحمہ اللہ (٢٤٢۔٣١٩ھ) نے لکھا:

”اوائل اسلام میں متعہ کی رخصت منقول ہے۔ میرے علم کے مطابق سوائے روافض کے کسی نے اسے جائز قرار نہیں دیا۔ کتاب اللہ اور سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف قول کا کوئی وزن نہیں۔”
(فتح الباري لابن حجر: ٩/٧٨)

علامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ (٣٠٥۔٣٧٠ھ) نے فرمایا:

”ہم نے متعہ کے مباح ہونے کے بعد حرام ہونے کے ثبوت پر کتاب و سنت اور سلف کے اجماع کے دلائل بیان کر دیے ہیں۔ … اس بارے میں اسلام کے ابتدائی ادوار میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ تمام علاقوں کے فقہائے کرام نے اس کی حرمت پر اتفاق کیا ہے، وہ اس بارے میں قطعاً اختلاف نہیں کرتے۔”
(أحکام القرآن للجصاص: ٢/١٥٣)

حافظ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رحمہ اللہ (م: ٥١٦ھ) نے لکھا:

”علماء کرام نکاحِ متعہ کے حرام ہونے پر متفق ہیں۔ یہ مسلمانوں کا اجماع ہے۔”
(شرح السنۃ: ٩/١٠٠)

علامہ ابن العربی رحمہ اللہ (٥٤٣ھ) نے بیان کیا:

”سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نکاحِ متعہ کو جائز کہتے تھے، پھر آپ سے اس کے بارے میں رجوع بھی ثابت ہے، لہٰذا اب نکاحِ متعہ کے حرام ہونے پر اجماع ہو چکا ہے۔ جو بھی اس کا مرتکب ہو گا، مشہور مذہب کے مطابق اسے رجم کیا جائے گا۔”
(تفسیر القرطبي: ٥/١٣٢۔١٣٣)

نکاحِ متعہ اور قرآنِ کریم

قرآن مجید میں جنسی تعلقات کے حوالے سے واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

"وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ”

”مومن اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے علاوہ اپنی شرمگاہیں محفوظ رکھتے ہیں۔یہ لوگ ملامت نہیں کیے جائیں گے۔ ان طریقوں سے کے علاوہ کوئی اور راستہ تلاش کرنے والے بغاوت کے مرتکب ہیں۔”

(المؤمنون: 5-7، المعارج: 29-31)

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوی اور لونڈی کے علاوہ کسی سے جنسی تعلقات رکھنا جائز نہیں ہے۔ نکاحِ متعہ میں جس عورت کے ساتھ تعلق قائم کیا جاتا ہے، وہ نہ تو مرد کی بیوی ہوتی ہے اور نہ ہی لونڈی، اس لیے نکاحِ متعہ کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رائے

ام المؤمنین، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ نے نکاحِ متعہ کے بارے میں سوال کیا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیتے ہوئے فرمایا:

"ہمارا فیصلہ کتاب اللہ سے ہوگا۔” پھر انہوں نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
"(وَالَّذِینَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُونَ)” (مومن اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔)
(الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلّام: 131، مسند الحارث [بغیۃ الباحث]: 479، السنن الکبریٰ للبیہقی: 7/206، 207، وسندہ، صحیحٌ)

امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی تائید کی ہے ۔

نکاح کی استطاعت نہ رکھنے والوں کے لیے حکم

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

"وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ نِكَاحًا حَتَّىٰ يُغْنِيَهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ”

”جو لوگ نکاح کی استطاعت نہیں رکھتے، وہ عصمت کی حفاظت کریں، حتی کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔”

(النور: 33)

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے مفسر و فقیہ، علامہ ابو الحسن علی بن محمد طبری رحمہ اللہ (450-504ھ) فرماتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ نے بلا نکاح جنسی تسکین کے حرام ذرائع سے وجوباً منع فرمایا۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ جنسی تعلقات کا جواز نکاح پر منحصر ہے، اور اس لیے باقی تمام ذرائع کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ یہ حکم لونڈیوں کی خریداری پر لاگو نہیں ہوتا، کیونکہ جو شخص نکاح کی استطاعت نہیں رکھتا، وہ لونڈی خریدنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتا۔ یہ آیت نکاحِ متعہ کی حرمت پر بھی دلیل ہے اور مشت زنی کی ممانعت کا بھی ثبوت ہے۔”
(أحکام القرآن: 4/313-314)

نکاحِ متعہ کا جواز ثابت کرنے کی کوشش

بعض افراد سورہ نساء کی آیت نمبر 24 کا حوالہ دے کر نکاحِ متعہ کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

"فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً”

”جن عورتوں سے فائدہ اٹھاؤ، انہیں حق مہر ضرور ادا کرو!”

(النساء: 24)

علامہ قرطبی رحمہ اللہ، ابن خویزمنداد بصری (م: 390ھ) سے نقل کرتے ہیں:

"اس آیت سے متعہ کا جواز اخذ کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاحِ متعہ کو منع فرمایا اور اسے حرام قرار دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
(فَانْكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ)
(تم ان عورتوں سے ان کے ولیوں کی اجازت سے نکاح کرو)۔ معلوم ہوا کہ ولی کی رضا مندی اور دو گواہوں کی موجودگی میں ہونے والا نکاح ہی شرعی ہے، جبکہ نکاحِ متعہ اس طرح کا نہیں ہوتا۔”
(تفسیر القرطبی: 5/129-130)

قرآن کریم سے نکاحِ متعہ ثابت نہیں

ان تفصیلات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرآن کریم سے نکاحِ متعہ کا جواز نہیں نکلتا، بلکہ صرف شرعی نکاح کا جواز ہی ثابت ہوتا ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی رائے

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکاحِ متعہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے یہ آیت یوں تلاوت کی:

"فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْہُنَّ، إِلٰی أَجَلٍ مُّسَمًّی”

”جن عورتوں سے تم ایک مقررہ مدت تک فائدہ اٹھاؤ۔”

(تفسیر الطبری: 9046-9050، وسندہ، صحیح)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا رجوع

ابتدا میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نکاحِ متعہ کو جائز سمجھتے تھے، مگر جب ان پر اس کے منسوخ ہونے کا علم ہوا تو انہوں نے اپنا موقف واپس لے لیا۔ ربیع بن سبرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

ما مات ابن عباس حتٰی رجع عن ہٰذہ الفتیا .

"عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس فتوے سے رجوع کر کے ہی فوت ہوئے۔”

(مسند أبي عوانۃ: 2/273، ح: 2384، وسندہ، صحیح)

تفسیر کی وضاحت

امام طبری رحمہ اللہ (310ھ) نے اس آیت کا صحیح مفہوم یوں بیان کیا ہے:

"اس آیت کی درست تفسیر یہ ہے کہ جن عورتوں سے تم نکاح کر کے جماع کرو، انہیں مہر ادا کرو۔ کیونکہ اس بات پر قوی دلائل موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے متعہ کو حرام قرار دیا ہے، اور یہ اس نکاح سے مختلف ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درست قرار دیا ہے۔”
(تفسیر الطبری: 3/738، طبع دار الحدیث، القاہرہ)

متعہ کا حرام ہونا

اگر کوئی شخص اس آیت سے متعہ کا جواز نکالتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا:

"لوگو! میں نے آپ کو نکاح متعہ کی اجازت دی تھی، لیکن اب اللہ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام قرار دے دیا ہے۔ جس کے پاس ایسی عورت ہو، اسے چھوڑ دے اور اسے دی ہوئی چیزوں میں سے کچھ بھی واپس نہ لے۔”
(صحیح مسلم: 1/451، ح: 1406/21)

لغوی تشریح

مشہور لغوی ابن منظور (630-711ھ) لکھتے ہیں:

"زجاج نے ذکر کیا ہے کہ ایک گروہ نے لغت سے لاعلمی کی بنا پر یہ بڑی غلطی کی ہے کہ انہوں نے آیت
(فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِّہٖ مِنْہُنَّ)
میں متعہ کا ذکر سمجھا، جبکہ اہل علم کا اس کے حرام ہونے پر اجماع ہے۔ دراصل آیت کا مطلب یہ ہے کہ جن عورتوں سے نکاح کیا جائے، ان کا حق مہر ادا کیا جائے۔”
(لسان العرب، مادہ: م ت ع)

علامہ آلوسی حنفی رحمہ اللہ کی وضاحت

علامہ آلوسی حنفی رحمہ اللہ (1252-1317ھ) لکھتے ہیں:

"یہ آیت متعہ کی حلت پر دلالت نہیں کرتی۔ اس آیت کا متعہ سے تعلق سمجھنا ایک غلط تفسیر ہے۔ قرآن کریم کا سیاق و سباق اس سے انکار کرتا ہے۔ اس آیت میں یہ شرط ہے کہ عورتوں سے نکاح کرتے ہوئے مال کا عوض دیا جائے، اور اس میں صرف حلال نکاح کا ذکر ہے۔ متعہ کی صورت میں یہ شرائط پوری نہیں ہوتیں۔”
(تفسیر روح المعانی للآلوسی: 5/6)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) اس آیت کے متعلق لکھتے ہیں کہ اس آیت میں متعہ کے حلال ہونے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ:

"یہاں عورتوں سے فائدہ اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے شرعی نکاح کے بعد تعلق قائم کیا جائے، جس کے بعد حق مہر ادا کرنا واجب ہے۔ یہ حکم متعہ کے لیے نہیں بلکہ شرعی نکاح کے لیے ہے۔”
(منہاج السنۃ النبویۃ فی نقض کلام الشیعۃ والقدریۃ لابن تیمیہ: 2/155)

نکاحِ متعہ اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم

نکاحِ متعہ کو سب سے پہلے غزوہ خیبر کے موقع پر ممنوع قرار دیا گیا تھا۔ بعد میں، فتح مکہ کے وقت تین دن کے لیے اجازت دی گئی، اور اس کے بعد اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا۔

غزوہ خیبر میں ممانعت کی حدیث

غزوہ خیبر کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نکاحِ متعہ کی ممانعت کے بارے میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا:

حدیث نمبر 1:

سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو بتایا:

"نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے موقع پر نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرمایا تھا۔”
(صحیح البخاری: 5115، صحیح مسلم: 1407/30)

ایک اور روایت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے الفاظ یہ ہیں:

"آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے نکاحِ متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا تھا۔”
(صحیح البخاری: 2/606، حدیث: 4216، صحیح مسلم: 1/452، حدیث: 1407)

صحیح مسلم کی ایک اور روایت (1407/31) ہے:

"سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو متعہ کے بارے میں نرمی اختیار کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے ابن عباس! اس فتوے سے رک جائیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن نکاحِ متعہ اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔”

اسی طرح، صحیح مسلم (1407/32) کی روایت میں ہے:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے نکاحِ متعہ کرنے اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔”

حدیثِ علی رضی اللہ عنہ اور محدثین کی رائے

اہل علم نے اس حدیث کی صحت پر متفقہ رائے دی ہے، اور یہ روایت نکاحِ متعہ کی حرمت کے بارے میں واضح ہے۔ ذیل میں محدثین کی آراء پیش کی جا رہی ہیں:

امام ابو جعفر احمد بن محمد نحاس (م: 338ھ):

"سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی حرمت متعہ والی روایت کی صحت پر علما کا اتفاق ہے۔”
(الناسخ والمنسوخ، ص: 322)

حافظ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی رحمہ اللہ (م: 516ھ):

"یہ حدیث متفقہ طور پر صحیح ہے۔”
(شرح السنۃ: 9/99، حدیث: 2292)

حافظ ابو الفرج عبدالرحمن بن علی ابن الجوزی رحمہ اللہ (508-597ھ):

"اس کے صحیح ہونے پر اہل علم کا اتفاق ہے۔”
(إعلام العالم بعد رسوخہ بناسخ الحدیث ومنسوخہ، ص: 343)

حافظ ابو الفضل عبدالرحیم بن حسین عراقی رحمہ اللہ (725-806ھ):

"یہ حدیث متفق علیہ ہے۔”
(شرح البقرۃ والتذکرۃ: 2/66)

حافظ ابو الحسن علی بن محمد بن عبد الصمد سخاوی رحمہ اللہ (558-643ھ):

"یہ حدیث متفق علیہ ہے۔”
(فتح المغیث: 3/350)

امام ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ (194-256ھ):

"سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا ہے کہ متعہ منسوخ ہو گیا ہے۔”
(صحیح البخاری، تحت الحدیث: 5119)

ایک شبہ اور اس کا ازالہ

بعض علما نے اس حدیث میں "یوم خیبر” کے الفاظ کو راوی کا وہم قرار دیا ہے، لیکن یہ درست نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام زہری رحمہ اللہ کے تمام شاگرد اس حدیث میں "یوم خیبر” کے الفاظ بیان کرنے میں متفق ہیں۔

اس کی تائید سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے بیٹے سالم رحمہ اللہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے:

"ایک آدمی نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے متعہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: یہ حرام ہے۔ اس نے کہا: فلاں شخص اسے جائز کہتا ہے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر نے فرمایا: اللہ کی قسم! یہ طے شدہ بات ہے کہ غزوہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام قرار دیا تھا۔ ہم زناکار نہیں ہیں۔”
(الموطّأ لابن وہب: 249، صحیح أبي عوانۃ: 3/29، شرح معاني الآثار للطحاوي: 3/25، السنن الکبرٰی للبیہقی: 7/207، وسندہ، صحیحٌ)

.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سند کو "قوی” قرار دیا ہے

تنبیہ 1: ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ کا اعتراض اور ابن حجر رحمہ اللہ کا جواب

علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ (691-751ھ) لکھتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نکاحِ متعہ کی حرمت کے بارے میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ اس وقت خیبر کی تمام عورتیں یہودی تھیں اور ان سے متعہ ممکن نہیں تھا۔ اس زمانے میں اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح بھی جائز نہیں تھا، چنانچہ متعہ کیسے جائز ہوتا؟ انہوں نے یہ نکتہ بھی بیان کیا کہ اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح سورہ المائدہ کی آیت
(الْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ)
کے نزول کے بعد جائز ہوا، اور یہ سورت نزول قرآن کے لحاظ سے بالکل آخر میں ہے۔
(زاد المعاد: 3/460)

ابن حجر رحمہ اللہ کا جواب

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن قیم کے اعتراض کا جواب دیا:

"حدیث میں اس بات کی صراحت نہیں ملتی کہ صحابہ کرام نے غزوہ خیبر کے دوران متعہ کیا تھا، بلکہ اس میں صرف ممانعت کا ذکر ہے۔ اس سے زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ اس وقت متعہ حلال تھا۔”
(فتح الباری: 9/171)

انہوں نے مزید وضاحت کی:

"یہ بھی ممکن ہے کہ خیبر کے یہود اسلام سے قبل اوس و خزرج کے ساتھ سسرالی رشتہ رکھتے تھے، اس لیے یہ احتمال موجود ہے کہ ان کی خواتین میں سے کسی کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو۔ لہٰذا ابن قیم رحمہ اللہ کا بیان کردہ احتمال درست استدلال نہیں بن سکتا۔”
(فتح الباری: 9/170)

تنبیہ 2: یوم خیبر اور یوم حنین کا اختلاف

سنن نسائی کی ایک روایت
(3369)
میں "یوم خیبر” کی بجائے "یوم حنین” کے الفاظ ہیں۔ تاہم، اس روایت میں "یوم حنین” کے الفاظ کو راوی کی غلطی سمجھا جاتا ہے، کیونکہ زیادہ تر احادیث میں "یوم خیبر” ہی کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ظاہر ہے کہ یہ خیبر سے تصحیف (پڑھنے میں غلطی) ہوئی ہے۔”
(التلخیص الحبیر: 3/155)

فتح مکہ کے موقع پر نکاحِ متعہ کی ابدی حرمت

حدیث نمبر 2:

سیدنا سبرہ بن معبد جہنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لوگو! میں نے نکاح متعہ کی اجازت دی تھی، لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اسے قیامت تک کے لیے حرام کر دیا ہے۔ جس کے پاس ایسی عورت ہو (جس سے متعہ کیا تھا)، وہ اسے چھوڑ دے اور جو کچھ تم نے انہیں دیا تھا، اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔”
(صحیح مسلم: 1406/21)

صحیح مسلم (1406) میں یہ الفاظ بھی ہیں:

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کھڑے ہو کر یہ فرما رہے تھے۔”

ایک اور روایت (صحیح مسلم: 1406/22) میں ہے:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوتے ہوئے متعہ کی اجازت دی، لیکن وہاں سے نکلنے سے پہلے ہی اس سے منع فرما دیا۔”

صحیح مسلم کی تیسری روایت (1406/25) کے الفاظ ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن نکاحِ متعہ سے منع فرما دیا۔”

چوتھی روایت میں یہ بیان ہوا ہے:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا: خبردار! یہ آج کے دن سے قیامت تک کے لیے حرام ہو گیا ہے۔ جس نے کسی عورت کو متعہ کے عوض کچھ دیا ہے، وہ اسے واپس نہ لے۔”
(صحیح مسلم: 1406/28)

احادیث سے اخذ کردہ نتیجہ

ان تمام احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نکاحِ متعہ کو حرام کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، فتح مکہ کے موقع پر بہت محدود مدت، تقریباً تین دن کے لیے اس کی اجازت دی گئی تھی۔ لیکن پھر فتح مکہ کے دن اسے مستقل طور پر حرام قرار دے دیا گیا، اور یہ حرمت قیامت تک کے لیے نافذ رہی۔

متعہ کی حرمت کے حوالے سے دیگر روایات کا جائزہ

متعہ کی حرمت اور غزوۂ اوطاس

سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ اوطاس کے سال متعہ کی تین دن کے لیے اجازت دی، پھر اس سے منع فرما دیا۔”
(صحیح مسلم: 1405/18)

ظاہری طور پر یہ احادیث قیامت تک متعہ کی حرمت کا تعلق مختلف مواقع سے بتاتی ہیں، لیکن حقیقت میں ان احادیث میں کوئی تضاد نہیں، بلکہ یہ دونوں ایک ہی بات بیان کرتی ہیں۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے اس بارے میں وضاحت پیش کرتے ہوئے فرمایا:

"غزوۂ اوطاس اور فتح مکہ کا سال ایک ہی ہے۔ اوطاس کا واقعہ اگرچہ بعد میں پیش آیا، لیکن یہ فتح مکہ کے کچھ ہی عرصہ بعد پیش آیا۔ اس لیے ممانعت کو غزوۂ اوطاس کے سال کی طرف منسوب کیا جائے یا فتح مکہ کے سال کی طرف، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سیدنا سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ تین دن تک متعہ کی اجازت تھی، پھر اس پر حرمت کا حکم نازل ہوا۔ یہی بات سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی ہے۔ یوں دونوں روایات کا تعلق ایک ہی وقت سے ہے۔ اگر واقعۃً سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کی روایت میں فتح مکہ کے بعد غزوۂ اوطاس میں متعہ کی اجازت بیان ہوئی ہو، تو بھی اس اجازت کے بعد حرمت کی روایت موجود ہے، اور اس کے بعد متعہ کی دوبارہ اجازت کا کوئی ذکر نہیں، لہٰذا متعہ کی ابدی حرمت باقی ہے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقی: 7/204)

یعنی، فتح مکہ اور غزوۂ اوطاس دونوں ایک ہی سال پیش آئے، اس لیے کسی نے اسے فتح مکہ کی طرف منسوب کیا اور کسی نے غزوۂ اوطاس کی طرف۔ درحقیقت، متعہ کی ابدی حرمت کا اعلان فتح مکہ کے موقع پر ہی ہو چکا تھا.

ایک اشکال اور اس کا ازالہ

یہاں کسی کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ جب متعہ غزوۂ خیبر میں حرام ہوا تھا، پھر فتح مکہ کے موقع پر تین دن کے لیے اجازت دی گئی، اور پھر قیامت تک کے لیے حرام کر دیا گیا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو متعہ کی حرمت کا ذکر کرتے ہوئے فتح مکہ کا واقعہ بیان کرنا چاہیے تھا، نہ کہ غزوۂ خیبر کا، جس کی حرمت بعد میں منسوخ ہو گئی تھی۔

اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے شارحِ صحیح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جو اجازت دی گئی تھی، وہ بہت مختصر عرصے، یعنی صرف تین دن کے لیے تھی، اس لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع نہ ہو سکی۔”
(فتح الباری: 9/171)

حافظ ابن حجر مزید فرماتے ہیں:

"اس اشکال کو دور کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو فتح مکہ کے دن متعہ کی اجازت معلوم نہ ہو سکی، کیونکہ اس کے فوراً بعد ہی اس سے دوبارہ ممانعت کر دی گئی تھی۔”
(فتح الباری: 9/169)

متعہ کی حرمت اور حجۃ الوداع

پہلے یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ نکاحِ متعہ کی حرمت سب سے پہلے غزوۂ خیبر کے موقع پر کی گئی، پھر فتح مکہ کے وقت تین دن کے لیے اجازت دی گئی، اور پھر قیامت تک کے لیے حرام قرار دیا گیا۔ بعض روایات میں حجۃ الوداع کا تذکرہ بھی ہے، اس بارے میں تحقیق یہ ہے:

سیدنا سبرہ بن معبد رضی اللہ عنہ سے منسوب ایک روایت میں ہے:

"میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے موقع پر نکاحِ متعہ سے منع فرماتے ہوئے سنا۔”
(مسند الإمام أحمد: 3/404، سنن أبي داود: 2072)

یہ روایت "شاذ” (ضعیف) ہے، کیونکہ اسماعیل بن امیہ نے اسے بیان کرنے میں امام زہری رحمہ اللہ کے شاگردوں کی ایک بڑی جماعت کی مخالفت کی ہے، جن میں معمر بن راشد، صالح بن کیسان، سفیان بن عیینہ، عمرو بن حارث وغیرہ شامل ہیں۔

امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"امام زہری سے بیان کرنے والے زیادہ شاگردوں کی روایت راجح ہے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقی: 7/204)

اس روایت میں صرف متعہ کی ممانعت کا ذکر ہے، اجازت کا نہیں۔ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کی حرمت کا اعلان تو فتح مکہ کے موقع پر کیا تھا، البتہ حجۃ الوداع کے موقع پر اس کا دوبارہ اعلان اس لیے کیا گیا تاکہ اس کی حرمت کو مزید مؤکد کر دیا جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں:

"شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کا اعلان دوبارہ اس لیے کیا ہو کہ یہ بات خوب نشر ہو جائے اور جو پہلے نہیں سن سکا، اب سن لے۔”
(فتح الباری: 9/170)

سنن ابن ماجہ (1692)میں بھی ربیع بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے عبدالعزیز بن عمر راوی نے حجۃ الوداع کے "شاذ” الفاظ بیان کیے ہیں، جیسا کہ امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"اسی طرح اکابر محدثین کی ایک جماعت، مثلاً ابن جریج اور سفیان ثوری وغیرہ نے عبدالعزیز بن عمر سے حجۃ الوداع کے الفاظ نقل کیے ہیں، لیکن یہ (عبدالعزیز بن عمر کا) وہم ہے۔ زیادہ راویوں نے ربیع بن سبرہ سے یہی بیان کیا ہے کہ متعہ کی حرمت فتح مکہ کے موقع پر ہوئی تھی۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقی: 7/207)

متعہ کی حرمت اور غزوۂ تبوک

فقیہِ امت، سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ تبوک کے لیے نکلے۔ دورانِ سفر ہم ثنیۃ الوداع کے مقام پر ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چراغ دیکھے اور کچھ عورتوں کو روتے ہوئے پایا۔ آپ نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ عرض کیا گیا: یہ وہ عورتیں ہیں جن سے متعہ کیا گیا تھا اور وہ رو رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نکاح، طلاق، عدت اور وراثت نے متعہ کو حرام کر دیا ہے۔”
(مسند أبى یعلٰی: 6625، سنن الدارقطنی: 3/259، شرح معاني الآثار للطحاوي: 3/26)

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے "صحیح” اور حافظ ابن قطان فاسی و حافظ ابن حجر رحمہما اللہ نے "حسن” قرار دیا ہےاوی مؤمل بن اسماعیل کو جمہور محدثین نے "ثقہ اور حسن الحدیث” قرار دیا ہے۔

حدیث کا مفہوم

یہ حدیث اس بات کا ثبوت نہیں کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر متعہ کی حرمت کا حکم پہلی مرتبہ دیا گیا تھا، بلکہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ متعہ کی حرمت پہلے سے نازل ہو چکی تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اسے دوبارہ بیان فرمایا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"غزوۂ تبوک کے واقعے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ وضاحت نہیں کہ صحابہ کرام نے اس موقع پر عورتوں سے متعہ کیا۔ ممکن ہے کہ متعہ پہلے ہو چکا ہو اور بعد میں عورتوں سے جدائی اور ممانعت بیان کی گئی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ممانعت پہلے سے موجود ہو، لیکن بعض صحابہ کرام کو اس کا علم نہ ہوا ہو اور وہ رخصت پر عمل پیرا رہے ہوں۔”
(فتح الباری: 9/170)

جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کی روایت

سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما کا بیان ہے:

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ تبوک کے لیے نکلے۔ جب ہم شام کی طرف عقبہ کے قریب پہنچے، تو کچھ عورتیں آئیں۔ ہم نے ان سے متعہ کا معاہدہ کر لیا، وہ ہمارے خیموں میں گھوم رہی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں دیکھ کر فرمایا: یہ عورتیں کون ہیں؟ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ وہ عورتیں ہیں جن سے ہم نے متعہ کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے میں آ گئے، حتی کہ آپ کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے اور چہرے کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر ہمیں متعہ سے منع فرمایا۔ ہم مردوں اور عورتوں نے اسی وقت جدائی اختیار کی اور دوبارہ ایسا کبھی نہ کیا۔ اسی وجہ سے اس مقام کا نام ثنیۃ الوداع (جدائی کی گھاٹی) پڑ گیا۔”
(الاعتبار في الناسخ والمنسوخ من الآثار، ص: 178، نصب الرایہ للزیلعی: 3/179)

روایت کی حقیقت

یہ روایت باطل (جھوٹی) ہے، کیونکہ:

اس کا ایک راوی عباد بن کثیر "متروک” ہے۔

دوسرے راوی عبد اللہ بن محمد بن عقیل جمہور محدثین کے نزدیک "ضعیف” ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"اکثر محدثین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔”
(المجموع شرح المہذّب: 1/155)

علامہ مناوی رحمہ اللہ نے بھی حافظ ابو الفتح یعمری سے نقل کیا ہے:

"جمہور محدثین نے اسے حافظے کی خرابی کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔”
(فیض القدیر: 5/527)

متعہ اور عمرۃ القضاء

امام معمر اور امام حسن بصری رحمہما اللہ کی طرف منسوب ہے:

"متعہ صرف عمرۃ القضاء کے دوران تین دن حلال ہوا تھا۔ اس سے پہلے یا بعد میں کبھی حلال نہیں ہوا۔”
(مصنّف عبد الرزّاق: 7/503، 504، حدیث: 14040)

یہ قول امام عبد الرزاق رحمہ اللہ کی "تدلیس” کی وجہ سے "ضعیف” ہے۔

کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے متعہ کو حرام کیا تھا؟

بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام میں متعہ پہلے حلال تھا، لیکن سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے حرام قرار دیا۔ آئیے ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں:

سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

"ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں کھجوروں اور آٹے کی ایک مٹھی کے عوض متعہ کیا کرتے تھے، یہاں تک کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عمرو بن حریث کے معاملے میں ہمیں اس سے منع کیا۔”
(صحیح مسلم: 1405/16)

یہ حدیث اس بات کا ثبوت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں متعہ سے منع کیا، نہ کہ انہوں نے خود اسے حرام کیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے متعہ کی حرمت کا علم نہیں تھا اور انہیں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بتانے پر اس کا علم ہوا۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا موقف

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:

"جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، تو انہوں نے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (فتح مکہ کے موقع پر) تین دن متعہ کی اجازت دی تھی، پھر اسے حرام کر دیا۔ اللہ کی قسم! اگر میں کسی بھی شادی شدہ کو متعہ کرتے ہوئے پاؤں گا تو اسے پتھروں سے رجم کر دوں گا، سوائے اس کے کہ وہ چار گواہ لے آئے جو یہ گواہی دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کو حرام کرنے کے بعد پھر حلال کر دیا تھا۔”
(سنن ابن ماجہ: 1963، وسند حسن)

متعہ کی حرمت پر اجماع

اس سلسلے میں امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا قول کہ ہم متعہ کرتے رہے، حتی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں روکا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کا علم نہیں تھا۔ جب انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بیان سے معلوم ہوا، تو انہوں نے اس حکم کو تسلیم کر لیا۔”
(شرح معاني الآثار: 3/26)

اسی طرح علامہ ابو الفتح المقدسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر متعہ سے منع کیا، صحابہ کرام نے انکار نہ کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ متعہ کی حرمت کا ان سب کو علم تھا۔ اگر ان میں سے کوئی اس بات کا علم رکھتا کہ متعہ جائز ہے، تو وہ ضرور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی بات کی مخالفت کرتا۔”
(تحریم نکاح المتعۃ لأبي الفتح المقدسي، ص: 77)

متعہ اور علمائے امت: صحابہ کرام کے فتاویٰ

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فتویٰ

سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے متعہ کی حرمت کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا ہے:

"کسی مرد کے لیے جائز نہیں کہ کسی عورت سے اسلام کے نکاح کے علاوہ کوئی اور نکاح کرے۔ مرد عورت کو حق مہر دے گا اور دونوں ایک دوسرے کے وارث بنیں گے۔ اگر معین مدت کے لیے نکاح کیا جائے کہ وہ عورت اس کی بیوی ہو، لیکن اگر دونوں میں سے کوئی فوت ہو جائے تو دوسرا وارث نہ بن سکے، تو یہ جائز نہیں ہے۔”
(السنن الکبرٰی للبیہقي: 7/207، وسندہ، صحیحٌ)

سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کا موقف

امام عروہ بن زبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

"سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما مکہ میں کھڑے ہوکر ایک شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے دل اندھے ہو چکے ہیں، جیسے ان کی آنکھیں اندھی ہیں، وہ متعہ کے جواز پر فتویٰ دے رہے ہیں۔ پھر انہوں نے اس شخص کو بلایا، وہ کہنے لگا: ‘تم سخت مزاج ہو، قسم سے، متعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہوتا رہا ہے۔’ اس پر سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ‘اپنی ذات پر ذرا تجربہ تو کرو۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے ایسا کیا، تو میں ضرور تمہیں رجم کر دوں گا۔'”
(صحیح مسلم: 1406/27)

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا رجوع

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ابتدائی طور پر متعہ کے جواز کے قائل تھے، لیکن جب انہیں متعہ کی حرمت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان معلوم ہوا، تو انہوں نے اپنے فتویٰ سے رجوع کر لیا۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کا بیان

ابو جمرہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

"میں نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے متعہ کے بارے میں پوچھا، تو ان کے غلام نے کہا: ‘یہ تو غزوات کے دوران جائز تھا، جب عورتیں کم تھیں۔’ اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ‘آپ نے سچ فرمایا۔'”
(شرح معاني الآثار للطحاوي: 3/26، وسندہ، حسنٌ)

علماء کا بیان

امام طحاوی رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں:

"یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، جو فرماتے ہیں کہ متعہ اس وقت جائز تھا، جب عورتیں کم تھیں، اور جب عورتیں زیادہ ہو گئیں، تو جواز کی وجہ ختم ہو گئی۔”
(شرح معاني الآثار: 3/26)

مشہور لغوی ابن منظور افریقی (282۔370ھ) لکھتے ہیں:

"ہمارے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما متعہ کو حلال سمجھتے تھے، پھر جب انہیں معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا تھا، تو انہوں نے اس کو حلال قرار دینے سے رجوع فرما لیا تھا۔”
(لسان العرب: 8/330)

تابعین کا موقف

امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ

امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"متعہ کو وراثت نے منسوخ کر دیا ہے۔”
(مصنف ابن أبي شیبۃ: 3/551، ح: 17070، وسندہ، صحیحٌ)

امام عروہ بن زبیر رحمہ اللہ

سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد، امام عروہ بن زبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"خبردار! نکاح متعہ زنا ہی ہے۔”
(الناسخ والمنسوخ للقاسم بن سلّام: 130، مصنف ابن أبي شیبۃ: 3/552، وسندہ، حسنٌ)

امام مالک رحمہ اللہ اور متعہ کی نسبت

ہدایہ میں امام مالک کی طرف متعہ کا جواز منسوب کرنا

صاحب ہدایہ، علامہ مرغینانی حنفی (م: 593ھ) نے لکھا ہے:

"امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ متعہ جائز ہے۔”
(الہدایۃ شرح بدایۃ المبتدي: 2/333)

لیکن یہ نسبت درست نہیں ہے اور کئی دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے:

➊ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "موطا” میں متعہ کی حرمت کی حدیث ذکر کی ہے۔
➋ علمائے حق میں سے کسی نے بھی امام مالک رحمہ اللہ کی طرف اس قول کو منسوب نہیں کیا۔
➌ مالکی کتب میں متعہ کی حرمت پر اجماع لکھا گیا ہے۔
➍ امام ابن ہمام حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "امام مالک کی طرف اس قول کی نسبت غلط ہے۔”
(فتح القدیر: 3/247)

اہل حجاز اور متعہ کا مسئلہ

امام اوزاعی رحمہ اللہ کی طرف منسوب قول میں اہل مکہ کی طرف متعہ کے جواز کی نسبت کی گئی ہے، لیکن اس کی سند کمزور ہے اور اس کے راوی غیر معتبر ہیں۔

متعہ اور حج تمتع کا فرق

بعض لوگوں نے حج تمتع کو متعہ کے معنی میں لے کر غلط فہمی پیدا کی ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ بعض احادیث میں حج تمتع کو "متعہ” کہا گیا ہے۔ یہ دراصل حج تمتع کی طرف اشارہ ہے، نہ کہ نکاح متعہ کی طرف۔

سیدنا اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کا بیان

مسلم القری تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:

"ہم سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور ان سے عورتوں کے متعہ (حج) کے بارے میں سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسا کیا۔”
(السنن الکبرٰی للنسائي: 5515، مسند أبي داو،د الطیالسي: 1742، وسندہ، حسنٌ)

اس حدیث سے مراد حج تمتع ہے، جسے مجازاً متعہ کہا گیا ہے۔

خلاصہ

قرآن، سنت اور اجماعِ امت کی رو سے نکاحِ متعہ ہمیشہ کے لیے حرام قرار دیا گیا ہے۔ مختلف روایات، صحابہ کرام کے فتاویٰ، اور تابعین و علماء کے بیانات سے ثابت ہوتا ہے کہ متعہ کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی منسوخ ہو چکا تھا۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!