نابینا کی امامت
شریعت کی رو سے نابینا شخص کی امامت بلا کراہت جائز اور درست ہے۔
➊ امام ابن المنذر رحمہ اللہ (242-319ھ) کا قول
امام ابن المنذر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَإِبَاحَۃُ إِمَامَۃِ الْـأَعْمٰی کَالْإِجْمَاعِ مِنْ أَہْلِ الْعِلْمِ . "نابینا کی امامت کے جواز پر تقریباً اہل علم کا اجماع ہے۔”
(الأوسط في السنن والإجماع والإختلاف: ٤/١٥٤)
➋ حدیثِ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ
سیدنا محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
إِنَّ عِتْبَانَ بْنَ مَالِکٍ، کَانَ یَؤُمُّ قَوْمَہ، وَہُوَ أَعْمٰی، وَأَنَّہ، قَالَ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا رَسُولَ اللّٰہِ، إِنَّہَا تَکُونُ الظُّلْمَۃُ وَالسَّیْلُ، وَأَنَا رَجُلٌ ضَرِیرُ الْبَصَرِ، فَصَلِّ یَا رَسُولَ اللَّہِ فِي بَیْتِي مَکَانًا أَتَّخِذُہ، مُصَلًّی، فَجَاءَ ہ، رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَیْنَ تُحِبُّ أَنْ أُصَلِّیَ؟ فَأَشَارَ إِلٰی مَکَانٍ مِّنَ الْبَیْتِ، فَصَلّٰی فِیہِ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
"سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی قوم کے امام تھے۔ وہ نابینا تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے گھر اور مسجد کے درمیان اندھیرا اور برساتی نالا حائل ہے، اور میں نابینا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیں تاکہ میں اس جگہ کو نماز کے لیے مخصوص کر سکوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے اور فرمایا: کہاں نماز پڑھوں؟ انہوں نے گھر کے ایک کونے کی طرف اشارہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز پڑھ دی۔”
(صحیح البخاري: ٦٦٧)
➌ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (368-463ھ) کا بیان
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَفِیہِ مِنَ الْفِقْہِ إِجَازَۃُ إِمَامَۃِ الْـأَعْمٰی وَلَا أَعْلَمُہُمْ یَخْتَلِفُونَ فِیہِ .
"اس حدیث سے نابینا کی امامت کا جواز ملتا ہے اور ہمارے علم کے مطابق اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں۔”
(الاستذکار: ٢/٣٦١)
➍ حدیثِ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَخْلَفَ ابْنَ أُمِّ مَکْتُومٍ عَلَی الْمَدِینَۃِ یُصَلِّي بِالنَّاسِ .
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کیا اور وہ لوگوں کو امامت کرواتے رہے۔”
(مسند أبي یعلی: ٧/٤٣٤، ح: ٤٤٥٦؛ المعجم الأوسط للطبراني: ٢٧٢٣؛ معرفۃ السنن والآثار للبیھقي: ٢/٣٧١، ح: ١٤٨٦، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ نے "صحیح” قرار دیا ہے
(2134، 2135)۔ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ (735-807ھ) کا کہنا ہے:
وَرِجَالُ أَبِي یَعْلٰی رِجَالُ الصَّحِیحِ .
"مسند ابو یعلی کی حدیث کے تمام راوی بخاری و مسلم کے راوی ہیں۔”
(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ٢/٦٢)
➎ حدیثِ عبد اللہ بن عمیر رضی اللہ عنہ
عروہ بن زبیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّہ، کَانَ إِمَامَ بَنِي خَطْمَۃَ، وَہُوَ أَعْمٰی عَلٰی عَہْدِ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ .
"عبد اللہ بن عمیر رضی اللہ عنہ نابینا ہونے کے باوجود عہدِ نبوی میں بنو خطمہ قبیلے کے امام تھے۔”
(جامع المسانید والسنن لابن کثیر: ٥/٣٦٥، ح: ٦٦٦٣، وسندہ حسن)
تنبیہ نمبر 1:
زیاد بن عبد اللہ نمیری بصری سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نابینا کی امامت کے بارے میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا:
وَمَا حَاجَتُھُمْ إِلَیْہِ؟
"انہیں اس کی کیا ضرورت ہے؟”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٢/٢١٤، الأوسط لابن المنذر: ٤/١٥٤)
تبصرہ:
اس روایت کی سند "ضعیف” ہے، کیونکہ زیاد بن عبد اللہ نمیری کو جمہور علماء نے "ضعیف” قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے "ضعیف” لکھا ہے۔
(تقریب التھذیب: ٢٠٨٧)
تنبیہ نمبر 2 :
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
کَیْفَ أَؤُمُّہُمْ وَہُمْ یَعْدِلُونِي إِلَی الْقِبْلَۃِ .
"وہ مجھے پکڑ کر قبلہ رخ کرتے ہیں، میں انہیں کیسے امامت کروا سکتا ہوں؟”
(مصنّف عبد الرزاق: ٢/٣٩٦، ح: ٣٨٣٣، مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٢/٢١٤)
تبصرہ:
اس روایت کی سند دو وجوہات کی بنا پر "ضعیف” ہے:
➊ عبدالاعلی بن عامر ثعلبی کو جمہور نے "ضعیف” قرار دیا ہے۔
➋ سفیان ثوری "مدلس” ہیں، اور اس روایت میں انہوں نے سماع کی تصریح نہیں کی ہے۔
تنبیہ نمبر 3:
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
مَا أُحِبُّ أَنْ یَّکُونَ مُؤَذِّنُوکُمْ عُمْیَانَکُمْ، قَالَ: وَحَسِبْتُہ، قَالَ: وَلَا قُرَّاؤُکُمْ .
"مجھے پسند نہیں کہ تمہارے مؤذن اور امام نابینا ہوں۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٢/٢١٤)
تبصرہ:
یہ روایت سفیان ثوری کی تدلیس کی وجہ سے "ضعیف” ہے۔
تنبیہ نمبر 4:
سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا قول ہے:
اَلْـأَعْمٰی لَا یَؤُمُّ .
"نابینا امامت نہیں کروا سکتا۔”
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: ٢/٢١٤، وسندہ صحیحٌ)
تبصرہ:
یہ قول صحیح احادیث اور جمہور سلف کی رائے کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابلِ قبول نہیں ہے۔ حنفی مقلدین، بغیر کسی دلیل کے، صحیح احادیث اور جمہور سلف صالحین کی رائے کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں:
وَیُکْرَہُ تَقْدِیمُ الْعَبْدُ وَالـأَعْرَابِيُّ وَالْفَاسِقُ وَالْـأَعْمٰی وَوَلَدُ الزِّنَا .
"غلام، دیہاتی، فاسق، نابینا اور ولد زنا کی امامت مکروہ ہے۔”
(القدوري، ص: ٢٠، الھدایۃ: ١/١٢٢)
یہ دعویٰ بے دلیل ہے اور ائمہ سلف کی رائے کے برخلاف ہے، لہٰذا اس قول کو قبول نہیں کیا جا سکتا۔ حق وہی ہے جس پر اسلافِ امت عمل پیرا رہے ہیں۔
الحاصل:
نابینا شخص کی امامت شرعی طور پر بلا کراہت جائز ہے۔
خلاصہ:
نابینا شخص کی امامت کے جواز کے متعلق دلائل کا جائزہ لینے کے بعد یہ واضح ہوتا ہے کہ شریعت کی رو سے نابینا کی امامت بلا کراہت جائز ہے۔ متعدد احادیث، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال، اور ائمہ سلف کے فتاویٰ اس کے جواز کی تصدیق کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور متعدد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نابینا شخص کو امام بنانا درست ہے، اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔
کچھ ضعیف روایات اور بعض علماء کے اختلافی اقوال کے باوجود، جمہور اہل علم کے نزدیک نابینا امام کی امامت میں کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ قرآن فہمی اور تقویٰ میں بہتر ہے، تو اس کو امامت کے لیے مقدم کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے جن دلائل کی بنا پر نابینا کی امامت کو مکروہ قرار دیا گیا ہے، وہ صحیح احادیث اور جمہور کے فہم کے خلاف ہیں، اور اس لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔
لہٰذا، نابینا شخص کی امامت کو قبول کرنا اور اسے امامت کے منصب پر فائز کرنا شرعی اصولوں اور سنت نبوی کے مطابق ہے، بشرطیکہ وہ قرآن کا علم رکھنے والا اور تقویٰ میں بہتر ہو۔