دلوں کا باہمی تعلق قدرتی طور پر ہوتا ہے، جسے رسول اللہ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
"الاَرواح جنود مجندۃ”
(صحیح مسلم: 4773)۔
یہ بات انسان کے لیے ایک طرف امید کا پیغام ہے تو دوسری طرف خوف کی وجہ بھی ہے۔ یہ بات کہ "دل کو کس سے لگاؤ ہے؟” تقریباً یہ طے کرتی ہے کہ آخرت میں کسی کا انجام کیا ہوگا۔ وہ دل کتنا خوش قسمت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کے لیے محبت کا جذبہ موجزن ہے۔
محبت کے بارے میں آپ کئی طرح کی تشریحات کر سکتے ہیں، لیکن محبت ایک فطری جذبہ ہے جسے بیان کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ کوئی خدا سے، اس کے نبیوں سے اور جنتی لوگوں سے محبت کرتا ہے، تو کوئی گناہگاروں اور بدبخت لوگوں سے۔ یہ معاملہ انسان کی قسمت پر منحصر ہے، اور جیسا کہ پہلے بیان ہوا، یہ آخرت میں انسان کے انجام کا تعین کرنے والا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"المرء مع من اَحب”,
یعنی "آدمی اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت کرتا ہے”۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت انسان کی خوش بختی کی علامت ہے۔ ہر شخص اپنے دل میں آپ ﷺ کے ساتھ تعلق اور محبت کے اعتبار سے اپنے مرتبے اور مقام کا تعین کر سکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ سے محبت کا دور صرف صحابہ کے زمانے تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ قیامت تک کے لئے جاری و ساری ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"میری اُمت میں سے میرے ساتھ سب سے بڑھ کر محبت کرنے والوں میں وہ لوگ بھی ہوں گے جو میرے بعد آئیں گے۔ ان میں سے ہر ایک شخص یہ تمنا کرے گا کہ وہ اپنی سب دولت خرچ کر دے اور اپنا گھر بار قربان کر دے تاکہ مجھے ایک نظر دیکھ سکے”
(صحیح مسلم 5060)۔
حضرت حسن بصریؒ جب بھی مسجد نبوی کے اس چوبی ستون کا واقعہ بیان کرتے، جسے چھوڑ کر رسول اللہ ﷺ نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کیا، تو وہ بتاتے کہ اس ستون سے ایک ایسی آواز آتی تھی جیسے ایک اونٹنی اپنے بچے سے جدا ہو کر روتی ہے، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے جا کر اس پر اپنا دست مبارک رکھا، تب وہ آواز تھم گئی۔ حسن بصریؒ جب بھی یہ واقعہ سناتے، ان کی آواز بھر آتی اور وہ کہتے:
"خدا کے بندو، یہ تو لکڑی کا بے جان ستون تھا جو رسول اللہ ﷺ کے لیے بے چین ہو گیا تھا۔ تم پر تو آپ ﷺ کا حق اس سے کہیں زیادہ ہے”۔
دنیا میں ہر قوم اپنے بزرگوں کے لیے جذبہ رکھتی ہے۔ ہر اُمت کے لیے کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی بھی سمجھوتے سے ماورا ہوتی ہیں۔ بے شک، ہمارے لیے اللہ، اس کا رسول، اس کی کتاب، اور اس کا دین وہ مقام رکھتے ہیں جن کی تعظیم کے لیے ہم ہر حد تک جا سکتے ہیں، اور بلاشبہ یہ ایک منفرد اعزاز ہے جو آج اس دنیا میں صرف ہمیں حاصل ہے۔ لیکن اگر ہم اس انفرادیت کی قدر نہ کریں تو یہ عظیم اعزاز اپنی تمام تر شان کے باوجود ہمارے ہاتھ سے بڑی حد تک نکل سکتا ہے۔