شبہ:کثرت احادیث
اصل مضمون فضیلۃ الشیخ عَبدالرحمٰن کیلانی رحمہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

کثرت احادیث:

احادیث کی عددی کثرت کے اسباب:

علم حدیث پر منکرین حدیث نے یہ اعتراض بھی بڑی شدومد سے اٹھایا ہے کہ محدثین کے پاس اتنی تعداد میں احادیث آ کہاں سے گئیں؟ وہ نہایت مہیب اور مدہش اعداد و شمار پیش کر کے قارئین کرام کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ان میں سے %95 موضوع اور جعلی احادیث تھیں ۔ جو پانچ فیصد صحیح احادیث تھیں بھی تو وہ اس طرح غلط ملط ہو گئی تھیں کہ ان کو الگ کر دینا کسی بھی انسان کے بس کا روگ نہ تھا۔ لٰہذا محدثین نے اپنے فہم و بصیرت کے مطابق جو بھی احادیث قبول کی ہیں۔ وہ بھی چنداں قابل اعتبار نہیں۔ حالانکہ کثرت تعداد احادیث کے درج ذیل پانچ اسباب میں سے صرف ایک سبب موضوع احادیث کا وجود ہے۔
وہ اسباب درج ذیل ہیں:

بلحاظ وسعت معانی:

سنن اور احادیث میں جو فرق ہے وہ ہم پہلے واضح کر چکے ہیں۔ سنن کا تعلق صرف رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ذات سے ہے۔ جب کہ احادیث کا تعلق بیشمار صحابہ اور تابعین کے اقوال و افعال سے بھی ہے۔ لٰہذا احادیث کی تعداد سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی گناہ زیادہ ہونا لازمی امر ہے۔

بلحاظ اسناد اور طرق:

جس کی مثال ہم پہلے پیش کر چکے ہیں کہ:
«انما الاعمال بالنيات»
ترجمه: اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔“
[صحيح البخارى: كتاب بله الوحي ، باب كيف كان بدء الوحى الخ: 1 ، صحيح مسلم: كتاب الإمارة: باب قوله صلى الله عليه وسلم إنما الأعمال بالنية: 1907]
ایک سنت قولی ہے۔ جب کہ احادیث کے لحاظ سے اس کا شمار سات سو (700) ہے۔ اس لحاظ سے بھی احادیث کی تعداد سنن سے بیسیوں گنا بڑھ جاتی ہے۔

سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دارو مدار زیادہ تر تعامل صحابہ رضی اللہ عنہم پر:

دور نبوی میں سنت کا دارو مدار کتابت و روایت سے زیادہ تعامل صحابہ پر تھا۔ مثلاََ صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسے نماز پڑھتے دیکھتے ویسے ہی پڑھ لیتے۔ یا جو وفود باہر سے مدینہ آتے۔ آپ انہیں چند دن اپنے پاس ٹھہرا کر ، جاتے وقت یہ وصیت کرتے کہ:
«صَلُّوا كَمَا رَأَيْتُمُونِي أَصَلَّى»
ترجمه: ”نماز ایسے پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے ھوئے دیکھتے ھو۔“
[صحيح البخارى: كتاب الآذان: باب الآذان للمسافرين إذا كانوا جماعة الخ: 631]
یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا:
«خُذُوُا عَنّى مَنَا سِكَكُم»
ترجمه: ”مجھ سے حج کے ارکان کی ادائیگی کے طریقے سیکھ لو۔“
[سنن الكبرى للبيهقى: كتاب الحج: باب الإيضاع فى وادي محمر: 5: 125 ، الحديث 9524 – يه روايت صحيح هے. ديكهئے: إرواء الغليل ، الحديث: 1074 ، اس حديث كو الفاظ كے تهوڑے سے اختلاف كے ساته امام مسلم ، امام ابو دائود ، امام ترمذي ، امام نسائي ، امام ابن ماجه ، امام ابو نعيم ، امام ابو يعلٰي اور امام احمد رحمه الله نے بهي روايت كيا هے.]
پھر جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے نماز ، حج ، روزہ ، زکوۃ اور دوسرے احکام کے کوائف و تفصیلات کو روایت و کتابت کرنا شروع کیا تو انھیں چھوٹے چھوٹے ارشادات سے دفتر کے دفتر تیار ہو گئے ۔

موضوع احادیث کا وجود:

اس ضمن میں ہم اپنے مضمون ”وضع حدیث اور وضاعین“ میں بھر پور تبصرہ پیش کر چکے ہیں۔
”مصنف نے اس موضوع پر بڑی تفصیل اور دلیل سے گفتگو فرمائی ہے۔ اس کے لیے ملاحظه هو مصنف رحمہ اللہ کی کتاب: ”آئینۀ پرویزیت“ کے حصه چهارم کے پہلے باب كا ايك عنوان ”وضاعین کون تھے؟ “ نیز ملاحظه ہو حصه چہارم کا چھٹا باب: ”وضع حدیث اور وضاعین۔“ آپ کی گفتگو کا ما حاصل یہ ہے کہ:
مسلمانوں میں منافقین اور مرتدين كا ايک گروه شامل تھا۔ جو آپ کی وفات کے بعد کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ ایک واقعہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانه میں بھی ظاہر ہوا جس کو ابن عدی نے کامل میں سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کی سند سے بیان کیا ہے۔ پھر اس کے بعد وضاعین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔ وہ حدیثیں گھڑنے والے چھ (6) قسم کے لوگ تھے:
1. زنادقه (سیکولرز)
2. اهل تشیع
3. صوفيه
4. امراء وسلاطين
5. معتزلين
6. خوارج
انہوں نے اپنے اپنے فرسودہ نظریات اور باطل عقائد کو سچا ثابت کرنے کے لیے بے شمار احادیث خود گھڑ لیں تھیں۔ جن سے وہ اپنے عقائد کا دفاع کرتے اور اہل حق کے نظریات کا رد کرتے۔ پھر ايک ايک موضوع حدیث کو کئی کئی اسناد سے جب بیان کیا جائے تو لا محاله بظاہر احادیث و روایات کی تعداد بہت زیاده محسوس هو گی۔“

موضوع احادیث کے طرق اور اسناد:

ہم محولہ بالا مضمون میں یہ بھی بتلا چکے ہیں کہ محدثین کو موضوع احادیث کے ساتھ ساتھ ان کی اسناد کو بھی یاد رکھنا پڑتا تھا۔ تاکہ ان سے عوام کو متنبہ رکھ سکیں ۔ تو جس طرح سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب طرق کے لحاظ سے بیان کی جاتی ہیں تو احادیث بیسیوں گنا بڑھ جاتی ہیں۔ اس طرح موضوع احادیث بھی طرق کے لحاظ سے کئی گنا زیادہ شمار ہونے لگی تھیں۔
کثرت احادیث کی بات جب چل ہی نکلی تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ لگے ہاتھوں ان اعتراضات کا بھی جائزہ لیتے چلیں جو اس سلسلہ میں طلوع اسلام کی طرف سے اٹھائے گئے ہیں:

حدیثوں کی تعداد:

احادیث کو مشکوک ثابت کرنے کے لیے حدیثوں کی تعداد کو جس انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ وہ کچھ اس طرح ہے۔ مقام حدیث کے صفحہ نمبر 25 پر زیر عنوان ”کتنی حدیثوں کو رد کر دیا۔“ لکھتے ہیں:
”ضمناً یہ بھی دیکھیے ! ان حضرات کو کس قدر احادیث میں اور ان سے انھوں نے کتنی احادیث کو منتخب کر کے اپنے مجموعہ میں داخل کیا:
➊ امام بخاری رحمہ اللہ:
چھ لاکھ (600,000) میں سے مکررات (تکرار والی ) نکال کر صرف 2762 .
➋ امام مسلم رحمہ اللہ:
تین لاکھ (300,000) میں سے مکررات نکال کر صرف 4248 .
➌ امام ابو دؤد رحمہ اللہ:
پانچ لاکھ (500، 000) میں سے مکررات نکال کر صرف 4800 ۔
➍ امام ترمذی رحمہ اللہ:
(امام ترمذی کی روایات اور تعداد درج کرنا چھوڑ گئے ہیں)
➎ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ:
چار لاکھ (400، 000) میں سے مکررات نکال کر صرف 4000 .
➏ امام نسائی رحمہ اللہ:
دو لاکھ (200,000) میں سے مکررات نکال کر صرف 4321 .
ظاہر ہے کہ جب ردّ و قبول کا دارو مدار جامع الأحاديث (احادیث جمع کرنے والے) کی ذاتی بصیرت ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ لاکھوں کے انبار میں سے جنہیں ان حضرات نے مسترد قرار دے دیا تھا کتنی صحیح حدیثیں بھی ضائع ہو گئیں ہوں گی؟ باقی رہا یہ معاملہ کہ جن احادیث کا ان حضرات نے انتخاب کیا۔ ان میں کتنی حدیثیں ایسی آ گئی ہوں گی جسے کسی صورت میں بھی حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کے اقوال یا افعال قرار نہیں دیا جا سکتا۔“
[مقام حديث صفحه نمبر: 25 ، 26]
امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
”انھوں نے شہر بہ شہر اور قریہ بہ قریہ پھر کر چھ لاکھ (600، 000) کے قریب احادیث جمع کیں۔ ان میں سے انھوں نے اپنے معیار کے مطابق صرف 7200 احادیث کو صحیح پایا اور انھیں اپنی کتاب میں درج کر لیا باقی پانچ لاکھ ترانوے ہزار کو مسترد کر دیا۔
[مقام حديث صفحه نمبر: 22]
اور تیسرے مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ کے متعلق فرمایا:
”ذرا سوچئے کہ اگر امام بخاری رحمہ اللہ پانچ لاکھ چورانوے ہزار (594000) احادیث کو یہ کہہ کر ردّ کر دیتے ہیں کہ وہ ان کی دانست میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہوسکتیں اور اس سے منکر حدیث نہیں قرار پاتے تو اگر آج کوئی شخص ایک حدیث کے متعلق کہتا ہے کہ اس کی بصیرت قرآن کی رو سے (یہ حدیث ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہو سکتی تو وہ کافر اور خارج از اسلام کس طرح قرار پا سکتا ہے؟ وہ در حقیقت ایک جامع حدیث کے فیصلے یا راوی کی روایت کے صحیح ہونے سے انکار کرتا ہے۔ ارشاد نبوی سے انکار نہیں کرتا۔ “
[مقام حديث صفحه نمبر: 56]
مندرجہ بالا اقتباسات سے درج ذیل امور قابل غور ہیں:
کذب بیانی اور دھوکہ دہی:
اقتباس نمبر ایک میں مندرجہ احادیث کی تعداد میں بیس (20) لاکھ (20، 00، 000) سے متجاوز ہے۔ جب کہ ان کی زیادہ سے زیادہ تعداد جو روایات میں مذکور ہے وہ چودہ (14) لاکھ (14، 00، 000) ہے۔ جس میں صرف مندرجہ بالا محدثین ہی شامل نہیں بلکہ دوسرے محدثین بھی شامل ہیں اور اس کثرت تعداد کے پانچ (5) اسباب ہم پہلے بتا چکے ہیں۔ گویا یہ تعداد مختلف طرق و اسانید کی ہے نہ کہ متون ، سنن اور آثار کی ۔ چونکہ محدثین ہر طریق اور سند کو الگ حدیث شمار کرتے ہیں۔ لہذا یہ تعداد انہیں کے شمار کے مطابق ہے۔ متون کے شمار کے مطابق نہیں۔

احادیث کی اصل تعداد:

مکرّرات نکال کر جو اعداد و شمار بیان کیے ہیں وہ متون ، سنن اور آثار مندرج ہیں۔ جسے عرف عام میں حدیث کہا جاتا ہے۔ ان کی مجموعی تعداد بیس (20) ہزار سے متجاوز نہیں۔ پھر بے شمار ایسی احادیث ہیں۔ جو مندرجہ بالا مختلف مجموعوں میں مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں۔ اس طرح ان کی اصل تعداد نصف سے بھی کم رہ جاتی ہے۔ چنانچہ امام حاکم کی تحقیق کے مطابق صحاح ستہ کے علاوہ مسند احمد بن حنبل سمیت صحیح احادیث کی تعداد دس (10) ہزار سے زیادہ نہیں ۔ ان کے اپنے الفاظ یہ ہیں:
«اَلَا حَادِيتُ الَّتِى فِى الدَّرَجَةِ الأولى لَا تَبْلُغُ عَشَرَةَ آلافٍ»
[تَوْحِيهُ النَّظَرِ بحواله: ”تدوين حديث“ صفحه نمبر: 200]
”اعلیٰ درجہ کی حدیثوں کی تعداد دس ہزار تک نہیں پہنچ پاتی ۔“
اب اگر دس ہزار میں زیادہ سے زیادہ وسعت پیدا کی جائے اور صرف صحیح اور اعلیٰ درجہ کی احادیث کے علاوہ حسن اور ضعیف روایتوں کو بھی لیا جائے اور صحاح ستہ اور مسند احمد کے علاوہ دوسری بیسیوں کتب احادیث کو بھی ، جن کا شمار طبقہ سوم اور چہارم میں ہوتا ہے۔ تو ان کی مجموعی تعداد کے متعلق جناب مناظر احسن گیلانی اپنی تصنیف ”تدوین حدیث“ میں لکھتے ہیں:
”بہر حال شمار کرنے سے یہ معلوم ہوا ہے کہ صحیح ، حسن ، ضعیف ہر قسم کی تمام حدیثیں جو اس وقت صحاح ستہ ، مسند احمد اور دوسری کتابوں میں موجود ہیں۔ ان کی تعداد پچاس (50) ہزار (50، 000) بھی نہیں ہے۔ اور یہ ہر رطب و یابس کے مجموعہ کی تعداد ہے۔ تمام کتابوں سے چھان بین کر ابن جوزی ہی نے نہیں ، جن کی تنقید کا معیار بہت سخت ہے۔ بلکہ امام حاکم نے ، جو نرمی اور مسامحت میں مشہور ہیں ، کہا ہے: ”اول درجہ کی صحیح حدیثوں کی تعداد دس ہزار تک بھی نہیں پہنچتی۔“
[تدوين حديث: 195]
یہ بات بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ اس پچاس (50) ہزار کی تعداد میں احادیث کی جملہ اقسام (خواہ وہ احادیث مقبول کے ضمن میں آتی ہوں یا مردود کے ) شامل ہیں۔ مردود احادیث کی اقسام میں موضوعات سب سے کم تر درجہ کی ہیں۔ پھر جب ہمارے طبقہ سوم اور چہارم میں بالخصوص موضوعات کی ایک کثیر تعداد موجود ہے تو اس حقیقت سے کیسے انکار کیا جا سکتا ہے؟

ذخیرہ احادیث میں رطب و یابس کا اندراج:

رہا یہ سوال کہ محدثین نے ہر طرح کے رطب و یابس کو اپنے مجموعوں میں کیوں شامل کر دیا؟ تو اس کا جواب ہم ”وضع حدیث“ میں دے چکے ہیں۔ مختصراً یہ ہے کہ باطل فرقوں کے اس اعتراض کی گنجائش کو ختم کر دیا گیا ہے کہ:
”محدثین نے ہماری روایات کو ضائع کر دیا ہے حالانکہ وہ صحیح تھیں ۔“

صحیح احادیث کی صحت کی عقلی دلیل:

بات ہو رہی تھی صحیح احادیث کی کل تعداد کی کہ وہ دس ہزار تک بھی نہیں پہنچتی۔ تو اب اس تعداد کا اس تحریری سرمایہ احادیث سے مقابلہ کیجیے۔ جو عہد نبوی میں تحریر ہو چکا تھا۔ جس کی تفصیل ہم کتابت حدیث میں پیش کر چکے ہیں اور جس کا ”طلوع اسلام“ کو بھی اعتراف ہے۔ کیا اس بات سے یہ حقیقت واضح نہیں ہو جاتی؟ کہ تیسری اور چوتھی ہجری میں اگر سرمایہ حدیث میں کچھ اضافہ یا ملاوٹ ہوئی بھی تھی تو محققین کی جماعت نے اس کی نشاندہی کر کے اسے پھر سے علیحدہ کر دیا ہے اور اس اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح خدوخال نکھر کر سامنے آ گئے ہیں۔ جس کی اتباع تا قیامت مسلمانوں کے لیے فرض قرار دی گئی تھی اور جس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالی نے لے رکھی تھی۔ یہ تو ظاہر ہے انسانی دنیا میں اللہ تعالی اپنی ذمہ داری انسانوں کے ذریعہ ہی پوری کراتا ہے اور جن انسانوں نے اس ذمہ داری کو پورا کیا وہ یہی محدثین کرام رحمہ اللہ کی جماعت تھی۔

”طلوع اسلام“ کا سفید جھوٹ:

آپ دیکھتے ہیں کہ مندرجہ بالا تینوں اقتباسات میں احادیث کے رد و قبول کے سلسلہ میں ”طلوع اسلام“ نے محدثین (بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ) کے متعلق ”ذاتی بصیرت، اپنے معیار اور اپنی دانست“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ یہ جھوٹ اس لیے ہے کہ محدثین نے احادیث کے ردّ و قبول کے لیے اپنی دانست یا بصیرت کو قطعاً معیار نہیں بنایا۔ بلکہ ان کا معیار روایت و درایت یا چھان بین کے وہ اصول تھے جن کی ابتداء سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے خود کی تھی اور بتدریچ ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے محدثین تک پہنچے تھے۔ نیز یہ سفید جھوٹ اس لیے بھی ہے کہ ”طلوع اسلام“ نے اسی کتاب ”مقام حدیث“ کے صفحہ: 107 ، اور صفحہ: 158 پر ان اصولوں کا ذکر بھی کیا ہے۔
روایت کے معیار کے لیے صفحہ: 30 پر اسماء الرجال، صفحہ: 24 پر ثقاہت کا فیصلہ ، صفحہ: 107 تا 112 ، پر تنقید حدیث ، صفحه: 119، 120 ، پر روایت اور شہادت ، وغیرہ عنوانات کے تحت جو تبصرہ اور تنقید پیش کی گئی ہے۔ اگر روایت کے معیار کے لیے محدثین کے ہاں کوئی اصول ہی نہ تھے اور وہ محض اپنی دانست اور بصیرت سے ردّ و قبول کرتے تھے تو پھر اداره مذکور کو مندرجہ بالا موضوعات پر تبصرہ فرمانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

حدیثوں کے ضیاع کی فکر:

فرماتے ہیں کہ: ”ان لاکھوں کے انبار میں جنہیں ان حضرات نے مسترد کر دیا تھا کتنی صحیح حدیثیں بھی ضائع ہو گئی ہوں گی۔“
ہم یہ عرض کرتے ہیں کہ فکر تو ان لوگوں کو ہونی چاہیے جن کے ہاں حدیث کی کچھ اہمیت ہے اور وہ اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو واجب الاتباع اور دین کا حصہ سمجھتے ہیں ۔ لیکن وہ لوگ جن کے ہاں صحیح حدیث کی بھی فقط اتنی ہیں اہمیت ہو کہ وہ صرف عہد نبوی میں ہی واجب الاتباع یا اسوۂ حسنہ تھی۔ اب اس کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اب زمانہ کے حالات بدل چکے ہیں اور نہ ہی وہ اسے دین کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انھیں ایسی فکر کیوں ہو؟
تاہم اطلاعاً عرض ہے کہ صحیح البخاری میں مرویات [مع اخبار و آثار] کی کل تعداد 9684 ہے۔ اگر آثار اور مراسیل کو حذف کر دیا جائے تو باقی مرفوع احادیث کی تعداد مکررات نکالنے کے بعد 2663 رہ جاتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے باقی پانچ لاکھ نوے ہزار کو مسترد نہیں کیا تھا بلکہ چھوڑ دیا تھا۔ کیونکہ امام مذکور کی یہ کتاب [المختصر] بھی ہے ۔ پھر ایسی نظر انداز شدہ صحیح احادیث جو امام مذکور کی شرائط پر پوری اترتی تھیں وہ بھی ضائع نہیں ہوئیں۔ بلکہ بعد میں آنے والے محدث امام حاکم نے انھیں اپنی تصنیف [مستدرك حاكم] میں جمع کر دیا ہے۔ لٰہذا اس بات پر افسوس کی ضرورت نہیں کہ دین کا کچھ حصہ ضائع ہو گیا ہو گا۔

طلوع اسلام کی اصل شکایت:

اب تیسرے اقتباس کو پھر سامنے لائیے: جو یہ ہے۔
”ذرا سوچئے کہ اگر امام بخاری پانچ لاکھ چورانوے ہزار (594، 000) احادیث کو یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان کی دانست میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہو سکتیں اور وہ منکر حدیث نہیں قرار پاتے تو اگر آج کوئی شخص ایک حدیث کے متعلق کہتا ہے کہ اس کی قرآنی بصیرت کی رو سے (یہ حدیث ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہیں ہو سکتی تو وہ کافر اور خارج از اسلام کسی طرح قرار پا سکتا ہے؟ وہ در حقیقت ایک جامع حدیث (احادیث جمع کرنے والے) کے فیصلے یا راوی کی روایت کے صحیح ہونے سے انکار کرتا ہے ۔ ”ارشاد نبوی سے انکار نہیں کرتا۔“
اس سوال پر تو دراصل ”طلوع اسلام“ ہی کو سوچنا زیادہ مناسب تھا کہ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے؟ لیکن اس نے سوچنے کی ذمہ داری دوسروں پر ڈال دی۔ یہ سوال جن غلط مفروضوں کو اکٹھا کر کے بنایا گیا ہے ان کی کچھ وضاحت ہم ذیل میں کیے دیتے ہیں:
➊ امام بخاری رحمہ اللہ نے جن احادیث کو چھوڑا ان کی حیثیت تین قسم کی تھی:
1. محض طرق و اسانید ، شواہد و توابع کی ، جن کا درج کرنا ضروری نہ تھا۔
2. ایسی احادیث جو آپ کی مقرر کردہ شرائط پر پوری نہ اتر سکیں ۔
مثلاََ: آپ کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ راویوں کا محض ہم عصر ہونا کافی نہیں بلکہ ان کی ملاقات کا ثابت ہونا بھی شرط ہے۔ لیکن امام مسلم رحمہ اللہ کے نزدیک ملاقات شرط نہیں ، لٰہذا بہت کی ایسی صحیح احادیث ہیں جنہیں امام بخاری رحمہ اللہ نے چھوڑ دیا لیکن امام مسلم رحمہ اللہ نے انہیں اپنی صحیح میں درج کیا ہے۔ گویا امام بخاری رحمہ اللہ کا بعض حدیثوں کو چھوڑنا ، حدیث کے «في نفسه» صحت و سقم کی بناء پر نہ تھا بلکہ ان کی مقرر کردہ شرائط پر پورا نہ اترنا تھا۔
3. پھر آپ نے اپنی شرائط پر پوری اترنے والی بھی بہت سے حدیثوں کو اس لیے نظر انداز کر دیا کہ ان کا پورا مفہوم پہلی منتخب شدہ احادیث میں آ چکا تھا۔
➋ امام بخاری رحمہ اللہ نے احادیث کی تحقیق میں اپنی دانست یا پسندیدگی و ناپسندیدگی سے کام نہیں لیا بلکہ روایت و درایت کے ان کڑے معیاروں کو ملحوظ رکھا ہے ۔ جن کی بنیاد سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ڈالی پھر اپنی ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے ، وہ دوسری صدی ہجری کے آخر تک ایک مکمل فن کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس فن کے جملہ علوم کے ماہر تھے اور انھوں نے صحیح بخاری کو مرتب کرنے سے پہلے خود سے بھی اس فن پر چند کتابیں لکھیں۔
➌ امام بخاری رحمہ اللہ کی دانست یا بصیرت محض قرآنی نہ تھی بلکہ دینی تھی۔ جس میں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہے۔ جو انہیں صحابہ ، تابعین اور تبع تابعین کی راہ سے ملی۔
تبع تابعین کا دور 220 ہجری اور بقول بعضے 260 ہجری ہے اور امام صاحب کی پیدائش 194 ہجری اور وفات 257 ہجری ہے۔ لٰہذا آپ کو تبع تابعین سے استفادہ کا بھرپور موقع ملا ہے۔ پھر یہ دینی بصیرت بھی محض متوارث نہ تھی۔ بلکہ یہ بصیرت بھی روایت و درایت کے معیاروں کی سختی سے پابند تھی ۔ اسی بصیرت کے تحت آپ نے لاکھوں کے انبار سے چند احادیث کا انتخاب کیا اور جن احادیث کو آپ نے صحیح سمجھا ان پر خود بھی عمل کیا اور دوسروں نے بھی اسے واجب العمل قرار دیا۔ تا آنکہ کوئی حدیث مزید ردّ و قدح کے بعد صحت کے معیار سے گر نہ جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس انتخاب پر ہر طرف سے مدح و تحسین کی صدائیں بلند ہوئیں۔ کفریا خروج از اسلام تو دور کی بات ہے، جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتی تھی۔

کفر کی اصل وجہ:

اب اس قرآنی بصیرت والے شخص کی طرف آئیے ۔ اس کی قرآنی بصیرت کے ماخذ دو ہیں:
➊ دورِ جاہلیت کی عربی لغت:
➋ زمانہ بھر میں پھیلے ہوئے جدید اور ملحدانہ افکار و نظریات:
اب یہ شخص ان افکار و نظریات کو لغت سے کام لے کر اپنی عقل کی روشنی میں قرآن میں سمونا چاہتا ہے۔ وہ شخص تحریف معنوی ، آیات کی تقدیم و تاخیر اور ان کے جوڑ توڑ میں بڑا دلیر اور مشاق ہے۔ اب عقل کے لیے یہ کام بھی کیا کم ہے؟ کہ وہ شخص سنن رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا پھندا بھی اپنے گلے میں ڈال کر خواہ مخواہ راہ میں رکاوٹیں پیدا کر لے اس شخص کے لیے احادیث میں مذکور اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مفہوم یہ ہو کہ اس کی اتباع صرف صحابہ کے لیے لازم تھی۔ بعد میں آنے والے ادوار میں اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کا مفہوم یہ ہو کہ مرکز ملت جو شریعت وضع کرے اس کی اتباع فی الحقیقت اسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے۔ گویا اس کی نظروں میں تمام تر ذخیرہ احادیث بے کار بھی ہے اور بعد از وقت بھی ۔ لٰہذا آپ ہی بتائیں ایسے شخص کو منکر سنت یا منکر حدیث نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟
رہا امام بخاری رحمہ اللہ کی کسی ایک حدیث سے انکار پر کافر اور خارج از اسلام قرار پانے کا مسئلہ تو اس کا کوئی قائل نہیں۔ مقام حدیث میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے علاوہ اور بھی ”چند نامور ہستیوں“ سے متعلق مذکور ہے کہ وہ بعض حدیثوں کا انکار کر دیتے تھے۔ یا ان پر جرح کی ہے۔ لیکن ان پر محض اس بناء پر کفر کا فتوٰی نہیں لگایا گیا۔
(کہ وہ اس حدیث کے صحیح ہونے پر متفق نہیں ہوتے تھے۔ ان کی تحقیق کے مطابق وہ حدیث صحت کے معیار پر پوری نہیں اترتی تھی)
کفر کا سوال در اصل اس وقت پیدا ہوتا ہے۔ جب کسی سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیح ثابت ہو جانے کے بعد بھی اسے واجب الاتباع نہ سمجھا جائے۔

کثرت احادیث اور صحیفہ ہمام بن منبہ رحمہ اللہ:

مقام حدیث صفحہ: 19 پر پرویز صاحب لکھتے ہیں: ”اس ضمن میں یہ بات قابل غور ہے کہ امام ہمام بن منبہ 58 ہجری سے پہلے مدینہ میں بیٹھ کر احادیث کا مجموعہ مرتب کرتے ہیں اور انھیں صرف 138 حدیثیں ملتی ہیں۔ تیسری صدی ہجری میں جب امام بخاری رحمہ اللہ احادیث کو جمع کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو انھیں چھ (6) لاکھ احادیث مل جاتی ہیں۔
(امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو دس (10) لاکھ اور امام یحیٰی بن معین رحمہ اللہ کو بارہ (12) لاکھ احادیث ملی تھیں۔ )
نیز یہ حقیقت بھی غور طلب ہے کہ جو احادیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ لیکن ان کے شاگرد کے مجموعہ میں کل 138 (ایک سو اڑتیسں) احادیث ہیں۔ بہر حال پہلی صدی ہجری میں انفرادی طور پر جمع کرنے کی جو کوشش ہوئی اس کا ماحصل صحیفہ ہمام بن منبہ رحمہ اللہ کی ایک سو اڑتیس (138) احادیث ہیں۔ اس کے علاوہ اس دور کے کسی تحریری سرمایہ کا سراغ نہیں ملتا۔ “
مندرجہ بالا اقتباس میں آپ نے دو عدد غور طلب حقیقتیں بیان فرمائیں اور تیسرا انہیں غور طلب حقیقتوں کا نتیجہ ۔ اب ہم ان تینوں حقیقتوں پر بالترتیب غور کرتے ہیں:

چند غور طلب حقائق:

❀ پہلی غور طلب بات میں ایک اور غور طلب بات ضمناََ شامل ہو جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمام بن منبہ 58 ھ میں احادیث لکھتے ہیں تو انھیں صرف 138 (ایک سو اڑ تیسں) احادیث ملتی ہیں اور سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ 12 ہجری سے پہلے لکھنے بیٹھتے ہیں تو انھیں 500 (پانچ سو ) احادیث مل جاتی ہیں۔ غور کیجیے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ، ہمام بن منبہ رحمہ اللہ سے 47 سال پہلے لکھنا شروع کرتے ہیں تو انہیں چار گناہ زیادہ احادیث مل جاتی ہیں۔ پھر یہ بات کیا ہوئی؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پانچ سو احادیث لکھنے کی حقیقت کو ”طلوع اسلام“ نے مقام حدیث میں کئی مقامات پر تسلیم کیا ہے۔ جہاں تک احادیث کو تحریر میں لانے اور ان احادیث کے صحیح ترین مجموعہ ہونے کا تعلق ہے۔ اس سے کس کو انکار ہے؟ پھر اس سے ضمناً یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پہلے دور نبوی میں 500 سے زیادہ احادیث بھی تحریر میں آ سکتی ہیں۔ جیسا کہ صحیح روایات سے بھی ثابت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایک ہزار (1000) احادیث پر مشتمل «الصَّحِيفَةُ الصَّادِقَةُ» تحریر کیا تھا۔
❀ دوسری غور طلب بات آپ نے یہ فرمائی کہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی مرویات کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ لیکن ان کے شاگردوں کے مجموعہ میں کل 138 احادیث ہیں۔ یہ غور طلب مسئلہ بھی دراصل کم فہمی پر مینی ہے۔ اگر تو ہمام بن منبہ رحمہ اللہ نے کہیں یہ بھی لکھا ہوتا کہ میں نے اپنے استاد سے ساری حدیثیں اخذ کر لی ہیں تو پھر ”طلوع اسلام“ کا اعتراض بجا تھا۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ نہ امام ہمام رحمہ اللہ نے کہیں یہ لکھا ہے کہ جو کچھ میں نے اپنے استاد سے اخذ کیا اس کا ماحصل یہی 138 احادیث ہیں۔ آج کل بعض لوگ اربعین لکھتے ہیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس نے اپنے استاد سے بس یہی چالیس (40) حدیثیں ہی سیکھی ہیں ۔ یا اس سے آگے یہ نتیجہ نکالنا کہ اس کے استاد کو یہی چالیس (40) حدیثیں ہی معلوم ہوں گی۔ جہالت پر مبنی نہیں تو اور کیا ہے؟
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے آٹھ سو (800) شاگرد تھے۔ جن میں ایک امام ہمام بن منبہ بھی ہیں۔ جس طرح ہر شاگرد نے اپنی بساط کے مطابق استاد سے علم حاصل کیا۔ اسی طرح ہمام بن منبہ رحمہ اللہ نے بھی کیا۔ آپ نے جو مجموعہ مرتب کیا۔ اس کا تعلق صرف اقوال رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، یعنی اس میں قولی حدیثیں درج ہیں۔ فعلی اور تقریری وغیرہ مذکور نہیں۔ پھر ان قولی احادیث میں سے انتخاب میں آپ کی پسند کو بھی خاصا دخل ہے۔ یہ آپ نے کہیں وضاحت نہیں فرمائی کہ جتنی قولی حدیثیں میں نے اپنے استاد سے حاصل کیں۔ وہ سب اس مجموعہ میں درج کر دی ہیں۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برقی نے تاریخ حدیث کے دوسرے حصہ انتخاب حدیث میں صرف سات سو (700 ) احادیث درج کی ہیں اور محترم عبد الغفار حسن نے اپنی کتاب انتخاب حدیث میں صرف چارسو (400) حدیثیں درج کی ہیں۔ تو کیا اس سے یہ مراد لی جا سکتی ہے کہ ان حضرات کا اپنا یا اپنے استادوں کا علم بس اتنی ہی احادیث تک محدود تھا؟
ان دو قابل غور حقیقتوں کے بعد آپ نے جو نتیجہ پیش فرمایا وہ یہ ہے کہ ”پہلی صدی کے آخر تک ماسوائے ان 138 احادیث کے اور کسی تحریری سرمایہ کا سراغ نہیں ملتا ۔ “
آپ کا یہ نتیجہ جھوٹ کا پلندا اس لیے ہے کہ اس تحریر [صفحه نمبر 19 كي تحرير] سے پہلے آپ کو اس تحریری سرمایہ کا بہت کچھ سراغ لگ چکا تھا۔ جو پہلی صدی کے آخر میں نہیں بلکہ دور نبوی میں موجود تھا اور جس کا ذکر آپ نے مقام حدیث کے صفحہ: 10 پر چار (4) نمبروں کے تحت کیا ہے۔ نیز جس پر ہم کتابت حدیث کے ضمن میں اپنا تبصرہ پیش کر چکے ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!