مقروض شخص کی زکوٰۃ کا حکم
ماخوذ: فتاویٰ علمائے حدیث، کتاب الصلاۃ، جلد 1

سوال

اگر کسی شخص کے پاس بینک میں ایک لاکھ روپے موجود ہوں اور اس پر سال گزر جائے، لیکن اسے تقریباً 70,000 روپے کا قرض ادا کرنا ہو، تو کیا وہ اس لاکھ روپے کی زکوٰۃ ادا کرے گا؟ ازراہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جزاکم اللہ خیرا۔

جواب

جی ہاں، زکوٰۃ اس مال پر واجب ہوتی ہے جو نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے، چاہے اس شخص کے ذمے قرض بھی ہو۔ علماء کا صحیح قول یہی ہے کہ قرض زکوٰۃ کی ادائیگی میں مانع نہیں بنتا۔ اس کی دلیل زکوٰۃ کے واجب ہونے کے عموم سے ملتی ہے، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب”
(صحیح بخاری: 714)

"جس شخص نے سورہ فاتحہ نہ پڑھی، اس کی کوئی نماز نہیں ہے۔”

اسی طرح زکوٰۃ کے حوالے سے بھی عمومی اصول یہ ہے کہ جس شخص کے پاس مال ہو، اور وہ نصاب کو پہنچے اور اس پر سال گزر جائے، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے، چاہے اس کے ذمے قرض ہو۔

عمومی دلائل

زکوٰۃ کے وجوب کے تمام عمومی دلائل یہ بیان کرتے ہیں کہ جو مال نصاب کو پہنچ جائے اور اس پر سال گزر جائے، اس کی زکوٰۃ نکالنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا”
(التوبۃ: 103)

’’ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس سے ان کے مال پاک اور صاف ہو جائیں۔‘‘

نبوی عمل

نبی کریم ﷺ نے زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے اپنے عمال کو روانہ کیا اور انہیں یہ ہدایت نہیں دی کہ دیکھیں کہ کوئی شخص مقروض ہے یا نہیں۔ اگر قرض زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہوتا، تو نبی ﷺ اپنے عمال کو یہ حکم دیتے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا قول

"نبوی طریقے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ زکوٰۃ کی وصولی میں مقروض ہونا مانع نہیں ہے۔”
(مجموع فتاوى و مقالات متنوعہ، 14/51)

مقروض شخص کے لیے زکوٰۃ

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ اگر کسی کے پاس 1 لاکھ ریال موجود ہیں اور وہ 2 لاکھ ریال کا مقروض ہے، تو کیا اس پر زکوٰۃ لاگو ہوگی؟ انہوں نے جواب دیا:

"جی ہاں، اس کے پاس جو رقم موجود ہے، اس پر زکوٰۃ واجب ہے۔ زکوٰۃ کے وجوب میں دلائل عام ہیں اور اس میں کسی استثناء کی گنجائش نہیں ہے۔”
(مجموع فتاوى ابن عثیمین، 18/39)

قرض کی ادائیگی کی صورت میں

اگر قرض فوری طور پر ادا کرنا ہو اور اسے سال مکمل ہونے سے پہلے ادا کر دیا جائے، تو صرف باقی رقم پر زکوٰۃ واجب ہوگی، بشرطیکہ وہ نصاب کو پہنچتی ہو۔

خلاصہ

◄ اگر کسی کے پاس مال ہے جو نصاب کو پہنچتا ہے اور اس پر سال گزر چکا ہے، تو اس پر زکوٰۃ واجب ہوگی، چاہے اس پر قرض ہو۔
◄ اگر قرض فوری ہے اور سال مکمل ہونے سے پہلے ادا کر دیا گیا ہو، تو باقی مال پر زکوٰۃ نکالی جائے گی۔
◄ اللہ سے دعا کریں کہ وہ قرض کی ادائیگی میں مدد فرمائے اور مال کی برکت عطا کرے۔
"اے اللہ! میرا قرض ادا کر دے، اور مجھے فقر سے محفوظ رکھ۔”

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!