روشن خیالی اور فرقہ پرستی کا تضاد
تحریر: عمران شاہد بھنڈر

پاکستان میں روشن خیالی اور فرقہ پرستی کے درمیان فرق

روشن خیالی اور فرقہ پرستی کے درمیان فرق محض الفاظ تک محدود رہ گیا ہے۔ روشن خیال افراد طالبان پر تو تنقید کرتے ہیں، مگر ان کی یہ تنقید دراصل روشن خیالی سے زیادہ فرقہ وارانہ سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔

طالبان پر تنقید اور فرقہ پرستی

روشن خیال افراد طالبان کی دہشت گردی کو نشانہ بناتے ہیں، لیکن یہ تنقید فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہوتی ہے۔
جب طالبان کے مخالفین پر تنقید کی جاتی ہے تو ان کے اندر کی فرقہ وارانہ سوچ ظاہر ہو جاتی ہے اور یہ افراد خود کو روشن خیال ظاہر کرتے ہیں۔
جب یہی روشن خیال فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی، بدعنوانی اور لوٹ مار دیکھتے ہیں تو وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں، کیونکہ ان کے فرقہ وارانہ مفادات انہیں اس پر مجبور کرتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی

پاکستان کی تاریخ سے واضح ہے کہ طالبان کی دہشت گردی کا جواز تھا کہ پاکستانی حکمرانوں نے یوٹرن لیا اور امریکہ کی مدد کی، جس پر طالبان نے ردعمل میں دہشت گردی کی۔
کراچی میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی دہشت گردی کے خلاف ان روشن خیال افراد کی خاموشی ایک اہم سوال پیدا کرتی ہے۔
کیا یہ سچ نہیں کہ ان سیاسی جماعتوں نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا، بھتہ خوری، منی لانڈرنگ اور ٹارگٹ کلنگ جیسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہیں؟

فرقہ پرستی کی حقیقت

اگر ان سب سوالوں کے جواب اثبات میں ہیں، تو پھر ان روشن خیال افراد کی جانب سے ان سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی کو نظرانداز کرنے کا سبب کیا ہے؟
کیا یہ محض فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی بنیاد پر ہے یا یہ سوچا جا رہا ہے کہ اگر فوج نے غلطیاں کی ہیں تو سیاسی جماعتوں کو بھی یہ کرنے کا حق ہے؟

نتیجہ

سوال یہ ہے کہ کیا یہ صورتحال ہمیشہ جاری رہے گی؟
کیا معاشرہ خاموش تماشائی بنے گا اور مفاہمت کے نام پر ان سیاسی جماعتوں کی دہشت گردی، لوٹ مار اور بدعنوانیوں کو قبول کرتا رہے گا؟

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے