ارتداد کی سزا اور مذاہب کا رد عمل

بعض متجددین کا اعتراض

بعض متجددین یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر دوسرے ادیان بھی ارتداد پر سزائے موت مقرر کر دیں جیسا کہ اسلام نے کیا ہے، تو یہ عمل اسلام کی تبلیغ کی راہ میں بھی ویسی ہی رکاوٹ بن سکتا ہے جیسے دوسرے ادیان کے لیے بن جاتا ہے۔ اس اعتراض کا اصولی جواب پہلے دیا جا چکا ہے، لیکن اس کا عملی جواب بھی دیا جانا ضروری ہے۔

اعتراض کا جواب

اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ "اگر” دوسرے مذاہب بھی یہی رویہ اپنائیں تو کیا ہوگا، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ معاملہ پہلے سے دنیا میں موجود ہے۔ جو بھی مذہب ریاست کے ساتھ جڑا ہوا ہے، وہ اپنے حدود میں ارتداد کو جرم سمجھتا ہے اور اسے دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ مغربی عیسائی ممالک میں یہ مغالطہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آج کل وہاں مذہب چھوڑنے پر کوئی سزا نہیں دی جاتی، اور ہر شخص کو مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اس لیے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ عیسائیت میں ارتداد کو جرم نہیں سمجھا جاتا۔

ریاستی مذاہب اور ارتداد

حقیقت یہ ہے کہ عیسائیت ان قوموں کا صرف ذاتی مذہب ہے، ریاستی نظام اور سوسائٹی کا مذہب نہیں۔ اس لیے عیسائیت سے پھر جانے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ تاہم، ان ریاستوں کا "اجتماعی دین” ان کے قومی آئین اور ریاستی اصول ہیں۔ ان اصولوں سے انکار کو وہ بھی اتنا ہی سنگین جرم سمجھتے ہیں جتنا اسلام اپنے دائرے میں ارتداد کو سمجھتا ہے۔

مثال کے طور پر

مثال کے طور پر، برطانوی قوم کا اجتماعی دین عیسائیت نہیں بلکہ ان کا آئین اور ریاستی اصول ہیں۔ اسی طرح، امریکہ میں بھی عیسائیت نہیں بلکہ امریکی قومیت اور وفاقی دستور ان کی ریاستی بنیادیں ہیں۔ ان قومی اصولوں سے انحراف کرنے والے کو وہ ریاست بھی جرم کے مرتکب سمجھتی ہے، جیسا کہ اسلام میں ارتداد کو جرم سمجھا جاتا ہے۔

مغربی قانون میں ارتداد کی سزا

انگریزی قانون کے ماہرین کے مطابق ایک زمانے میں ارتداد کی سزا موت تھی۔ بعد میں یہ قانون بدل گیا، اور اب مذہبی خیالات پر پابندیاں کم ہو گئی ہیں، لیکن ملکی قانون اور اس کے اجتماعی اصولوں کی خلاف ورزی آج بھی قابل سزا جرم سمجھی جاتی ہے۔

عملی جواب

حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب، جو ریاست کے ساتھ جڑے ہیں، اپنے اجتماعی دین کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر کوئی فرد ان ریاستی اصولوں سے انکار کرے تو اسے اس بات کا عملی تجربہ ہو جائے گا کہ ان قوانین کے تحت بھی ارتداد جرم ہے۔

خلاصہ

یہ اعتراض کہ اگر تمام مذاہب ارتداد پر سزائیں مقرر کر دیں تو کیا ہوگا، عملی طور پر غلط ہے۔ دنیا میں مذاہب تبلیغ کے لیے آزاد ہیں کیونکہ وہ ریاستی اصولوں کی حدود میں رہتے ہیں۔ اس لیے کسی دوسرے مذہب کو اپنانا ارتداد نہیں سمجھا جاتا جب تک کہ وہ ریاستی دین سے انحراف نہ کرے۔

نتیجہ

یہ تصور کہ دوسرے مذاہب بھی اسلام کی طرح ارتداد کی سزا مقرر کر دیں تو کیا ہوگا، پہلے ہی دنیا میں عملی طور پر موجود ہے۔ ہر ریاست اپنے اجتماعی دین کی حفاظت کرتی ہے، چاہے وہ عیسائیت ہو یا کوئی قومی آئین۔ اسلام میں بھی ارتداد کی سزا اسی اصول پر قائم ہے کہ ریاستی اور اجتماعی دین کی حفاظت کی جائے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!