گوشت خوری اور روحانیت کے اعتراضات کا جواب
تحریر: فوزیہ جوگن

خالہ حمیداں کی فکر اور اعتراضات

آج جب میں سکول سے واپس آ رہی تھی، تو راستے میں خالہ حمیداں کھیتوں میں پریشان نظر آئیں۔ ان کی حالت دیکھ کر مجھے بھی افسردگی محسوس ہوئی۔ میں ان کے قریب گئی اور پوچھا کہ وہ اتنی پریشان کیوں ہیں۔ خالہ حمیداں نے بڑی بے چینی سے کہا کہ مسلمان بے رحمی سے جانوروں کو ذبح کرکے صرف اپنی زبان کی لذت کے لیے گوشت کھاتے ہیں۔ اگر کوئی خدا ہے تو کیا وہ ایسی بے رحمی کی اجازت دے سکتا ہے؟

اسلام میں گوشت خوری کی حقیقت

خالہ حمیداں کے اعتراض کے جواب میں میں نے کہا کہ یہ خیال کہ مسلمان صرف لذت کے لیے گوشت کھاتے ہیں، بالکل درست نہیں ہے۔ حقیقت میں مسلمان اللہ کے حلال اور حرام کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں۔ سور اور کتے جیسے جانوروں سے مکمل پرہیز کیا جاتا ہے، کیونکہ انہیں اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ جہاں تک جانوروں کو ذبح کرنے اور گوشت کھانے پر رحم و کرم کا سوال ہے، تو دنیا میں گوشت خور پودے اور جانور ایک دوسرے کا شکار کرتے ہیں، کیا یہ سب بھی خدا کی تخلیق نہیں ہیں؟

جانوروں کے حقوق اور گوشت خوری

خالہ حمیداں نے کہا کہ جانوروں کو مارنا روحانیت کے خلاف ہے۔ میں نے انہیں سمجھایا کہ اگر ہم یہ دلیل مان لیں کہ گوشت نہیں کھانا چاہیے، تو سبزی بھی نہیں کھا سکتے، کیونکہ پودوں میں بھی زندگی ہے۔ پھر ایسے ملک جہاں کھیتی ممکن نہیں، وہاں لوگ کیا کھائیں؟ سمندری علاقے، جیسے جاپان، جہاں مچھلی ہی غذا ہے، وہاں کیا لوگ بھوکے رہیں؟ اسی طرح اسکیمو لوگ شمالی علاقوں میں صرف سیل اور بارہ سنگھے کا گوشت کھاتے ہیں۔

دنیا بھر میں گوشت خوری

اگر دنیا بھر میں گوشت خوری روک دی جائے، تو غذائی قلت پیدا ہو جائے گی اور دیگر اشیاء کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں گی۔ جانوروں کا گوشت کھانا روحانیت کے خلاف نہیں، بلکہ دنیا کے ہر بڑے مذہب نے اس کی اجازت دی ہے۔ حتیٰ کہ ہندو مذہب کی کتاب منو سمرتی میں بھی گوشت خوری کا ذکر ملتا ہے۔ رام جی کا ہرن شکار کرنا اور اس کا گوشت کھانا رامائن سے ثابت ہے۔

ذبح کا عمل اور اسلامی ہدایات

خالہ حمیداں نے شکایت کی کہ ذبح کے وقت جانور کو بہت تکلیف ہوتی ہے، جس سے بے رحمی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ اسلام میں جانوروں کو تکلیف سے بچانے کی ہدایات موجود ہیں۔ حضرت شداد کی حدیث میں آتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ذبح کرتے وقت جانور کو کم سے کم تکلیف پہنچانی چاہیے، حتیٰ کہ اس کے سامنے چھری تیز کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔

روحانیت اور گوشت خوری

آخر میں، خالہ حمیداں اپنے کھیتوں میں پانی لگانے لگیں، اور میری بھانجی ایمان نے معصومیت سے پوچھا کہ کھیتوں میں پانی کیوں لگایا جاتا ہے؟ خالہ حمیداں نے غصے سے کہا کہ یہ پودے بھی جان رکھتے ہیں اور انہیں جینے کے لیے پانی چاہیے، ورنہ یہ مر جائیں گے۔

ایمان نے طنزیہ طور پر کہا کہ اگر پودے جاندار ہیں تو ان سے بھنڈی توڑنا بھی بے رحمی ہے۔ اس پر خالہ حمیداں مزید غصے میں آگئیں اور کہنے لگیں کہ وہ اس پر فیس بک پر بھی پوسٹ بنائیں گی۔

خلاصہ

اس گفتگو سے یہ ثابت ہوا کہ گوشت خوری کے حوالے سے اعتراضات محض جذباتی ہیں۔ دنیا بھر میں جانوروں کا گوشت کھایا جاتا ہے، اور اسلام نے اس کے اصول و ضوابط بیان کیے ہیں تاکہ یہ عمل رحم دلی اور اخلاقیات کے دائرے میں ہو۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے