قبروں پر مساجد بنانے کی حرمت میں 10 صحیح احادیث
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

مساجد کی تعمیر کا مقصد عبادت کے لیے جگہ فراہم کرنا ہے، لیکن صالحین اور اولیا کی قبروں پر مساجد بنانا شریعت میں منع کیا گیا ہے۔ یہ عمل نہ صرف شرک کا وسیلہ بن سکتا ہے بلکہ کفار کی مشابہت اختیار کرنے کے مترادف ہے، اور اس سے بدعات کا دروازہ کھلتا ہے۔ درج ذیل میں صحیح احادیث کے ذریعے اس کی وضاحت کی گئی ہے:

حدیث 1: سیدنا جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ

رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات سے چند روز قبل فرمایا:
"اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے اس بات سے بری کر دیا گیا ہے کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو۔ اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا، تو ابوبکر کو بناتا۔ خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیا اور صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیتے تھے۔ خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہ نہ بنانا، میں تمہیں اس سے منع کرتا ہوں۔”
(صحیح مسلم: 532)

حدیث 2: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"سب سے بدترین لوگ وہ ہیں جن کی زندگی میں قیامت قائم ہو گی اور وہ لوگ جنہوں نے قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”
(مسند احمد: 405/1، المعجم الکبیر: 10413)

حدیث 3: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا

آپ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"پہلے کے لوگ جب کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہاں تصویریں لگاتے تھے۔ یہ اللہ کے نزدیک بدترین مخلوق ہیں۔”
(صحیح بخاری: 1341، صحیح مسلم: 528)

شرک کا ذریعہ اور نیک صالحین کی تعظیم

علامہ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے صالحین کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا اور اس عمل نے کئی اقوام کو شرک میں مبتلا کیا۔ لوگوں کا قبر کے قریب سجدہ کرنا یا وہاں برکت کی نیت سے دعا کرنا دراصل اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس عمل کو ختم کرنے کے لیے قبروں پر مسجد بنانے اور وہاں نماز پڑھنے سے منع فرمایا تاکہ شرک کے امکانات کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔

فقہی موقف

مختلف مکاتبِ فکر نے بھی قبروں پر مساجد بنانے کو حرام قرار دیا ہے، جیسا کہ امام احمد، امام مالک، اور امام شافعی کے اصحاب نے اس کی حرمت کی تصریح کی ہے۔ بعض علما نے اسے مکروہ گردانا ہے، لیکن اسے مکروہ تحریمی مانا جانا چاہیے کیونکہ نبی ﷺ نے اس عمل پر لعنت کی ہے۔
(حوالہ جات: صحیح مسلم، مسند احمد، صحیح بخاری، ابن القیم رحمہ اللہ)

حدیث 4: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ یہود کو برباد کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔”
(صحیح بخاری: 437، صحیح مسلم: 530)

صحیح مسلم میں مزید یہ الفاظ بھی موجود ہیں: "اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی تشریح

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں قبروں کو سجدہ گاہ بنانے سے سختی سے منع فرمایا، اور اہل کتاب کو لعنت کی جنہوں نے یہ عمل کیا تاکہ امت محمدیہ اس عمل سے دور رہے​۔ (إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 186/1)

علامہ شوکانی رحمہ اللہ کی وضاحت

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ کیسے ممکن ہے کہ صالحین کی قبروں پر قبے بنانے کو جائز سمجھا جائے، جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ صالحین کی قبروں کو مساجد بنا لیتے ہیں، ان پر لعنت کی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو خاص طور پر اپنی قبر کو سجدہ گاہ یا عبادت گاہ بنانے سے منع کیا، حالانکہ آپ سب سے زیادہ فضیلت والے تھے​۔ (شرح الصدور بتحریم رفع القبور، ص : 39، 40)

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ کا بیان

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ "قبروں کو مساجد نہ بناؤ” اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بدترین لوگ وہ ہیں جو قبروں کے پاس نماز پڑھتے ہیں اور وہاں مساجد بناتے ہیں۔ یہ عمل یہود و نصاریٰ کا ہے، جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر لعنت کی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بہت سے لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ قبروں کے قریب عبادت کرنا قربتِ الٰہی کا ذریعہ ہے، جبکہ یہ عمل انسان کو اللہ کی رحمت سے دور کرتا ہے​۔ (فتح المجید شرح کتاب التوحید : 240)

حدیث 5: سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ

سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری نصیحت یہ تھی: "جان لو! بلاشبہ سب سے برے لوگ وہ ہیں جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”
(مسند امام احمد: 196/1، سند حسن) حافظ ہیثمی رحمہ اللہ نے بھی اس کے راویوں کو ثقہ قرار دیا ہے​۔

حدیث 6: سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما

سیدہ عائشہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض وفات میں بار بار اپنی چادر کو چہرے پر ڈالتے اور گھبراہٹ کے وقت ہٹا دیتے، اور فرمایا: "اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کو اپنی رحمت سے دور کرے، جنہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔”
(صحیح بخاری: 435، صحیح مسلم: 531) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر اپنی امت کو ایسے عمل سے منع فرمایا​۔

شرحِ حدیث: ابن حجر رحمہ اللہ

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان کہ "اگر یہ خوف نہ ہوتا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بنا لیں گے، تو آپ کی قبر کو ظاہر کر دیا جاتا”، اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد نبوی کے حجرے میں اس لیے دفن کیا گیا تاکہ لوگ اس کو سجدہ گاہ نہ بنا سکیں​۔ (فتح الباري شرح صحیح البخاري : 200/3)

سد ذرائع: علامہ قرطبی رحمہ اللہ

علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو سجدہ گاہ بننے کے خدشات کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تفصیل بیان کی ہے، جیسے قبر کے گرد دیواریں بنانا تاکہ کوئی نمازی قبر کی سمت نماز ادا نہ کر سکے اور قبلہ کی جانب رخ کر کے عبادت میں مشغول ہو​۔ (المفہم لما أشکل من تلخیص کتاب مسلم : 932/2)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منسوب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی نبی کی وفات کے بعد اسے وہیں دفن کیا جاتا ہے جہاں اس کی روح قبض کی جاتی ہے۔”
(سنن ابن ماجہ: 1628) تاہم، اس روایت کو ضعیف قرار دیا گیا ہے کیونکہ اس کے راوی حسین بن عبداللہ ضعیف ہیں​۔

شرک اور قبروں کی تعظیم

شیخ عبدالرحمن بن حسن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہود و نصاریٰ کے طریقے سے بچانے کے لیے اپنی قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا۔ امت کے بہت سے لوگ اس ممانعت کو نظرانداز کرتے ہوئے قبروں کی تعظیم کو قربت الٰہی کا ذریعہ سمجھنے لگے، حالانکہ یہ عمل شرک کے اسباب میں سے ایک ہے​۔

ابن قیم رحمہ اللہ کا بیان

ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کا مقصد شرک کی ہر صورت کو روکنا تھا، تاکہ توحید کو شرک سے محفوظ رکھا جا سکے۔ شیطان نے لوگوں کو یہ کہہ کر گمراہ کیا کہ صالحین کی قبروں کی تعظیم کرنا ان کے قریب ہونے کا ذریعہ ہے، حالانکہ یہی بت پرستی کی ابتدا تھی​۔(إغاثۃ اللھفان من مصاید الشیطان : 189/1)

حدیث 7: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی: "اے اللہ! میری قبر کو بت خانہ نہ بنانا، اس قوم پر اللہ کی لعنت ہو، جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”
(مسند الحمیدی: 1025، سند حسن)​۔

شیطان کا فتنہ: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی وضاحت

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان کی ایک بڑی چال یہ ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے کسی بزرگ یا نبی کی قبر کو عظمت کی علامت بنا دیتا ہے، جس کے بعد لوگ اس کی عبادت کرنے لگتے ہیں۔ شیطان اپنے دوستوں کو یہ باور کراتا ہے کہ جو شخص اس قبر کی عبادت یا اسے سجدہ گاہ بنانے سے روکتا ہے، وہ دراصل اس کی توہین کر رہا ہے۔ یوں جاہل لوگ ایسے حق گو افراد کو سزا دینے اور کافر قرار دینے کے درپے ہو جاتے ہیں، جبکہ ان کا جرم صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی پیروی کرتے ہیں​۔(إغاثۃ اللفہان من مصاید الشیطان : 189/1)

قبروں کی عبادت: حقیقی شرک کی جڑ

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ مزید وضاحت کرتے ہیں کہ قبروں پر مساجد بنانا، چراغ جلانا، وہاں نذریں ماننا، انہیں چومنا اور ان سے استغاثہ کرنا، سب شرک کے بڑے اسباب ہیں۔ یہ تمام اعمال دین اسلام کے بنیادی اصول یعنی توحید کے مخالف ہیں، جن کی تعلیمات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عام کیا تھا​۔

قبروں کو سجدہ گاہ بنانے کا فتنہ: علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ

علامہ برکوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان کا سب سے بڑا فتنہ قبر پرستی ہے، جیسا کہ صحابہ کرام اور تابعین نے فرمایا ہے۔ شیطان لوگوں کے سامنے ایک بزرگ کی قبر کو عظمت کی علامت بنا کر پیش کرتا ہے اور پھر اسے بت بنا دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو روکنے والے حق گو افراد کو لوگ گستاخ اور کافر سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ لوگ صرف وہی کچھ کہہ رہے ہوتے ہیں جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے​۔(زیارۃ القبور، ص : 39)

(حوالہ جات: مسند الحمیدی، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ، علامہ برکوی رحمہ اللہ)

حدیث 8: سیدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ

سیدنا ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قبروں کی طرف منہ کر کے نماز نہ پڑھو اور نہ ہی ان کے اوپر بیٹھو۔”
(صحیح مسلم: 972)​۔

زیارتِ قبور اور سنت نبوی کا موازنہ: علامہ برکوی رحمہ اللہ

علامہ برکوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو شخص زیارتِ قبور کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ و تابعین کے عمل کا موازنہ آج کل کے لوگوں کے اعمال سے کرے، وہ دونوں کو ایک دوسرے کے مخالف پائے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے سے منع فرمایا، لیکن آج کل لوگ اس کے برعکس عمل کرتے ہیں اور قبروں کے قریب نماز پڑھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد بنانے سے منع فرمایا، لیکن آج کے لوگ اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے قبروں پر مساجد بناتے اور انہیں مزارات کا نام دیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر چراغ جلانے سے روکا، مگر لوگ وہاں چراغ اور موم بتیاں جلاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو برابر کرنے کا حکم دیا، مگر آج لوگ انہیں بلند و بالا بنا کر گھروں کی طرح بناتے ہیں​۔(زیارۃ القبور، ص : 15)

قبروں کی تعظیم اور شرک کا خطرہ: ملا علی قاری رحمہ اللہ

ملا علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا تعظیم میں مبالغہ کرنا ہے، جو صرف اللہ کا حق ہے۔ اگر یہ تعظیم قبر یا صاحبِ قبر کے لیے ہو، تو یہ شرک میں شمار ہو گا​۔(مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح : 372/2)

حدیث 9: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما

سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔”
(صحیح بخاری: 432، صحیح مسلم: 777)​۔

گھروں کو قبرستان نہ بناؤ: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کو سجدہ گاہ بنانے سے منع فرمایا۔ آپ نے فرمایا کہ گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، یعنی انہیں نماز اور دعا سے خالی مت رکھو، تاکہ وہ قبرستان کی طرح نہ ہو جائیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گھروں میں عبادت کا اہتمام کیا جائے اور قبروں کے قریب عبادت کرنے سے روکا جائے​۔(اقتضاء الصراط المستقیم : 172/2)

قبر رسول اللہ ﷺ اور مسجد کی توسیع: علامہ صنعانی رحمہ اللہ

علامہ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر مسجد نہیں بنائی گئی تھی۔ مسجد نبوی کی توسیع کے بعد بھی آپ کی قبر اپنے مقام پر باقی رہی اور اسے مسجد نہیں بنایا گیا۔ آپ کی قبر پر مسجد بنانے کا الزام تب عائد ہو سکتا ہے جب کسی میت کو عام قبرستان میں دفنایا جائے اور بعد میں وہاں مسجد تعمیر کی جائے​۔(العدّۃ علی إحکام الأحکام : 261/3)

(حوالہ جات: صحیح مسلم، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، علامہ برکوی رحمہ اللہ، علامہ صنعانی رحمہ اللہ)

حدیث 10: سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ

سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حمام اور قبرستان کے علاوہ ساری زمین مسجد ہے۔”
(مسند احمد: 96/3، سنن ابوداؤد: 492، سند صحیح)​۔

قبروں کی طرف رخ کرکے نماز کی ممانعت: علامہ شوکانی رحمہ اللہ

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے سے متعلق احادیث متواتر ہیں، جو اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ایسا کرنا حرام اور باطل ہے۔ ان احادیث کی ممانعت میں کوئی کمی نہیں اور یہ حرمت کو ثابت کرتی ہیں​۔ (نیل الأوطار : 137/2)

قبروں پر نماز کا مقصد: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ اگر کوئی شخص انبیا یا صالحین کی قبروں کی طرف رخ کر کے برکت کے حصول کے لیے نماز پڑھتا ہے، تو یہ عمل اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سرکشی اور دین کی مخالفت ہے۔ مسلمانوں کا اجماع ہے کہ قبروں کے پاس نماز پڑھنے میں کوئی فضیلت نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر شر ہے​۔(اقتضاء الصراط المستقیم : 193/2)

قبروں پر مساجد اور تعظیم: علامہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ

علامہ آلوسی بغدادی رحمہ اللہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ بعض لوگ صالحین کی قبروں پر مساجد بنانے اور وہاں نماز پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں، لیکن یہ قول باطل، بے بنیاد، اور فاسد ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی میں ایسا کرنا قطعاً درست نہیں​۔(تفسیر روح المعاني : 225/8)

قبروں پر مسجد تعمیر کرنے کا رد: علامہ صنعانی رحمہ اللہ

علامہ صنعانی رحمہ اللہ، بیضاوی کے اس قول کا رد کرتے ہیں، جس میں وہ قبروں کے قریب مسجد بنانے اور وہاں نماز پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں، بشرطیکہ اس کا مقصد تعظیم نہ ہو۔ صنعانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قبر کے قریب مسجد بنانا اور تبرک کی نیت سے وہاں نماز پڑھنا تعظیم کے زمرے میں آتا ہے، اور اس ممانعت والی احادیث مطلق ہیں​۔(سبل السلام شرح بلوغ المرام : 229/1)

قبروں کے پاس مسجد بنانے کی وضاحت

بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ مساجد قبروں کے اوپر نہیں بلکہ ایک طرف بنائی جاتی ہیں، لیکن حقیقت میں جو مسجد قبر کے قریب بنائی جاتی ہے، اسے قبر پر تعمیر کرنا ہی شمار کیا جاتا ہے۔ عربی زبان میں ایسے استعمالات عام ہیں، جیسے کہا جاتا ہے کہ "فلاں بادشاہ نے فلاں شہر یا بستی پر فصیل بنائی”، حالانکہ فصیل شہر کے ارد گرد ہوتی ہے، نہ کہ اس کے اوپر​۔

(حوالہ جات: مسند احمد، سنن ابوداؤد، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، علامہ شوکانی، علامہ آلوسی، علامہ صنعانی)

علما کی تصریحات: قبروں پر مساجد اور عمارتیں بنانا

اسلامی تاریخ میں اکابر علما اور فقہا نے قبروں پر مسجدیں بنانے اور وہاں نماز پڑھنے کو حرام اور ممنوع قرار دیا ہے۔ ان کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

امام شافعی رحمہ اللہ

امام شافعی رحمہ اللہ قبر پر مسجد بنانے اور قبر کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔
"الأم” (278/1)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ قبروں پر مسجد بنانا جائز نہیں اور نہ ہی وہاں نذر و نیاز لانا درست ہے، کیونکہ یہ نذر معصیت ہے۔
"مجموع الفتاوی” (77/27)

حافظ سیوطی رحمہ اللہ

حافظ سیوطی فرماتے ہیں کہ قبروں پر مساجد بنانے اور وہاں چراغ جلانے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ علما کا اس پر اجماع ہے کہ ایسا کرنا حرام ہے۔
"الأمر بالاتباع” (59-60)

حافظ نووی رحمہ اللہ

حافظ نووی فرماتے ہیں کہ امام شافعی اور ان کے اصحاب کے فتاویٰ کے مطابق قبر پر مسجد بنانے کو مکروہ سمجھا گیا ہے، خواہ میت نیک ہو یا بد۔
"المجموع شرح المہذب” (316/5)

علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ

علامہ برکوی حنفی فرماتے ہیں کہ اکثر اسلامی مکاتب فکر نے قبروں پر مساجد بنانے اور ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت کی ہے۔
"زیارۃ القبور” (4)

ابن عابدین شامی رحمہ اللہ

ابن عابدین شامی لکھتے ہیں کہ انہوں نے کسی بھی عالم کو قبر پر عمارت بنانے کو جائز قرار دیتے ہوئے نہیں دیکھا۔
"حاشیۃ ابن عابدین” (601/1)

حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ

حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے استدلال کرتے ہوئے حافظ ابن عبد البر فرماتے ہیں کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا حرام ہے۔
"التمہید” (186/1)

علامہ قرطبی رحمہ اللہ

علامہ قرطبی فرماتے ہیں کہ قبروں پر مساجد بنانا، نماز پڑھنا اور عمارت بنانا ممنوع ہے۔
"تفسیر القرطبی” (379/1)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا کہنا ہے کہ قبروں پر مساجد کو گرانا ضروری ہے اور ان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
"مجموع الفتاوی” (194/22)

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ

علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیطان نے مشرکین کے لیے قبروں اور بتوں کو پوجا کے لیے نصب کیا، اور ان سب کو منہدم کرنا واجب ہے۔
"إغاثۃ اللہفان” (209/1)

نتیجہ

اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلامی تعلیمات اور علما کی متفقہ رائے کے مطابق قبروں پر مساجد بنانا، ان پر عمارتیں تعمیر کرنا، اور ان کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا صریحاً حرام اور ناجائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر اس عمل سے منع فرمایا اور احادیث میں قبروں کو عبادت گاہ بنانے والوں پر لعنت کی گئی ہے۔

علما کے فتاویٰ اور اسلامی تاریخ کی روشنی میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ قبروں پر مساجد بنانا یا ان کی تعظیم کے طور پر نذر و نیاز پیش کرنا شرک اور بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ صحابہ کرام، تابعین اور جید علما ہمیشہ اس عمل کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ ایسے مقامات کو منہدم کرنا اور وہاں عبادات سے اجتناب کرنا ضروری ہے، تاکہ اسلامی تعلیمات کی حفاظت کی جا سکے اور توحید خالص کو برقرار رکھا جا سکے۔

یہ تمام دلائل اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ قبروں کو سجدہ گاہ بنانا دین اسلام کے منافی ہے، اور اس عمل کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے